Express News:
2025-02-09@05:24:51 GMT

کارکنوں کا جذبہ دیکھ کر خوشی ہوئی، شوکت یوسفزئی

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

لاہور:

رہنما تحریک انصاف شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ سب کو پتہ ہے کہ 8 فروری کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکہ پڑا عوامی مینڈیٹ پر اور عوام کے اندر جو آگاہی عمران خان نے یا ان کی پارٹی نے پیدا کی ہے۔ 

اس کا نتیجہ ہے کہ 26 نومبر کو گولیاں چلیں، لوگوں کو مارا پیٹا گیا لیکن آج جس جوش و جذبے کے ساتھ کارکن دوبارہ نکلے تو وہ قابل دید تھا، اپنے کارکنوں کو میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اس دفعہ کارکن خود آئے تھے، یہ ان کا جذبہ تھا،مجھے بڑی خوشی ہے۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جو لوگ کہتے تھے کہ تحریک انصاف ختم ہو گئی ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن)خرم دستگیر نے کہا کہ پچھلے ایک سال میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کا جو انتشاری اور فسادی ٹیکٹک تھا حکومت پر دباؤ ڈالنے کیلیے وہ مکمل طور پر ناکام ہوا ہے، اگرچہ اس انتشاری ٹولے نے پانچ رینجرز اور ایک پولیس والے کی جان بھی لی ہے لیکن وہ نقصان جو ہے اس کی تلافی تو نہیں ہو سکتی۔

لیکن یہ بات اب ثابت ہو گئی کہ اس طرح کے متشدد فساد کے ذریعے یا احتجاج کے ذریعے حکومتوں کو پاکستان میں بدلا نہیں جا سکتا نہ ہی بدلا جائے گا،ایک سال ہو گیا پی ٹی آئی کسی بھی فورم پر الیکشن کی دھاندلی کے کوئی ثبوت اور شواہد پیش نہیں کر پائی۔

ماہر بین الاقوامی امور احمر بلال صوفی نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ خلاف توقع اس سے ادارہ اور اس کا جو کونسیپٹ ہے وہ زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آئے گا، یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جب ایک ایسا ادارہ دنیا میں موریلٹی کی بنیاد، دنیا میں انصاف کی بنیاد فراہم کرتا ہو اور اس کے بارے میں یونیورسل اور متفقہ اتفاق ہو، جب اس کی مخالفت اس طرح سے کی جائے کہ کوئی خاص ایجنڈے کیلیے کسی ایک ملک کے لیے آپ اس پر کوئی بھی قدغن کوئی بھی سینکشن اس کے آفیسرز پر لگائیں گے تو اس کے ردعمل میں لوگ اسی کو ایمفاسائز کریں گے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

سزا اور بانی کی مقبولیت

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت کا اس حد تک ڈھول پیٹا گیا ہے کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی ان کی مقبولیت کے گن گاتے نظر آتے ہیں اور اس میں وہ بھی شامل ہیں کہ جو تحریک انصاف کے سخت مخالف ہیں جبکہ ہم شروع دن سے کبھی ان کی مقبولیت کے قائل نہیں رہے اور اس کی کچھ وجوہات تھیں اور اب آہستہ آہستہ یہ حقیقت دنیا کے سامنے آتی جا رہی ہے اور جھوٹ کا یہ ڈرامہ کہ جس میں پوری دنیا کو ماموں بنایا جا رہا تھا اب اس کی حقیقت کافی حد تک کھل کر سامنے آ چکی ہے اور اگر کچھ پردہ رہ گیا ہے تو وہ بھی جلد فاش کر اصل منظر نامہ سب کے سامنے آ جائے گا اور مقبولیت کے بھرم کی حقیقت کا دنیا کے سامنے آنے کے جو اسباب ہیں اس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ خود تحریک انصاف اور بانی پی ٹی آئی ہیں ۔ یہ بات ہم کوئی ہوا میں نہیں کہہ رہے بلکہ جس طرح تحریک انصاف کی احتجاج کی تمام کالز پے در پے ناکام ہوئیں ہیں تو اصل کام انھوں نے کیا ہے اور اس میں تحریک انصاف کی قیادت کا اتنا قصور نہیں ہے جتنا کہ بانی پی ٹی آئی کا ہے اس لئے کہ تحریک انصاف میں بانی پی ٹی آئی کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا لہٰذا تحریک انصاف کے اندر کے ذرائع تو یہی بتاتے ہیں کہ سمجھانے کے باوجود بھی عمران خان کسی کی نہیں سنتے اور وہ اپنی ضد پر قائم رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک بار دو بار نہیں بلکہ بار بار احتجاجی کالز کی ناکامی کے باوجودبھی انھوں نے سبق نہیں سیکھا اور حکومت کو سبق سکھانے کے چکر میں خود انھوں نے اپنی مقبولیت کے بھرم کو چکنا چور کر دیا ۔ 2014میں عوامی تحریک کا ساتھ تھا لیکن پھر بھی چند دنوں کے بعد دھرنے کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ دن میں ویرانیاں اور شام کو کوئی دو ڈھائی سو بندہ ہوتا جسے ہزاروں کی تعداد میں دکھانے کے لئے میڈیا کو حکم جاری کیا گیا تھا ۔ 2022میں جب لبرٹی چوک لاہور سے لانگ مارچ شروع ہوا تو اس میں عوام کی اتنی تعداد بھی نہیں تھی کہ اسے جاری رکھا جا سکتا یہی وجہ ہے کہ وہ لانگ مارچ بڑی مشکل سے راوی کا پل کراس کر سکا اور اس کے بعد شاہدرے میں ایک چھوٹا سا جلسہ کر کے لانگ مارچ والے اپنے گھر اور خان صاحب اپنے گھر لوٹ گئے اور اس کے بعد دوسرے دن اگلے شہر میں ایک جلسی ہوتی اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تاوقتیکہ وزیر آباد میں فائرنگ کا واقعہ پیش نہیں آیا اور لانگ مارچ کو منسوخ کرنا پڑا لیکن پھر جس طرح بڑے دھڑلے سے نئے آرمی چیف کی تقرری کو رکوانے کے لئے راولپنڈی میں دھرنے کی کال دی تو اس میںبھی جب قابل ذکر تعداد میں لوگ نہیں آئے تو پھر وہ بھی منسوخ کرنا پڑا۔
ایک بار اسلام آباد پر چڑھائی میں ناکامی دوسری بار ناکامی اور پھر تیسری بار بھی ناکامی ۔ لاہور میں جلسہ ہوا تو چونکہ جگہ بدل گئی تھی اور وقت بھی دن کا تھا لہٰذا جعلی وڈیوز لگا کر کام چلانے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں بھی جب اسلام آباد کی پہاڑیوں کو لاہور میں دکھایا گیا تو پول کھل گیا ۔ میڈیا نے ڈی چوک پر فاتحانہ انداز میں داخل کرا کر سنسنی تو پیدا کر دی لیکن پھر جب صفائی کا فیصلہ ہوا تو گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں ڈی چوک تو کیا پورا اسلام آباد بھی خالی ہو گیا اور اس اعلان کے ساتھ خالی ہوا کہ سب کچھ اب معمول کی حالت میں ہے اور دوبارہ کچھ نہیں ہو گا ۔حد تو یہ ہوئی کہ ایک طرف سزا ہو رہی تھی اور دوسری جانب وہی اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کی کہانیاں کرائی جا رہی تھیں کہ سب سیٹ ہو گیا ہے اور وہ جو الیکشن سے پہلے نواز لیگ کہتی تھی اب وہی بات ہمارے تحریک انصاف کے دوست کہنے لگے تھے کہ ” پائین ساڈی گل ہو گئی اے “ ۔ آپ کو یاد ہے کہ تحریک انصاف کے ہمارے دوست سوشل میڈیا پر کہا کرتے تھے کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے جبکہ عمران خان کہتے تھے کہ بشریٰ بیگم ان کی ریڈ لائن ہیں ۔ ریڈ لائن کا مطلب ہے کہ پائین اسے اگر کراس کیا تو پھر پھڈا ہے لہٰذا اسے چھیڑنے کی کوشش بھی نہ کریں لیکن ہوا کیا کہ تحریک انصاف کی ریڈ لائن اور خود عمران خان کی ریڈ لائن دونوںکو احتساب عدالت سے سزا ہو گئی اور سزا بھی کم نہیں بلکہ چودہ اور سات سال کی سزائیں سنائی گئیں تو اس پر تو پورے پاکستان میں کہرام مچ جانا چاہئے تھا اور عوام کو سڑکوں پر آ جانا چاہئے تھا لیکن ہوا کیا کہ کراچی سے خیبر تک کہیں پر ایک بندہ بھی احتجاج کے لئے باہر نہیں نکلا ۔ ” او پئی ہوئی جے مقبولیت “ ۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے اس قدر سختی کی ہوئی ہے تو اس میں کون باہر نکلے تو عرض ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے جنرل ضیاءکے دور آمریت میںساٹھ ہزار کوڑے جیلیں پھانسیاں یہ سب ایسے ہی گھر بیٹھے تو نہیں کر لیا تھا آخر وہ بھی تو تمام تر تشدد کے باوجود احتجاج کے لئے نکلتے تھے لیکن یہ دلیل اس وقت ڈھیر ہو جاتی ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ چلیں باقی جگہ تو سختیاں تھیں لیکن خیبر پختون خوا میں تو تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے وہاں پر تو پشاور ، دیر ، مالا کنڈ ، مردان ، سوات ہر جگہ عوام کا جمِ غفیر سڑکوں پر ہونا چاہئے تھا پورا صوبہ جام ہو جانا چاہئے تھا اس لئے کہ اسے تو تحریک انصاف کا گڑھ کہا جاتا ہے لیکن وہاں سے بھی کسی احتجاج کی خبر نہیں آئی ۔ اس دوران وہی اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کی کہانیاں لیکن جب ان رابطوں کو لے کر حکومت نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر ایسا ہے توپھر ہم سے مذاکرات کی کیا ضرورت ہے تو انتہائی بے بس لہجہ میں بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ سر راہ ملاقات کو رابطوں کا نام دے کر مذاکرات ختم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیںاور اب آرمی چیف کو لکھے خط سے جگ ہنسائی تو جب تک تحریک انصاف دو فٹ پیچھے ہٹ کر پالیسی نہیں بدلتی تب تک مشکلات کا شکار رہے گی۔

متعلقہ مضامین

  • اسپیکر نے تحریک انصاف کو مذاکرات کی کوئی دعوت نہیں دی تھی، ترجمان قومی اسمبلی
  • مریم نوازکا ملک میں کرکٹ ٹیموں کی آمد ،سہ ملکی ٹورنامنٹ کے آغاز پر اظہار تشکر
  • پی ٹی آئی احتجاج، دفعہ144کی خلاف ورزی ،مہر بانو قریشی گرفتار، اپوزیشن لیڈر آزاد کشمیر ہاؤس اریسٹ
  • کرکٹرز کو قذافی اسٹیڈیم میں دیکھ کر ہونیوالی خوشی بیان نہیں کرسکتی: مریم نواز
  • خواجہ آصف کا بیان ان کی مایوس ذہنیت کا عکاس ہے ، شوکت یوسفزئی
  • سزا اور بانی کی مقبولیت
  • شوکت یوسفزئی کی جنید اکبر، علی امین میں اختلافات کی تردید
  • حکومت قرضے لے رہی ہے، کیا ملک قرضوں پر ہی چلانا ہے؟ شوکت یوسفزئی
  • مجھے صحت خرابی کے باعث ضمانت پر رہا کیا گیا ، کوئی ڈیل نہیں ہوئی