8فروری کو عوامی مینڈیٹ کی توہین کرکے حکومت قائم کی گئی،جماعت اسلامی
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
لاہور ( جسارت نیوز)امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کی اپیل پرپنجاب سمیت ملک بھر میں 8فروری کی انتخابی دھاندلی اورفارم 47کی جعلی حکومت کے خلاف یوم سیاہ منایا گیا۔ امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے کہا ہے کہ8فروری کے انتخابات پر جوڈیشنل کمیشن بنایا جائے اور ذمہ داران کو ہمیشہ کے لئے نا اہل قرار دیکر جمہوریت کے عمل کو شفاف بنایا جائے۔عوام مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہئے۔ 8فروری ملکی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن ہے۔ اس دن عوامی رائے کی توہین کرکے فارم 47کے ذریعے ایک جعلی حکومت ملک و قوم پر مسلط کی گئی تھی۔جس نے اپنی نا اہلی اور کرپشن میں کوئی ثانی نہیں چھوڑا۔ پاکستان کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کرپٹ عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو جتنا بڑا کرپٹ ہے اس کے پاس اتنا ہی بڑا عہدہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات 2024ہیرا پھیری،جبر و دھاندلی کی بد ترین مثال تھے جس میں مقتدر حلقوں نے مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو دوسری جماعتوں سے چھین کر مینڈیٹ دیا۔ آج اس کا نتیجہ قوم کے سامنے ہے۔ حکمرانوں کے پاس اہلیت، صلاحیت اور قابلیت نام کی کوئی چیر بھی نہیں۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔عوام ہر جگہ بے یارو مددگار ہیں۔ صرف چھ ماہ کے دوران 33فیصد صنعتی یونٹس بند ہو چکے ہیں قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی کارکردگی صرف بیانات اور اشتہارات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔قومی خزانے سے اربوں روپے لوٹائے جا رہے ہیں جس کا تصرف اگر ٹھیک اور ڈھنگ سے کیا جاتا تو بہت سارے ادھورے منصوبے مکمل ہو سکتے تھے۔موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کے نقش قدموں پر چل رہی ہے۔ ان لوگوں سے خیر کی توقع نہیں۔ یہ لوگ قومی خزانے پر بھاری بوجھ ثابت ہوئے ہیں۔محمد جاوید قصوری نے اس حوالے سے مزید کہا کہ جماعت اسلامی سیاست سے بالاتر ہو کر جمہوری اقدار کی پاسداری کی بات کرتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی
پڑھیں:
جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا یوم سیاہ
8 فروری 2025 کو جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا انہوں نے کہا کہ 8 فرور ی ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے بھی اسی تاریخ کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا۔ تیسری طرف اسماعیلی فرقے کے لوگوں نے پرنس عبدالکریم آغا خان کی وفات پر 8 فروری کو یوم سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی نے ملک گیر احتجاج کیا۔ کراچی میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے ایک بہت بڑا مظاہرہ کیا گیا۔
پاکستان جن بڑے بڑے مسائل سے دوچار ہے اس میں ایک مسئلہ ملک میں آزادانہ، دیانتدارانہ اور منصفانہ انتخاب کا بھی ہے۔ ترجیحات کا تعین کیا جائے تو میرے نزدیک سب سے اوّل مسئلہ ایک صاف ستھرے، شفاف انتخابات کے انعقاد کا ہے جو ملک میں اب تک نہ ہوسکا۔ جب ہم شفاف انتخابات کی بات کرتے ہیں تو اس کا آغاز ملک کی مردم شماری سے ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہر دس سال بعد مردم شماری ہوتی ہے اس مدت کی پابندی بہت کم ہوتی ہے اور جب بھی مردم شماری ہوئی اس پر بعد میں بہت سارے سوالات اُٹھ جاتے ہیں۔ مہینوں پر مشتمل مشقت سے لبریز پورے ملک میں یہ کام ہوتا ہے جس میں کروڑوں روپے کے اخراجات کے علاوہ بے پناہ افرادی وسائل بھی کام میں آتے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں ہمارے ملک کے طاقتور لوگ بالخصوص جاگیرادار طبقہ مردم شماری کے کام میں اپنے اثر رسوخ کو استعمال کرکے اس کی شفافیت کو داغدار کردیتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال کراچی ہے جس کی پچھلی مردم شماری میں ڈیڑھ کروڑ کی آبادی دکھائی گئی ہے جبکہ اس وقت تمام ہی اصحاب الرائے لوگوں کا خیال تھا کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے زائد ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کی مردم شماری میں اپنے سرکاری و سیاسی دبائو کو استعمال میں لا کر عملے کو قابو کرلیتی ہے اور ان کے ذریعے سے فراڈ پر مبنی مردم شماری کرائی گئی جس میں انتہائی چالاکی سے اندرون سندھ کے دیہی علاقوں کی آبادی کو جعلی طریقہ اختیار کرکے بہت زیادہ دکھایا جاتا ہے جبکہ کراچی اور حیدرآباد شہر کی آبادی کو جان بوجھ کر کم دکھایا گیا۔ اسی مردم شماری کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بنائی جاتی ہیں لہٰذا پیپلز پارٹی جو پچھلے پندرہ بیس سال سے صوبے میں برسر اقتدار ہے وہ اپنے سرکاری اثر رسوخ سے اپنی مرضی کی مردم شماری کروا کے شہروں کی قومی و صوبائی کی نشستیں کم اور دیہی علاقوں کی قومی اور صوبائی کی نشستیں بڑھوا لیتی ہے۔ جس کا اسے سیاسی فائدہ ہوتا ہے۔
شفاف الیکشن کی دوسری شرط انتخابی فہرستوں کا صاف و شفاف ہونا ہے۔ بدقسمتی سے اس میں بھی کراچی والوں کے ساتھ بڑی زیادتی اور نا انصافی ہوتی ہے۔ پچھلے دس پندرہ برسوں میں کم و بیش ایک کروڑ سے زائد لوگ اندرون سندھ سمیت ملک کے دیگر تینوں صوبوں سے کراچی منتقل ہوئے ہیں۔ روزگار اور کار وبار کے حوالے سے شہروں کی طرف آنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے لیکن شکایت اس وقت ہوتی ہے جب انتخابی فہرستوں میں ایسے لوگ اپنے دیہات والے گھر کے پتا لکھواکر وہاں ووٹ ڈالتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ جو لوگ کراچی شہر میں روزگار یا ملازمت کررہے ہیں اور وہ یہاں کا انفرا اسٹرکچر بھی استعمال کررہے ہیں ان کا اندراج اسی شہر میں ہونا چاہیے لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے اس بڑی شکایت کے علاوہ انتخابی فہرستوں کی تشکیل میں اور بھی شکایات و اعتراضات ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو ان تمام شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے ہماری تجویز ہے کہ نادرا کے ریکارڈ کے ذریعے انتخابی فہرستوں کی تشکیل ہونا چاہیے۔ شفاف انتخاب کی تیسری شرط قومی اور صوبائی اسمبلی کی منصفانہ تشکیل ہے کراچی ہی میں دیہی علاقوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی نشستوں میں ووٹروں کی تعداد شہری علاقوں کی نشستوں کے ووٹروں سے بہت کم ہوتی ہے۔ پچھلے بلدیاتی انتخاب میں پی پی پی نے یہی تو کیا ہے کہ کراچی کے دیہی علاقوں کی یوسیز پندرہ سے بیس ہزار ووٹروں پر مشتمل ہے جبکہ شہر ی علاقوں کی یوسیز میں پچاس سے ستر ہزار ووٹرز ہیں۔ اسی ضمن میں یہ بھی بتاتے چلیں کہ وسائل کی تقسیم میں پی پی پی کی صوبائی حکومت بددیانتی اور کراچی کے ساتھ ناانصافی سے کام لے رہی ہے جہاں پی پی پی کے یوسی چیئرمین ہیں وہاں ترقیاتی کاموں کے لیے ایک کروڑ ماہانہ دے جارہے ہیں اور جہاں جماعت اسلامی کے یوسی چیئرمین ہیں وہاں بارہ لاکھ روپے ماہانہ دیے جارہے ہیں۔ شفاف انتخاب کی چوتھی شرط امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال آئین کی شقیں 62 اور 63 کی روشنی میں کی جائے تاکہ پہلے ہی مرحلے میں مشکوک کردار کے لوگ انتخابی عمل سے علٰیحدہ ہوجائیں۔ شفاف انتخاب کی پانچویں شرط پرامن اور آزادانہ ماحول میں ہر امیدوار کو انتخابی مہم چلانے کے مواقع فراہم کے جائیں۔ اور اس حوالے انتظامیہ کو بالکل غیر جانبدار رہنا چاہیے بدقسمتی سے پچھلے تیس برسوں میںکراچی میں ایم کیو ایم کی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کی وجہ سے دیگر جماعتوں کو اپنی مہم چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا انتظامیہ بھی اسی تنظیم کا ساتھ دیتی تھی۔ شفاف انتخاب کی چھٹی شرط انتخاب والے دن پولنگ اسٹیشنوں میں ایسا پرامن ماحول قائم کیا جائے کہ ووٹرز اپنی مرضی سے اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ ڈال سکیں، کسی پارٹی کو یا کسی غنڈہ گروپوں کو پولنگ اسٹیشن پر قبضہ کرکے جعلی ووٹ بھگتانے کا موقع نہیں دیا جائے۔ اسی لیے تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ فوج کی نگرانی میں ووٹنگ ہونا چاہیے، یعنی پولنگ اسٹیشن کے اندر فوج ہو تاکہ کسی شرپسند کو گڑبڑ کرنے کا موقع نہ مل پائے۔ شفاف الیکشن کی ساتویں شرط یہ جس پولنگ اسٹیشن کا رزلٹ مکمل ہوجائے تو اس کی ایک ایک کاپی امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کو دی جائے جس پر پریزائڈنگ آفیسر کے دستخط لاذمی ہو۔ اسی رزلٹ کو متعلقہ آر او اوپر بھیجے اور ساتھ ہی میڈیا کو بھی اسی رزلٹ کی کاپی دی جائے۔
یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں سے دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلا کا آغاز ہوتا ہے کسی ادارے کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اس دن ریٹرننگ آفیسر کو بے دست و پا کرکے خود اپنے مرتب کردہ نتائج کا اعلان کرائے۔ پچھلے سال 8 فروری کے انتخابات میں یہی تو ہوا کہ ریٹرننگ آفیسروں کو فارم 45 والے نتیجے کا اعلان نہیں کرنے دیا اور جو نتیجہ کہیں اور سے ان کے پاس آیا اسی نتیجے کا گن پوانٹ پر اعلان کیا گیا۔ اگر خدا نہ خواستہ اسی طرح انتخابات میں عوامی جذبات کو کچلا جاتا رہا تو اس کے بڑے خوفناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ کراچی میں ووٹروں نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو ووٹ دیے قومی و صوبائی کی نشستیں اس ایم کیو ایم کو دے دی گئیں جسے کراچی کے عوام پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔
پاکستان میں اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان کوئی بھی الیکشن شفاف الیکشن نہیں تھا 1970کے انتخاب کو غیر جاندارانہ کہتے ہیں لیکن وہ بھی نہیں تھا مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے جو کچھ کیا وہ پوری دنیا جانتی ہے یہ ٹھیک ہے کہ عوامی لیگ کو وہاں کے عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی لیکن اس نے اپنی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے ذریعے مخالف سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم ہی چلانے نہیں دی۔ تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیں وہ ٹھیک تھا تو پھر اس میں کامیاب ہونے والی پارٹی کو اقتدار کیوں نہیں دیا گیا۔