کیا حکومت پر یقین کر لیا جائے؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
ملک میں ٹرانسپورٹ کو بجلی سے چلنے والی گاڑیوں پر منتقل کرنے کی پالیسی کے تحت حکومت نے الیکٹرک گاڑیوں (EVs) کے 57 مینوفیکچررز کو لائسنس دے دیے ہیں، جو کہ گرین ٹرانسپورٹ سلوشنز کی طرف منتقلی اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے حکومتی منصوبے میں ایک اہم قدم تصور کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ قدم پاکستان کے لیے ایک صاف ستھرا، کم خرچ اور زیادہ پائیدار نقل و حمل کا نظام حاصل کرنے کے ہدف سے ہم آہنگ ہے۔ حکومت کی نیشنل الیکٹرک وہیکلز پالیسی (این ای وی پی)، جو 2019 میں منظور ہوئی تھی، اور اس کا پہلا ٹار گٹ یہ ہے کہ سال 2030 تک فروخت ہونے والی مسافر گاڑیوں اور ہیوی ڈیوٹی ٹرکوں کا تیس فیصد الیکٹرک گاڑیوں پر مشتمل ہو ا جبکہ سال 2040 تک یہ ٹار گٹ بڑھ کر 90 فیصد ہو جانے کی امید کی جا رہی ہے۔اسی پالیسی کے تحت دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ بسوں، ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کے لیے بھی اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔
مقامی ای وی کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے، حکومت نے 55 مینوفیکچررز کو دو اور تین پہیوں کی تیاری کے لیے لائسنس جاری کیے ہیں، جبکہ دو مینوفیکچررز کو فور وہیلر اسمبلی کے لیے لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔بجلی کے بڑھتے ہوئے انفراسٹرکچر کو سپورٹ کرنے کے لیے مختلف مقامات پر چارجنگ اسٹیشن قائم کرنے کے منصوبے بھی جاری کیے گئے ہیں، جن میں فاسٹ چارجرز اور بیٹری سویپنگ اسٹیشن شامل ہیں۔ ایک ماحول دوست اور کم خرچ ٹرانسپورٹیشن کے لیے ایک طرف تو حکومت الیکٹرک گاڑیاں مینوفیکچر کرنے کی کوششیں کر رہی ہے تو دوسری طرف نئی ای وی پالیسی کے تحت صارفین کو زیادہ سے زیادہ مراعات د ینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ ان مراعات میں مفت رجسٹریشن، سالانہ ٹوکن فیس سے استثنیٰ، اور ٹول ٹیکس میں چھوٹ شامل ہیں۔ای وی کو اپنانے کی مزید ترغیب دینے کے لیے اسلام آباد سمیت ہر صوبے میں الیکٹرک وہیکل زون بھی قائم کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔ ان ترقیوں کے باوجود، ای وی کی پیداوار کی رفتار کو تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے حال ہی میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ سال 2024 کے آخر تک پاکستان میں صرف 60,000 ای وی تیار کی گئی ہیں، جو 600,000 کے ہدف سے بہت کم ہیں۔
EV کی مانگ کو بڑھانے کی کوشش میں، حکومت نے EV چارجنگ اسٹیشن آپریٹرز کے لیے بجلی کے نرخوں میں 45 فیصد کی کمی کر دی ہے۔ ٹیرف میں یہ کمی، جو لاگت کو 71.
حکومتی سطح پر ہونے والی چکر بازی کا شکار مجھ سمیت لاکھوں پاکستانی ہو چکے ہیں۔ بہت پرانی بات نہیں اسی کی دہائی کے وسط سے لے کر نوے کی دہائی کے آغاز تک ڈیزل کی قیمت پیٹرول سے کم و بیش نصف ہوا کرتی تھی۔ اسی لالچ کے پیش نظر عوام کو اپنی گاڑیاں ڈیزل پر کنورٹ کرنے کی ترغیب دی گئی۔من پسند افراد کو بیرون ملک سے لاکھوں کی تعداد میں سیکنڈ ہینڈ ڈیزل انجن امپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی اور جب یہ سیکنڈ ہینڈ انجن فروخت کرنے کا ٹارگٹ پورا ہو گیا تو ڈیزل کی قیمت آہستہ آہستہ بڑھانی شروع کر دی گئی اور اب یہ نوبت ہے کہ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت پیٹرول سے بھی خاصی زیادہ ہے۔
پھرنوے کی دہائی کے آخر سے لے کر دوہزار کے ابتدائی سالوں تک حکومتی سطح پر عوام کے لیے ڈیزل سکینڈل سے کہیں بڑے سی این جی سکینڈل کا جال پھیلایا گیا۔ ایک مرتبہ پھر سے درآمد شدہ لاکھوں سی این جی کٹس اور سلنڈرز عوام کو فروخت کر کے اربوں روپے بٹور لیے گئے۔ اس ایندھن کی بچت کے چکر میں لوگوں کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ سی این جی کی وجہ سے ان کی گاڑیوں کے انجن قبل از وقت ہی خراب ہو ئے اور انہیں انجن اوور ہالنگ کے چکر میں اچھا خاصہ نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ غلط نہ ہو گا کہ سستے ایندھن کے چکر میں لوگوں نے جو بچت کی تھی وہ انجن اوور ہالنگ پر لگ گئی۔
اس مرتبہ چکر بازی کا دائرہ چونکہ خاصہ وسیع تھا تو ناصرف گاڑیوں اور رکشہ مالکان سے سی این جی کٹس کے نام پرچکر بازی ہوئی بلکہ گیس فلنگ سٹیشنر کے نام پر بھی اربوں روپے وصول کر کے ملک بھر میں جگہ جگہ سی این جی فلنگ سٹیشنز کو لائسنس جاری کر دیے گئے۔ اس تمام کاروائی کے بعد ایک دن بہت مزے سے اعلان کر دیا گیا کہ ملک میں تو گھریلو صارفین اور صنعتوں تک کے لیے مناسب گیس موجود نہیں ہے لہٰذا یہ کیونکر ممکن ہے کہ گاڑیوں کی سی این جی کے لیے گیس فراہم کی جائے۔ تو یوں حکومتی سطح پر سستے ایندھن کے نام پر عوام کو بیوقوف بنانے اور انہیں لوٹنے کی دوسری قسط بھی ختم ہوئی۔
میں چونکہ بنفس نفیس مذکورہ بالا دونوں وارداتوں کا شکار رہا ہوں لہذا کم از کم میں تو حکومتی سطح پر سستے ایندھن اور ماحول دوست صورتحال کی دکھائی جانے والی پر کشش تصویر پر یقین کرنے سے ڈرتا ہوں۔ ماضی میں ہم نے بجلی کے بدترین بحران بھی دیکھے ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب ہر ایک گھنٹہ کے بعد دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوا کرتی تھی۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کل کو الیکٹرک گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں پر لوگوں کے اربوں روپے لگوا کر ایک دن حکومت یہ اعلان کر دے کہ ہمارے پاس تو گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے بھی بجلی نہیں ہے ہم ٹرانسپورٹ کو بجلی کیسے فراہم کر سکتے ہیں؟۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: حکومتی سطح پر سی این جی کرنے کی کے لیے رہی ہے
پڑھیں:
آج کا یوم سیاہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا: علی امین گنڈاپور
سٹی42 : وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی کال پر آج یوم سیاہ منایا جا رہا ہے، پاکستانی قوم اپنے مینڈیٹ پر ڈالے گئے تاریخی ڈاکے کیخلاف احتجاج کر رہی ہے۔
علی امین گنڈاپور نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پورے ملک میں پی ٹی آئی کارکنوں کے ساتھ عوام بھی احتجاج میں شریک ہیں اور آج کا یوم سیاہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ 17 نشستیں جیتنے والی پارٹی کو اقتدار دے کر ”اردلی حکومت“ ملک پر مسلط کر دی گئی۔
مذاکرات سے انکار؛ ہماری سلامتی کو خطرے میں ڈالا تو امریکہ کی سیکورٹی کو خطرہ ہوگا؛ ایران کا دو ٹوک موقف
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ دنیا بھر اور ملکی تاریخ کے سب سے دھاندلی زدہ انتخابات کو فری اینڈ فئیر قرار دیا گیا جبکہ فارم 47 کی بنیاد پر بنی نااہل حکومت نے پاکستان کے ہر ادارے کو تباہ کر دیا ہے،انہوں نے مزید کہا کہ 26 نومبر اور 9 مئی کے واقعات میں ملوث حکومت جوڈیشل کمیشن بنانے سے خوفزدہ ہے، کیونکہ جوڈیشل کمیشن کے قیام سے تمام حقیقت سامنے آ جائے گی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے گا۔
حماس اسرائیل کے تین یرغمالی مردوں کو آج رہا کرے گی
Ansa Awais Content Writer