Express News:
2025-04-15@09:51:20 GMT

مفکر اسلام اور جید عالم مولانا رومی

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

 حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ اپنے وقت کے جید عالم تصوف اور روحانیت میں حد درجہ کمال تک پہنچ گئے تھے، علامہ اقبال کو مولانا روم سے بے حد عقیدت تھی، علامہ نے مولانا رومی کو پیر جلیل کہہ کر پکارا اور روحانی شاگرد کی حیثیت سے اپنے کلام میں ان کی بڑائی بیان کی ہے:
 صحبت ِ پیر روم سے مجھ پر ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف
 مولانا کا نام محمد جلال الدین تھا، عرفیت رومی اور روم تخلص تھا، جائے پیدائش بلخ تھی اور تاریخ ولادت 604ھ مولانا کا سلسلہ نسب حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ملتا ہے، آپؒ کے پردادا حضرت حسین بلخی صوفی اور صاحب کمال بزرگ تھے، ان کے علم و تقویٰ سے ہر شخص واقف تھا۔

امرا اور صاحبان علم اس خاندان کی عظمت و توقیر کے معترف تھے۔مولانا رومی کے والد شیخ بہاء الدین نے اپنے پسر کی تعلیم و تربیت کے لیے نامور عالم سید برہان الدین کا انتخاب کیا تھا جوکہ ان کے مریدوں میں شامل تھے۔

مولانا روم نے درس و تدریس میں ان سے ہی استفادہ کیا تھا جب ان کے والد قونیہ تشریف لے گئے تو مولانا رومی ساتھ تھے لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد شفقت پدری سے محروم ہو گئے گوکہ والد کی موت مولانا کے لیے بے حد تکلیف دہ اور غم کا باعث تھی لیکن اللہ کا کرم ان کے ساتھ تھا۔

انھوں نے صبر کی ردا اوڑھ لی تھی، مولانا نے مزید حصول تعلیم کے لیے شام کا رخ کیا، وہاں رہ کر انھوں نے علم کی سوغات کو اپنے من کی کوٹھڑی میں محفوظ کر لیا اور پھر انھوں نے قونیہ واپس جانے کا ارادہ کیا، ساتھ ہی ان کے استاد محترم سید برہان الدین بھی تشریف لے آئے۔

تقریباً 9 سال تک استاد نے مزید تعلیم سے سرفراز کیا، علم و معرفت نے انھیں اعلیٰ مرتبے پر پہنچا دیا۔ جب بھی وہ کسی محفل میں خطاب کرتے تو حاضرین ان کی عالمانہ گفتگوکو سن کر متاثر ہوتے ، مولانا کو وسیع علوم اور دینی معلومات، فقہ و تفسیر پر دسترس حاصل تھی، وہ ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتے تھے ایک موقع پر مجمع میں سے ایک شخص نے اس وقت صدا لگائی جب آپ کمال در کمال کے مرحلے میں داخل ہو چکے تھے ہر طرف گہری خاموشی تھی۔

لوگ مولانا کے کہے گئے الفاظ کے سحر میں گم ہو چکے تھے اور معنویت کی سبز اور سفید روشنی سے ان کے سینے اور اذہان منور تھے، دنیا کی بے ثباتی کی حقیقت عیاں ہو رہی تھی، اسی دوران اس شخص نے باآواز بلند کہا کہ’’ مولانا صاحب! اپنے پسندیدہ موضوع پر بولنا کمال کی بات نہیں ہے، مزہ تو جب آئے گا جب آپ کسی دوسرے کے بتائے ہوئے موضوع پر گفتگو کریں گے۔‘‘

مولانا رومی نے اسی وقت نرم لہجے میں کہا کہ’’ آپ بتائیں، میں اسی پر تقریر کرنے کی کوشش کروں گا‘‘ ہزاروں عقیدت مند جمع تھے کہ نہ جانے یہ شخص کون سے موضوع پر خطاب کرنے کے لیے کہے گا۔ ابھی لوگ سوچ و بچار میں مبتلا تھے کہ اسی دوران وہ شخص دوبارہ اٹھا،’’ مولانا، آج آپ سورۃ والضحیٰ کی تفسیر بیان کریں‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ 

اپنے سوچے سمجھے منصوبے اور حاسد علما کے مشوروں اور ان کی حسد اور دشمنی کا بدلہ اس نے لے لیا تھا، مولانا روم کا طوطی بول رہا تھا اور ان حالات میں ان کے دشمنوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔اس شخص کا خیال تھا کہ جو میں نے مولانا پر اچانک موضوع بتا کر حملہ کیا ہے، مولانا رومی میرے وار سے سنبھل نہیں سکیں گے۔

تھوڑے سے توقف کے بعد مولانا رومی مسکرانے لگے اور بڑے اطمینان و سکون کے ساتھ انھوں نے اللہ کی حمد و ثنا اور کبریائی بیان کی، رسول پاک ﷺ پر درود پاک کا نذرانہ نذر کیا اور پھر ان کا مخاطب انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا کہ میں سورۃ الضحیٰ کا پہلا حرف ’’واؤ‘‘ کی تشریح بیان کروں گا۔

اس ایک ’’حرف‘‘ پر مولانا نے پورے چھ گھنٹے تقریر کی، تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ وہی شخص لوگوں کو ہٹاتا ہوا آگے بڑھا اور قریب آکر مولانا رومی کے قدموں میں سر رکھ دیا، اس پر رقت طاری ہوگئی اور روتا ہوا بولا’’ بے شک آپ کا مرتبہ بلند ہوا۔

افسوس میں بھی انھی کی طرح حسد اور نفرت کا شکار ہو گیا، آپ کی تعریف و توصیف برداشت نہیں کر سکا، آپ کی بڑھتی ہوئی شہرت اور نیک نامی نے مجھے اور میرے جیسے کینہ پرور لوگوں کو گمراہ کر دیا ، راست بازی سے ناتا توڑ کر میں بھی آپ کے مخالفین میں شامل ہو گیا۔‘‘

مولانا رومی نے اس کی وضاحت اور گریہ و زاری سن کر اسے اٹھا کر گلے لگایا اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’ان میں سے جو بھی لوگ مجھ سے عداوت رکھتے ہیں، میں انھیں معاف کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ ان کے سینوں میں بھڑکنے والی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کر دے۔‘‘

مولانا رومی کے کشف و کرامات کے بہت سے واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ ایک اہم واقعہ جس نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا وہ یہ کہ ایک دن مولانا اپنے کتب خانے میں اپنے شاگردوں کو درس دے رہے تھے، مولانا کا کتب خانہ بھی بے مثال تھا، نادر و نایاب کتابیں اس میں موجود تھیں، ابھی درس جاری تھا کہ اسی دوران ایک شخص بلا اجازت داخل ہوا، وہ اپنے حلیے سے ایک معمولی سا آدمی نظر آ رہا تھا، اس کا چہرہ پریشان تھا، وحشت اس پر طاری تھی۔

اجنبی نے اہل مجلس کو سلام کیا، اس کے بعد طلبا کی صفوں کے درمیان سے چلتا ہوا مولانا کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ جماعت کے طالب علموں کو اس کی اس بے تکلفی پر بہت غصہ آیا، ان کا جی چاہ رہا تھا کہ اس کی اس گستاخی کا بدلہ کسی نہ کسی شکل میں لینا ضروری ہے۔

وہ قیمتی کتابوں کو توجہ سے دیکھ رہا تھا، مولانا نے اس کی طرف دھیان نہیں دیا اور درس جاری رکھا۔ اسی دوران وہ مولانا سے مخاطب ہوا’’ مولانا! یہ کیا ہے؟‘‘ مولانا رومی یکدم پریشان ہوگئے اور ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا، انھوں نے نرم مزاجی سے کہا’’ انتظار کرو، کلاس ختم ہو، تب میں تمہارے سوال کا جواب دوں گا۔‘‘

حسب وعدہ مولانا نے پوچھا ’’آپ کون ہیں اور یہاں پر آنے کا مقصد؟‘‘ اجنبی نے کھردرے لہجے میں جواب دیا،’’ میں کون ہوں؟ اور یہ کیا ہے؟ کیا تمہاری بینائی کمزور ہے؟‘‘۔’’ نہیں، بالکل نہیں، میں تو دور تک دیکھ سکتا ہوں۔ پر آپ کی زبان سے سننا چاہتا ہوں‘‘ بار بار ایک ہی سوال کرنے پر مولانا روم نے جھنجھلا کر کہا’’ یہ وہ ہے جسے تم نہیں جانتے۔‘‘ ’’ اچھا میں نہیں جانتا،‘‘ابھی اجنبی نے جملہ ادا ہی کیا تھا کہ کتب خانے میں آگ بھڑک اٹھی اور کتابوں میں آگ لگ گئی۔

مولانا اور ان کے شاگرد حیران و پریشان تھے، اجنبی آگے بڑھا، باہر جانے کے لیے کہ اسی اثنا میں مولانا نے کہا’’ یہ سب کیا ہے؟ یہ وہ ہے جسے تم نہیں جانتے‘‘اجنبی یہ کہہ کر باہر کی طرف چل دیا، مولانا نے ایک سرد آہ بھری اور اجنبی سے کہا کہ’’ اس کے ذمے دار تم ہو؟‘‘’’ میں ذمے دار ہوں تو لو یہ اپنی قیمتی کتابیں‘‘ اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا، آگ آناً فاناً بجھ گئی، کتابیں پہلے کی طرح محفوظ تھیں، ایک چنگاری تک نہیں بچی تھی، مولانا رومی حیرتوں کے سمندر میں ڈوب چکے تھے جس اجنبی شخص نے مولانا جیسے بڑے اور نابغہ روزگار عالم کو استعجاب میں مبتلا کر دیا وہ مشہور بزرگ شمس تبریز تھے، اس واقعے کے بعد مولانا کی دنیا ہی بدل گئی اور وہ حضرت شمس تبریز کی خدمت میں رہنے لگے۔ مولانا رومی سے ایسے ایک نہیں بہت سے واقعات منسوب ہیں۔

 مولانا رومی بلند پایہ شاعر تھے، مثنوی مولانا روم کو دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ علامہ اقبال نے جن مفکرین اور اللہ کے نیک بندوں سے فیض اٹھایا، ان میں ایک خاص الخاص نام مولانا رومی کا بھی ہے، اقبال کے لیے رومی کی حیثیت ایک رہبر اور مرشد کی ہے۔ وہ انھیں پیر رومی کہنے پر فخر کرتے ہیں، انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسی مرد مومن کے فیض سے علم کے سربستہ راز فاش ہوئے اور انھی کے کرم سے یہ خاک اکسیر بن گئی۔

پیر رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد

رومی کو نکلسن نے سب سے بڑا صوفی شاعر قرار دیا ہے اور جامی نے ان کی مثنوی کو فارسی زبان کا قرآن کہا ہے ،اس کی وجہ ان کی مثنوی اسلامی تعلیمات کی مظہر ہے ۔اس مثنوی میں مولانا رومی نے اسلام کے مجاہدوں کی شجاعت و دلیری کے واقعات کو شعری پیکر عطا کیا ہے تاکہ مسلمان مجاہدانہ صفت کو اپنا کر اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کریں۔
 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

امت مسلمہ کو حکمرانوں کی پروا کیے بنا اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، مولانا فضل الرحمان

کراچی:

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مسلمان حکمرانوں کو فلسطین کے حوالے سے غیرت سے عاری قرار دیتے ہوئے کہا کہ امت مسلمہ کو حکمرانوں کی پروا کیے بنا اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔

کراچی میں اسرائیل مردہ باد ملین مارچ سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام نے عظیم الشان پروگرام منعقد کرکے عالم اسلام کو حوصلہ دیا اور فلسطین اور اہل غزہ کو مدد کا پیغام دیا ہے۔

فلسطین کے عوام کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ مظالم کے وقت میں آپ تنہا نہیں خون کے آخری قطرے تک آپ کے شانہ بشانہ رہیں گے، یہ اجتماع اسلامی حکمرانوں کو حمیت کا پیغام دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں ایک ملین عوام نے جمع ہو کر آپ کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے، عوام احساس دلانا چاہتے ہیں آپ اپنا فرض پورا کریں، غزہ کے 60ہزار افراد کی شہادت بھی حکمرانوں کو نہیں جگا سکی، فلسطین میں 20 ہزار بچوں اور 20 ہزار خواتین کی شہادت حکمرانوں کو نہیں جگا سکی، تو آپ کا یہ اجتماع بھی انہیں نہیں جگا سکے گا، یہ حکمران غیرت سے عار ہوچکے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ امت مسلمہ کو حکمرانوں کی پروا کیے بنا اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، آپ نے لبیک کہہ کر کراچی میں تاریخ رقم کر دی ہے، عوام نے اہل فلسطین کو حوصلہ دیا ہے، خون کے آخری قطرے تک فلسطینی عوام کے ساتھ رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے خلاف سیلاب بن کر کھڑا ہونا ہوگا، اسرائیل کوئی ملک نہیں اس نے سرزمین فلسطین پر قبضہ کیا ہے، اسرائیل ایک خنجر ہے اس کی کوئی قانونی، سیاسی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور یورپ نے ظالم کے حق میں اپنا مؤقف لیا ہوا ہے، اسرائیل نے عرب سرزمین پر قبضہ کیا ہے، اسرائیل عربوں کی پیٹھ میں ایک خنجر ہے جو گھونپا گیا ہے،77 سال ہوگئے عالمی قوتیں اسرائیل کو ایک ایسے عمل میں تائید دے رہے ہیں، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ ایک صدی پہلے تک کرہ ارض پر اسرائیل نامی کسی مملکت کا وجود نہیں تھا، پروپیگنڈا کیاجاتا ہے کہ فلسطینیوں نے اپنی زمین یہودیوں کو فروخت کی۔

انہوں نے کہا کہ 1917 میں صرف 2 فیصد علاقے پر یہودی آباد تھے، پھر کیسے کہا جاتا ہے کہ فلسطین نے اپنی زمین فروخت کی، 1948 میں صرف 6 فیصد حصے پر یہودی فلسطین میں رہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی عادت رہی ہےکہ وہ خطے میں تنازع چھوڑ کر جاتا ہے، کشمیر بھی اس کی مثال ہے، جیسے برصغیر میں کشمیر کی صورت تنازع چھوڑا ایسا ہی تنازع عرب دنیا میں اسرائیل کی صورت میں چھوڑا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : جماعت اسلامی کا فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلیے 22 اپریل کو ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان

اسرائیل مردہ باد ملین مارچ سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے علمبردار افغانستان اور سعودی عرب میں سزائے موت پر احتجاج کرتے ہیں لیکن مسئلہ فلسطین پر خاموش ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں 60ہزار افراد کو لقمہ اجل بنا کر بھی یورپ کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی، یورپ اور امریکا کی نظر میں مسلمانوں کا خون سستا کیوں ہے، دنیا کروٹ بدل رہی ہے جلد دنیا کی معاشی قوت ایشیا کے ہاتھ میں آئے گی، اب بہت ہوگیا امریکا نے مسلمانوں کا بہت خون بہا لیا، اگر افغانستان سے سبق حاصل نہ کیا تو جلد امریکا پاش پاش ہوجائے گا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایشیا کی معیشت اور وسائل پر یورپ نے قبضہ کیا لیکن اب حالات بدل رہے ہیں، معیشت ایشیا کے ہاتھ میں آئے گی، امریکا نے عرب دنیا میں مسلمان بھائیوں کا بہت خون کرلیا، امریکا اپنی معاشی اور دفاعی قوت کھو بیٹھے گا۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل بنا تو قائداعظم نے اسے برطانیہ کا ناجائز بچہ کہا، اسرائیل کے پہلے صدر نے خارجہ پالیسی بیان میں کہا تھا کہ ایک نوزائیدہ اسلامی ریاست کا خاتمہ ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی اسرائیل کوتسلیم کرنے کا سوچ رہا ہے تو ذہن سے نکال دے، اسرائیلی وزیراعظم نے کہا ہے کہ ہمیں سب سے بڑا خطرہ پاکستان سے ہے، پاکستانیوں کی تکبیر کے نعرے سے صہیونی قوتیں لرز رہی ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کچھ لابیز کو بنانا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خواب پورا نہیں ہوگا، اسرائیل سے معاشی تعلقات قائم کرنا کسی کے لیے آسان نہیں ہوگا۔

 

انہوں نے کہا کہ جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے فضا بنارہے تھے ہم نے ان کا نظریہ رد کردیا، کوئی قادیانیوں کو مسلمان تسلیم نہیں کرواسکتا، بیوروکریسی اسٹیبلشمنٹ سیاست دان جاگیردار صنعت کار ہوں یا کوئی مفاد پرست طبقہ کسی کے کہنے پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ ایوان فروخت ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے لیے یہ مسئلہ نہیں ہے، اب ایوان نہیں میدان ہمارے ہاتھ میں ہے، مقتدر قوتوں اور سول بیوروکریسی، جاگیر دار اور صنعت کار کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسرائیل، امریکا اور یورپ کی غلامی سے کام نہیں چلےگا اور سب کو عوام کے جذبات کا احترام کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ جو کچھ موم بتیاں ہمارے خلاف بات کر رہی ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، دھاندلی کرکے ایوان سے ہمیں باہر کیا جاسکتا ہے لیکن دھاندلی کے ذریعے ہمارے اجتماعات نہیں روکے جاسکتے۔

مولانا فضل الرحمان نے 27 اپریل کو لاہور میں فلسطین مارچ کا اعلان کر دیا۔

https://www.facebook.com/expressnewspk/videos/673891478837562

 

متعلقہ مضامین

  • امام جعفر صادق (ع) کی حیات طیبہ عالم بشریت کیلئے مشعل راہ ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • نیا وقف قانون سیاسی ہتھیار ہے مسلمانوں کیلئے ہرگز موزوں نہیں ہے، مولانا محمود مدنی
  • عوام خود کھڑے ہوں,حکمرانوں کی پروا کیے بغیر اسرائیلی ظلم و جارحیت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کریں:مولانا فضل الرحمن
  • کوئی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ رہا ہے تو ذہن سے نکال دے، مولانا فضل الرحمان
  • امت مسلمہ کو حکمرانوں کی پروا کیے بنا اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • کوئی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ رہا ہے تو ذہن سے نکال دے، فضل الرحمان
  • خون کے آخری قطرے تک فلسطین کے عوام کے ساتھ رہیں گے،فضل الرحمان
  • امت مسلمہ حکمرانوں کی پرواہ کیے بغیر اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑی ہو، مولانا فضل الرحمان
  • وقف قانون میں 44 خامیاں ہیں حکومت کی منشا وقف املاک پر قبضہ کرنا ہے، مولانا فیصل ولی رحمانی
  • ملتان، علامہ شبیر حسن میثمی کی علامہ تقی نقوی سے ملاقات، بھائی کی وفات ہر اظہار افسوس