Jasarat News:
2025-02-10@00:13:30 GMT

مزاحمت اور بی اے؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

مزاحمت اور بی اے؟

باطل کی مزاحمت انبیا و مرسلین اور مجددین کا ورثہ ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ نے نمرود کی مزاحمت کی۔ سیدنا موسیٰؑ نے فرعون کی مزاحمت کی۔ رسول اکرمؐ نے مکے کے کفار اور مشرکین کی مزاحمت کی۔ برصغیر میں مجدد الف ثانی نے جہانگیر کی مزاحمت کی۔ مولانا مودودیؒ نے مغربی فکر اور سوشلزم کی مزاحمت کی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جاوید احمد غامدی کے شاگرد خورشید ندیم کا حالیہ کالم مزاحمت اور بی اے کئی اعتبار سے شرمناک ہے اس لیے کہ اس کالم میں خورشید ندیم نے مزاحمت کو بی اے اور ایم اے کی ڈگریوں کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اپنے کالم میں سرسید احمد خان کی بھی تحسین فرمائی ہے اور تاثر دیا ہے کہ برصغیر میں صرف سرسید تھے جنہوں نے جدید علوم کی تحصیل کا درس دے کر برصغیر کے مسلمانوں میں مزاحمتی روح کو پروان چڑھایا۔ ان کے بقول سرسید نہ ہوتے تو پاکستان کو پڑھے لکھے طبقے سے وکیل فراہم نہیں ہوسکتے تھے۔ انہوں نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے انہی الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔

’’مسلمانوں نے اگر کسی ناانصافی کے خلاف مزاحمت کرنی ہے تو انہیں پہلے بی اے کرنا پڑے گا۔ یہ مجبوری ہے۔ لڑائی لڑنی ہے تو پہلے تلوار خریدنا پڑے گی۔

یہ بات برصغیر کی سطح پر سب سے پہلے سرسیّد احمد خاں نے سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کے ساتھ جو سلوک ہوا‘ وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اکبر الہ آبادی جیسی مرنجاں مرنج شخصیت بھی سر سید کے خلا ف فن آزما ہوئی:

ہم کیا کہیں‘ احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے ہوئے‘ نوکر ہوئے‘ پنشن ملی‘ پھر مر گئے

معلوم نہیں ہم مسلمان بی اے‘ ایم اے سے کیوں دور بھاگتے ہیں۔ لیلیٰ کی اماں نے جب رشتے کے لیے مجنوں کو ایم اے کرنے کو کہا تو وہ عشق سے دست بردار ہو گیا‘ مگر ایم اے کے لیے آمادہ نہیں ہوا۔ آخر وہ بھی مسلمان تھا۔ اکبر ہی نے ہمیں وہ جواب سنایا ہے جو مجنوں نے لیلیٰ کی ماں کو دیا:

یہی ٹھیری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفا مرا با حسرت و یاس

یہ تو اللہ کا شکر ہوا کہ چند ایک نے سرسیّد کی بات مانی۔ بی اے کر لیا اور پھر ایل ایل بی بھی۔ پاکستان کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے کچھ وکیل میسر آگئے اور یہ ملک آزاد ہو گیا۔ تاریخ نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ مزاحمت کے لیے بی اے کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ آزادی کے متوالے کبھی ایک میدان میں رزقِ خاک ہو جاتے ہیں اور کبھی دوسرے میدان میں۔ کبھی شاملی میں کام آتے ہیں اور کبھی ان کے قافلے افغانستان کی راہوں میں گردِ خاک ہو جاتے ہیں۔

یہ غلط فہمی ہمارے رگ وپے میں سرایت کر گئی ہے کہ مسلح جدوجہد ہی مزاحمت کی واحد صورت ہے اور جو اس پر نقد کرتا ہے‘ وہ مزاحمت ہی کا منکر ہے۔ مسلح جدوجہد کو مزاحمت کی واحد صورت قرار دینے کا رجحان انیسویں صدی کی انقلابی تحریکوں کے زیرِ اثر مقبول ہوا۔ ظلم کے خلاف مزاحمت انسانی فطرت میں ہے اور دنیا کے ہر معاشرے میں اسے جائز سمجھا گیا ہے۔ مزاحمت کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق حالات اور زمانے سے ہے۔ کبھی بی اے کرنا بھی مزاحمت ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ اس بات کی تفہیم کے لیے ہم پھر سرسیّد کی طرف لوٹتے ہیں۔

سرسیّد نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی سعی کی کہ اس وقت تعلیم ہی وہ ہتھیار ہو سکتا ہے جس سے مزاحمت ممکن ہے۔ جنگِ آزادی میں اگر چند سو بندوقیں تمہاری تلواروں اور افرادی قوت پر غالب رہیں تو اس فرق کو جانو۔ خود کو بندوق بنانے اور چلانے کے قابل بنائو۔ اس کے لیے پہلے بی اے کرنا پڑے گا۔ لوگ مان کر نہیں دیے۔ سب کچھ برباد کر ڈالا۔ شیخ الہند جیسا مجاہد بھی مالٹا کی اسیری کاٹ کر لوٹا تو اسی نتیجے تک پہنچا کہ سیاسی جدوجہد ہی واحد راستہ ہے۔ ذہین آدمی تھے‘ بی اے کیے بغیر یہ بات سمجھ گئے مگر انہیں معلوم تھا کہ عام آدمی اتنا ذہین نہیں ہوتا۔ اسے بی اے کرنے کے بعد ہی بات سمجھ میں آئے گی۔ بسترِ علالت پر جامعہ ملیہ کا سنگِ بنیاد رکھنے پہنچ گئے تاکہ مسلم قوم کے نوجوانوں کے بی اے کرنے کے لیے کوئی معیاری ادارہ موجود ہو‘‘۔ (روزنامہ دنیا: 28 جنوری 2025ء)

پوری انسانی فکر بتاتی ہے کہ مذہب انسان میں باطل کی مزاحمت کا جیسا جذبہ پیدا کرتا ہے کوئی اور چیز انسان کو باطل کا ویسا مخالف نہیں بناتی۔ انبیا و مرسلین نے باطل کی جو مزاحمت کی اس کا خاص پہلو یہ ہے کہ انبیا و مرسلین نے کبھی اس بات پر خدا سے شکوہ نہیں کیا کہ اس نے انہیں لاکھوں گنا طاقت ور باطل کے خلاف صف آرا کردیا ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ کے پاس نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ قوم تھی، نہ دولت تھی وہ صرف ایک فرد تھے مگر انہیں وقت کے سب سے بڑے بادشاہ کے خلاف صف آرا کردیا گیا۔ اس صورت حال میں سیدنا ابراہیمؑ نے اللہ سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے طاقت عطا کر پھر میں نمرود کو للکاروں گا۔ سیدنا موسیٰؑ کا مقابلہ فرعون سے تھا۔ سیدنا موسیٰؑ کے پاس بھی نہ کوئی ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ مسلح پیروکار تھے ان کے معاون صرف ان کے بھائی سیدنا ہارونؑ تھے۔ سیدنا موسیٰؑ نے بھی خدا سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے قوت و شوکت عطا فرما پھر میں فرعون کا مقابلہ کروں گا۔ رسول اکرمؐ کو غزوہ بدر میں کفار کے مقابل کھڑا کیا گیا تو کفار کا لشکر ایک ہزار افراد پر مشتمل تھا۔ ان کے پاس درجنوں اونٹ اور سیکڑوں گھوڑے تھے۔ ان کے پاس تلواریں تھیں نیزے تھے زرہ بکتر تھی یہاں تک کہ وہ ناچنے والی عورتیں بھی ساتھ لائے ہوئے تھے۔ ان کے مقابلے پر رسول اکرمؐ کے پاس صرف 313 افراد تھے۔ مسلمانوں کے لشکر کے پاس ایک گھوڑا اور چند اونٹ تھے۔ ذرہ بکتر کسی کے پاس نہیں تھی۔ نیزے بھی چند تھے۔ اکثر مسلمان ڈنڈے لے کر میدان جنگ میں اترے ہوئے تھے۔ اس منظرنامے میں رسول اللہ نے خدا سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے لشکر جرار کے مقابلے پر لشکر جرار عطا کر پھر میں اس کا مقابلہ کروں گا۔ مگر خورشید ندیم باطل کا مقابلہ کرنے والوں کو کمزور دیکھتے ہیں تو ان پر طنز کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کالم میں اسامہ بن لادن کے حوالے سے جاوید غامدی کا یہ فقرہ کوٹ کیا ہے کہ اسامہ کا ایمان قابل رشک مگر بصیرت قابل افسوس ہے۔ اب خورشید ندیم اسرائیل کے مقابلے پر حماس کی قوت کو کم پارہے ہیں تو وہ اس پر طنز کے تیر برسا رہے ہیں۔

خیر یہ تو ایک طویل جملہ ٔ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ خورشید ندیم نے مزاحمت کو بی اے اور ایم بی ڈگریوں یا جدید تعلیم کے ساتھ منسلک کیا ہے حالانکہ مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ صرف مذہب ہے جس نے مسلمانوں سے باطل کی مزاحمت کروائی ہے۔ جدید مغربی تعلیم تو ایک ہزار سال سے مسلمانوں کو کاٹھ کباڑ میں تبدیل کررہی ہے۔ ابن سینا اور فارابی مسلمانوں کے بڑے فلسفی تھے۔ ان کا علم جدید عہد کے ہزاروں پی ایچ ڈیز سے زیادہ تھا مگر ان کی گمراہی کا یہ عالم تھا کہ وہ یونان کے فلسفے کو مذہب پر فوقیت دیتے تھے۔ ان دونوں کا عقیدہ تھا کہ معاذ اللہ خدا کلیات کا علم تو رکھتا ہے مگر جزیات کا علم نہیں رکھتا۔ ان کا خیال تھا موت کے بعد کسی زندگی کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔ ان کی رائے تھی کہ خدا نے کائنات کسی خاص وقت میں تخلیق نہیں کی بلکہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ تینوں باتیں صریح کفر ہیں۔ ابن سینا اور فارابی کے برعکس امام غزالی اپنے عہد میں مذہبی فکر کے سب سے بڑے ترجمان تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ یونان کا فلسفہ مسلمانوں کا گمراہ کررہا ہے تو انہوں نے تہافت الفلاسفہ کے نام سے ایک کتاب لکھ ڈالی جس میں یونان کے فلسفے کا ایسا رد تھا جس نے مسلم دنیا میں مغربی فلسفے کا بیج مار دیا اور یہ فلسفہ مسلمانوں کے عقائد کے لیے ایک ہزار سال تک کبھی خطرہ نہ بن سکا۔

خورشید ندیم نے اپنے کالم میں سرسید احمد خان کو ’’امامِ وقت‘‘ بنا کر پیش کیا ہے۔ حالانکہ سرسید کی پوری فکر ضلالت اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوسری طرف سرسید اور ان کی فکر نے مسلم برصغیر کو مغرب کے ادنیٰ غلاموں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ سرسید کی فکر کی ضلالت اور گمراہی پر مبنی ہونے کی بات طنز یا مذاق نہیں ہے۔ سرسید منکر قرآن تھے، اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کے کسی ایک جزو کا انکار پورے قرآن کا انکار ہے اور سرسید نے اپنی تحریروں میں قرآن میں مذکور تمام معجزات کا انکار کیا ہے۔ مثلاً ان کا خیال ہے کہ ابراہہ کا لشکر خدا کی جانب سے بھیجے گئے پرندوں کی کنکریوں سے ہلاک نہیں ہوا بلکہ اس کے لشکر میں چیچک کی وبا پھیل گئی تھی جس سے ابراہہ کا لشکر ہلاک ہوا۔

اسی طرح سرسید نے سیدنا موسیٰؑ سے قرآن میں منسوب اس معجزے کا بھی انکار کیا ہے کہ ان کے عصا نے دریا میں راستہ بنایا۔ سرسید کا اصرار ہے کہ سیدنا موسیٰؑ اور ان کی قوم نے دریا اس وقت پار کیا جب دریا اترا ہوا تھا۔ سرسید منکر حدیث تھے۔ وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث کو بھی مشتبہ سمجھتے تھے۔ سرسید نے مسلمانوں کی پوری فقہ کی روایت کو بھی مسترد کردیا تھا۔ وہ نہ امام ابوحنیفہ کے مقلّد تھے، نہ امام شافعی کے، وہ امام مالک کو مانتے تھے نہ امام حنبل کو تسلیم کرتے تھے۔ سرسید نے مسلمانوں کی پوری تفسیری روایت کا بھی انکار کردیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ عربی، فارسی اور اردو میں کیا رکھا ہے، سیکھنی ہے تو انگریزی سیکھو، فرانسیسی سیکھو، جرمن سیکھو، یہ تمام حقائق بتارہے ہیں کہ سرسید مغرب اور اس کے علوم و فنون کی نہیں بلکہ مسلمانوں کے دین اور اس کی علامتوں کی مزاحمت کررہے تھے اور وہ عام مسلمانوں کو بھی دین سے برگشتہ کررہے تھے۔

خورشید ندیم کا خیال ہے کہ سرسید کی پیدا کردہ علمی روایت نے پاکستان کو وکیل مہیا کیے۔ یہ خیال بھی سو فی صد غلط ہے۔ مسلم برصغیر نے جو دو دیوقامت شخصیات پیدا کیں ان میں سے ایک اقبال ہیں اور دوسرے قائداعظم، اقبال کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جب تک ’’قوم پرست‘‘ تھے اس وقت تک ان میں اور ایک کٹر ہندو میں فرق کرنا ناممکن تھا۔ مثلاً اقبال نے اس عہد میں نہ صرف یہ کہ گوتم بدھ اور بابا گرونانک کو سراہا بلکہ رام کو ’’امامِ ہند‘‘ کا خطاب دیا۔ ان کا اس زمانے کا ایک شعر ہے۔

پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے

جیسا کہ ظاہر ہے کہ ایسا شعر کوئی ’’مسلمان‘‘ نہیں کہہ سکتا تھا۔ یہ صرف ہندو کہہ سکتا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اقبال کی قلب ماہیت کردی اور انہوں نے مذہب کے زیر اثر عظیم الشان شاعری تخلیق کی۔ محمد علی جناح جب تک کانگریس میں تھے وہ ایک قومی نظریے کے علمبردار تھے مگر دو قومی نظریے کے علمبردار بنتے ہی وہ انگریزوں اور ہندو اکثریت کی مزاحمت کرنے لگے۔ یعنی اقبال اور قائداعظم کی مزاحمت کی پشت پر بھی صرف مذہب کی قوت تھی۔ اکبر الٰہ آبادی کی مزاحمتی شاعری غیر معمولی ہے اور اس کی جڑیں بھی مذہبی شعور میں پیوسط ہیں۔ مثلاً اکبر نے کہا ہے۔

منزلوں دور ان کی دانش سے خدا کی ذات ہے
خرد بیں اور دوربیں تک ان کی بس اوقات ہے

علومِ دنیوی کے بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہوجاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا

نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جنابِ ڈارون کو حضرتِ انساں سے کیا مطلب

نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

بیسویں صدی میں اقبال کے بعد مغرب کی مزاحمت کا سب سے بڑا استعارہ مولانا مودودی ہیں اور انہوں نے پوری مغربی تہذیب کو مسترد کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک تحریر میں مغربی تہذیب کو ’’باطل‘‘ قرار دیا ہے۔ ایک جگہ انہوں نے مغربی تہذیب کو ’’جہالیتِ خالصہ‘‘ کا نام دیا ہے اور اپنی ایک کتاب میں مولانا نے مغربی تہذیب کو ’’تخمِ خبیث‘‘ اور ’’شجرِ خبیث‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حقیقی مزاحمت، بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی سے نہیں اسلام کے شعور سے پیدا ہوتی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مغربی تہذیب کو کی مزاحمت کی مسلمانوں کے بی اے کرنا کا مقابلہ انہوں نے کالم میں ایک ہزار بی اے کر یہ ہے کہ باطل کی کے خلاف ہیں اور ایم اے کیا ہے دیا ہے کے لیے کے پاس ہے اور کہا کہ ہیں کہ اور ان

پڑھیں:

کچھ کچھ سحر کے رنگ پْر افشاں ہوئے تو ہیں

جب تک سیاسی صورت حال میں ٹھہراؤ اور بدلاؤ نہیں آتا اطمینان قلب حاصل نہیں ہو گا لہذا ضروری ہے کہ ارباب اختیار اس حوالے سے غور فکر کریں اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ عوام کی اہمیت کو تسلیم کریں انہیں غربت بیماری اور جہالت سے نجات دلوائیں اس کے بغیر سیاسی استحکام نہیں آسکتا ہے مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ عوام کی حمایت و ہمدردی حاصل کی جائے اس پہلوکو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔نجانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں۔

عوام نے تو کبھی اپنے حکمرانوں کو مایوس نہیں کیا انہوں نے جو بھی کہا وہ اس پر سر دھنتے رہے مگر انہیں ہمیشہ کمتر ناسمجھ اور احمق تصور کیا گیا انہوں نے ان کے اس خیال کوبھی درست کہہ دیا مگرسوال پیدا ہوتا ہے کہ بڑے دماغ والوں نے ملک کو کیوں بیرونی قرضوں سے چھٹکارا نہیں دلوایا اسے جہاں کھڑا ہونا چاہیے تھا وہاں کیوں نہیں کھڑا ہو سکا اس کا جواب کوئی دینے کو تیار نہیں بس الزام تراشی ہے جو ایک دوسرے پر کی جا رہی ہے اور ڈنگ ٹپایا جا رہا ہے؟ اہل اختیار کی طرز حکمرانی دیکھیے کہ ملک کی سب سے بڑی عوامی سیاسی جماعت کو ذرا بھر بھی توجہ کے لائق نہیں سمجھا جارہا نتیجتاً پورے ملک میں ایک اضطراب ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جسے ختم کرنے کے لئے بظاہر حکومت کی کوئی کوشش دکھائی نہیں دے رہی جبکہ وہ جیسے بھی اقتدار میں آئی ہے آ تو گئی ہے اسے چاہیے تھا کہ وہ ناراض اور نظر انداز کیے گئے سیاستدانوں کو اعتماد میں لیتی اور موجودہ صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے مشاورت کرتی اگرچہ انہیں اس امر کا دکھ ہے کہ انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر نہیں بیٹھنے دیا گیا مگر وہ اس کے نرم رویے سے ضرور متاثر ہوتے اور اپنے ’’دْکھ‘‘ کو ایک حد تک بھلا دیتے مگر نہیں ایسا سوچا ہی نہیں گیا لہذا ان کو ہر نوع کی اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جینے کی راہ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہے مگر پھر بھی وہ جی رہے ہیں ان کی اس طرز زندگی کو اہل اقتدار ان کی کمزوری سمجھ رہے ہیں لہذا وہ اپنی مرضی کے قوانین بنانے لگے ہیں جو بڑے حیران و پریشان کن ہیں۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قوانین لوگوں کو آسانیاں و راحتیں دینے کے لئے ہوتے ہیں مگر یہ جو قانون سازی کی جا رہی ہے وہ تو انہیں تکالیف پہنچا رہی ہے کیونکہ جب تک عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہوتے یعنی روٹی کپڑا اور مکان کے حصول کو ممکن نہیں بنایا جاتا تب تک نئے قوانین سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتیاگرچہ ان پر سختی سے عمل درآمد کروایا جا رہا ہے مگر اس سے حکومت کے خلاف نفرت پیدا ہو رہی ہے لہذا قانون سازی کے لئے حزب اختلاف کو ساتھ ملایا جائے تاکہ ایسے قوانین بنیں جن سے کم از کم مشکلات پیش آئیں مگر ا س کی پروا نہیں کی جا رہی یہی وجہ ہے کہ لوگ حکومت سے بے حد بیزار دکھائی دیتے ہیں۔

بہر حال وطن عزیز میں موجود اضطراری کیفیت پر قابو پانے کے لئے حکومت کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی۔پی ٹی آئی جو بہت سی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد بھی اپنی جگہ موجود ہے کو قومی دھارے میں لانا ہو گا اس کے جو جائز مطالبات ہیں ان پر غور کرنا ہو گا۔یہ جو پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے وہ کسی طور بھی درست عمل نہیں وہ پر امن احتجاج کرنا چاہتی ہے تو اس کی راہ میں روڑے نہیں اٹکانے چاہیں حکومت کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہی ہو گا کیونکہ دنیا اب جمہوریت کے حق میں ہے لہذا سخت گیر اقدامات سے اجتناب برتا جائے مگر حکومت کے مشیر اسے طرح طرح کی پٹیاں پڑھا رہے ہیں اس طرح ذہنوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا کچھ بہتر کرکے دکھانا ہو گا جو مختلف بھی ہو‘ کیا اس کا کوئی امکان ہے ؟ ہمیں نہیں نظر آرہا کہ کوئی انقلاب برپا ہونے جا رہا ہے۔وہی روایتی حکمرانی اور وہی رویہ ہے جسے حکمران ایک مدت سے اختیار کرتے چلے آرہے ہیں۔عارضی پروگراموں سے یہ نظام نہیں بدلنے والا اس کے لئے دیر پا منصوبے بنانا ہوں گے جس کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھانا ہو گا کیونکہ ملک کی معاشی حالت خراب تر ہے جس سے ہر غریب کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔امیر طبقہ تو موجیں کر رہا ہے ۔

بیوہ کو تاحیات نہیں صرف دس برس تک پینشن ملے گی یعنی ہر طرح سے لوگوں کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ کچھ کچھ لگ رہا ہے کہ روشنی اندھیرے کو اپنی لپیٹ میں لینے والی ہے کیونکہ اہل اختیار پر دائیں بائیں سے دباؤ پڑنے لگا ہے۔ اگرچہ حکومت کہہ رہی ہے کہ اس نے چین کے ساتھ تین سو ملین سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ہیں مگر اس سے پلک جھپکتے میں حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ہمیں ضرورت ہے ایک ایسے نظام کی جس میں قومی دولت محفوظ ہو اگر ایسا نہیں تو سب قصے کہانیاں ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کشمیر و فلسطین؛ مزاحمت کا استعارہ
  • تاریخ کا خوف
  • 1035 دن بعد
  • کچھ کچھ سحر کے رنگ پْر افشاں ہوئے تو ہیں
  • کراچی میں ڈکیتی مزاحمت پر شہری کا قتل، ویڈیو سامنے آگئی
  • کراچی: کورنگی میں ڈکیتی مزاحمت پر شہری کا قتل، ویڈیو سامنے آ گئی
  • ہجرت
  • دو ریاستی حل بین الاقوامی دھوکا اور سفارتی جھوٹ ہے، صیہونی تجزیہ کار
  • زیادتی میں مزاحمت پر حاملہ خاتون کو چلتی ٹرین سے پھینک دیا گیا