اسلام آباد:

سپریم کورٹ آئینی بینچ کے سینئر رکن جسٹس محمد علی مظہر نے ریگولر بینچوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ قانون اور آئین کی تشریح سے متعلق معاملات میں آئین کے آرٹیکل 191-A کے تحت اپنے دائرہ اختیار میں رہیں۔ 

انھوں نے سپریم کورٹ بینچز کے دائرہ اختیار پر لیے گئے نوٹس کے معاملہ پرآئینی بنچ کی جانب سے جسٹس منصور شاہ کے تمام اقدامات کو کالعدم قراردینے کے حوالہ سے 7رکنی بینچ کے متفقہ فیصلہ کے حق میں 20صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کردیا جس میں کہاگیا ہے کہ آئینی بینچ کسی ٹیکس کے کیس میں آئین میں ہونے والی ترامیم کے غلط یادرست ہونے کافیصلہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی ریگولر بنچ کے پاس ایسا کوئی اختیار ہے کہ وہ آئینی ترامیم یاکسی قانون کوچیلنج کرنے کے معاملہ کافیصلہ کرسکے۔

آئینی بینچ کے علاوہ کسی کی جانب سے یہ دائرہ اختیاراستعمال کرنا آئین وضابطہ کی خلاف ورزی ہوگی۔ میرے خیال میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔اگر کوئی باقاعدہ بنچ، واضح اور غیر مبہم آئینی دفعات کے باوجود حد سے زیادہ دائرہ اختیار استعمال کرتا ہے یا ٹیکس کے معاملے میں صرف جواب دہندہ کے وکیل کی دلیل کی بنیاد پر اپنی سمجھ کے بغیر مبینہ تنازع کا فیصلہ کرتا ہے، تو یہ 191-A کے خلاف اور یہ قانونی چارہ جوئی کے مترادف ہوگا۔

انہوں نے لکھا کہ دائر اختیار سے تجاوز یا کیس سماعت کیلئے مقرر کرنے کی بجائے معاملہ پریکٹس اینڈ پراسیجر ایکٹ کے تحت قائم کمیٹی کو بھیجنا بہتر ہوگا۔ ججز نے آئین و قانون کے تحفظ اور پاسداری کا حلف اٹھارکھا ہے،میرا اس بات پرپختہ یقین ہے کہ ایک آئینی جج کاکردار ایک بادشاہ سے مختلف ہے۔

بادشاہ اپنی مرضی کے مطابق احکامات جاری کرسکتاہے جبکہ ایک آئینی جج کو اس بات کاہمیشہ خیال رکھنا چاہیئے کہ انہیں آئین کے تحت تشریح اورنفاذ کاکام سونپا گیا ہے اور وہ آئین و قانون پر عمل کے پابند ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 191-Aمیں سپریم کورٹ کے آئینی اور ریگولربنچز کے دائرہ اختیارکاواضح طور پر تعین کردیا گیا ہے۔

انہوں نے نوٹ میں لکھا کہ آئینی بینچ نے درست طور پر 28 جنوری 2025 کو ریگولربینچ کی جانب سے 13جنوری اور 16 جنوری 2025کو جاری احکامات کودائرہ اختیار نہ ہونے پر واپس لیا جس کے بعد ان احکامات کے نتیجہ میں تعمیر کیا گیا ڈھانچہ گرگیا لہذا کوئی بھی کی گئی کارروائی، جاری کئے گئے احکامات اوراٹھائے گئے اقدامات کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔

جسٹس مظہر کا نوٹ میں کہناتھا کہ معاملہ کھلی کتاب کی طرح ہے اوراس پر مزید غوروفکر کرنے کی ضرورت نہیں، یہ قانون کااصول ہے کہ اگر عدالت کادائرہ اختیار نہیں تواس کی جانب سے دائرہ اختیار کے بغیر دیا گیا فیصلہ کالعدم تصورہوگا، حیران ہوں اور سمجھنے سے قاصرہوں کہ کس طرح مدعا علیہ کے وکیل کے دلائل سے ریگولر بنچ کو معاونت ملی کہ وہ آئین میں دیئے گئے واضح دائرہ اختیار سے فرار اختیار کرے، آئینی ترمیم وجود رکھتی ہے جب تک کہ پارلیمنٹ انہیں ختم نہ کرے یا سپریم کورٹ انہیں کالعدم قرار نہ دے۔

انہوں نے یہ تجویز دی کہ آئینی اور ریگولر بنچز کے سامنے کیسز مقرر کرنے کے حوالے سے مستقبل میں کسی بھی قسم کے تنازع سے بچنے کے لیے سپریم کورٹ کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے کیس مینجمنٹ سسٹم وضع کیا جائے۔ انہوں نے لکھا کہ وہ آئینی بینچ کی جانب سے متفقہ طور پر ریگولر بینچ کی جانب سے احکامات کوکالعدم قراردینے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ کوئی زمینی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا اورنہ ہی موجودہ آئینی ترامیم سے آنکھیں چراسکتا ہے ،نہ ہی بہرہ بن سکتا ہے ، اس اضافی نوٹ کو موجودہ تنازع کے تناظر میں ہی پڑھنا چاہیئے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دائرہ اختیار سپریم کورٹ کی جانب سے انہوں نے وہ ا ئین کے تحت

پڑھیں:

اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی تنازع، سپریم کورٹ کا 5رکنی بینچ کل سماعت کریگا

اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی تنازع، سپریم کورٹ کا 5رکنی بینچ کل سماعت کریگا WhatsAppFacebookTwitter 0 13 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے رکن جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ کل ساڑھے گیارہ بجے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی سینیارٹی پر ہونے والے تنازع سے متعلق درخواست پر سماعت کریگا۔
سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ کے سامنے جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر جج قرار دینے، تین ججوں کی دوسرے ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر اور ٹرانسفر ہونے والے ججوں کو کام سے روکنے کے لیے دائر 7 آئینی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کردی گئی ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی آئینی بنچ کل ساڑھے گیارہ بجے سماعت کرے گا، بینچ میں جسٹس نعیم اخترافغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس شکیل احمد شامل ہیں۔سپریم کورٹ میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر جج قرار دینے کے خلاف مختلف درخواستیں دائر کی گئی ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی سمیت پانچ ججوں نے سینارٹی لسٹ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین ججوں کے ٹرانسفر کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ہے، آئینی درخواستوں میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر جج قرار دینے کی سینارٹی لسٹ کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔سپریم کورٹ میں اس حوالے سے مجموعی طور پر سات آئینی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کیا وفاقی حکومت سپر ٹیکس کی رقم اس طرح سے صوبوں میں تقسیم کر سکتی ہے؟ جج آئینی بینچ
  • آئینی بینچ میں مزید دو ججز شامل کرنے کیلیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب
  • آئینی بینچ میں مزید دو ججز شامل کرنے کا فیصلہ
  • 9 مئی حملوں کے مقدمات  4 ماہ میں نمٹانے کا حکم،  سپریم کورٹ نےہر پندرہ دن بعد رپورٹ مانگ لی
  • سپریم کورٹ نے 9 مئی سے متعلق مقدمات کا ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کردی
  • 9 مئی کے واقعات سے متعلق کیسز :سپریم کورٹ کا بڑا حکم
  • صدر مملکت کے پاس ججز کے تبادلوں کا اختیار ہے، جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس
  • اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی تنازع، سپریم کورٹ کا 5رکنی بینچ کل سماعت کریگا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی تنازع، سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ سماعت کرے گا
  • قومی اہمیت کے حامل 2 اہم کیسز آئینی بینچ میں سماعت کے لیے مقرر