Express News:
2025-02-09@00:47:34 GMT

شہزادہ کریم آغا خان ایک عہد ساز شخصیت

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

یہ دسمبر کی ایک شام تھی کراچی کی کسی ادبی محفل میں بیٹھے ہوئے کسی نے سرگوشی میں کہا ’’شہزادہ کریم آغا خان آئے ہیں۔‘‘ ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی جیسے سب کسی درویش کی آمد کا احترام کر رہے ہوں۔ اسماعیلی مسلمانوں کے انچاسویں امام اور ترقی علم اور انسان دوستی کے علمبردار جنھیں دنیا صرف ان کی روحانی قیادت کے لیے نہیں بلکہ انسانی خدمت کے بے مثال جذبے کے لیے بھی جانتی ہے۔

شہزادہ کریم آغا خان کی زندگی ان رہنماؤں میں شمار ہوتی ہے جنھوں نے قوموں کی تقدیر بدلنے کے لیے طاقت اور سیاست کے بجائے علم خدمت اور ترقی کو اپنا ہتھیار بنایا۔ پاکستان کے طول و عرض میں ایسے بے شمار منصوبے بکھرے پڑے ہیں جو ان کے ویژن کا نتیجہ ہیں۔ شمالی علاقوں کے دیہات سے لے کر کراچی کے بلند و بالا تعلیمی اور طبی اداروں تک ہر جگہ ان کے نام کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ان کی سرپرستی میں چلنے والے آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) نے پاکستان میں صحت تعلیم دیہی ترقی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ میں بے مثال خدمات انجام دی ہیں۔

پاکستان کے شمالی علاقوں میں جہاں ایک وقت میں بنیادی سہولیات ناپید تھیں وہاں آغا خان فاؤنڈیشن نے نہ صرف اسکول اور اسپتال بنائے بلکہ ان دور افتادہ وادیوں میں علم اور ترقی کی ایسی شمعیں روشن کیں جو آج تک جل رہی ہیں۔ گلگت، ہنزہ اور چترال کے وہ علاقے جہاں کبھی غربت اور جہالت کا اندھیرا تھا آج وہاں معیاری تعلیم کی روشنی ہے۔ آغا خان یونیورسٹی اور اسپتال جو کراچی میں قائم کیے گئے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں جدید طبی سہولیات کا مرکز سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ اور ڈاکٹرز دنیا کے مختلف ممالک میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔

لیکن یہ کہانی صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ افریقہ کے صحراؤں سے لے کر ایشیا کے پس ماندہ علاقوں تک، شہزادہ کریم آغا خان کی کوششوں نے ان گنت زندگیاں بدل ڈالیں۔ انھوں نے ہمیشہ انسانی فلاح و بہبود کو اپنا مقصد بنایا۔ جدید دور میں جہاں ترقی یافتہ اقوام اپنی برتری کے نشے میں چور ہیں وہاں آغا خان چہارم نے پس ماندہ قوموں کے لیے مواقع پیدا کیے انھیں خود کفیل بنایا اور ترقی کا وہ خواب دکھایا جسے عملی جامہ پہنانا بظاہر ناممکن لگتا تھا۔

اگر پاکستان کے سماجی منظرنامے پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں ترقی اور جدیدیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن نااہلی اور فرقہ واریت رہی ہے۔ مگر آغا خان چہارم کے منصوبے ان سب سے بالاتر ہو کر خالصتاً انسانیت کی خدمت کے اصول پر استوار کیے گئے۔ ان کے تحت چلنے والے تعلیمی ادارے ہوں یا صحت کے مراکز ہر جگہ میرٹ شفافیت اور پیشہ ورانہ مہارت کی حکمرانی ہے۔ یہاں نہ تو سیاست کا زہر گھلنے دیا گیا نہ ہی کسی مخصوص طبقے کی اجارہ داری قائم ہونے دی گئی۔

اسماعیلی کمیونٹی جو دنیا بھر میں ایک مربوط اور ترقی یافتہ برادری کے طور پر جانی جاتی ہے۔ آغا خان چہارم کی قیادت میں ایک زندہ مثال بن کر ابھری۔ پاکستان میں اس کمیونٹی کا کردار ہمیشہ امن ترقی اور بھائی چارے پر مبنی رہا۔ یہ لوگ جہاں بھی گئے اپنے علم محنت اور دیانت داری اور خدمت گزاری کی بدولت جانے گئے۔ انھوں نے کاروبار میں شفافیت سماجی خدمت میں اخلاص اور علمی ترقی میں جدیدیت کو اپنا شعار بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی برادری آج دنیا کے کسی بھی ملک میں ایک ترقی پسند پرامن اور مہذب کمیونٹی کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔

شہزادہ کریم آغا خان نے ہمیشہ اتحاد ترقی اور روشن خیالی پر زور دیا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایک قوم کی ترقی صرف معاشی خوشحالی سے نہیں بلکہ فکری اور تعلیمی ترقی سے ممکن ہے۔ ان کے ادارے آج بھی اسی فلسفے پر کاربند ہیں۔ اگر ہم ان کے وژن کو سمجھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کی سوچ محض ایک مخصوص برادری کے لیے نہیں تھی بلکہ وہ ایک ایسے سماج کا خواب دیکھتے تھے جہاں ہر شخص کو برابری کے مواقع میسر ہوں جہاں غربت اور جہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور جہاں ترقی محض چند لوگوں کا استحقاق نہ ہو بلکہ ہر فرد اس میں برابر کا شریک ہو۔

شہزادہ کریم آغا خان کی زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اگر نیت خالص ہو مقصد واضح ہو اور طریقہ کار دیانت داری پر مبنی ہو تو دنیا کی کوئی طاقت ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ خدمت اور ترقی کی راہ میں نہ کوئی مذہب آڑے آتا ہے نہ کوئی سیاست اور نہ ہی کوئی جغرافیائی سرحد۔ اگر کچھ اہم ہے تو وہ صرف اور صرف انسانیت ہے۔ اور یہی وہ پیغام ہے جو ہمیں آج بھی آگے بڑھنے کا راستہ دکھاتا ہے۔

میری بڑی بیٹی فینانہ نے 1996 میں آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں کمیونٹی ہیلتھ سائنسز میں دو برس تک کام کیا۔ وہ اکثر ذکر کرتی تھی کہ وہاں نہ صرف اسے بہت سیکھنے کو ملا بلکہ وہاں ریسرچ کا بڑا اعلیٰ معیار بھی تھا، وہ اس کی پہلی نوکری تھی اور اس ادارے اور وہاں موجود ٹیم سے اس نے بہت کچھ سیکھا اور وہ آج بھی اس کے کام آرہا ہے۔

شہزادہ کریم آغا خان کا رخصت ہو جانا اسماعیلی کمیونٹی کے لیے تو بہت بڑا نقصان ہے ہی مگر اس کے ساتھ دنیا ایک بہت زیرک مدبر اور مخلص رہنما سے محروم ہو گئی۔ ان کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ پر کرنا آسان نہیں ہے۔ اس دنیا کو بہت سے شہزادہ کریم آغا خان جیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں اور شہزادوں کو ان سے کچھ سیکھنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ترقی اور اور ترقی کے لیے

پڑھیں:

غزہ سے ناانصافی

سات اکتوبر2023کو غزہ میں جو تباہی کی بنیادرکھی گئی وہ بظاہر سیز فائر اور قیدیوں کے تبادلے کے باوجود ختم نہیں ہو سکی بلکہ یہ تباہی اب علاقہ مکینوں کو بے گھر کرنے کی وسیع کوششوں میںتبدیل ہوچکی ہے یہاںکے شہریوںکو مصراور اُردن بسانے کامنصوبہ ہے غزہ کو امریکہ کے حوالے کرنے کاٹرمپ بیان اسی سلسلے کی کڑی ہے یہ منصوبہ زمین ہتھیانے کے لیے بزور انخلانسل کشی ہے اکیسویں صدی جسے تہذیب و تمدن اور انصاف کی صدی کہاجاتا ہے میں بھی مسلمانوں سے بے انصافی ہورہی ہے جب گزشتہ بیسویں صدی کے اختتامی عشروں میں یورپی علاقے بوسنیا میں مسلمانوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی کی گئی توبھی دنیاخاموش رہی اب جب مشرقِ وسطیٰ میں بدترین نسل کشی ہورہی ہے تو بھی دنیا کی خاموشی برقرارہے فلسطین جسے ستر ہزار انبیا کی سرزمین ہونے کاشرف حاصل ہے اور جہاں سے محبت وہدایت کے چشمے جاری ہوئے وہاں ہرانسانی جان غیر محفوظ ہوچکی ہے مسلمانوں کا خون ارزاں ہے دنیا کی بے حسی کی وجہ یہ ہے کہ غزہ کے لوگ مسلمان ہونا ہےں مذہبی تعصب کی بنا پر ایسی ناانصافی کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔
غزہ جسے آج خالی کراکریہودیوں کی آبادکاری کامنصوبہ ہے یہ علاقہ صدیوں سے مسلمانوں کا مسکن ہے جو غربت کے حوالے سے دنیا کے پس ماندہ ترین علاقوں میں شمارہوتا ہے یہاں صنعت وحرفت کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں اکثریت کا پیشہ کھیتی باڑی یا پھر اسرائیلی علاقے میں جاکر محنت مزدوری کرنا ہے تعلیم وصحت کی سہولتوں کا فقدان ہے اِس کے باوجود پُرعزم فلسطینی اپنے آباﺅ اجداد کی سرزمین سے دستبردارہونے پر تیارنہیں اور جیسے تیسے گزربسرکررہے ہیں یہاں کے لوگوں کو بھی زمینیں اور گھر بیچ کر علاقے سے نکل جانے کی پیشکش ہوئی وگرنہ جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں لیکن لوگ خوفزدہ نہ ہوئے اور تمام تر نامساعد حالات کے باوجود علاقہ چھوڑ کر نہ گئے اِس ثابت قدمی پرجھنجلا کر امریکہ جیسی عالمی طاقت اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی ہے اور یہ علاقہ بزورخالی کراکر اسرائیل کوتحفے کے طورپرپیش کرناچاہتی ہے ستم ظریفی تویہ کہ غزہ سے ناانصافی ہوتی دیکھ کربھی مسلم ممالک یک زبان نہیں بلکہ تقسیم ہیں جس کے نتیجے میں عالمی سازشیں کامیاب اور گریٹر اسرائیل کے لیے ماحول سازگار ہو سکتاہے ۔
غزہ کے حوالے سے جس قسم کے اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں یہ ویسا ہی ہے کہ کسی کمزور کی عورت کسی طاقتور کے کارندے کو پسند آجائے مگر کمزور دستبردار نہ ہو تو طاقتور اپنے کارندے کی مدد کو آپہنچے مگر جدید دنیا میں جس طرح عدل و انصاف کی باتیں کی جاتی ہےں ایک عدد اقوامِ متحدہ نامی تنظیم موجود ہے جس کی سلامتی کونسل کادنیا میں امن و استحکام یقینی بنانے کے حوالے سے باقاعدہ کردارطے ہے توسوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی بات آنے پر یہ تمام عالمی اِدارے اور طاقتیں لاتعلق ،غیر جانبدار اور عدم مداخلت کے اصول پرکیوں کاربند ہوجاتی ہیں؟ اِس کا سادہ ساجواب یہ ہے کہ دنیا میں مذہبی تفریق وتعصب برقرارہے رواداری اور برادشت کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں اگر ایسا نہ ہورہا ہوتا تو فلسطین ،کشمیر ،بوسنیااور برما کے مسلمان کیوں بے ےارومددگارہوتے؟ غزہ سے انسانی انخلا کامطالبہ خود مذہبی تفریق کی بدترین مثال ہے۔
روس ،یورپ،مسلم اُمہ ،آسٹریلیا سمیت دنیا کے کئی ممالک نے غزہ آبادی کو بے دخل کرنے اور علاقے کو تحویل میں لینے کے امریکی منصوبے کو مسترد کر دیا ہے عالمی ردِ عمل کے باوجود صدرٹرمپ کا ایک بار پھر غزہ پر قبضے کا بیان دہرانے کاصاف مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ کو کسی اصول یاقاعدے کی پروا نہیں وہ فلسطینیوں سے غزہ کا علاقہ چھیننے پر بضد ہے تاکہ اسرائیل کی جغرافیائی سرحدوں کو وسیع کیا جا سکے گریٹر اسرائیل کے حالیہ جاری ہونے والے نقشے میں مکمل فلسطین کے علاوہ ،شام، اردن، لبنان، مصر، عراق سمیت کئی مسلم ممالک کے علاقے شامل ہیں ایسے علانیہ توسیع پسندانہ عزائم سے آگاہ ہوکر بھی مصر اور اُردن کارویہ کمزوراور مصالحانہ ہے جس سے خدشہ ہے کہ امریکی آشیر باد سے اسرائیل خطے کانقشہ بدل سکتا ہے حالیہ حملوں کے دوران وہ شام اور لبنان کے کئی علاقے ہتھیا چکا مزید پیش قدمی سے اُسے روکنے کی کسی میں ہمت نہیں جدید دنیا میں بھی وہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے قانون پر عمل پیرا ہے اِس میں اُسے امریکہ کا مکمل تعاون حاصل ہے اگر دنیا ناانصافی اور نسل کشی کے خلاف متفقہ اور مشترکہ لائحہ عمل بناکر آواز بلند کرے توحالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔
ٹرمپ کے صدر بننے پر یاہو کی امریکہ آمد نے کئی ابہام دور کر دیئے ہیں یاہوکابطورمہمان پُرتپاک استقبال ا ورپھر ٹرمپ کامہمان کے لیے خود کرسی سیدھی کرنا سفارتی آداب سے بالاتررویے میں دنیاکے لیے پیغام ہے کہ اب بھی اگر ٹرمپ سے کوئی انصاف پسند موہوم اُمید لگائے بیٹھا ہے کہ غزہ کے خون آلود کھنڈرات کے ورثاکو انصاف دلانے میں معاونت کرے گا تو وہ غلط ہے بلکہ غزہ کے لیے ٹرمپ خود ایسا طویل مدتی منصوبہ رکھتاہے جس کے تحت اصل آبادکاروں کو مصر اور اُردن دھکیل کر دنیا سے یہودی لاکر آباد کیے جائیں اِس کام کو وہ ترقی کا نام دیتے ہیں ایسے حالات میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا کردار اہم ہو سکتا ہے کیونکہ بظاہر تو سعودی حکومت نے کہہ دیا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی مگر وہ امریکہ میں چھ سو سے لیکر ایک ہزارارب ڈالر کی جس سرمایہ کاری کا اعلان کر چکے ہیں جس کے صلے میں ٹرمپ نے سعودیہ اور اسرائیل کے دورے کا عندیہ دیا ہے اگر سعودی حکومت تھوڑی دلیری دکھائے اور اپنی سرمایہ کاری کے عوض ٹرمپ سے مجوزہ غزہ منصوبہ ترک کرنے کامطالبہ کر دے تو غزہ کے مفلوک الحال اور زخم زخم مسلمانوں پر منڈلاتے خطرات ختم ہو نے کا امکان پیداہوسکتاہے۔
میں مسلسل لکھ رہا ہوں کہ حماس نے اسرائیل پر حملے تیاری و مشاورت کے بغیر کیے جس کا خمیازہ صرف اُسے ہی نہیں تمام فلسطینیوں کو بھگتنا پڑسکتا ہے وہی ہوا کہ فلسطینی اتھارٹی کوحاصل محدود اختیارات سلب کرنے کے ساتھ فلسطین کے حصے بخرے کرنے کاکام شروع ہو چکا ہے ظاہر ہے جب فلسطینیوں کو بے دخل کرکے ہمسایہ ممالک میں آباد کردیا جائے گا توپھر فلسطین کا نام لیوا کون رہے گا؟اِس نوبت تک لانے میں حماس کی بے حکمتی کابڑاعمل دخل ہے اگر سات اکتوبر 2023کی شب حماقت نہ کی جاتی تو نہ صرف لاکھوں مسلمان جانوں سے نہ جاتے بلکہ غزہ کا علاقہ بھی کھنڈرہرگزنہ بنتا۔

متعلقہ مضامین

  • ایک عام سی بات
  • بھارتی ارب پتی شخصیت گوتم ایڈانی نے بیٹے کی شادی پر 10ہزار کروڑ بھارتی روپے عطیہ کردئے
  • یورپی قوانین یورپ میں مصنوعی ذہانت کی ترقی کو روک سکتے ہیں، اوپن اے آئی
  • غزہ سے ناانصافی
  • سابق سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل کا ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ردعمل
  • پرنس کریم آغا خان غربت کے خاتمے کے حوالے سے مستند حوالہ بن چکے تھے، عطاء اللہ شہاب
  • کسی بڑی شخصیت کو اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت نہیں دی، میجر جنرل ریٹائرڈ فرخ بشیر
  • عمران خان نے جیل سے کسی شخصیت کو کوئی خط تحریر نہیں کیا، اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کا انکشاف
  • پرنس رحیم آغا خان اسماعیلی کمیونٹی کے50 ویں روحانی پیشوا مقرر