امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار اقتدار سنبھالتے ہی امریکی پالیسیوں بہت سی تبدیلیاں کی ہیں، جس میں ان کی طرف سے یو ایس ایڈ پروگرام کی فنڈنگ روکنے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے سے دنیا بھر کے متعدد ممالک میں چلنے والے یو ایس ایڈ پروگرام بھی منجمد ہو گئے ہیں، ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔

واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کے بعد پاکستان میں تقریباً 845 ملین ڈالرز سے زیادہ کے منصوبے منجمند ہو گئے ہیں، سینکڑوں پاکستانیوں کی نوکریاں بھی خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ نوکریوں کے علاوہ سب سے زیادہ نقصان اس امداد سے مستفید ہونے والے افراد کا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:یو ایس ایڈ مجرم تنظیم ہے، اس کے ’مرنے‘ کا وقت ہوا چاہتا ہے، ایلون مسک

پاکستان میں یو ایس ایڈ کے آپریشنز بند ہونے سے کیا اثر پڑے گا؟ کیا واقعی اس فنڈنگ سے مستفید ہونے والے افراد کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا؟ اس حوالے سے ’وی نیوز‘ نے بعض ماہرین سے رائے لی ہے۔

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے معاشی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا ہے کہ ایک کتاب کچھ عرصہ پہلے چھپی تھی، جس کا نام ’بیلٹ وے بینڈٹس‘ہے۔ جیسے پاکستان میں رنگ روڈ ہوتی ہے ایسے ہی ایک بیلٹ وے ہے جو واشنگٹن ڈی سی کے ارد گرد گھومتا ہے، یو ایس ایڈ کے 6 سے 7 بڑے کنسلٹنٹس دفاتر اس روڈ پر موجود ہیں۔

اس کتاب میں انہوں نے یہ تفصیل سے بتائی ہے کہ یو ایس ایڈ بیرون ممالک پر جتنا پیسہ خرچ کرتی ہے اس کا 60 سے 70 فیصد واپس امریکا چلا جاتا ہے، یہ اس کا ایک پہلو ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایلون مسک نے جو یو ایس ایڈ بند کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یو ایس ایڈ کے دفتر گیا اور وہاں سے زبردستی سارا ڈیٹا حاصل کیا، وہ ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ جن ممالک کو یو ایس ایڈ کی فنڈنگ دی گئی ہے، اس میں بہت بڑے پیمانے پر فراڈ ہوا ہے۔

ڈاکٹر فرخ سلیم نے مزید کہا کہ اس میں پاکستان کے بھی 2 سے 3 بڑے پراجیکٹس کا ذکر کیا گیا ہے۔ پاکستان میں سڑک کی تعمیر کے ایک پراجیکٹ میں یو ایس ایڈ نے 30 ملین ڈالر دیے تھے لیکن وہ سڑک آج تک نہیں بن سکی۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ یو ایس ایڈ کی جانب سے ایک فنڈ سیاسی جماعتوں کو دیا گیا تھاجو تقریباً ساڑھے 21 ملین ڈالر کا تھا۔ یہ رقم اس لیے دی گئی تھی تاکہ سیاستدانوں کو جمہوریت سکھائی جائے لیکن اس کا آوٹ پٹ بھی تقریباً زیرو ہے۔

مزید پڑھیں:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یو ایس ایڈ کو کیوں بند کرنا چاہتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ اس لیے یہ فنڈ بند ہونے سے عام پاکستانی کو کوئی نقصان ہوگا، کیونکہ یہ فنڈز پہلے بھی عوام تک نہیں پہنچ پائے، سب لوگ فراڈ کر کے بس پیسا کھاتے تھے جبکہ زمین پر کچھ موجود نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس سال 845 ملین ڈالر کے پراجیکٹس بند ہوئے ہیں، ’امریکا میں کانگریس نے یو ایس ایڈ کے آپریشنز پر ایک سماعت کی تھی، اس سماعت میں جن 3 ممالک کا ذکر کیا گیا ان میں پاکستان، ایران اور ہیٹی شامل تھے۔

سماعت کے دوران ان تینوں ممالک کے حوالے سے کہا گیا کہ یو ایس ایڈ نے یہاں جو بھی پیسے خرچ کیے ہیں ان کا زمینی حقائق سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ خود ہی یہ پیسا کھا جاتے ہیں‘۔

سماجی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ یو ایس ایڈ کی فنڈنگ رکنے کے بعد اس کا منفی اثر ضرور پڑے گا کیونکہ پاکستان میں یو ایس ایڈ کی فنڈنگ زیادہ تر تعلیمی شعبے میں استعمال ہو رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیے: افغانستان: اربوں ڈالر امداد کے باوجود خواتین سمیت 4 کروڑ افراد سنگین صورتحال کا شکار، رپورٹ

ان کا کہنا تھا کہ اب تو ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ بھی بند کر دی گئی ہے اور اس کا اثر بھی پاکستان پر پڑےگا کیونکہ ڈبلیو ایچ او پولیو، معذور افراد وغیرہ کے لیے پاکستان میں کافی کام کر رہا تھا۔

ان کا مزیدکہنا ہے کہ پاکستان میں این جی اوز بالکل بھی خود کفیل نہیں ہیں، ان کا کام ہر طرح سے ڈونر پر منحصر ہوتا ہے۔ اس سے ان کا کام بھی متاثر ہوگا۔ان این جی اوز میں اب بے روزگاری بھی بڑھے گی۔

انہوں نے کہا کہ این جی اوز سے لوگوں کی نوکریاں تو جائیں گی ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ جو لوگ اس سے مستفید ہو رہے تھے وہ بھی شدید متاثر ہوں گے۔ پبلک سیکٹر میں گورنمنٹ کی فنڈنگ اتنی کم ہے، بیرونی فنڈنگ سے جو تھوڑا بہت کام ہو رہا تھا اب وہ بھی نہیں ہو پائے گا۔

 ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ گورنمنٹ تو بالکل بھی این جی اوز کو ٹیک اوور نہیں کرے گی کیونکہ پاکستان میں این جی اوز سیکٹر کو چلانے والے غیر ملکی ڈونرز ہیں۔ ’مجھے نہیں لگتا کہ گورنمنٹ این جی اوز کو کوئی سپورٹ کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ان تمام پراجیکٹس کو دیکھے، جن پراجیکٹس کے لیے یو ایس فنڈنگ کر رہا تھا، اس حوالے سے ان این جی اوز کا تعین بھی کیا جائےاور ان کی کارکردگی کو دیکھا جائے۔ اور جو این جی اوز اچھا کام کر رہی ہیں، گورنمنٹ ان کو خود اپنی فنڈنگ کے ذریعے سپورٹ کرے۔

یہ بھی پڑھیے: امریکی رکن کانگریس نے افغان طالبان کی مالی امداد سے متعلق خطرے کی گھنٹی بجادی

این جی او سرچ فار کامن گراونڈز میں کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرنے والی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے کے پاس صرف یو ایس ایڈ نہیں بلکہ مخلتف ڈونرز کے پراجیکٹس ہیں تاہم جس پراجیکٹ کے لیے وہ کام کر رہی تھیں وہ یو ایس ایڈ کا ہی تھا۔

انہوں نے بتایا کہ فی الحال ان کے پراجیکٹ کی تمام تر سرگرمیاں 90 روز کے لیے معطل ہو گئی ہیں۔ اس لیے وہ تمام لوگ جو اس پراجیکٹ کے ساتھ براہ راست جڑے ہوئے تھے ان سب افراد کو فی الحال نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ باقی ڈونرز کے تمام پراجیکٹس پر کام جاری ہے، صرف اور صرف یو ایس ایڈ کے پراجیکٹس کا کام روک دیا گیا ہے۔ کام کو روک دینے کا آرڈر بھی یو ایس ایڈ کی جانب سے آیا تھا۔ اس لیے 90 روز کے لیے تمام سرگرمیوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی معلوم نہیں کہ آیا امریکی حکومت یو ایس ایڈ کے ان پراجیکٹس کو دوبارہ سے فعال کرے گی یا نہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا یو ایس ایڈ کی فنڈنگ سے مستفید ہونے والے افراد کو بھی اطلاع کر دی گئی ہے کہ یہ تمام پراجیکٹس عارضی طور پر بند کر دیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان تمام مستحق افراد کو کہہ دیا جانا چاہیے کہ آپ کو جو فنڈز مل رہے تھےاب وہ نہیں ملیں گے کیونکہ اگر ان کے لیے مقامی سطح پر بھی فنڈز اکھٹے کرنا چاہیں تو بھی ایسا ممکن نہیں ہے کہ اتنے فنڈز اکھٹے ہو سکیں، امید ہے کہ 90 روز میں چیزیں مزید واضح ہو جائیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا امریکی انتظامیہ امریکی صدر بند پابندی پاکستان پراجیکٹ پراجیکٹس ڈبلیو ایچ او پولیو ڈونلڈ ٹرمپ فنڈنگ کنسلٹنٹس دفاتر مستحق افراد ہیٹی یو ایس ایڈ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا امریکی انتظامیہ امریکی صدر پابندی پاکستان پراجیکٹ پراجیکٹس ڈونلڈ ٹرمپ مستحق افراد ہیٹی یو ایس ایڈ انہوں نے کہا کہ یو ایس ایڈ کے پاکستان میں کہنا تھا کہ کا کہنا تھا کے پراجیکٹ جی اوز ان کا کہنا ملین ڈالر افراد کو دیا گیا کام کر اس لیے کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

مذاکرات من پسند نتائج کے لیے کیوں؟

وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے مذاکرات کی دوسری پیشکش پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے مذاکرات کی پیش کش کر کے اچھا قدم اٹھایا کیونکہ جو بھی راستہ نکالنا ہے وہ مذاکرات کے ذریعے ہی نکالنا ہے اور امید رکھنی چاہیے کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوں اور کوئی اچھا نتیجہ نکلے۔ پی ٹی آئی اپنے من پسند ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن چاہتی ہے جو حکومت کو منظور نہیں ہوگا مگر لگتا ہے حکومت دوبارہ مذاکرات چاہتی ہے، اس لیے مذاکرات ضرور ہونے چاہئیں۔

 پی ٹی آئی موجودہ حکومت سے مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتی تھی اور حکومت کو فارم47 کی پیداوار اور جعلی قرار دیتی تھی اور اپنے بانی کی ہدایت پر صرف اور صرف بالاتروں سے مذاکرات چاہتی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بھی پی ٹی آئی کے بانی و سابق وزیر اعظم نے اپنے صدر مملکت پر زور دیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے ملاقات کا اہتمام کیا جائے جس پر انھیں انکار کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر پی ٹی آئی کے صدر مملکت نے جو فوج کے سپریم کمانڈر بھی تھے سابق وزیر اعظم کے دباؤ پر کوشش جاری رکھی ۔

بالاتروں کی حمایت حاصل کرنے میں مکمل ناکامی کے بعد بانی نے 2017 میں اپنی عدالتی نااہلی کے بعد بالاتروں کے خلاف بیانیہ بنانے کے لیے یوٹرن لیا اور ان کی شدید مخالفت شروع کردی کیونکہ بالاتروں کے خلاف سب سے بڑا بیانیہ بنانے والے نواز شریف بھی بالاتروں کی مخالفت میں اس انتہا تک نہیں گئے تھے جب انھیں اقتدار سے عدالتی فیصلے کے ذریعے ہٹایا گیا تھا۔ بالاتروں کے خلاف نواز شریف کی خاموشی کے بعد موقعہ جان کر بانی پی ٹی آئی نے ملک میں جلسوں میں بالاتروں کی مخالفت شروع کی ۔

اگر بالاتر غیر جانبداری چھوڑ کر بانی پی ٹی آئی کی بات مان لیتے تو پھر صورت حال مختلف ہونی تھی مگر جب من پسند نتائج نہ نکلے تو بانی بالاتروں کے خلاف ہو گئے تھے۔ پی ڈی ایم حکومت نے اپنے دور میں بانی کو کھل کر سیاست کرنے دی اور ان کے الزامات پر خاموشی اختیار کرکے ملک کی معاشی بہتری پر توجہ مرکوز رکھی اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا جب کہ بانی نے پی ڈی ایم حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کامیاب کرایا تھا۔

فروری کے انتخابات میں ملنے والی کامیابی بانی پی ٹی آئی کو ہضم نہیں ہوئی جب کہ انھیں (ن) لیگ اور پی پی نے حکومت بنانے کی دعوت دی تھی جو انھوں نے ٹھکرا دی تھی، ورنہ اس وقت بانی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرکے اپنی رہائی سمیت بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے۔ بانی کے انکار پر (ن) لیگ اور پی پی کو مل کر حکومت بنانا پڑی جسے پی ٹی آئی مذاکرات کے بعد بھی جعلی حکومت قرار دیتی اور وہی (ن) لیگی حکومت پھر مذاکرات کی پیشکش کر رہی ہے جب کہ پی ٹی آئی اسی حکومت سے مذاکرات کر چکی ہے اور اپنے مطلوبہ مطالبات تسلیم نہ ہونے پر قبل از وقت مذاکرات ختم کر چکی ہے۔

28 جنوری کو مذاکرات میں اگر پی ٹی آئی شریک ہو کر حکومت کی طرف سے اپنے مطالبات کا جواب سن لیتی اور مذاکرات یکطرفہ طور ختم نہ کرتی تو قوم کو حقائق کا پتا چل جاتا کہ کون مذاکرات کی ناکامی یا کامیابی چاہتا تھا مگر پی ٹی آئی نے جلد بازی میں مذاکرات ختم کر دیے جب کہ ممکن تھا کہ ان مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آتا۔

جس حکومت سے بانی مذاکرات کرنا نہیں چاہتے تھے اسی حکومت سے مذاکرات بھی ہوئے مگر 14 سال کی سزا کا فیصلہ اگر مزید تاخیر سے آتا اور حکومت پی ٹی آئی کے کچھ مطالبے مان لیتی تو پی ٹی آئی مذاکرات ختم نہ کرتی مگر بانی نے سزا کے بعد سمجھ لیا کہ ان کی رہائی اب ناممکن ہے انھوں نے من پسند نتیجہ نہ نکلنے پر مذاکرات ہی ختم کرا دیے جو بانی کا غلط اور ذاتی مفاد کا فیصلہ تھا۔ مذاکرات ناکام نہیں ہوئے تھے جو حکومت جاری بھی رکھنا چاہتی تھی اور اب بھی چاہتی ہے مذاکرات ہوں۔ وزیر اعظم کی پھر پیشکش پر پی ٹی آئی اپنے بانی کو رضامند کرے اور مزید دھمکیاں نہ دی جائیں تو مذاکرات پھر شروع ہو سکتے ہیں۔

مذاکرات کے کبھی من پسند نتائج نہیں نکلتے دونوں فریقوں کو پیچھے ہٹ کر لچک بھی دکھانا پڑتی ہے تب ہی مذاکرات کا کچھ نہ کچھ نتیجہ نکل آتا ہے مگر دھمکیاں اور بے مقصد مذاکرات کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ حکومت نے انکار نہیں کیا اور جنگوں کا فیصلہ بھی دھمکیوں سے نہیں مذاکرات سے ہوتا ہے۔ ملک میں کوئی حکومت دھمکیوں اور بلیک میلنگ سے اقتدار نہیں چھوڑتی۔ خون خرابے اور نقصانات کے بعد بھی مذاکرات کرنا ہی پڑتے ہیں۔

اس لیے جو مذاکرات پی ٹی آئی نے خود ختم کیے ہیں۔ وزیر اعظم کی نئی پیشکش پی ٹی آئی کو قبول کرکے اس کا مثبت جواب دینا چاہیے۔ مذاکرات سے انکار ملکی مفاد میں نہیں ہوتا، اس لیے من پسند نتائج کی امید رکھے بغیر دونوں سیاسی فریقوں کو کھلے دل سے ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا۔ مذاکرات سے ہی کوئی مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی چین سے قرض ری شیڈول کرنیکی درخواست
  • چین سے 3.4ارب ڈالر قرض ری شیڈول کرنے کی درخواست
  • مولانا فضل الرحمان نے 8 فروری کو ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیدیا
  • مولانا فضل الرحمان نے 8 فروری کو ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا
  • میرا بس چلے تو 15فیصد ٹیکس کم کردوں،ملکی ترقی کا سفر شروع ہو چکا، اب ہم اڑان بھریں گے، وزیر اعظم
  • ملک جب ترقی کرنے لگتاہے تو پی ٹی آئی کو انتشار کی سیاست یاد آجاتی ہے، احسن اقبال
  • مذاکرات من پسند نتائج کے لیے کیوں؟
  • ملکی اداروں کی نجکاری حکومت کے اڑان پاکستان اقدام کا حصہ ہے،وزیراعظم
  • کراچی: 24 گھنٹوں میں 9 افراد جان بحق، یہ ٹریفک حادثات کیوں ہوئے؟