ایک ہنگامہ تھا ٹرمپ آئے گا تو عمران خان باہر آئیں گے،وہ آگیا مگر انکا کچھ نہ بنا: خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
سیالکوٹ: وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بہت ہنگامہ تھا امریکی صدر ٹرمپ آئے گا اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان باہر آجائیں گے لیکن ٹرمپ بھی آگیا مگر ان کا کچھ نہیں بنا۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھاکہ ایسے احتجاج پنجاب،سندھ یا بلوچستان میں نظرکیوں نہیں آتے؟ پی ٹی آئی کی قیادت دیگرتین صوبوں میں نظرکیوں نہیں آتی؟ اگرپرامن احتجاج کیے جائیں توہمیں کوئی اعتراض نہیں، ان کا ہرجلوس اوراحتجاج پرتشدد ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی یا 26 نومبردوہرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، گنڈاپور کا بیان ہے کہ ان کے 99 فیصد مطالبات منظورہوگئے ہیں، اگرپی ٹی آئی کے 99 فیصد مطالبات منظورہوگئے ہیں تواحتجاج کس بات کا؟
وزیر دفاع کا کہنا تھاکہ ایک ہنگامہ تھا کہ ٹرمپ آئے گا توبانی پی ٹی آئی باہرآجائیں گے، ٹرمپ توآگیا مگران کا کچھ نہیں بنا، اگر امریکا نے اس بارے میں کسی خواہش کا اظہار کیا بھی تو اس کی تعمیل ہم پر لازم نہیں ہے، ریاستوں کے تعلقات اس بنیاد پر نہیں ہوتے کہ مفاد کیخلاف بات بھی لازمی تسلیم کی جائے۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ پی ٹی آئی مذاکرات مذاکرات کھیل رہی تھی، پی ٹی آئی اپنے ورکرز کو دلاسے دیتی ہے، ان حالات میں چانس نظر نہیں آتا کہ پی ٹی آئی سےکوئی مذاکرات کرے، یہ ان کی اور ہماری طرف سے آوازیں آتی ہیں کہ مذاکرات ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کو مذاکرات کی آڑ میں کچھ اور استعمال کرنے کیلئے استعمال کیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی کہنا تھا
پڑھیں:
پاکستان: الیکشن کے ایک سال بعد شہباز شریف کی حکومت کہاں کھڑی ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 فروری 2025ء) شہباز شریفاور ان کی سیاسی جماعت کو پاکستان میں اقتدار میں آئے ایک سال ہو چکا ہے۔ تاہم ان کی حکومت اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مابین تعلقات اب بھی کشیدہ ہیں۔
جیل میں قید عمران خان کی مقبولیت ملک میں اب بھی برقرار ہے اور ان کا موقف ہے کہ ان کو سزا سیاسی بنیادوں پر دی گئی ہے۔
فروری 2024ء سے اب تک شہباز شریف کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر انہوں نے آٹھ فروری کو احتجاج کی کال بھی دی۔ پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہے؟پی ٹی آئی عمران کی وزیر اعظم کے منصب سے برطرفی اور جیل جانے کے بعد سے متعدد احتجاجی مظاہرے کر چکی ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں دیکھی گئی ہے کیونکہ برسر اقتدار مسلم لیگ ن کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔
(جاری ہے)
برکنگز انسٹیٹوٹ سے وابستہ مدیحہ افضل نے ڈی ڈبلیو سے اس حوالے سے گفتگو کے دوران کہا، ''داغدار الیکشن کے ایک سال بعد مخلوط سویلین حکومت نے ملٹری کے ساتھ مل کر ملک پر اپنا کنٹرول مضبوط کر لیا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''یقیناً ایسا کرنے کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی ہے، ملک کی جمہوریت، عدلیہ کی آزادی اور عوام کے آزادی اظہار اور رائٹ ٹو انفارمیشن کی صورت میں۔
اور ایسا کرنے کے فوائد پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔‘‘عمران خان کو 2022ء میں پارلیمان میں ایک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم کے منصب سے ہٹایا گیا تھا۔ پچھلے ماہ ایک عدالت نے انہیں ایک بدعنوانی کے کیس میں 14 سال قید کی سزا بھی سنائی تھی، جبکہ اس وقت ان کے خلاف تقریباﹰ 200 مقدمات درج ہیں۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ عمران خان کو 14 سال قید کی سزا دراصل ان کو سیاست چھوڑنے پر مجبور کرنے کا ایک حربہ ہے۔
اس صورتحال کے پس منظر میں وڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز کے مائیکل کوگلمین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران تبصرہ کیا، ''یہ سیاسی بحران بالخصوص عمران خان اور سویلین اور ملٹری قیادت کے درمیان تلخ ٹکراؤ کا نتیجہ ہے۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کرنے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور اسٹیبلشمنٹ (ان کی جماعت کے خلاف) کریک ڈاؤن میں نرمی پر تیار نہیں۔
‘‘مدیحہ افضل کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا، ''پی ٹی آئی کے مظاہروں کے مقاصد اب تک پورے نہیں ہوئے ہیں اور دوسری جانب ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور ملٹری نے باقی ماندہ الیکٹورل ٹرم کے لیے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔‘‘
سیاسی تجزیہ کار رضا رومی پی ٹی آئی کی اس ناکامی کی وجہ ''پارٹی کے کمزور انتظامی ڈھانچے اور پارٹی میں اختلافات‘‘ کو قرار دیتے ہیں۔
’ہائبرڈ رجیم کے اعتماد میں اضافہ‘پاکستان کی معیشت طویل عرصے سے مشکلات کا شکار رہی ہے۔ تاہم پچھلے ہفتے بہتری کی کچھ امید تب نظر آئی جب پاکستان کے ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کیے گئے ڈیٹا میں مہنگائی میں کمی کی طرف اشارہ کیا گیا۔
اس بارے میں رضا رومی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''الیکشن کے ایک سال بعد پاکستان کی معیشت بظاہر مستحکم نظر آ رہی ہے اور اس سے یقیناً موجودہ 'ہائبرڈ رجیم‘ کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ''اقتدار میں موجود سیاست دانوں نے حکومت کے برسراقتدار رہنے کے لیے اقدامات اور اس کو درپیش خطرات دور کیے ہیں، بالخصوص ان آزاد ججوں سے متعلق جو اس ہائبرڈ آرڈر کے افعال پر سوال اٹھا سکتے تھے۔‘‘
مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟مستقبل کے حوالے سے رضا رومی نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کے مستحکم ہونے کے لیے ''اگلے انتخابات اور ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن کے تحت اس کے طریقہ کار پر وسیع بنیادوں پر اتفاق رائے‘‘ کی ضرورت ہو گی۔
ان کے مطابق سیاسی مسائل کا ایک حل '' شاید قبل از وقت انتخابات بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘ بقول رومی، ''تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ موجودہ غیر مستحکم سیاسی صورتحال کے پیش نظر اگلے دو سالوں میں آزاد اور منصفانہ الیکشن کی ضرورت ہو گی۔‘‘
مائیکل کوگلمین کے مطابق موجودہ سیاسی کشیدگی کا حل اور اس صورتحال میں ''آگے بڑھنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔
‘‘ان کا کہنا تھا، ''حالیہ دنوں میں (حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین) بات چیت کا سلسلہ رک گیا ہے، لیکن کم از کم ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کی کوشش تو کی گئی۔ مستقبل میں اس بنیاد پر مزید پیش قدمی ممکن ہو سکتی ہے۔ تمام اختلافات اور غصے کے باوجود دونوں فریقین کا رجحان بات چیت کی طرف نظر آتا ہے۔‘‘
مدیحہ افضل کوگلمین کی رائے سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''موجودہ سیاسی لڑائی تب تک جاری رہے گی جب تک مفاہمت نہیں ہوتی اور اپوزیشن کو سیاسی اسپیس نہیں دی جاتی۔ اور پاکستان کی جمہوریت کے لیے یہ راستہ ہی صحیح ہو گا، تاہم یہ راستہ آسان نہیں ہو گا۔‘‘
(ہارون جنجوا) م ا/ رب