لاہور+اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار+نمائندہ خصوصی) پنجاب اسمبلی میں دولت مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن (CPA) کی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی دو روزہ کانفرنس اختتام پذیر ہو گئی، جس کے اختتام پر ''چارٹر آف لاہور'' کی منظوری دی گئی۔ قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ کانفرنس میں جمہوری روایات، آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے، خواتین، نوجوانوں اور اقلیتوں کے لیے موثر قانون سازی، آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور سوشل میڈیا کے ضابطے کے لیے مشترکہ تعاون پر زور دیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی موجودہ دور کا ایک بڑاچیلنج ہے، اہم مسائل پر تبادلہ خیال کرنا پائیدار اور جامع مستقبل کیلئے ضروری ہے۔ قانون سازی کے ذریعے افراد کو با اختیار اور معاشرے کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے، معیاری صحت اور تعلیم تک رسائی خوشحال معاشرے کی بنیاد ہے، جنوب مشرقی ایشیا کو غربت اور عدم مساوات جیسے مسائل درپیش ہیں۔ پارلیمان صرف قانون ساز ادارے نہیں بلکہ تبدیلی کے انجن ہیں، چیلنجز پر قابو پانے کیلئے سرحدوں سے بالاتر علاقائی تعاون اور مشترکہ ذمہ داری کا مظاہرہ کر نا ہو گا۔ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا جمہوریت کو مستحکم کرنے اور عوامی خدمات کو زیادہ موثر بنانے کے لیے ضروری ہے، مقامی حکمرانی عوام کو براہِ راست فیصلہ سازوں سے جوڑتی ہے، احتساب کو بہتر بناتی اور متنوع آوازوں کو سننے کا موقع فراہم کرتی ہے، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو فروغ دینے سے جمہوریت کو مزید فعال بنایا جا سکتا ہے۔ دولتِ مشترکہ کی پارلیمانی ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس کانفرنس کا انعقاد ممکن بنایا۔ جنوب مشرقی ایشیا اپنی متنوع ثقافتوں، تاریخوں اور اقتصادی مواقع کے ساتھ ساتھ غربت، عدم مساوات، شہری ترقی، موسمیاتی تبدیلی اور ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ جن سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات درکار ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے سپیکر ملک محمد احمد خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سماجی و اقتصادی اثرات، جدید پالیسی سازی، پارلیمانی سفارت کاری، علاقائی تعاون اور مقامی حکمرانی کو مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ اقدامات ضروری ہیں۔ غلط معلومات، نفرت انگیز تقاریر اور ڈیجیٹل بدعنوانی کے خاتمے کے لیے متحد کوششیں درکار ہیں۔ ملک محمد احمد خان نے پہلی مشترکہ ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی علاقائی کانفرنس میں '' چارٹر آف لاہور ''پیش کیا، جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پارلیمان جامع طرز حکمرانی، احتساب اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور ہمیں مشتر کہ قانون سازی، جدید پالیسی سازی اور بین الپارلیمانی تعاون کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی، سماجی و اقتصادی عدم مساوات اور تکنیکی ترقی جیسے چیلنجز کا سامنا کرنا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آزاد جموں و کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونے کے بعد آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی حقیقی نمائندہ اسمبلیاں دولت مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔ سپیکر پنجاب اسمبلی نے اس موقع پر اس پیشرفت کو ایک اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے دعا کی کہ دونوں اسمبلیاں جلد مکمل رکنیت حاصل کریں تاکہ وہ عالمی پارلیمانی برادری میں اپنا مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ ڈپٹی سیکرٹری جنرل سی پی اے جاروس ماتیا نے کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر ووٹ آف تھینکس پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس بین الاقوامی پارلیمانی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی ہے۔ تمام مندوبین کی فعال شرکت اور گہری وابستگی نے اس اجتماع کو کامیاب بنایا۔ سری لنکا کے ممبر آف پارلیمنٹ محمد ملا فرمحمد منیر نے بھی کا نفرنس کے انعقاد پر اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ '' یہ اجلاس خطے کے قانون سازوں کو ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے اور باہمی تعاون کو مضبوط کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ ''پاہنگ اسٹیٹ قانون ساز اسمبلی ملائیشیا کے سپیکر دا تو سری حاجی موحد شر کار بن حاجی شمس الدین نے بھی اپنے خطاب میں کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ قبل ازیں کانفرنس دوسرے روز بلدیاتی نظام کے حوالے سے قانون سازی، موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی الودگی کے حوالے سے قانون سازی، پارلیمانی اصلاحات، مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل تعاون اور سوشل میڈیا گورننس، صحت اور تعلیم: جامع سماجی ترقی کے حوالے سے الگ الگ اجلاس منعقد ہوئے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جنوب مشرقی ایشیا موسمیاتی تبدیلی کے لیے

پڑھیں:

پی ٹی آئی اگراسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پرآکر کہے کہ سویلین بالادستی بیانیہ جھوٹا تھا

اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ 12 اپریل 2025ء ) وزیرمملکت برائے قومی ثقافت و ورثہ حذیفہ رحمان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی اگراسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پرآکر کہے کہ سویلین بالادستی بیانیہ جھوٹا تھا،یہ عوام کو بتائیں کہ جھوٹا بیانیہ مقبولیت کیلئے تھا جبکہ حکومت میں گوڈے پکڑ کر آنا ہے، اسٹیبلشمنٹ اگربات کرنا چاہتی ہے تو بالکل بات کرلیں، ان کی منافقت والی دوغلی پالیسی مناسب نہیں۔

انہوں نے ہم نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی استحکام سے ہی معاشی استحکام آسکتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ سیاستدانوں کو گلے لگا کر ہی سیاسی مسائل کا حل نکلتا ہے،پچھلے دس سالوں میں کسی اینکر نے آج تک اس پر بات نہیں کی کہ سربراہان مملکت یا سابق وزرائے اعظم پاکستان میں علاج کیوں نہیں کراتے؟پاکستان میں لاہور ایسا شہر ہے جہاں ایسے ہسپتال اور ڈاکٹر موجود ہیں جن سے رائل فیملی علاج کراتی رہی ہے، ڈاکٹر حسنات، ڈاکٹر شہریار، عامر عزیزسمیت ایسے بڑے نام موجود ہیں، میرا خود میڈیکل فیملی سے تعلق ہے، میرے والد میڈیکل فزیشن اور شعبہ جات کے ہیڈ بھی رہے، جب بھی کوئی سربراہ مملکت کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کرانے آتا ہے تو ڈاکٹر کوئی فیصلہ ہی نہیں کرپاتا ، کیونکہ ڈاکٹر جب علاج کرتا ہے تو اس پر کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہیئے، لیکن سربراہ مملکت کے عہدے کا ڈاکٹر پر پریشر اتنا ہوتا ہے کہ وہ علاج نہیں کرپاتا، کوشش ہوتی ہے کہ ایسی شخصیت کو کسی ایسے ڈاکٹر کے پاس بھیجا جائے جس پر کوئی پریشر نہ ہو۔

(جاری ہے)

نوازشریف کو جب باہر بھیجا گیا تو بہترین ڈاکٹرز کا بورڈ تھا جس نے باہر بھیجنے کا فیصلہ کیا ، ان کو لگتا تھا کہ نوازشریف سابق وزیراعظم اور ایک پارٹی کے سربراہ ہیں، نوازشریف کو دل کا ایک پیچیدہ مرض لاحق ہے اور اس کا علاج دنیا کے دو تین ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ میں بتا دوں کہ نوازشریف کا پلیٹ لیٹس کا کوئی ایشو نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ کیا ہمیں پی ٹی آئی سے بات کرنی چاہیئے، تو باکل ہم بات کرنے کو تیار ہیں، کیونکہ کوئی حکومت اپوزیشن کے بغیر نہیں چل سکتی ، بات چیت کیلئے جب حکومت کو بڑا دل کرنا چاہیئے تو پھر اپوزیشن کو بھی بڑا دل کرنا چاہیئے، پی ٹی آئی ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی ٹاپ لیڈرشپ پر تنقید کرتی ہے تو پھر ہم کیسے بات کریں؟پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پر آن ایئر کہے کہ ہمارا سویلین بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی مضبوطی کا بیانیہ جھوٹا تھا، یہ جھوٹا بیانیہ عوام میں مقبولیت کیلئے اپنایا تھا ویسے ہم نے اسٹیبلشمنٹ کے گوڈے پکڑ کر حکومت میں آنا ہے، اسٹیبلشمنٹ اگر پی ٹی آئی سے بات کرنا چاہتی ہے تو یہ بالکل بات کرلیں، ایک طرف وزیراعظم کٹھ پتلی کا بیانیہ بناتے ہیں اور خود اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں تو یہ منافقت والی دوغلی پالیسی مناسب نہیں۔

وزیراعظم اور بلاول بھٹو جب مل بیٹھیں گے تو پیپلزپارٹی کے تحفظات دور ہوجائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب ایسڈ کنٹرول ایکٹ منظور؛ بغیر لائسنس تیزاب کی فروخت ناقابل ضمانت جرم قرار
  • متحدہ عرب امارات میں عدالتی نظام اور عوامی سروسز کو مصنوعی ذہانت سے جوڑنے کا فیصلہ
  • پنجاب اسمبلی میں ایسڈ کنٹرول بل منظور ہو گیا
  • پنجاب ایسڈ کنٹرول بل 2025 قائمہ کمیٹی میں منظور
  • پی پی کا عدم تعاون کا فیصلہ،قومی اسمبلی میں حکومت کی اہم قانون سازی متاثر ہونے کا خدشہ
  • محسن نقوی سے برطانوی رکن پارلیمنٹ افضل خان کی ملاقات، دہشتگردی کے خلاف مشترکہ اقدامات پر زور
  • سرینگر میں رکن پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی کی اہم پریس کانفرنس
  • لاہور،وزرات مذہبی امور کے زیراہتمام بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس، اتحاد پر زور
  • پی ٹی آئی اگراسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پرآکر کہے کہ سویلین بالادستی بیانیہ جھوٹا تھا
  • جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس نے وقف قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا