Jasarat News:
2025-04-16@14:58:38 GMT

مزاحمت اور بی اے؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

مزاحمت اور بی اے؟

باطل کی مزاحمت انبیا و مرسلین اور مجددین کا ورثہ ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ نے نمرود کی مزاحمت کی۔ سیدنا موسیٰؑ نے فرعون کی مزاحمت کی۔ رسول اکرمؐ نے مکے کے کفار اور مشرکین کی مزاحمت کی۔ برصغیر میں مجدد الف ثانی نے جہانگیر کی مزاحمت کی۔ مولانا مودودیؒ نے مغربی فکر اور سوشلزم کی مزاحمت کی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جاوید احمد غامدی کے شاگرد خورشید ندیم کا حالیہ کالم مزاحمت اور بی اے کئی اعتبار سے شرمناک ہے اس لیے کہ اس کالم میں خورشید ندیم نے مزاحمت کو بی اے اور ایم اے کی ڈگریوں کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اپنے کالم میں سرسید احمد خان کی بھی تحسین فرمائی ہے اور تاثر دیا ہے کہ برصغیر میں صرف سرسید تھے جنہوں نے جدید علوم کی تحصیل کا درس دے کر برصغیر کے مسلمانوں میں مزاحمتی روح کو پروان چڑھایا۔ ان کے بقول سرسید نہ ہوتے تو پاکستان کو پڑھے لکھے طبقے سے وکیل فراہم نہیں ہوسکتے تھے۔ انہوں نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے انہی الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔

’’مسلمانوں نے اگر کسی ناانصافی کے خلاف مزاحمت کرنی ہے تو انہیں پہلے بی اے کرنا پڑے گا۔ یہ مجبوری ہے۔ لڑائی لڑنی ہے تو پہلے تلوار خریدنا پڑے گی۔

یہ بات برصغیر کی سطح پر سب سے پہلے سرسیّد احمد خاں نے سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کے ساتھ جو سلوک ہوا‘ وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اکبر الہ آبادی جیسی مرنجاں مرنج شخصیت بھی سر سید کے خلا ف فن آزما ہوئی:

ہم کیا کہیں‘ احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے ہوئے‘ نوکر ہوئے‘ پنشن ملی‘ پھر مر گئے

معلوم نہیں ہم مسلمان بی اے‘ ایم اے سے کیوں دور بھاگتے ہیں۔ لیلیٰ کی اماں نے جب رشتے کے لیے مجنوں کو ایم اے کرنے کو کہا تو وہ عشق سے دست بردار ہو گیا‘ مگر ایم اے کے لیے آمادہ نہیں ہوا۔ آخر وہ بھی مسلمان تھا۔ اکبر ہی نے ہمیں وہ جواب سنایا ہے جو مجنوں نے لیلیٰ کی ماں کو دیا:

یہی ٹھیری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفا مرا با حسرت و یاس

یہ تو اللہ کا شکر ہوا کہ چند ایک نے سرسیّد کی بات مانی۔ بی اے کر لیا اور پھر ایل ایل بی بھی۔ پاکستان کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے کچھ وکیل میسر آگئے اور یہ ملک آزاد ہو گیا۔ تاریخ نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ مزاحمت کے لیے بی اے کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ آزادی کے متوالے کبھی ایک میدان میں رزقِ خاک ہو جاتے ہیں اور کبھی دوسرے میدان میں۔ کبھی شاملی میں کام آتے ہیں اور کبھی ان کے قافلے افغانستان کی راہوں میں گردِ خاک ہو جاتے ہیں۔

یہ غلط فہمی ہمارے رگ وپے میں سرایت کر گئی ہے کہ مسلح جدوجہد ہی مزاحمت کی واحد صورت ہے اور جو اس پر نقد کرتا ہے‘ وہ مزاحمت ہی کا منکر ہے۔ مسلح جدوجہد کو مزاحمت کی واحد صورت قرار دینے کا رجحان انیسویں صدی کی انقلابی تحریکوں کے زیرِ اثر مقبول ہوا۔ ظلم کے خلاف مزاحمت انسانی فطرت میں ہے اور دنیا کے ہر معاشرے میں اسے جائز سمجھا گیا ہے۔ مزاحمت کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق حالات اور زمانے سے ہے۔ کبھی بی اے کرنا بھی مزاحمت ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ اس بات کی تفہیم کے لیے ہم پھر سرسیّد کی طرف لوٹتے ہیں۔

سرسیّد نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی سعی کی کہ اس وقت تعلیم ہی وہ ہتھیار ہو سکتا ہے جس سے مزاحمت ممکن ہے۔ جنگِ آزادی میں اگر چند سو بندوقیں تمہاری تلواروں اور افرادی قوت پر غالب رہیں تو اس فرق کو جانو۔ خود کو بندوق بنانے اور چلانے کے قابل بنائو۔ اس کے لیے پہلے بی اے کرنا پڑے گا۔ لوگ مان کر نہیں دیے۔ سب کچھ برباد کر ڈالا۔ شیخ الہند جیسا مجاہد بھی مالٹا کی اسیری کاٹ کر لوٹا تو اسی نتیجے تک پہنچا کہ سیاسی جدوجہد ہی واحد راستہ ہے۔ ذہین آدمی تھے‘ بی اے کیے بغیر یہ بات سمجھ گئے مگر انہیں معلوم تھا کہ عام آدمی اتنا ذہین نہیں ہوتا۔ اسے بی اے کرنے کے بعد ہی بات سمجھ میں آئے گی۔ بسترِ علالت پر جامعہ ملیہ کا سنگِ بنیاد رکھنے پہنچ گئے تاکہ مسلم قوم کے نوجوانوں کے بی اے کرنے کے لیے کوئی معیاری ادارہ موجود ہو‘‘۔ (روزنامہ دنیا: 28 جنوری 2025ء)

پوری انسانی فکر بتاتی ہے کہ مذہب انسان میں باطل کی مزاحمت کا جیسا جذبہ پیدا کرتا ہے کوئی اور چیز انسان کو باطل کا ویسا مخالف نہیں بناتی۔ انبیا و مرسلین نے باطل کی جو مزاحمت کی اس کا خاص پہلو یہ ہے کہ انبیا و مرسلین نے کبھی اس بات پر خدا سے شکوہ نہیں کیا کہ اس نے انہیں لاکھوں گنا طاقت ور باطل کے خلاف صف آرا کردیا ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ کے پاس نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ قوم تھی، نہ دولت تھی وہ صرف ایک فرد تھے مگر انہیں وقت کے سب سے بڑے بادشاہ کے خلاف صف آرا کردیا گیا۔ اس صورت حال میں سیدنا ابراہیمؑ نے اللہ سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے طاقت عطا کر پھر میں نمرود کو للکاروں گا۔ سیدنا موسیٰؑ کا مقابلہ فرعون سے تھا۔ سیدنا موسیٰؑ کے پاس بھی نہ کوئی ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ مسلح پیروکار تھے ان کے معاون صرف ان کے بھائی سیدنا ہارونؑ تھے۔ سیدنا موسیٰؑ نے بھی خدا سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے قوت و شوکت عطا فرما پھر میں فرعون کا مقابلہ کروں گا۔ رسول اکرمؐ کو غزوہ بدر میں کفار کے مقابل کھڑا کیا گیا تو کفار کا لشکر ایک ہزار افراد پر مشتمل تھا۔ ان کے پاس درجنوں اونٹ اور سیکڑوں گھوڑے تھے۔ ان کے پاس تلواریں تھیں نیزے تھے زرہ بکتر تھی یہاں تک کہ وہ ناچنے والی عورتیں بھی ساتھ لائے ہوئے تھے۔ ان کے مقابلے پر رسول اکرمؐ کے پاس صرف 313 افراد تھے۔ مسلمانوں کے لشکر کے پاس ایک گھوڑا اور چند اونٹ تھے۔ ذرہ بکتر کسی کے پاس نہیں تھی۔ نیزے بھی چند تھے۔ اکثر مسلمان ڈنڈے لے کر میدان جنگ میں اترے ہوئے تھے۔ اس منظرنامے میں رسول اللہ نے خدا سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے لشکر جرار کے مقابلے پر لشکر جرار عطا کر پھر میں اس کا مقابلہ کروں گا۔ مگر خورشید ندیم باطل کا مقابلہ کرنے والوں کو کمزور دیکھتے ہیں تو ان پر طنز کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کالم میں اسامہ بن لادن کے حوالے سے جاوید غامدی کا یہ فقرہ کوٹ کیا ہے کہ اسامہ کا ایمان قابل رشک مگر بصیرت قابل افسوس ہے۔ اب خورشید ندیم اسرائیل کے مقابلے پر حماس کی قوت کو کم پارہے ہیں تو وہ اس پر طنز کے تیر برسا رہے ہیں۔

خیر یہ تو ایک طویل جملہ ٔ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ خورشید ندیم نے مزاحمت کو بی اے اور ایم بی ڈگریوں یا جدید تعلیم کے ساتھ منسلک کیا ہے حالانکہ مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ صرف مذہب ہے جس نے مسلمانوں سے باطل کی مزاحمت کروائی ہے۔ جدید مغربی تعلیم تو ایک ہزار سال سے مسلمانوں کو کاٹھ کباڑ میں تبدیل کررہی ہے۔ ابن سینا اور فارابی مسلمانوں کے بڑے فلسفی تھے۔ ان کا علم جدید عہد کے ہزاروں پی ایچ ڈیز سے زیادہ تھا مگر ان کی گمراہی کا یہ عالم تھا کہ وہ یونان کے فلسفے کو مذہب پر فوقیت دیتے تھے۔ ان دونوں کا عقیدہ تھا کہ معاذ اللہ خدا کلیات کا علم تو رکھتا ہے مگر جزیات کا علم نہیں رکھتا۔ ان کا خیال تھا موت کے بعد کسی زندگی کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔ ان کی رائے تھی کہ خدا نے کائنات کسی خاص وقت میں تخلیق نہیں کی بلکہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ تینوں باتیں صریح کفر ہیں۔ ابن سینا اور فارابی کے برعکس امام غزالی اپنے عہد میں مذہبی فکر کے سب سے بڑے ترجمان تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ یونان کا فلسفہ مسلمانوں کا گمراہ کررہا ہے تو انہوں نے تہافت الفلاسفہ کے نام سے ایک کتاب لکھ ڈالی جس میں یونان کے فلسفے کا ایسا رد تھا جس نے مسلم دنیا میں مغربی فلسفے کا بیج مار دیا اور یہ فلسفہ مسلمانوں کے عقائد کے لیے ایک ہزار سال تک کبھی خطرہ نہ بن سکا۔

خورشید ندیم نے اپنے کالم میں سرسید احمد خان کو ’’امامِ وقت‘‘ بنا کر پیش کیا ہے۔ حالانکہ سرسید کی پوری فکر ضلالت اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوسری طرف سرسید اور ان کی فکر نے مسلم برصغیر کو مغرب کے ادنیٰ غلاموں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ سرسید کی فکر کی ضلالت اور گمراہی پر مبنی ہونے کی بات طنز یا مذاق نہیں ہے۔ سرسید منکر قرآن تھے، اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کے کسی ایک جزو کا انکار پورے قرآن کا انکار ہے اور سرسید نے اپنی تحریروں میں قرآن میں مذکور تمام معجزات کا انکار کیا ہے۔ مثلاً ان کا خیال ہے کہ ابراہہ کا لشکر خدا کی جانب سے بھیجے گئے پرندوں کی کنکریوں سے ہلاک نہیں ہوا بلکہ اس کے لشکر میں چیچک کی وبا پھیل گئی تھی جس سے ابراہہ کا لشکر ہلاک ہوا۔

اسی طرح سرسید نے سیدنا موسیٰؑ سے قرآن میں منسوب اس معجزے کا بھی انکار کیا ہے کہ ان کے عصا نے دریا میں راستہ بنایا۔ سرسید کا اصرار ہے کہ سیدنا موسیٰؑ اور ان کی قوم نے دریا اس وقت پار کیا جب دریا اترا ہوا تھا۔ سرسید منکر حدیث تھے۔ وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث کو بھی مشتبہ سمجھتے تھے۔ سرسید نے مسلمانوں کی پوری فقہ کی روایت کو بھی مسترد کردیا تھا۔ وہ نہ امام ابوحنیفہ کے مقلّد تھے، نہ امام شافعی کے، وہ امام مالک کو مانتے تھے نہ امام حنبل کو تسلیم کرتے تھے۔ سرسید نے مسلمانوں کی پوری تفسیری روایت کا بھی انکار کردیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ عربی، فارسی اور اردو میں کیا رکھا ہے، سیکھنی ہے تو انگریزی سیکھو، فرانسیسی سیکھو، جرمن سیکھو، یہ تمام حقائق بتارہے ہیں کہ سرسید مغرب اور اس کے علوم و فنون کی نہیں بلکہ مسلمانوں کے دین اور اس کی علامتوں کی مزاحمت کررہے تھے اور وہ عام مسلمانوں کو بھی دین سے برگشتہ کررہے تھے۔

خورشید ندیم کا خیال ہے کہ سرسید کی پیدا کردہ علمی روایت نے پاکستان کو وکیل مہیا کیے۔ یہ خیال بھی سو فی صد غلط ہے۔ مسلم برصغیر نے جو دو دیوقامت شخصیات پیدا کیں ان میں سے ایک اقبال ہیں اور دوسرے قائداعظم، اقبال کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جب تک ’’قوم پرست‘‘ تھے اس وقت تک ان میں اور ایک کٹر ہندو میں فرق کرنا ناممکن تھا۔ مثلاً اقبال نے اس عہد میں نہ صرف یہ کہ گوتم بدھ اور بابا گرونانک کو سراہا بلکہ رام کو ’’امامِ ہند‘‘ کا خطاب دیا۔ ان کا اس زمانے کا ایک شعر ہے۔

پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے

جیسا کہ ظاہر ہے کہ ایسا شعر کوئی ’’مسلمان‘‘ نہیں کہہ سکتا تھا۔ یہ صرف ہندو کہہ سکتا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اقبال کی قلب ماہیت کردی اور انہوں نے مذہب کے زیر اثر عظیم الشان شاعری تخلیق کی۔ محمد علی جناح جب تک کانگریس میں تھے وہ ایک قومی نظریے کے علمبردار تھے مگر دو قومی نظریے کے علمبردار بنتے ہی وہ انگریزوں اور ہندو اکثریت کی مزاحمت کرنے لگے۔ یعنی اقبال اور قائداعظم کی مزاحمت کی پشت پر بھی صرف مذہب کی قوت تھی۔ اکبر الٰہ آبادی کی مزاحمتی شاعری غیر معمولی ہے اور اس کی جڑیں بھی مذہبی شعور میں پیوسط ہیں۔ مثلاً اکبر نے کہا ہے۔

منزلوں دور ان کی دانش سے خدا کی ذات ہے
خرد بیں اور دوربیں تک ان کی بس اوقات ہے

علومِ دنیوی کے بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہوجاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا

نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جنابِ ڈارون کو حضرتِ انساں سے کیا مطلب

نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

بیسویں صدی میں اقبال کے بعد مغرب کی مزاحمت کا سب سے بڑا استعارہ مولانا مودودی ہیں اور انہوں نے پوری مغربی تہذیب کو مسترد کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک تحریر میں مغربی تہذیب کو ’’باطل‘‘ قرار دیا ہے۔ ایک جگہ انہوں نے مغربی تہذیب کو ’’جہالیتِ خالصہ‘‘ کا نام دیا ہے اور اپنی ایک کتاب میں مولانا نے مغربی تہذیب کو ’’تخمِ خبیث‘‘ اور ’’شجرِ خبیث‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حقیقی مزاحمت، بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی سے نہیں اسلام کے شعور سے پیدا ہوتی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مغربی تہذیب کو کی مزاحمت کی مسلمانوں کے بی اے کرنا کا مقابلہ انہوں نے کالم میں ایک ہزار بی اے کر یہ ہے کہ باطل کی کے خلاف ہیں اور ایم اے کیا ہے دیا ہے کے لیے کے پاس ہے اور کہا کہ ہیں کہ اور ان

پڑھیں:

کوچۂ سخن

غزل
حق و باطل کبھی یکجا نہیں رہنے دیتا
آئینہ جھوٹ پہ پردہ نہیں رہنے دیتا
اس کو میں روتا بلکتا ہوا چھوڑ آیا ہوں
ساتھ لاتا تو قبیلہ نہیں رہنے دیتا
جذبۂ فخر و تکبر بھی عجب ہوتا ہے
دیر تک شخص کو اونچا نہیں رہنے دیتا
ساتھ پا جاتا اگر تپتے ہوئے سورج کا
مجھ کو ساحل پہ یہ دریا نہیں رہنے دیتا
تجربہ عمر کے ہمراہ بڑھے گا سرمدؔ
وقت کوئی گھڑا کچا نہیں رہنے دیتا
(سرمد جمال۔ لالیاں)

۔۔۔
غزل
کیوں نہ پھر خود کو میں رانجھا وہ مری ہیر لگے
اس کو جب دیکھوں مرے خواب کی تعبیر لگے 
ضربتِ چشم کے منکر میں تجھے کیا بولوں
بس دعا ہے ترے دل میں بھی کوئی تیر لگے
آپ کے دست شفاعت  کے تو کیا ہی کہنے
آپ کے ہاتھ سے تو زہر بھی اکسیر لگے
اس طرح ٹھاٹ سے رہیو کہ گدا ہو کے بھی
آدمی اہلِ حکومت میں کھڑا میر لگے
مجھ کو چھوڑا ہے تو تحفہ بھی مرا آگ میں ڈال
اس سے پہلے کہ یہ پائل تجھے زنجیر لگے
ہجر سے رب ہی بچائے کہ جسے یہ ڈس لے
وہ تو بھر پور جواں ہو کے بھی اک پیر لگے
ہم جنوں زاد ہیں ڈرتے ہیں صعوبت سے بھلا
ہم کو پھندہ بھی تری زلفِ گرہ گیر لگے
عاشقی اس کو ہی سجتی ہے جہاں میں بابرؔ
سامنے شیر بھی جس شخص کے نخچیر لگے
(بابر علی ویرو وال  سرگودھا)

۔۔۔
غزل
روز جھنجھٹ میں نئے ڈال دیا جاتا ہے
کس مہارت سے مجھے ٹال دیا جاتا ہے
کیوں قطاروں میں رہیں کاسہ گدائی کا لیے
روند کے پھول بھی پامال دیا جاتا ہے
ہم سے کہتے ہیں کہ ہشیار ذرا رہیے گا
اور صیّاد کو بھی جال دیا جاتا ہے
کھول کر حسن کا صفحہ وہ ترے رکھتا ہے
اور قصّے کو بھی اجمال دیا جاتا ہے
دل یہ بن باپ کے ہو جیسے یتیم اے لوگو
گھر میں جو غیر کے بھی پال دیا جاتا ہے
پیار کرنے کو میسّر ہے گھڑی دو لیکن
درد سہنے کو کئی سال دیا جاتا ہے
علم اپنا نہیں، اوروں کی بتانے کے لیے
قسمتوں کا بھی یہاں فال دیا جاتا ہے
تو نے تو مجھ کو دیا خام، مگر ظرف مرا
پھل تجھے میٹھا بھی اور لال دیا جاتا ہے
یہ بلوچی کی روایات میں شامل ہے رشیدؔ
پوچھا کرتے بھی ہیں، اور حال دیا جاتا ہے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)

۔۔۔
غزل
جو تیرگی میں لہو کا الاپ جانتا ہے
خدا پرستوں کے سارے ملاپ جانتا ہے
خلافِ دنیا ہے لیکن بدن کی قید میں ہے 
جو زندگی کو بھی ڈھولک کی تھاپ جانتا ہے
لباسِ حضرتِ آدم کو اوڑھنے والے
برہنہ سوچ پہ آدم کی چھاپ جانتا ہے؟
ادھیڑ عمر میں بیٹے کی موت ہو جانا
یہ ایسا دکھ ہے جو اکبر کا باپ جانتا ہے
ہمیشگی میں یہ تکرار ہست و بود کہاں
جو اہلِ فن ہے وہ قدرت کا ناپ جانتا ہے
(علی رقی۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
کوئی عجلت ہے مجھے اور نہ بیزاری ہے
وقت کے ساتھ ہی چلنے میں سمجھ داری ہے
جان جاتی ہے چلی جائے کوئی بات نہیں
میری عزت تو مجھے جان سے بھی پیاری ہے
وقت جیسا بھی ہو آخر کو گزر جاتا ہے
فکرِ فردا ہے مجھے، اُس کی ہی تیاری ہے
ایک میں ہوں جسے محرومِ محبت رکھا
ورنہ اُس شخص کی دنیا سے وفاداری ہے
حاکمِ وقت سے شکوے تو بہت ہیں لیکن
میں ہوں مجبور مِری نوکری سرکاری ہے
موسمِ ہجر نے یہ حال کیا ہے میرا
دل ہے پُرسوز اور آواز مری بھاری ہے
اُس کی ہر بات پہ مت کان دھرا کر شوبیؔ 
بولتے رہنے کی اُس شخص کو بیماری ہے
(ابراہیم شوبی۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
سوگ واروں کا تمسخر اڑانا تھا جنہیں 
شوخ بھی آئے جی بھر مسکرانا تھا جنہیں
چاند سے اوجھل انھوں نے رکھے دست و قلم 
ایک کاغذ پر سمندر بنانا تھا جنہیں 
اِن بچھے پھولوں سے اُن کو ہی چھالے بن گئے
اپنی پلکوں کو سرِ رہ بچھانا تھا جنہیں
وہ مرے اعصاب سے آشنا ہوا ہی نہیں 
چھید ڈالے ہیں وہی گدگدانا تھا جنہیں
عرش کو بھائی نہیں سب ستاروں کی چمک
ٹوٹ کر بکھرے بہت جگمگانا تھا جنہیں
تیرے پہلے جھوٹ کے وہ کہاں ہیں سامعین
تو نے اپنا آخری سچ بتانا تھا جنہیں
رہ پہ خوشبو کی جگہ بھر گئی ہے شام اب 
کیا نہیں آئیں گے وہ، آج آنا تھا جنہیں
بے تکی ترتیب سے گزری ساگرؔ زندگی
یاد رکھا ہے انہیں، بھول جانا تھا جنہیں
(ساگرحضورپوری۔سرگودھا)

۔۔۔
غزل
شماریات سے باہر ہے تشنگی اپنی
کبھی نہ ختم ہو پائے گی بے بسی اپنی
تمہارے آنے سے پر لطف ہو گئی ورنہ
پڑی تھی بے سر و سامان زندگی اپنی
تمام عمر بھی کم ہے یہ غم منانے کو
کہ ہو گئی ابھی سے ختم دوستی اپنی
تمہیں یقین نہیں آ رہا، یقین کرو
ہر ایک شے سے ہے نایاب دل لگی اپنی
تلاشتے ہیں گریبان کو حیا والے
کہ عام لوگ نہیں جانتے کمی اپنی
مری زبان مرے سر سے کچھ تو اونچی ہے
کبھی فروخت نہ ہو پائے گی خودی اپنی
تمہارا دل تمہیں جھنجھوڑتا نہیں ہے کیا؟
جو ناک پر لیے پھرتے ہو برہمی اپنی
ضمیر مار کے جینے سے موت افضل ہے
ہے ایسی جیت سے بہتر شکستگی اپنی
کسی کی طرز پہ رہنا مجھے قبول نہیں 
مجھے نمود سے پیاری ہے سادگی اپنی
طویل وقت سے رویا نہ تھا وسیم خلیل 
وہ چھوڑ کر گیا تو آنکھ نم ہوئی اپنی
(وسیم اشعر۔تحصیل شجاع آباد، ضلع ملتان)

۔۔۔
غزل
دل میں اتر جو آئی وہی چیخ اور پکار
ہم نے سنی، سنائی وہی چیخ اور پکار
ہم کو دیا تو کیا دیا دنیائے بے ثبات 
آنسو خلش دہائی، وہی چیخ اور پکار
اور کچھ بھی نہیں جانتا یہ جانتا ہوں میں
حصے میں میرے آئی وہی چیخ اور پکار
بے ساختہ ہی سوئی ہوئی آنکھ کھل گئی 
پھر ہم کو یہاں لائی وہی چیخ اور پکار
معلوم کر سکا نہ کہ وہ تھی تو کس کی تھی؟ 
جب ذہن میں پھرائی وہی چیخ اور پکار
(احمد ابصار۔ لاڑکانہ)

۔۔۔
غزل
سینہ تراش کے لکھے اک نام کے حروف
اک حسنِ بے مثال پہ کچھ کام کے حروف 
خلوت کے خوگروں پہ عیاں ہیں سبھی میاں 
کیا صبح کے حروف تو کیا شام کے حروف 
کیسے ٹکوں میں بیچتے ہو، ہوش میں تو ہو؟
ارض و سما سے بیش بہا دام کے حروف 
یوں شاعری نسوں میں گھلی ہے میاں کہ میں
مدہوش ہو کے لکھ رہا ہوں جام کے حروف 
تم خود کو کہہ رہے ہو سخن فہم، خیر ہے؟
تم پر ابھی کھلے نہیں خیّامؔ کے حروف
(خیام خالد۔ ٹیکسلا)

۔۔۔
غزل
ہم پہ ہر سمت اجالے تھے سبھی وار دیے
اور مرے یار جیالے تھے سبھی وار دیے
کچھ ترے ہجر کے تھے زخم مری جان پہ اور
طعنِ اغیار کے جالے تھے سبھی وار دیے
اپنا دیوان حوالے ہے سمندر کے کیا
تم پہ کچھ شعر نکالے تھے سبھی وار دیے
ہم نے کھولی تھی جو اک بار کفِ دستِ سخن
جن کو بھی جان کے لالے تھے سبھی واردیے
تم نے اک ہجر زدہ شخص پہ احسان کیا
تم نے جو راز سنبھالے تھے سبھی وار دیے
اور پھر چھوڑ دیے  دوست سبھی فاروقیؔ
اور وہ سانپ جو پالے تھے سبھی وار دیے
(حسنین فاروقی۔ چکوال)

۔۔۔

غزل
روگ آنکھوں سے محبت کا چھپاؤں کیسے
یادِ جاناں لیے ہوں یاد مٹاؤں کیسے
وحشتیں تم کو دسمبر کی بتاؤں کیسے 
اپنے سینے میں لگی آگ دکھاؤں کیسے
شدتِ درد نے تو چھین لی گویائی میری 
اے مرے دوست تجھے حال سناؤں کیسے 
یاد میں اس کی جلا جاتا ہے سینہ میرا
دل تو کرتا ہے مگر اس کو بلاؤں کیسے
چارہ گر! نشتر مرہم ہیں زہر ناک ترے
زخمِ دل تجھ کو دکھاؤں تو دکھاؤں کیسے
تیری موجودگی سے ہے مرا سب فنِ سخن 
تو بھلا تیرے سوا مصرعے سجاؤں کیسے
چاہتا ہوں کبھی ہو شام ترے پہلو میں
شام قسمت سے یہی میں بھی چراؤں کیسے
تیرے ہی حسن نے آنکھوں کی بدولت مجھ کو 
ایسے مدہوش کیا، ہوش میں آؤں کیسے 
دوست میرے ہیں سبھی جان سے پیارے مجھ کو
جان سے تنگ ہوں تو جان چھڑاؤں کیسے
(رستم۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل
کام چاہے جس قدر ہو دور ہونا چاہیے 
خامشی تکلیف دے تو شور ہونا چاہیے 
ظاہری حالت سے اندازہ لگایا نہ کرو
کوئی جب آواز دے تو غور ہونا چاہیے
ہے محبت میں نرم لہجہ بڑا ہی پراثر 
ہو صدا حق کے لیے تو زور ہونا چاہیے
روز اپنوں پر بھڑکنا اور دھمکانا انہیں
ہو بہادر تو مقابل اور ہونا چاہیے
جیب کاٹے،مال لوٹے یا بجٹ کھا جائے وہ
چور ہے توچور کو پھر چور ہونا چاہیے
کتنی آساں ہے یہاں تہذیبِ نو کی ہمسری
شرم سے خالی ذہن سے کور ہونا چاہیے
موم کو پتھر بنا دیتا ہے شاہدؔ انتظار 
ہے اگر جذبہ تو کچھ فی الفور ہونا چاہیے
(محمد شاہد اسرائیل۔ آکیڑہ، ضلع نوح میوات، انڈیا)
 

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

متعلقہ مضامین

  • ببو برال، جو جینا چاہتے تھے مگر۔۔
  • آرمی چیف ملک کو معمول کی سطح پر لے آئے، فیصل واوڈا
  • جنگ  میں سب کچھ جائز نہیں ہوتا!
  • کراچی: ڈکیتی مزاحمت پر ڈاکوؤں نے دو افراد کو زخمی کر دیا
  • کوچۂ سخن
  • ایران اسلامی مزاحمت اور امریکہ سے مذاکرات
  • مخاصمت کی صلیب پہ لٹکی مفاہمت اور مزاحمت!
  • کراچی: ڈکیتی مزاحمت پر ڈاکوؤں کی فائرنگ، بچی سمیت دو افراد زخمی
  • اسرائیل طاقت کے ذریعے قیدیوں کو نہیں چھڑا سکتا، حماس
  • نون لیگ اور اُس کے پروجیکٹس