Express News:
2025-02-08@22:56:18 GMT

بنت حوا

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

سنا ہے کہ دنیا ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن ہے مگر اس پر یقین نہیں آتا۔ نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں، ہر روز لگتا ہے کہ کل کی ایجادات اور دریافتیں پرانی ہو گئیں ۔ سائنس کی حیرت انگیز ایجادات کے باعث انسان نے اس دنیا کے بعد نت نئی دنیائیں تسخیر کرنا شروع کر دی ہیں، ستاروں پرکمند ڈال دی ہے، چاند کو مسخر کر لیا ہے اور اب سورج تک پہنچنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

پہیہ جو کہ ایجادات کی ماں ہے، اس کے بعد ایجادات کا سلسلہ رکا نہیں۔ ٹیلی فون، ٹیلی وژن، کمپیوٹرز اور اب اسمارٹ فون اور سیٹلائیٹ نے دنیا کو بالکل بدل دیا ہے۔ اگر کچھ نہیں بدل سکا ہے تو وہ ہے انسان کی سوچ۔ 

اتنا کچھ پا کر بھی، تعلیم کے میدان میں قلابے مار مار کر بھی اگر ہمارے اذہان میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی، اپنے ساتھ ساتھ ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں کی سوچ کو تبدیل نہیں کر سکے تو تف ہے ایسی تعلیم پر اور ایسی ترقی پر۔ ہمارا ملک تو یوں بھی ایسا ملک ہے کہ ترقی کے زینے پر باقی ملک اوپر جاتے ہیں تو ہم نیچے کی طرف اترتے ہیں۔

ذہنی پسماندگی تو اس قدر عروج پر ہے کہ مثالیں دیکھنا ، سننا اور پڑھنا شروع کر دیں تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں ۔ حال ہی میں ہم سب نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک وڈیو دیکھی ہے۔ اس وڈیو میں پاکستان کے ہی ایک قبائلی علاقے میں کسی سفاک انسان نے ( انسان کہلانے کا مستحق تو نہیں) نوزائیدہ بچی کو زندہ زمین میںگاڑ دیا اور جانے اس کی زندگی اللہ کو منظور تھی کہ اسے مٹی کی تہہ کے نیچے سے نکال لیا گیا اور کہا جا رہا ہے کہ فوج کے کسی افسر نے اسے گود لے لیا ہے۔

اس وڈیو میں بچی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ انتہائی خوش شکل مگر بد دماغ والدین کی اولاد ہے۔ اس خبر کے بارے میں مزید جاننے کی غرض سے جونہی میں نے گوگل پر سوال ڈالا تو اس پر ایک فہرست موجود تھی، صرف نوزائیدہ ہی نہیں، چند سالوں کی، جوان لڑکیاں، شادی شدہ اور کہیں تنہا نہیں … بلکہ پورے پورے خاندان کے ساتھ جنھیں زمین میں گاڑ دیا جاتا ہے۔

میری حیرت دوچند ہو گئی جب میں نے اس فہرست میں دو ایک کے سوا ، تمام واقعات کا ماخذ اپنے ملک اور اس کے ہمسایہ ممالک میں دیکھا۔ ایک نہیں، سیکڑوں واقعات مل جاتے ہیں۔ تفصیلات میں جائیں تو چند ایک وجوہات کا علم ہو گا، یعنی ان کا کیا قصور تھا کہ انھیں زندہ گاڑ دیا گیا یا جلا دیا گیا۔

ان کا قصور تو ہم سب کو علم ہے کہ پہلا قصور ان کا پیدا ہونا ہے۔ اسلام سے پہلے لوگ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زمین میں گاڑ دیا کرتے تھے، اگر اس وقت الٹرا ساؤنڈ کی سہولت ہوتی تو ہزاروں مائیں اس کرب سے بچ جاتیں کہ وہ ان بیٹیوں کو اپنے وجود میں پروان چڑھا کر انھیں مشقت کے ساتھ ، موت و حیات کی کشمکش سے گزر کر پیدا کریں۔

کیسے شقی القلب لوگ ہوتے ہیں جو بیٹیوں کے وجود کو اپنے لیے اچھا نہیں سمجھتے۔ ان معصوم کلیوں کو کھردرے ہاتھوں سے چھوتے بھی کیونکر ہیں۔ مٹی کے اوپر رکھتے ہوئے بھی ان کا دل نہیں دکھتا، ان پر ایک مٹھی بھر مٹی ڈالتے ہوئے بھی کلیجہ نہیں کانپتا، کجا یہ کہ اس سانس لیتی زندگی کو، اس روتی بلکتی معصوم کلی کو زمین میں دفن کردیں۔

یہ جانتے ہوئے کہ موسم شدید ہے، رات کے اندھیرے میں جنگلی جانور نکلتے ہیں، جنھیں ماس اور لہو کی خوشبو میلوں تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ مٹی ہی کیسے ان جلادوں کے ہاتھ نہیں تھام لیتی جو ان بچیوں اور عورتوں کو اپنے کرخت ہاتھوں سے زمین کے حوالے کرتے ہیں۔

یہی ذات ہے جو ان کی ماں بھی ہوتی ہے، بہن، بیوی اور بیٹی بھی۔ جانے ہر دور میں بیٹیوں کو اس قدر ارزاں کیوں سمجھا جاتا ہے، کیا کمی ہے ان میں کہ انھیں اپنا نام بھی دینا گوارا نہیں کیا جاتا۔ ان کی پیدائش کو اپنے لیے سزا سمجھتے ہیں اور کسی کو بتانا بھی معیوب سمجھتے ہیں جیسے کسی کے اختیار میں ہو کہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی۔ بیٹوں کی پیدائش پر شادیانے بجانے اور ہوائی فائرنگ کرنے والے، مٹھائیاں بانٹنے والے، بیٹی کی ولادت پر یوں سر جھکا لیتے ہیں جیسے کہ ان پر کوئی مصیبت نازل ہو گئی ہو۔

آپس میں لڑتے ہیں تو گالیوں میں ماں، بہن اور بیٹی کو رگید دیتے ہیں ۔ سارے محاورے اور کہاوتیں بھی ایسی بنی ہوئی ہیں کہ بیٹی کی پیدائش سے باپ کا شملہ نیچا ہو جاتا ہے ، باپ کے کندھے بیٹے کی پیدائش پر چوڑے ہوجاتے ہیں اور بیٹی کی پیدائش پر جھک جاتے ہیں۔ بیٹیاں ہوں تو یہ فکر لگ جاتی ہے کہ وارث کون ہو گا؟ کس چیز کا وارث؟ پلے چاہے دھیلا نہ ہو۔ نام لیوا کوئی تو ہو… کیسا نام؟ نام تو وہی ہے جو آپ کا آپ کی زندگی تک لیا جائے گا، مرنے کے بعد تو آپ میت اور پھر مرحوم رہ جاتے ہیں۔ ہم میں سے کس کس کو اپنے پردادا کا نام یاد ہے، کسی نے ان کی قبر تک کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔

بچی ذرا سی پروان چڑھتی ہے تو ارد گرد کتنے ہی گدھ منڈلانے لگتے ہیں۔ آپ کے قریبی لوگ، ہمسائے، محلے دار اور تو اور محرم رشتہ دار۔ جانے کتنی ہی بچیاں اس اندھے اعتماد کے ہاتھوں پامال ہو جاتی ہیں اور پھر سزا وار بھی وہی ٹھہرتی ہیں۔ شادی ہو جاتی ہے تو چار دن میں سسرال والوں کی پرتیں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں، بہو اور بیوی میں ہر وقت عیب نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں جیسے کہ کوئی مخصوص عینک لگا لی ہو عیب ڈھونڈنے والی۔

نندوں اور ساسوں کے ہاتھوں چولہے پھٹنے سے، گلے کٹنے سے لے کر کنوؤں میں پھینک دینے کے واقعات بھی عام ہیں۔ اگرساسوں اور نندوں کے اپنے وار کاری نہ ہوں تو بیٹوں کو چکتیں دی جاتی ہیں، وہ ان کی چوٹی یا ناک کاٹ دیتے ہیں، انھیں منہ دکھانے جوگا نہیں چھوڑتے۔جہیز کے بغیر بیاہ دو تو بیٹی کو سو مسائل اور جہیز دے کر بھیجو تو اس میں کئی چیزیں کم ہوتی ہیں جن کی گنتی سسرال والے عمر بھر کرتے رہتے ہیں۔

انھیں یہ تو ہر روز سننا پڑتا ہے کہ وہ پھوہڑ ہیں، کم شکل اور کم عقل ہیں، اولاد کی تربیت نہیں کرنا آتی۔ تھکتے نہیں ہیں لوگ ؟؟ پیدائش کے وقت سے لے کر اس کی موت کے وقت تک اسے تختہء مشق بنا کر رکھتے ہیں اور پھر بھی نہیں تھکتے۔

اسے ہر سویرے جاگنے سے لے کر رات بستر پر پہنچنے تک گویا ایک جنگ لڑنا پڑتی ہے، اپنی بقا کی جنگ۔ کوئی اسے پیدا ہوتے ہی مار دیتا ہے، کوئی اسے عمر کے کسی اور حصے میں کسی وجہ سے مار دیتا ہے اور کوئی اسے ہر روز مارتا ہے، وہ پھر جیتی ہے اور پھر ماردی جاتی ہے۔ جانے کون سی موت زیادہ سہل ہے؟؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی پیدائش جاتے ہیں کو اپنے جاتی ہے ہیں اور اور پھر

پڑھیں:

بانی پی ٹی آئ نے کسی کو کوئی خط ارسال نہیں کیا، اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کا انکشاف

اسلام آباد: اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ عبدالغفور انجم نے انکشاف کیا ہے کہ بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیراعظم عمران خان نے جیل سے کسی شخصیت کو کوئی خط تحریر نہیں کیا۔

تفصیلات کے مطابق اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ عبدالغفور انجم نے انکشاف کیا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے جیل سے کوئی خط کسی کو بھی ارسال نہیں کیا۔

عبدالغفور انجم نے کہا کہ کوئی بھی زیرحراست ملزم یا مجرم جیل سے کوئی خط تحریر کرے گا تو اس کی جانچ پڑتال جیل انتظامیہ اور سپرنٹنڈنٹ کرتا ہے اس طرح شخص مذکور نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو جیل سے کوئی خط تحریر نہیں کیا۔ 

انہوں نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بارے میں دعویٰ کرنا کہ انہیں اڈیالہ جیل میں تنہائی میں رکھا گیا ہے سراسر جھوٹ اور غیر حقیقت پسندانہ بات ہے، کسی بھی قیدی کو تنہائی میں رکھنے کا حکم  صرف عدالت دے سکتی ہے۔

جیل سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے پیغامات بھیجنا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ کیونکہ جیل میں رہتے ہوئے اس کا استعمال کرنا ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سزیافتہ قیدی کو ہفتے میں دو ملاقاتوں کی اجازت ہوتی ہے اور اگر کوئی قیدی ہفتے میں ایک خط تحریر کرے تو پھر اس صورت میں ملاقات کی ایک اجازت باقی رہ جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • محبوبہ مفتی کو انکی بیٹی التجا مفتی کیساتھ گھر میں نظربند کردیا گیا
  • اپنے پاوں پر کھڑے ہو چکے، اب معاشی نمو کیلئے آگے بڑھنا ہو گا:وزیر اعظم
  • دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ نہ کوئی داغ
  • کشمیر کا ایسا گاؤں جہاں کوئی سگریٹ نہیں پیتا
  •  دنیاخدا نے مجھے زندہ رکھا کیونکہ میں نے کوئی اہم کام کرنا ہے، حسینہ واجد
  • عمران خان نے کوئی خط تحریر نہیں کیا، اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کا انکشاف
  • عمران خان نے جیل سے کسی شخصیت کو کوئی خط تحریر نہیں کیا، اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کا انکشاف
  • بانی پی ٹی آئ نے کسی کو کوئی خط ارسال نہیں کیا، اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کا انکشاف
  • عمران خان نے کسی کو کوئی خط تحریر نہیں کیا، اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کا انکشاف