Al Qamar Online:
2025-02-09@02:55:41 GMT

سلمان خان نے موٹویشنل باتوں کو فضول قرار دے دیا

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

سلمان خان نے موٹویشنل باتوں کو فضول قرار دے دیا

ممبئی: بالی ووڈ کے سپر اسٹار سلمان خان نے پہلی بار پوڈکاسٹ میں شرکت کرتے ہوئے زندگی، محنت اور کامیابی کے اصولوں پر کھل کر گفتگو کی۔

سلمان خان نے اپنے بھانجے ارہان خان کے یوٹیوب چینل "ڈم بریانی” پر پہلی بار کسی پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے کئی موضوعات پر اپنی بے باک رائے دی اور "موٹیویشنل ٹاکس” کو فضول قرار دے دیا۔

سلمان خان نے کہا کہ موٹیویشنل لیکچرز کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ سیکھنے کی لگن ہو تو دیوار یا درخت سے بھی سیکھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اگر آپ واقعی سیکھنا چاہتے ہیں تو کسی درخت یا دیوار سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے، آپ کو اپنے استاد کی بات سننی چاہیے، لیکن وہ استاد گوگل یا یوٹیوب بھی ہو سکتا ہے۔ اصل چیز ڈسپلن ہے۔”

سلمان خان نے اس بات پر زور دیا کہ لوگ جم جانے یا کچھ نیا سیکھنے میں حیلے بہانے بناتے ہیں جبکہ یہ سب مشکل اور تکلیف دہ ضرور ہوتا ہے لیکن ضروری بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "مجھے یہ موٹیویشن کی بکواس بالکل پسند نہیں۔ دانت برش کرو اور باہر نکلو۔ کوئی بھی جم جانا یا کچھ نیا سیکھنا پسند نہیں کرتا، کیونکہ یہ سب دردناک ہوتا ہے۔ لیکن خود کو اس کام پر مجبور کرنا پڑتا ہے اور پھر اس میں مہارت حاصل کرنی ہوتی ہے، جوش و خروش نہ کھوئیں، ورنہ عمر سے پہلے بوڑھے ہو جائیں گے”۔

سلمان خان نے جوش و خروش اور محنت کی اہمیت پر بھی بات کی اور کہا کہ اگر آپ زندگی میں کسی بھی چیز کے لیے اپنا جوش و خروش کھو بیٹھیں، تو آپ خود کو قبل از وقت بوڑھا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہم بچپن میں کھیلتے تھے اور تھک کر ہانپنے لگتے تھے، لیکن پھر بھی ہمارے چہروں پر مسکراہٹ ہوتی تھی اور ہم دوبارہ کھیلنے کے لیے تیار ہوتے تھے۔ آج کل لوگ تھوڑی سی محنت کے بعد سست ہو جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔”

سلمان خان نے اپنی نیند کی عادات کے بارے میں بھی بتایا اور کہا کہ ان کا سونے کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہوتا، میں زیادہ تر دو گھنٹے ہی سوتا ہوں، لیکن مہینے میں ایک بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ 7-8 گھنٹے کی نیند پوری ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ شوٹنگ کے دوران اگر چند منٹ کا وقفہ مل جائے تو بھی نیند لے لیتا ہوں۔ جب میرے پاس کرنے کو کچھ نہ ہو، تبھی میں سوتا ہوں۔ اس لیے جیل میں میں نے خوب نیند پوری کی۔”

سلمان خان نے کہا کہ کامیاب لوگ اکثر اپنی کامیابی کا مکمل کریڈٹ خود لے لیتے ہیں، جو کہ غلط ہے، آپ اپنی ناکامیوں کی مکمل ذمہ داری لے سکتے ہیں، لیکن کامیابی کبھی صرف آپ کی نہیں ہوتی۔ اگر آپ اسے اپنے سر پر سوار کر لیں، تو آپ خود کو تباہ کر لیں گے۔”

یہ انٹرویو سلمان خان کے مداحوں کے لیے ایک منفرد موقع تھا، جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے اصول، محنت، ڈسپلن اور کامیابی کے بارے میں اپنی سوچ کا کھل کر اظہار کیا۔

 

TagsShowbiz News Urdu.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل انہوں نے کہا کہ

پڑھیں:

یو لیاواسیل یونا اور پیکا ترمیمی قانون

پاکستان جب سے بنا ہے اس میں شور کرنے والوں اور شور سننے والوں کا تناسب مستقل ہے۔ پیکا ترمیمی بل کے ذریعے حکومت اس تناسب کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ اب تک حکومت شور کرنے والے پریشر ہارن پر پا بندی لگاتی آئی ہے اب یہ الزام فیک نیوز شور کرنے والے صحافیوں، میڈیا ہائو سز، سوشل میڈیا، وی لاگرز اور ناقدین پر بھی گرفت کی جاسکے گی۔ اب جھوٹ کی گنجائش نہیں ہوگی چاہے دو محبت کرنے والوں کے بیچ بولا گیا ہو۔ جھوٹ کے پائوں ہوں یا نہ ہوں اسے اب سچ سے آگے نکلنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ یہ سب کچھ بہت اچھا ہے ایسا ہی ہونا چاہیے، جھوٹ پر پابندی کیوں نہ ہو؟، جھوٹی خبر پر سزا کیوں نہ ہو؟ لیکن معاملہ نیتوں کا ہے۔ یہ پابندی ان کی طرف سے ہے جو خود جھوٹ کے چمپئن ہیں۔ تجربہ یہ ہے کہ جھوٹ کے نام پر سچ پر گرفت کی جائے گی، ناقدین کو خاموش کیا جائے گا۔ بات آگے بڑھے اس سے پہلے عالمی ادب سے ایک مختصر کہانی ملاحظہ فرما ئیے:

کچھ دن پہلے میرے آفس روم میں، میرے بچوں کی نینی (یولیا واسیلیونا) اپنا حساب کرنے آئی۔ میں نے اس سے کہا: ’’بیٹھو، یولیا… آؤ، حساب کتاب کر لیتے ہیں۔ تمہیں اکثر پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن تم اتنی شرمیلی ہو کہ خود نہیں مانگتی۔ خیر، ہم نے ماہانہ تیس روبل طے کیے تھے‘‘۔

یولیا نے کہا: ’’چالیس‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، تیس… میرے پاس ریکارڈ موجود ہے۔ میں ہمیشہ نینی کو تیس روبل ہی دیتا ہوں‘‘
اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے‘‘
میں نے پوچھا: ’’تم نے کتنے مہینے کام کیا؟
یولیا نے جواب دیا: ’’دو مہینے اور پانچ دن‘‘

میں نے کہا: ’’ٹھیک ہے، دو مہینے۔ میرے پاس یہی درج ہے، تو تم ساٹھ روبل کی حق دار ہو۔ لیکن ہم اتوار کے نو دن منہا کریں گے، کیونکہ تم نے ان دنوں میں کولیا کو نہیں پڑھایا، بس اس کے ساتھ رہی تھیں۔ پھرتم نے تین دن کی چھٹی بھی لی تھی‘‘۔

یولیا واسیلیونا کا چہرہ زرد پڑ گیا، اور اس کی انگلیاں کپڑوں میں الجھنے لگیں، مگر اس نے کوئی شکایت نہ کی۔

میں نے مزید کہا: ان تین چھٹیوں کے بارہ روبل کم ہوں گے۔ کولیا چار دن بیمار تھا، تو تم نے صرف فاریہ کو پڑھایا، سات روبل اس کے کم ہوںگے۔ پھر تین دن تمہارے دانت میں درد تھا، تو بیگم صاحبہ نے تمہیں دوپہر تک آرام کرنے دیا۔ تم نے دوپہر کے بعد پڑھایا، اس کے بھی بارہ روبل کم کریں تو کل انیس روبل کم کر کے تمہارے اکتالیس روبل بنتے ہیں، ٹھیک؟‘‘

یولیا واسیلیونا کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں، اس کی ٹھوڑی کانپنے لگی، مگر وہ اب بھی خاموش رہی۔

میں نے مزید حساب لگایا: ’’نئے سال سے پہلے تم نے ایک کپ اور پلیٹ توڑ دی تھی، اس کے بھی چھے روبل کٹیں گے۔ پھر، کولیا نے تمہاری لاپروائی کے سبب درخت پر چڑھ کر اپنی جیکٹ پھاڑ لی، اس کے دس روبل کم ہوں گے۔ نوکرانی نے ایک جوتا چوری کر لیا اور یہ سب کچھ دیکھنا تمہاری ذمے داری تھی، تو اس کے پانچ روبل اور کم کرنے پڑیں گے۔ اور 10 جنوری کو تم نے مجھ سے دس روبل ادھار لیے تھے‘‘۔

یولیا واسیلیونا نے سرگوشی کی: ’’میں نے نہیں لیے تھے‘‘۔
میں نے کہا: مگر میرے پاس ریکارڈ میں لکھا ہے‘‘
وہ بولی: ٹھیک ہے، جیسا آپ کہیں‘‘۔
میں نے حساب مکمل کیا: ’’اکتالیس سے ستائیس کم کریں تو باقی چودہ روبل بچتے ہیں‘‘۔
یولیا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، اس کی لمبی خوبصورت ناک پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔
اس نے ٹوٹی ہوئی آواز میں کہا: ’’میں نے صرف ایک بار تین روبل ادھار لیے تھے، اس سے زیادہ نہیں‘‘۔
میں نے چونک کر کہا: ’’واقعی؟ میں نے تو یہ ریکارڈ میں نہیں لکھا! تو چودہ میں سے تین نکال کر گیارہ بچتے ہیں۔ لو، یہ لو تمہارے گیارہ روبل!‘‘
میں نے سکے اس کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے انہیں جیب میں ڈال لیا اور آہستہ سے کہا:
’’شکریہ‘‘۔
مجھے غصہ آ گیا۔ میں نے پوچھا: ’’کس چیز کا شکریہ؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’پیسوں کا‘‘۔

میں نے کہا: ’’لیکن میں نے تو تمہیں دھوکا دیا، تم سے لوٹ مار کی، تمہارا حق مارا! اور تم پھر بھی شکریہ ادا کر رہی ہو؟‘‘

اس نے کہا: ’’دوسری جگہوں پر تو کچھ بھی نہیں ملتا‘‘۔

میں نے حیرت سے کہا: ’’کیا؟ تمہیں کچھ بھی نہیں دیا جاتا؟ کمال ہے! میں تو تم سے مذاق کر رہا تھا، تمہیں سبق سکھا رہا تھا! یہ لو، تمہارے اصل اسی روبل، جو میں نے تمہارے لیے لفافے میں رکھے تھے!‘‘
میں نے رقم اس کے حوالے کی اور مزید کہا: لیکن کیا تم اتنی بے بس ہو؟ تم نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟ تم خاموش کیوں رہیں؟ کیا دنیا میں ایسا ممکن ہے کہ تم اپنا حق مانگنے سے بھی قاصر ہو؟ کیا تم واقعی اتنی بے بس ہو؟‘‘

یولیا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ’’ہاں، ایسا ممکن ہے‘‘۔

میں نے اسے بغور دیکھا، پھر سوچنے لگا: کتنا دردناک ہے اس دنیا میں کمزور ہونا!

پیکا ترمیمی بل پر عمل درآمد کی صورت میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سچ بولنے والوں کا علاج یو لیا کے حساب کتاب کی طرح کیا جائے گا تب صحافی، میڈیا ہائوسز، اینکر پرسنز اور ناقدین یو لیا کی طرح ہی کمزور اور بے بس ہوں گے۔ لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ جھوٹ پر پابندی کیوں نہ ہو؟ جھوٹی خبر پر سزا کیوں نہ دی جائے؟

متعلقہ مضامین

  • ہمارے لب سی دیے گئے لیکن میری زبان بولے گی، شیر افضل مروت کی صوابی جلسے میں للکار
  • بجلی مزید سستی،وزیردفاع نے قوم کوخوشی کی خبرسنادی
  • ٹرمپ کا کینیڈا پر قبضے کی باتوں میں حقیقت ہے، جسٹن ٹروڈو
  • سزا اور بانی کی مقبولیت
  • سلمان خان کا عورتوں کے لباس سے متعلق بیان؛ سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی
  • امید ہے مولانا فضل الرحمٰن عوام کیخلاف نہیں کھڑے ہونگے: سلمان اکرم راجہ
  • چھبیسویں ترمیم؛ ہم نے مخالفت کی، مولانا نے ووٹ دیا  یہ انکی سیاست ہے، سلمان اکرم راجا
  • یو لیاواسیل یونا اور پیکا ترمیمی قانون
  • ٹرمپ نے نیتن یاہو کو بلا کر سپورٹ فراہم کی اور فضول بیان دیا: حافظ نعیم الرحمٰن