شعراء اور ادیب نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہوتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
رحیم طلب
دھرتی زاد شعراء اور ادیب نظریاتی سرحدوں کیمحافظ ہیں، جنھوں نے ہمیشہ حملہ آوروں، قبضہ گیروں، ظلم وجبر اور معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف بلا خوف و خطر علم بلند کیا. اپنی دھرتی، مقامی لوگوں اور غربت وافلاس کو اپنی شاعری اور نثرنگاری میں موضوع بنایا۔
علم وادب کا گہوارہ احمد پور شرقیہ قیام پاکستان سے قبل بھی ریاست بہاولپور کاصدر مقام ہونے کے باعث شعراء اور ادیبوں کا من پسند شہر تھا ۔ادبی تخلیقات کا سفر کراچی سے شروع کیا.
.شاعری اور نثرنگاری میں 9 کتابیں شائع ہوچکی ہیں، ان کی تصانیف میں، الحمداللہ،(بیاض سونی پتی کی سور ہ فاتحہ کی منظوم تفسیر)،سخن فرید،سونا چاندی،زمین آسمان،آکھیا مبارک شاہ، پرسیپیشن آف گاڈ اینڈ یونیورس، فراہم دی ستلج بنک، اور ایہو سچ اے شامل ہیں جبکہ 4 تصانیف مثنوی رسول اللہ، کونجاں دے گل کھانگے، بت شیشے دا دل شیشے دا اور ایک صدی کی کی سائنسی معلومات پر مبنی کتاب کنٹری آف سائنس (اردو، انگریزی) زیر طباعت ہیں. رحیم طلب نے اپنی شاعری اور نثر نگاری میں ملک و قوم کو درپیش مسائل کا احاطہ دنیا بھر میں معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف قلم اٹھانا جہاد ہے، ایک منظم ساڑش کے تحت وادی سندھ کی تہذیبوں میں تصادم کی سازش کی جارہی ہے، جو انتہائی خطرناک ہے، وادی سندھ کی ہزارہا صدیوں پرانی تہذیب وتمدن، زبانوں،ادب اور ان کے مشاہیر کی شناخت کو مٹانے کی سازشوں کے آگے بندھ باندھنا ہوگا. ؎
ہمارے زمانے میں جو اصل میڈیا تھا،جس کی اپروچ ایزی تھی، وہ تھا ریڈیو۔ ریڈیو سے جو نغمے نشر ہوتے تھے وہ دل پر اثر کرتے تھے اور دوسرا یہ ہے کہ محرم کے ایام میں، میں مر ثیے اور نوحے سنا کرتا تھا، ہمارے محلے کی ایک ٹیم تھی جو مرثیے گروپ کی صورت میں گایا کرتی تھی تو میں ان سے بڑا متاثر تھا، میرے دل میں بھی ایک امنگ ابھری کہ میں بھی شاعری کروں، گیت لکھوں، تو اس طرح میں نے گیت لکھنے کی شروعات کی. اس طرح میں نے شاعری کا اغاز کیا. اس دوران کالج پہنچا تو تعلیمی اخراجات کے لئے مقامی اخبارات میں کام کیا،پھر اردو ادب میں شاعری اور نثر نگاری میں اپنا ایک مقام بنایا. رحیم طلب کا کہنا تھا کہ شاعری پر میرے گھر والوں کا کوئی خاص رد عمل نہیں تھا کیونکہ میرے والدین ان پڑھ تھے اور میرے بھائی صرف اردو لکھنا پڑھنا جانتے تھے جنھوں میری حوصلہ افزائی کی اور میں ادبی میدان میں مزید آگے بڑھتا چلا گیا. رحیم طلب نے آخر میں کہا کہ اردو، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، پنجابی، براہوی اور دیگر مقامی زبانوں کے ادہبوں ودانشوروں کو چاہیئے کہ تہذیبوں کے ٹکراؤ کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے آگے آئیں اور اپنا کردار ادا کریں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: شعراء اور شاعری اور
پڑھیں:
ذاتی حملے ہوتے ہیں تو دل دکھتا ہے، پیچھے سے لوگ گالیاں دیتے ہیں، حسن علی
کراچی کنگز کے نائب کپتان حسن علی کا کہنا ہے کہ اگر اصلاح کیلئے تنقید ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، جب ذاتی حملے ہوتے ہیں تو دل دکھتا ہے، بہت مرتبہ ہوتا ہے کہ پیچھے سے لوگ گالیاں دیتے ہیں۔
کراچی میں لاہور قلندرز کے ہاتھوں شکست کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے حسن علی نے کہا کہ ہم بہت جلدی پیچھے پڑ جاتے ہیں، ریلیکس کریں۔
حسن علی نے کہا کہ پہلا میچ ہم اچھا جیتے تھے لیکن آج بیٹنگ لڑکھڑا گئی، پرفارمنس میں تسلسل کیوں نہیں ہے اس پر بیٹھ کر سوچیں گے۔
کراچی کنگز کے نائب کپتان کا کہنا تھا کہ ایک دو وکٹیں آسانی سے گنوائی جس کی وجہ سے شراکت نہیں لگ سکی۔
انہوں نے کہا کہ میرا کام پرفارمنس دینا ہے، نیشنل ٹی ٹوئنٹی بھی اچھا رہا، پرفارمنس دیں گے تو پاکستان کھیلیں گے۔
حسن علی کا کہنا تھا کہ میری یہی سوچ ہے کہ مجھے کم بیک کرنا ہے، ابھی جوان ہوں پرفارم کرسکتا ہوں۔
بابر اعظم سے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ ہمارا ہی پراڈکٹ ہے ہم ہی اس کے پیچھے پڑے ہیں، بابر کو ہم نے ہی کنگ بنایا اور ہم ہی اس کو گرا رہے ہیں۔
حسن علی نے کہا کہ اگر میرا بیان “کنگ کر لے گا” کسی کو برا لگا تو اس سے معافی مانگتا ہوں، تاہم میرا بیان آج بھی وہی ہے کہ بابر بہترین پلیئر ہے اور وہ کم بیک کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم صرف غیر ملکی پلیئرز پر انحصار نہیں کررہے، آج بس شراکت نہیں لگ سکی، جب اوپر نیچے وکٹیں گر جاتی ہیں تو پریشر آجاتا ہے۔
حسن علی کا کہنا تھا کہ لوگ اچھی کرکٹ دیکھنا چاہتے ہیں، اگر ہم اچھی کرکٹ کھیلیں گے تو لوگ آئیں گے، سنا ہے کراچی میں عوام کو آنے میں دشواری ہوتی ہے مگر ہم اچھا پرفارم کریں گے تو پھر فین آئیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اندازہ ہے کہ نظر میں ہوتے ہیں تو یہ سب چیزیں ہوتی ہیں ، ہمارا کام کھیل پر فوکس کرنا ہے، ہمارا کام بس پرفارمنس کرکے ہی لوگوں جو خاموش کرانا ہے۔
Post Views: 3