Jasarat News:
2025-02-09@00:08:45 GMT

غزہ پر امریکی قبضے کااعلان‘ بحران در بحران

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

غزہ پر امریکی قبضے کااعلان‘ بحران در بحران

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حلف اٹھائے ایک ماہ بھی مکمل نہیں ہوا ہے کہ انہوں نے دنیا فتح کرنے کی مہم شروع کردی ہے۔ انہوں نے ایک طرف کینیڈا، میکسیکو اور چین پر ٹیکس عائد کرکے جنگ چھیڑی ہے ،جب کہ دوسری طرف گرین لینڈ اور نہرپاناما کے محاذ پر بھی اپنے پیادوں کی دوڑیں لگوارکھی ہیں۔ تیسرا محاذ انہوں نے غزہ پر قبضے کا اعلان کرکے کھول دیا ہے،جس کے بعد اب وہ دنیا کو اپنا دشمن بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔ یہ بات تو اب کسی سے مخفی نہیں ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کے دو ہی مقاصد ہیں۔

ایک رئیل اسٹیٹ اور دوسرا صہیونی ریاست کا تحفظ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ٹرمپ کی سرمایہ دارانہ پالیسیاں بھی درحقیقت اسرائیل کے قدم مضبو ط کرنے کے لیے ہیں۔ اپنے گزشتہ دور میں بھی انہوں نے اسی جارحانہ انداز میں فلسطینیوں کے خلاف معاندانہ اقدامات کیے تھے۔اس بار بھی جس رفتار سے وہ اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کو بے تاب ہیں، اس کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شاید انہیں اپنی مدت پوری کرنے کا یقین نہیں ہے اور خدشہ ہے کہ کہیں صہیونیت نوازی میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ ٹرمپ کے گزشتہ دور اقتدار میں مشرق وسطیٰ سے متعلق خارجہ پالیسی ان کے یہودی داماد جیرڈ کشنر کے سپرد تھی،جس کی سازشی ذہنیت نے معاہدہ ابراہیمی اور مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے جیسے گل کھلائے تھے۔ اور اب غزہ پر قبضہ کرکے امریکی کالونی بنانے کا منصوبہ بھی اسی کے پیش کردہ منصوبے کا شاخسانہ ہے۔

جیرڈ کشنر نے 15 فروری 2024 ء کو ہاورڈ یونیورسٹی میں ایک انٹرویو کے موقع پر کہا تھا کہ اگر لوگ رہائش اختیار کرنے پر توجہ مرکوز کریں تو غزہ میں سمندر کے مقابل واقع املاک بہت قیمتی ہیں۔ اسرائیل کو چاہیے کہ صحرائے نقب کا ایک علاقہ منہدم کر کے وہاں فلسطینیوں کو منتقل کر دے۔ٹرمپ کے داماد نے تجویز پیش کی تھی کہ اسرائیل غزہ کی پٹی سے شہریوں کو نکال کر پٹی کی صفائی کر دے۔اگر لوگوں نے غزہ میں رہنے کی سوچ بنا لی تو وہاں سمندر کے مقابل واقع جائدادیں بہت مہنگی ہو سکتی ہیں۔کشنر کا کہنا تھا کہ صورت حال افسوس ناک ہے تاہم اسرائیل کے نقطہ نظر سے اس کو چاہیے کہ لوگوں کو نکالنے کے لیے بھرپور کوشش کرے اور پھر جگہ کو صاف کرے۔اگر وہ اسرائیل میں اقتدار میں ہوتے تو ان کی اولین ترجیح جنوبی شہر رفح سے شہریوں کو نکالنا ہوتا ۔ سفارت کاری کے ذریعے ان کو مصر میں داخل کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔انٹرویوکے دوران جیرڈ کشنر سے پوچھا گیا کہ آیا فلسطینیوں کو اپنی الگ ریاست حاصل کرنا چاہیے، تو انہوں نے اس تجویز کوانتہائی برا خیال قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بنیادی طور پر دہشت گردوں کو نوازنے کے مترادف ہوگا۔

ٹرمپ نے اپنے بیان میںغزہ کے کنٹرول کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی،جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ غزہ کا کنٹرول طشتری میں رکھ کر صہیونی حکومت کو تحفے میں پیش کیاجائے گا ۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی آنکھوں کی چمک اور صہیونی میڈیا کے بغلیں بجائے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے رقبے میں اضافے کے لیے امریکاعلانیہ طور پر میدان میں اترچکا ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے اسرائیل کو درپیش تاریخی مسئلے کا بڑی چالاکی سے حل نکالا ہے۔ نیتن یاہو کے امریکی دورے کے نتائج توقعات سے بھی بڑھ کر سامنے آرہے ہیں۔

دوسری جانب ٹرمپ کے اعلان کے نتیجے میں دنیا بھر سے سخت ردعمل دیا جارہا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ مارکوروبیو نے پریس کانفرنس کے دوران بات کو گھمانے کی کوشش کرتے ہوئے دنیا کو دلاسا دیا کہ امریکی صدر غزہ کی تعمیر نو کی بات کررہے تھے اور غزہ میں شہریوںکی موجودگی میں تعمیراتی عمل جاری نہیں رہ سکتا۔ صدر ٹرمپ نے جس بات کا اعلان کیا وہ ایک پیشکش ہے اور امریکا علاقے کی تعمیر نو کے لیے ذمے دار بننے کو تیار ہے۔ تاہم دنیا ٹرمپ کے کٹھ پتلیوں کے بیانات کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے۔ ٹرمپ نے اپنے بیان میںدعویٰ کیا ہے کہ عرب ممالک اور دیگر حکومتیں ان کی تجویز سے متفق ہیں ، بلکہ پسند کررہی ہیں، لیکن دنیا کے ردعمل سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی جھوٹ بولنے کی عادت ابھی تک گئی نہیں ہے۔

عالمی ردعمل
امریکی اتحادیوں اور مخالفین دونوں نے ٹرمپ کی جانب سے غزہ پر امریکا کے انتظامی کنٹرول اور فلسطینی رہایشیوں کو مستقل طور پر کسی اور ملک میں آباد کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا اور شدید مذمت کی۔ متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب، آسٹریلیا، آئر لینڈ، چین ، نیوزی لینڈاور جرمنی اسی طرح یورپی یونین اورکریملن کے ایک ترجمان سمیت سب نے دو ریاستی حل کے لیے حمایت کا اعادہ کیا۔ مصر ، اردن اور مشرق وسطیٰ میں دیگر امریکی اتحادی 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو غزہ سے کسی اور مقام پر از سرنو آباد کرنے کی تجویز کو پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔ ٹرمپ کے تبصروں کے بعد مصر کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیاجس میں فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے باہر منتقل کیے بغیر تعمیر نو کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

اقوام متحدہ ؍ ایمنسٹی انٹرنیشنل
سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتیریس نے کہا کہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی توثیق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ تنازع کے حل کی تلاش میں ہمیں مسائل بدتر نہیں کرنے چاہییں۔ نسل کشی کی کسی بھی قسم سے گریز کرکے بین الاقوامی قانون پر قائم رہنا ضروری ہے۔ ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ غزہ پر صدر ٹرمپ کے قبضے کا بیان اشتعال انگیز اور شرمناک ہے، ٹرمپ کا بیان بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مزید کہا کہ مقبوضہ علاقے سے فلسطینیوں کو جبری بے دخل کرنا جنگی جرم ہے۔

آرگنائزیشن آف اسلامک کاپریشن ( اوآئی سی )
آرگنائزیشن آف اسلامک کاپریشن ( اوآئی سی ) نے ٹرمپ کے بیان پر سخت ردعمل جاری کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی سرزمین پر جغرافیائی یا آبادیاتی تبدیلی کا کوئی بھی منصوبہ قابل قبول نہیں ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیل کی مبینہ خود مختاری کو ترجیح دینا قبول نہیں، ٹرمپ کے بیانات فلسطینیوں کی زمین پر زبردستی قبضے اور یہودی آبادکاری کے عکاس ہیں اور ایسے بیانات اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ ٹرمپ کے بیانات خطے میں امن و استحکام کے امکانات ختم کرنے کے مترادف ہیں۔

یورپی یونین
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے ترجمان نے کہا کہ غزہ کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ یورپی یونین اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے دو ریاستی حل کے لیے پرعزم ہے،جو اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں کے لیے طویل مدتی امن کا واحد راستہ ہے۔آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البنیز نے کہاکہ آسٹریلیا کا موقف وہی ہے جو آج صبح تھا ، جوگزشتہ سال تھا اور جو 10سال قبل تھا۔ آئرلینڈ کے وزیر اعظم مائیکل مارٹن نے کہاکہ گزشتہ رات کے تبصرے بلا شبہہ بہت تشویش نا ک تھے۔ جب بھی امریکی انتظامیہ کی بات آتی ہے تو میں کوئی بھی فیصلہ اس بنیاد پر کرتا ہوں کہ وہ کیا کرتے ہیں، نہ کہ وہ کیا کچھ کہتے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر نے ہزاروں فلسطینیوں کی تصاویر کا حوالہ دیا جوملبے سے گزر کر اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں۔ اسٹارمرنے کہاکہ کہ انہیں گھر واپسی کی اجازت دی جانی چاہیے، انہیں تعمیر نو کی اجازت دی جانی چاہیے اور ہمیں دو ریاستی حل کے راستے پر اس تعمیر نو میں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔

سعودی عرب
سعودی عرب نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے ہمارا موقف اٹل، مضبوط اور غیر متزلزل ہے۔ آزاد فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن نہیں۔ کنگ فیصل سینٹر فار اسٹڈیز کے چیئرمین شہزادہ ترکی فیصل نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں سخت گیر اسرائیلی موقف اپنایا اور مذاکرات کے لیے کوئی گنجایش نہیں چھوڑی۔ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے سعودی موقف تاریخی طور پر ثابت قدمی پر مبنی رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلسطین میں نسل کشی کے سامنے ڈٹ جانے کے لیے سعودی عرب کے زیر قیادت ایک عالمی اجتماع کی ضرورت ہے۔ ہم یہ نہ بھولیں کہ یہ نسلی تطہیر صرف غزہ میں نہیں بلکہ مغربی کنارے میں بھی ہو گی۔ لہٰذا اقوام متحدہ کی سطح پر رد عمل سامنے آنا چاہیے تا کہ اس حوالے سے امریکی موقف سے اختلاف کا بھرپور اظہار ہو۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے موقف کی واضح اور غیر مبہم انداز میں تصدیق کی ہے جس کی کسی بھی صورت میں کوئی اور تشریح نہیں کی جا سکتی۔

ترکیہ
ترک وزیر خارجہ حاقان فیدان نے کہا کہ غزہ سے ملک بدریوں کی ٹرمپ کی تجویز کو نہ تو دنیا اور نہ ہی ہم قبول کریں گے۔ فیدان نے کہا کہ میری رائے میں اس کے بارے میں سوچنے کا مطالبہ بھی مضحکہ خیز ہے۔

فلسطینی اتھارٹی
جاپان میں فلسطینی اتھارٹی کے سفیر ولید صیام نے امریکی صدر ٹرمپ کے منصوبے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا رئیل اسٹیٹ کا بزنس نہیں ہے۔ٹرمپ کا اچانک اعلان اس امر کا اظہار ہے کہ وہ قبضے کی جیت پر یقین رکھتے ہیں اور فلسطینیوں کی سرزمین کو فلسطینیوں سے خالی کرا کے قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ دنیا میں امن لانا چاہتے ہیں، لیکن انہیں خبر ہونی چاہیے کی لوگوں کو ان کے گھروں اور سرزمین سے بے دخل کر کے امن قائم نہیں ہو سکتا۔ امریکی صدر کی خواہش ہے کہ وہ گرین لینڈ پر قبضہ کر لیں، کینیڈا کو ضم کر لیں، پاناما نہر کو اپنے کنٹرول میں لے لیں اور اب انہوں نے غزہ پر بھی واضح لفظوں میں قبضے کا ارادہ ظاہر کر دیا ہے۔ ٹرمپ آخری آدمی تھے جن سے دنیا امن کی توقع کر رہی تھی، لیکن ہمیں مایوسی ہوئی ہے۔

امریکی سیا ست دانوں کا ردعمل
امریکا میں حزب اختلاف کے سیاستدانوں نے بھی ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کر دیا ۔ ڈیمو کریٹک سینیٹر کرس کونز نے ان بیانات کو جارحانہ اور خطرناک قرار دیا۔ کونزنے بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے کو ختم کرنے کے فیصلے کے حوالے سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیوں دنیا بھر میں انسانی ہمدردی کے عشروں سے اچھی طرح سے چلنے والے پروگراموں کو ترک کریں گے اور اب انسانی ہمدردی کے ایک سب سے بڑے چیلنج کا آغاز کریں گے ؟ ایوان کے اسپیکر ، ایوان نمایندگان کی ری پبلکن اکثریت کے لیڈر ،مائیک جانسن نے غزہ پر قبضے کی ٹرمپ کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس کے بارے میں تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔سینیٹ میں ا کثریتی رہنما ر پبلکن جان تھون نے غیر جانبدارانہ خیال پیش کرتے ہوئے کہاکہ ٹرمپ ایک زیادہ پر امن اور محفوظ مشرق وسطیٰ چاہتے ہیں اور وہا ں کے لیے کچھ تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں۔

دنیا کی جانب سے دیا جانے والا ردعمل خلاف توقع نہیں ہے بلکہ زبانی طور پر دنیا کا ردعمل اس وقت زیادہ شدید تھا جب اسرائیل غزہ میں 40ہزار افراد کا قتل عام کررہا تھا ، لیکن دنیا پھر بھی اس کے آگے بے بسی کی تصویربنی ہوئی تھی۔اس موقع پر سعودی عرب کی جانب سے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار بہت تشویش ناک ہے ،جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میںاسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی گئی ہے ۔ ٹرمپ نے اپنے منصوبے میںذرا ترمیم کرکے اگر چندایکڑ زمین پرفلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا تو کیاریاض حکومت ارض مقدس میں یہود کو داخل ہونے کی اجازت دے دے گی؟

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست کے کرتے ہوئے کہا فلسطینیوں کی فلسطینیوں کو بین الاقوامی ٹرمپ نے اپنے دو ریاستی حل اور فلسطینی اقوام متحدہ میں فلسطینی کی تجویز کو کے حوالے سے اسرائیل کے امریکی صدر چاہتے ہیں نے کہا کہ انہوں نے نہیں ہے کرنے کی کہ ٹرمپ ٹرمپ کے قبضے کا ٹرمپ کی کہ غزہ کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کا غزہ پٹی پر قبضے کا منصوبہ کس خواہش کی بازگشت؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 فروری 2025ء) امریکی صدر ٹرمپ نے منگل کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ تھا کہ فلسطینیوں کو دوسری جگہوں پر آباد کرنے کے بعد امریکہ غزہ پٹی پر قبضہ کر لے گا۔ ان کے اس منصوبے کی نہ صرف یورپی ممالک نے مذمت کی بلکہ اس کے خلاف عالمی سطح پر بھی آواز بلند کی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا 'نسلی تطہیر‘ کے مترادف اور بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہو گا۔

ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت

لیکن یہ پہلا موقع نہیں کہ ٹرمپ نے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری مواقع کے حوالے سے غزہ پٹی کی بات کی ہو۔ پچھلے سال اکتوبر میں انہوں نے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر صحیح طریقے سے دوبارہ تعمیر کیا جائے، تو غزہ ''موناکو سے بہتر‘‘ ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

غزہ پٹی کا کنٹرول امریکی ’ملکیت‘ میں، ٹرمپ کی تجویز

فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان اکتوبر 2023ء میں شروع ہونے والی جنگ کے تناظر میں ایک بار پھر غزہ پٹی کی تعمیر نو کا خیال سامنے آیا ہے۔

یہ خیال خاص طور پر امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے پیش کیا ہے، جنہوں نے ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی امریکی ایلچی کے طور پر اسرائیل اور کئی عرب ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ''ابراہیمی معاہدے‘‘ کو آگے بڑھانے میں مدد کی تھی۔ جیرڈ کشنر کی تجویز

جیرڈ کشنر، جنہوں نے ایک بار عرب اسرائیلی تنازعے کو ''اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جائیداد کے تنازعے سے زیادہ کچھ نہیں‘‘ قرار دیا تھا، نے فروری 2024 میں ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک تقریب میں کہا تھا، ''غزہ پٹی میں ساحل سمندر کے قریب جائیداد بہت قیمتی ہو سکتی ہے، اگر لوگ اسے ذریعہ معاش بنانے پر توجہ دیں۔

‘‘

کشنر، جو خود ٹرمپ کے پہلے دور اقتدار سے قبل نیویارک میں ایک پراپرٹی ڈویلپر تھے، نے کہا تھا، ''وہاں یہ تھوڑی سی بدقسمتی کی صورت حال ہے، لیکن میں اسرائیل کے نقطہ نظر سے سوچتا ہوں، میں لوگوں کو باہر نکالنے اور پھر اسے صاف کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔‘‘

جیرڈ کشنر کے ترجمان نے فوری طور پر اس خبر پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہ دیا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کا تعین نہیں کر سکا کہ آیا کشنر، جن کی پرائیویٹ ایکویٹی فرم نے خلیجی ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کی ہے، جس میں سعودی عرب سے دو بلین ڈالر بھی شامل ہیں، غزہ میں سرمایہ کاری کے بارے میں خطے میں کسی بھی بات چیت میں مصروف ہیں۔

عملی دشواریاں

فلسطینیوں کے لیے غزہ پٹی کو سمندر کے کنارے ایک تفریحی مقام یا ریزورٹ کے طور پر تصور کرنا ناممکن ہے۔

ساتھ ہی غزہ پٹی میں ''مشرق وسطیٰ کا رویرا‘‘ بنانے کے ٹرمپ کے وژن کو عملی جامہ پہنانے میں عملی دشواریاں بھی درپیش ہوں گی۔ اس لیے کہ غزہ پٹی میں حماس اب بھی ایک طاقت ہے اور امریکی صدر ٹرمپ کی اس تجویز پر اس نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔

غزہ پٹی میں زمین کی ملکیت کا قانون عثمانی، برطانوی مینڈیٹ اور اردنی قوانین کے ساتھ ساتھ قبائلی طریقوں سے اخذ کردہ قواعد و ضوابط اور رسوم و رواج کا ایک پیچیدہ مرکب ہے، جس میں زمین کی ملکیت کو بعض اوقات پچھلی قانونی حکومتوں کی دستاویزات کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔

غزہ میں اس وقت غیر ملکیوں کے زمین خریدنے پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف، جو خود بھی ایک سابق ریئل اسٹیٹ ڈویلپر ہیں، کے مطابق غزہ کی تعمیر نو کے لیے دس پندرہ سال درکار ہوں گے، کیونکہ پندرہ ماہ کی بمباری کے بعد، صدر ٹرمپ کے الفاظ میں، غزہ ایک "مسمار شدہ جگہ‘‘ہے۔

اسٹیو وٹکوف جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ پٹی جانے والے پہلے اعلیٰ امریکی اہلکار تھے۔

غزہ پٹی کی تعمیر نو پر لاگت کا تخمینہ 100 بلین ڈالر تک لگایا جاتا ہے۔ تاہم، خلیجی ممالک، جو کہ غزہ کی تعمیر نو میں سرمایہ کاری کا ایک ممکنہ ذریعہ ہیں، نے کسی بھی مالیاتی پیشکش کو فی الحال سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ دوسری طرف ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ بھی اب تک بند ہے۔

نیوز ایجنسی روئٹرز نے جن تجزیہ کاروں سے رابطے کیے، ان کے مطابق دیگر ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے کسی بھی طرح کے ممکنہ فوائد کے مقابلے میں صورت حال کہیں زیادہ غیر یقینی دکھائی دیتی ہے۔ اسرائیل کی بہت سی بڑی تعمیراتی کمپنیوں اور بلڈرز ایسوسی ایشن نے اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

ج ا ⁄ ص ز، م م (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)

متعلقہ مضامین

  • امریکی صدر کے بیان نے جمہوریت پسندی کا پول کھول دیا، ڈاکٹر افتخار نقوی
  • امریکی صدر کا پاگل پن پر مبنی اعلان
  • غزہ کی پٹی پر قبضے کا اعلان شرمناک عمل ہے، جاوید قصوری
  • ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان پر دنیا بھر سے شدید ردعمل کے بعد امریکا کی وضاحت سامنے آگئی
  • ٹرمپ کا غزہ پٹی پر قبضے کا منصوبہ کس خواہش کی بازگشت؟
  • غزہ پر قبضے کا بیان، مولانا فضل الرحمٰن کا ٹرمپ اور نیتن یاہو کو جواب
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان پر دفتر خارجہ کا درعمل
  • ہیومن رائٹس واچ نے غزہ پر امریکی قبضے کی سازش کو مسترد کر دیا
  • ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان پر دنیا بھر سے شدید ردعمل، امریکا کی وضاحت سامنے آگئی