انسانی جسم کی تشکیل کے دوران دل پہلے اور دماغ بعد میں وجود میں آتا ہے، یہ دونوں انسانی جسم کے بنیادی اعضاء ہیں، جسم کے دیگر اعضاء بھی اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں مگر جب تک انسان کا دل اور دماغ ٹھیک سے اپنا کام سر انجام دیتے ہیں اُس کی سانسوں کی ڈور چلتی رہتی ہے۔
ایک توانا دل اور صحت مند دماغ کا امتزاج ہی انسان کی اندرونی اور بیرونی تازگی کا ضامن ہوتا ہے۔ انسانوں کے بارے میں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ جس کا دل مضبوط ہو اُس کا دماغ مشکل سے ہی تھکتا ہے، اس کے برعکس نازک دل تھکن زدہ دماغ کی وجہ بنتا ہے۔
خالق کائنات نے اپنی پسندیدہ مخلوق کو جہاں ایک طرف اپنی تمام تخلیقات پر فضیلت عطا فرمائی ہے وہیں دوسری طرف اسے بیشمار احساسات کا منبع بھی قرار دیا ہے۔ احساس پر عمل کا گہرا اثر ہوتا ہے اور یہی انسانی جسم میں روح کی موجودگی کی زندہ جاوید علامت سمجھا جاتا ہے۔
احساسات دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک مثبت اور دوسرے منفی، انسانی دماغ کو یہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ متاثر کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ انسان ایک عجوبہ ہے، کیونکہ اگر وہ کسی عمل کو کرنے یا شے کو پانے کا پکا ارادہ کر لے تو اُس میں کامرانی حاصل کرکے ہی دم لیتا ہے پھر چاہے اُس کے پاس ہمت، حوصلے، وسائل، ذرایع اور مواقعوں کا فقدان ہی کیوں نہ ہو۔
انسان ’’من موجی‘‘ کی تعریف پر من وعن پورا اُترتا دکھائی دیتا ہے، اس کے من کو بھائے تو خوب دوڑ لگائے اور جب جی نہ چاہے تو ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھائے۔ مولانا جلال الدین رومی سے ایک مرتبہ کسی نے پوچھا، زہر کیا ہے؟
آپ نے فرمایا، ’’ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو وہ زہر ہے جیسے قوت، اقدار، دولت، بھوک، لالچ، محبت اور نفرت۔‘‘ ایک وقت میں بیشمار احساسات کی انسانی جسم میں موجودگی اور اُس میں سے ہر احساس کو ذہن پر سوار رکھنا انسان کو روشنی سے اندھیروں کی جانب کم وقت میں پہنچا دیتا ہے اور ایسے ہی اندھیروں کے بارے میں مرشد رومی فرماتے ہیں، ’’اپنی زندگی کے تاریک لمحات میں بھی بغیر کسی خوف کے انتظار کرو۔‘‘
یہاں انتظار سے مراد ہے سوچوں کی یلغار پر بند باندھ کر کچھ وقت کے لیے چین کے لمحات جینا۔ ہم انسان کائنات کے جس سیارے پر اُتارے گئے ہیں وہاں دوڑ کا مقابلہ زور و شور سے جاری و ساری ہے، افراتفری کا بھیانک عالم ہے اور نفسا نفسی کا جن بوتل سے باہر نکل کر انسانی زندگیوں کو سالم نگل رہا ہے، ان حالات میں انسان اپنا آپ سنبھالنے میں بالکل قاصر نظر آرہا ہے۔
انسان کو مٹی سے خلق کیا گیا ہے اور مٹی بدلتے ہوئے موسموں کا سب سے زیادہ اثر لینے والی شے ہے، برسات میں یہ بہت نم ہو جاتی ہے، تیز ہوا کے جھونکوں میں یہ بکھر جاتی ہے، تپتی گرمی میں یہ بنجر صحرا کا روپ دھار لیتی ہے اور طوفان کے وقت اس میں دھول شامل ہو جاتی ہے۔
انسانی طبیعت میں اُس کی تخلیقی شے کے جزو کے تمام اثرات واضح طور دکھائی دیتا ہے۔ز یست انسانی ربِ کریم کا خوبصورت تحفہ ہے جس میں خوشنما بہاریں، رنگوں بھرے دن، ہنستا کھلکھلاتا وجود ابن آدم اور اُمنگوں بھری کرن موجود ہوتی ہے۔
بندہ بشر کو فریب سے نکال کر سفر کی سختیاں محسوس کروا کر حقیقت ِ زندگانی کی چوکھٹ تک لے جایا جاتا ہے لیکن اندر صرف وہی لوگ داخل ہوتے ہیں جنھوں نے اپنے کٹھن سفر کو وسیلہ ظفر سمجھا ہو۔ پرُسکون ایام صرف تبھی پر لطف مانے جاتے ہیں جب زندگی کی مسافتوں میں انسان اپنے وجود کو ڈھیلا چھوڑ کر اذیت کا ہر احساس بہادری کے ساتھ محسوس کرے اور اپنی زخمی روح پر نکلنے والے آبلوں کا مداوا بھی خود ہی کرے۔
اس کرہ ارض پر ایسا کوئی فرد نہیں جس کی زندگی میں کسی قسم کا رنج و غم موجود نہ ہو، یہاں پھولوں کی سیج پر براجمان افراد کو بھی کانٹوں کی چبھن محسوس ہوتی ہے، اس دنیا کا ہر دوسرا انسان ذ ہنی یا جسمانی اعتبار سے تھکا ہوا ہے۔
گزرتے ہوئے زمانوں، بدلتے ہوئے سالوں اور موسموں میں پیدا ہوتی شدتوں نے انسانوں کا طرزِ زندگی بالکل بدل کر رکھ دیا ہے اور تازہ ہوا کا جھونکا قصہ پارینہ بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری دنیا جدیدیت کی اُس چوٹی پر پہنچی ہوئی ہے جہاں سے مزید بلندیوں کی راہیں ہموار ہوتی ہے لیکن پھر بھی یہاں کے باسی اپنے نڈھال وجود کو منظر عام پر لانے سے نہ صرف ہچکچاتے ہیں بلکہ ذلت کا احساس بھی محسوس کرتے ہیں۔
اگر کسی غیر جاندار چیز، جانور یا انسان پر حد سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے تو یہ یکساں طور پر سبھی کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے، انسان کے جسمانی اعضاء کا بھی یہی معاملہ ہے جب کسی عضو سے اُس کی وسعت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے تو صرف وہی نہیں اُس سے منسوب دیگر اعضاء بھی تکلیف کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جدید دنیا کا انسان تقریباً اپنے تمام معاملات زندگی کے حوالے سے ترقی پسند سوچ کا مالک ہے ماسوائے اپنی اور اپنے اطراف کے لوگوں کی ذہنی تھکن کے۔ اس دنیا میں موجود انگنت معاشروں اور وہاں بسنے والے افراد عقل و فراست کے گروہ سے تعلق رکھتے ہوں یا پستہ سوچ کے، وہ سبھی بے چینی اور ذہنی اضطراب و بوجھ کی ظاہری علامات کو پاگل پن یا نیم پاگل پن کی کیفیت گردانتے ہیں۔
جب کسی انسان کو دل کی بیماری لاحق ہوتی ہے تو اُسے ہمارا معاشرہ قلبی مریض کہہ کر زِچ نہیں کرتا لیکن ایسا ذہنی تھکن زدہ افراد کے ساتھ ضرور کیا جاتا ہے۔ جس طرح بیمار قلب کو خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے بالکل ویسے ہی تھکے ہوئے ذہن کے مالک افراد بھی خیال، فکر، توجہ، اپنایت اور محبت کے مستحق ہوتے ہیں۔
اس دنیا کا انسان بیشمار اخلاقی برائیوں کے ہمراہ دوغلے پن کا بھی شکار ہے، وہ مرض دینے والے کے بجائے مریض کو مرض کا مورودِ الزام ٹھہراتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کے ذہن کو تھکانے میں اُس کا اپنا ہاتھ ہوتا ہے ساتھ اس میں بھی دو رائے نہیں ہے کہ اندرونی سے زیادہ بیرونی عوامل انسان کی ذہنی سرگرمیوں کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کسی فرد کا خود کے ذہن کو تھکا ہوا ماننا انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے کے مترادف ہے پھر اگر وہ ڈرتے، سہمتے اپنے مرض کی تشخیص کے بعد ماہر ِ نفسیات کے پاس علاج کی غرض سے چلا جائے تو دنیا والے اُسے ایسی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ اُس کی مشکل سے جمع کی ہوئی ہمت اور شخصی اعتماد فضا میں محلول ہو جاتا ہے۔
ذہن کا تھکا ہوا ہونا یا ذہن پر کسی قسم کا بوجھ موجود ہونا ایک عام سی بات ہے اگر حقیقت کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو ہماری دنیا کا ہر دوسرا فرد ذہنی طور پر بیمار ہے۔ آج اگر ہم دوسروں کو اُن کے تھکن زدہ ذہن کی وجہ سے Alien سمجھیں گے تو کل کوئی دوسرا بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک روا رکھے گا۔
دنیا بہت تیزی سے آگے کی جانب بڑھ رہی ہے ہمیں بھی اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر صرف چلنا نہیں بھاگنا بھی ہوگا محض رہن سہن کے حوالے سے نہیں بلکہ اپنی سوچ میں وسعت پیدا کرنے اور دوسروں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے اُن کے لیے اپنے دل میں احترام کا جذبہ اُجاگر کرنے اور اُس کا عملی مظاہرہ کرنے کے اعتبار سے بھی اور جب ہم ایسا کر جائیں گے تبھی ہم صحیح معنوں میں ماڈرن انسان کہلانے کے اہل ہونگے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سے زیادہ جاتا ہے ہوتی ہے دنیا کا ہے اور
پڑھیں:
اسرائیل کا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں شرکت نہ کرنے کا اعلان
جنیوا: اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (UNHRC) میں مزید شرکت نہیں کرے گا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے UNHRC پر اسرائیل کے خلاف تعصب برتنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک امریکا کے ساتھ شامل ہو کر اس کونسل میں مزید حصہ نہیں لے گا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ترجمان پاسکل سم نے اسرائیل کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل مبصر ریاست کے طور پر کونسل میں شامل ہے اور چونکہ وہ رکن نہیں ہے اس لیے وہ اس سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔
خیال رہےکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 47 رکن ممالک پر مشتمل ہے، جنہیں دیگر رکن ممالک چار سالہ مدت کے لیے منتخب کرتے ہیں، فی الحال امریکا بھی اس کونسل کا رکن نہیں ہے۔
واضح رہےکہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے بھی کونسل پر “اخلاقی ناکامی” کا الزام لگایا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطینی علاقہ، فرانسسکا البانیز نے اسرائیل کے اس فیصلے کو “انتہائی سنگین” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اسرائیل کے رویے کو دنیا کے سامنے واضح کر رہا ہے کہ وہ کسی بھی احتساب کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔