Jasarat News:
2025-02-10@00:13:25 GMT

مشرق وسطیٰ میں امریکی منصوبہ بندی اور جاپانی امن مشن

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

مشرق وسطیٰ میں امریکی منصوبہ بندی اور جاپانی امن مشن

ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے متنازع بیانات اور پالیسیوں کے باعث بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ میکسیکو کے تارکین وطن کی واپسی کا معاملہ ہو یا چین، کینیڈا اور دیگر ممالک پر ٹیرف کے حوالے سے کیے گئے فیصلے، انہیں ہر محاذ پر تنقید اور نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ ان کی امریکا فرسٹ کی پالیسی کے تحت روایتی اتحادیوں کا اعتماد بھی متزلزل ہوا ہے، خود امریکی پالیسی ساز ادارے ٹرمپ کے ارادوں کو امریکی استحکام کے لیے ایک سوالیہ نشان سمجھ رہے ہیں جن سے امریکا کی امتیازی حیثیت اب خطرے میں نظر آرہی ہے۔

ٹرمپ کی یہ پالیسیاں آج کا شاخسانہ نہیں بلکہ یہ ان کے پہلے دور اقتدار سے منسلک پالیسیوں کا تسلسل سمجھی جارہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ابراہم منصوبہ ہو یا غزہ کے مستقل مکینوں کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کا مجوزہ منصوبہ انہیں اسی تسلسل کی کڑی سے منسلک سمجھا جارہا ہے۔ اس سے قبل جنوری 2020 میں بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے “Peace to Prosperity” کے نام سے ایک منصوبہ پیش کیا تھا، جسے ’’صدی کی ڈیل‘‘ بھی کہا گیا۔ یہ منصوبہ فلسطینیوں کے لیے ایک محدود خودمختاری والی ریاست کی تجویز دیتا تھا، جس کے بدلے میں اسرائیل کو مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں پر مکمل اختیار حاصل ہوتا۔ مزید برآں، اس منصوبے میں یروشلم کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت قرار دیا گیا تھا اور فلسطینی عوام کو غزہ سے باہر دیگر علاقوں، بشمول اردن اور مصر، میں منتقل کرنے کے امکانات کا عندیہ دیا گیا تھا اور یہ معاملہ اس وقت بھی اتنا ہی متنازع تھا جتنا کہ آج۔

ٹرمپ کی غیر منطقی اور ناانصافی پر مبنی یہ تجویز نہ صرف فلسطینی عوام کی خواہشات کے خلاف بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ اس منصوبے کو فلسطینی قیادت، اقوام متحدہ، یورپی یونین، عرب لیگ اور دیگر ممالک نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اسے یکطرفہ طور پر اسرائیل کے حق میں جھکاؤ اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت پر ڈاکا سمجھا گیا۔ مشرق وسطیٰ کی گمبھیر صورتحال میں یہاں بین الاقوامی سطح پر مختلف اقدامات کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔ اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً مختلف اقدامات کیے جاتے رہے ہیں جن میں امن مشن کی تعیناتی کے اقدامات بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں بین الاقوامی امن مشن کا بنیادی مقصد عالمی استحکام اور انسانی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔ فلسطین کے حوالے سے بھی اقوام متحدہ اور دیگر تنظیمیں مختلف سطح پر امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں، اقوام متحدہ کی دیگر ٹیمیں مغربی کنارے اور غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرتی ہیں اور امن کے قیام کے لیے سفارتی اقدامات تجویز کرتی ہیں لیکن عملی طور پر یہ مشن فلسطینیوں کو حقیقی ریلیف دینے سے قاصر نظر آتی ہیں۔

بظاہر یورپی یونین فلسطینی علاقوں میں اقتصادی ترقی، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مالی امداد بھی فراہم کرتی ہے جبکہ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) فلسطینی عوام کی حمایت میں مختلف قراردادیں منظور کر چکی ہے لیکن قیام امن اور فلسطینیوں کو ان کے جائز حق کی جانب پیش رفت کے ضمن میں یہ تمام اقدامات کوئی موثر حکمت عملی بنانے میں قاصر نظر آتے ہیں۔ عرب لیگ نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ٹرمپ کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے حقوق پر زور دیا لیکن اس کی حیثیت شطرنج کے مہرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایسے میں مشرق وسطیٰ میں ہمیں جاپان کا کردارایک غیر جانبدار اور انسان دوست ملک کے طور پر نظر آتا ہے، جو اقوام متحدہ کے امن مشن میں فعال کردار ادا کرتا ہے۔ فلسطین کے حوالے سے جاپان کی پالیسی جن بنیادی نکات پر مشتمل ہے ان کے تحت وہ غزہ اور مغربی کنارے میں بنیادی ڈھانچے، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے مالی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔

جاپانی حکومت نے فلسطینی مہاجرین کے لیے UNRWA کے ذریعے غذائی امداد اور دیگر فلاحی منصوبے شروع کیے ہیں۔ جاپان نے اقوام متحدہ کے امن مشنز، جیسے کہ UNDOF (United Nations Disengagement Observer Force) اور UNIFIL (United Nations Interim Force in Lebanon) میں شمولیت اختیار کی ہے، جو مشرقِ وسطیٰ میں تنازعات کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ جاپان نے مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے سفارتی کوششیں بھی کی ہیں اور عالمی امن کانفرنس میں فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی وکالت کی ہے۔ جاپان نے ہمیشہ غیر جانبداری برقرار رکھی ہے اور کسی بھی ایسی پالیسی کی مخالفت کی ہے جو فلسطینی عوام کے حقوق کو نظر انداز کرے تاہم جاپان کی جانب سے فلسطین میں دو ریاستی حل کا بیانیہ ایک متنازع معاملہ سمجھا جاتا ہے اور فلسطینی اس رائے کو تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ اس ضمن میں مزاحمتی تنظیم حماس کا نقطہ ٔ نظر سمجھے بغیر اس مسئلے کا کوئی حل ممکن نظر نہیں آتا، حماس نے ہمیشہ بین الاقوامی امن مشن اور مغربی ممالک کے کردار پر شبہ ظاہر کیا ہے۔ حماس کی نظر میں بین الاقوامی طاقتیں اکثر اسرائیل کے حق میں فیصلے کرتی ہیں، جبکہ فلسطینی عوام کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جاپان کا موقف اس حوالے سے مختلف ہے۔ جاپان فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیتا ہے، مگر حماس کے ساتھ براہ راست سفارتی تعلقات نہیں رکھتا۔ مشرق وسطیٰ امور کے بعض ماہرین کی رائے میں جاپان اس پورے منظر نامے میں اس وقت تک کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہوگا جب تک وہ حماس کو اعتماد میں نہیں لیتا۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حماس اس پورے معاملے کا انتہائی اہم اسٹیک ہولڈر ہے اور اسے اعتماد میں لیے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن ممکن نہیں۔ جاپان سمیت عالمی برادری کی ذمے داری بنتی ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کا احترام یقینی بنایا جائے اور فلسطینی عوام کو جبری نقل مکانی سے بچا کر انہیں ان کے گھروں میں محفوظ رکھا جائے۔ اس سلسلے میں جاپان جیسے ممالک اقوام متحدہ کے امن مشن میں اپنی شرکت کو مزید فعال کرکے اور فلسطینی عوام کے لیے مزید عملی اقدامات کرسکتے ہیں، جس کے لیے جاپانی سفارت کاری کو فلسطینی عوام کی حمایت میں مزید واضح اور مضبوط موقف اختیار کرنا ہوگا۔ جاپان اس سے قبل بھی اس بات کا اعادہ کرتا رہا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ محض مشرق وسطیٰ کا نہیں، بلکہ ایک بین الاقوامی انسانی مسئلہ ہے۔ چنانچہ جاپان سمیت بین الاقوامی امن مشن کو چاہیے کہ وہ فلسطینی عوام کی حفاظت، ان کے بنیادی حقوق کے دفاع اور ایک منصفانہ حل کے لیے مزید مؤثر اور عملی اقدامات کریں، تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینی عوام کے حق اور فلسطینی عوام فلسطینی عوام کی بین الاقوامی اقوام متحدہ کی پالیسی اور دیگر حوالے سے نہیں ا کے لیے

پڑھیں:

جنگ بندی معاہدہ: اسرائیل نے 3 یرغمالیوں کے بدلے مزید 183 فلسطینی قیدی رہا کردیے

اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کے تحت 3 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں 183 فلسطینی قیدیوں کو رہا کردیا۔

غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق جنگ بندی معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی کے پانچویں مرحلے میں آج حماس نے مزید 3 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی دیر البلاح شہر سے کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں جنگ بندی معاہدہ: حماس نے پانچویں مرحلے میں مزید 3 اسرائیلی یرغمالی رہا کردیے

حماس کی جانب سے 56 سالہ اوہاد بن ایمی، 52 سالہ ایلی شرابی اور 34 سالہ اور لیوی کو رہا کیا گیا ہے، جنہیں پہلے دیر البلاح میں بنائے گئے اسٹیج پر لایا گیا اور پھر ریڈ کراس کی کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔

اسرائیل کی جانب سے معاہدے کے تحت رہائی کیے گئے 183 فلسطینی قیدیوں میں 18 ایسے قیدی بھی شامل ہیں جو عمر قید اور 54 لمبی قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

اسرائیل کی قید سے رہا ہونے والے فلسطینی قیدی جونہی مغربی کنارے پر پہنچے تو فلسطینیوں کی جانب سے ان کا بھرپور استقبال کیا گیا، اور پھول نچھاور کیے گئے۔

غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں میں 7 افراد کو فوری اسپتال منتقل کردیا گیا، جو اسرائیلی فوج کی جانب سے تشدد کی وجہ سے زخموں سے چور تھے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل حماس نے جنگ بندی معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں 3 اسرائیلی خواتین کو رہا کیا تھا، جن کے بعد میں اسرائیل نے 90 فلسطینی قیدی رہا کیے تھے۔

دوسرے مرحلے میں حماس نے 4 اسرائیلی خواتین رہا کی تھیں، جس کے بعد اسرائیل نے 120 فلسطینیوں کو رہا کیا تھا۔

جنگ بندی معاہدے کے تحت تیسرے مرحلے میں حماس کی جانب سے 5 تھائی خواتین سمیت 8 یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا۔

چوتھے مرحلے میں حماس نے 2 اسرائیلی یرغمالی رہا کیے تھے، جس کے بدلے میں اسرائیل نے 183 فلسطینی رہا کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے سے متعلق بیان پر حماس کا سخت ردعمل

یہ بھی یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے کیے گئے ایک آپریشن کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا تھا، اسرائیل نے جنگ بندی سے قبل تک فضائی بمباری میں 44 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا ہے، جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسرائیل جنگ بندی معاہدہ حماس فلسطینی قیدی رہا مزاحمتی تنظیم حماس وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • خاندانی منصوبہ بندی سے زندگیاں کیسے بچتی ہیں؟
  • ہم مشرق وسطیٰ میں تمسخر بن چکے ہیں، ایتمار بن گویر
  • نائب وزیراعظم اور ایرانی وزیر خارجہ کا رابطہ، مشرق وسطی کی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • اسحاق ڈار اور ایرانی وزیر خارجہ کا ٹیلیفونک رابطہ، مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بات چیت
  • اسحاق ڈار اور ایرانی وزیر خارجہ کا رابطہ، مشرق وسطی کی صورتحال پر تبادلہ خیال 
  • جنگ بندی معاہدہ: اسرائیل نے 3 یرغمالیوں کے بدلے مزید 183 فلسطینی قیدی رہا کردیے
  • اسرائیل نے امریکی سرپرستی میں فلسطینی عوام کا قتل عام کیا، جمعیت کوئٹہ
  • حکومت کی اقوام متحدہ سے آلودگی پھیلانے والے ممالک پر ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ
  • امریکی ایئرپورٹ پر دو طیارے ٹکرا گئے، ویڈیو سامنے آگئی