سہ فریقی سیریز،نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 78 رنز سے ہرادیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
٭کیوی ٹیم کے 331 رنز کے ہدف کے تعاقب میں قومی ٹیم 254 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی
٭گلین فلپس کی دھواں دار اننگز ، 7چھکوں اور 6چوکوں کی مدد سے 106رنز بنا کر ناٹ آؤٹ
سہ فریقی سیریز کے پہلے میچ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 78 رنز سے ہرادیا۔ کیوی ٹیم کے 331 رنز کے ہدف کے تعاقب میں قومی ٹیم 254 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی۔ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور 330 کا مجموعہ بورڈ پر سجایا۔ نیوزی لینڈ کی اننگز کا آغاز ہوا تو شاہین آفریدی نے پاکستان کو بہترین آغاز فراہم کیا، انہوں نے پہلے ہی اوور میں نیوزی لینڈ کی پہلی وکٹ 4 رنز پر حاصل کرلی۔پاکستان کے خلاف نیوزی لینڈ کی دوسری وکٹ 39 رنز پر گری جب 25 رنز بنانے والے رچن رویندرا کو ابرار احمد نے آؤٹ کیا۔ کین ولیمسن اور ڈیرل میچل نے بیٹنگ لائن کو سہارا دیا اور ٹوٹل 134 پر پہنچا دیا۔ اس مجموعے پر 58 رنز بنانے والے کین ولیمسن کو شاہین آفریدی نے آؤٹ کردیا جبکہ اسی اسکور پر حارث رؤف نے ٹام لیتھم کو چلتا کیا۔وکٹ کی دوسری جانب موجود ڈیرل مچل نے ٹیم کا اسکور بنانے کا سلسلہ جاری رکھا اور گلین فلپس کے ساتھ مل کر ذمہ دارانہ بیٹنگ کرتے ہوئے ٹیم کو بڑے اسکور کی جانب گامزن کیا۔مچل 200 کے مجموعے پر 81 رنز بنا کر ابرار احمد کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوئے تو گلین فلپس اور مائیکل بریسویل نے ٹیم کا اسکور 254 تک پہنچایا جہاں شاہین نے 31 رنز بنانے والے بریسویل کی اننگز کا خاتمہ کرکے نیوزی لینڈ کو چھٹا نقصان پہنچایا۔ اسکے بعد نیوزی لینڈ کی کوئی وکٹ نہ گری اور ساتویں وکٹ پر گلین فلپس اور مچل سینٹنر نے صرف 26 گیندوں پر 76 رنز بناڈالے ۔ گلین فلپس نے دھواں دار اننگز کھیلی، وہ 7 چھکوں اور 6 چوکوں کی مدد سے 106 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے جبکہ مچل سینٹنر نے صرف 8 رنز بنائے ۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ فلپس نے شاہین آفریدی کی طرف سے کروائے گئے اننگز کے آخری اوور میں 25 رنز سمیٹے ۔ پاکستان کی طرف سے شاہین آفریدی نے 3، ابرار احمد نے 2 جبکہ حارث رؤف نے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: شاہین ا فریدی نیوزی لینڈ کی
پڑھیں:
وہ دن جس کا وعدہ ہے
بعض لوگوں کا یہ وصف رہا کہ وہ سوئے ہوئے زخموں کو جگاتے ہیں اور بس چلے تو ان زخموں پر نمک پاشی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پاکستان کے عوام ان لوگوں کو سیاسی پیش منظر سے ہٹانا بھی چاہیں تو نہیں ہٹا سکتے کہ ان کی بے اندازہ دولت دیوار بن جاتی ہے جس سے وہ ہر ایک کو خرید لینے کی قدرت رکھتے ہیں،کسی کو یاد نہ ہوتو میاں نواز شریف شریف کا یہ جملہ تو تاریخ پاکستان میں آہنی حروف سے لکھا ہوا ہے کہ ’’میں وہ تاجر ہوں جو اشیاء ہی کی نہیں ہر انسان کی قیمت بھی جانتا ہوں‘‘ اس جملے پر ولی خان مرحوم نے کہا تھا ’’جتنے قومی اسمبلی کے اراکین ہیں میرے پاس اتنے دو کروڑ ہوں تو میں اس ملک کا وزیراعظم بن سکتا ہوں‘‘ یہ بات بر سبیل تذکرہ آگئی وگرنہ آج کا موضوع تو میرے پیارے پاکستان کے قدرتی وسائل ہیں۔ چار موسم، سرسبزو شاداب سونا اگلتی زمینیں ،برف سے ڈھنپے کہسار،گہرے سمندر اور زمین کے سینے میں پوشیدہ بے انتہا خزانے جو کسی ملک کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت ہوتے ہیں ۔ہم مقدر کے اتنے دھنی ہیں کہ آبی وسائل، معدنی دولت اور آبی ذخائر سے لے کر زرعی استعداد اور توانائی کے ذرائع تک ہماری رسائی میں ہیں، لیکن ان بے بہا اور بیش قیمت وسائل کے استعمال کا صحیح سلیقہ ہمیں نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سروں سے معاشی بد حالی کے سائے نہیں ٹلے۔
توانائی کا بحران ہو یا بیرونی قرضوں کا بوجھ یہ ہمارے پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچے کی کمر پر اس وقت ہی لد جاتا ہے جب ابھی وہ رحم مادر ہی میں ہوتا ہے ۔آج پھر ہمیں بتایا جارہا ہے کہ ’’پاکستان معدنیاتی صنعت کے حوالے سے 300 ارب ڈالرز کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘ یہ ایک معمولی اعتراف ہے وگرنہ پاکستان تو معدنی حوالے سے کرومائیٹ ،جپسم ،ماربل ،چونے کا پتھر، گیس وتیل کے وسائل بھی اس سے بڑھ کر رکھتا ہے ۔ زرخیز زمین ،دریائی و نہری نظام ،گندم ، کپاس،گنا اور چاول سوا ہیں، اس پر مستزاد دریا، بارشیں، گلیشئرز اور جنگلات و ماہی گیری کے وسائل، مگر یہ کب فائدہ آزمارہے ہیں
ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کے کتنے منصوبے ان سے مستفید ہوئے ہیں اور کس دور میں ؟ریکوڈک (بلوچستان) گیس منصوبہ TAPI,CPRC منصوبہ،سینڈک ،کوہ دلانہ اور دیگر منصوبے کس کس کے شکم کی آگ بجھانے کے کام آئے ۔2008 ء سے لے کر 2013 ء تک پی پی پی کی حکومت رہی اور رینٹل پاور منصوبوں میں اربوں کی بدعنوانیاں منصہ شہود پرآئیں اوگرا کے چیئرمین کا اسکینڈل اسی زریں دور کا شاخسانہ ٹھہرا ۔2013ء سے 2018 ء تک پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا سکہ چلا ۔شفافیت اتنی کہ چینی کمپنیز کو بغیر مسابقتی بولی کے منصوبے دان کر دیئے گئے۔ 2018ء میں انصاف کے دعویداروں کو اقتدار سونپا گیا ۔ایک ریکوڈک کے تنازع کے سفارتی حل کے سوا کوئی سہرا اس کے سر نہیں بندھا اور بے اعتدالیوں کا عالم یہ کہ بجلی اور گیس کے بحران نے ایسی شدت پکڑی کہ ابھی تک جوں کا توں ہے۔ پالیسیز میں تسلسل کے فقدان کی کوئی حد نہ رہی اور بیشتر اداروں میں بہت سارے فیصلے تاخیر کی سان پر چڑھا دیئے گئے۔
2022 ء سے 2024 ء تک وجود میں آنے والی حکومتیں معاشی بحران، قرضہ جات اور شفافیت،کی ساری حدیں پار کرگئیں اور گوادر تک سنبھلنے میں نہیں آرہا کہ ماہی گیروں میں بلا کی مایوسی سرایت کر چکی ہے ۔بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں میں پی پی پی کی حکومت پہلے درجے پر رہی اسی لئے اپنی نظریاتی شناخت مٹاتے ہوئے بے چہرہ لوگوں کی معاون و بہی خواہ ہے کہ ’’انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینے کو‘‘ بہر حال نئے سرے سے چین اور دیگر یاران بے راہ روہوں کے ساتھ معدنی وسائل کے حوالوں سے منصوبوں اور معاہدوں کی صلائے عام ہے مگر کیا اعتبار ہے کہ اب کی بار بھی سب منصوبوں اور معاہدوں کے بیچ مقامی لوگوں کے حقوق کا خیال بھی رکھا جائے گا یا وہ حسب معمول بے دخلی اور ماحولیاتی بے رحمیوں کی بھینٹ چڑھا دیئے جائیں گے ؟
ہم جو سونے اور تانبے کے دنیا کے بڑے ذخائر رکھتے ہیں۔دھاتوں کی کانیں (سینڈک) ہماری معاشی حالت بدلنے کا اہم اور بڑا ذریعہ ، تھرکول ہماری توانائی کا بحران کا خاتمہ کرنے اور ہمارے مقدر کے اندھیرے مٹانے کی ضمانت، تیل ،قدرتی گیس ہائیڈرو پاور ،شمسی اور ہوائی توانائیاں کب ہمارا لیکھ بنتی ہیں ۔ میں بھی دیکھوں ،تم بھی دیکھو۔’’ وہ دن جس کا وعدہ ہے ۔‘‘