صدر سپریم کورٹ بار کی سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )صدر سپریم کورٹ بار نے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے ملاقات کی، صدر بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن میر عطا اللہ لانگو بھی ملاقات میں موجود تھے۔
نجی ٹی وی آج نیوز نے اعلامیہ کے حوالے سے بتایا کہ دونوں ملاقاتوں میں عدلیہ کی مجموعی کارکردگی سے متعلق مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ صدرسپریم کورٹ بار نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی عدلیہ کے موثر کام کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کو سراہا۔
میاں رو¿ف عطا نے چیف جسٹس آف پاکستان کے بطور چیئرمین جوڈیشل کمیشن کے کردار کو بھی سراہتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی جانب سے حالیہ تقرریاں وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
صدر سپریم کورٹ بار نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات میں حالیہ تقرریوں کو سراہا اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججوں کی تعیناتی کی تعریف کی۔
میاں رو¿ف عطا نے کہا کہ نئے ججز انصاف کی بروقت اور موثر فراہمی میں معاون ثابت ہوں گے، ججز عام شہریوں کو درپیش مشکلات میں کمی لائیں گے۔
2024 کے انتخابات میں پورے پاکستان میں جیتنے والے فارم 47 پر منتخب ہوئے:گورنر پنجاب
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائیکورٹ سپریم کورٹ بار چیف جسٹس
پڑھیں:
آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنےکی استدعا مستردکردی
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنےکی استدعا مستردکردی۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے اورسنیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی جس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیے۔
دلائل کے آغاز میں وکیل منیراے ملک نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کے معاملے کو آرٹیکل175 کے ساتھ دیکھنا چاہئے، ججز ٹرانسفر، فیڈرل ازم اور انتظامی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق دلائل دوں گا، اس پر جسٹس علی مظہر نے کہاکہ ججز ٹرانسفر آرٹیکل 200 کے تحت ہوئی، بہتر ہے دلائل کا آغاز بھی یہیں سے کریں، ہم ججز کو سول سرونٹ کے طور پر تو نہیں دیکھ سکتے۔
جسٹس علی مظہر نے کہا کہ ایک جج کا ٹرانسفر 4 درجات پر رضامندی کے اظہار کے بعد ہوتا ہے، جس جج نے ٹرانسفر ہونا ہوتا ہے اس کی رضامندی معلوم کی جاتی ہے، جس ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہونا ہوتی ہے اس کے چیف جسٹس سے رضامندی معلوم کی جاتی ہے، جس ہائیکورٹ میں آناہوتا ہے اس ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی لی جاتی ہے، آخر میں چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی کے بعد صدر مملکت ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں، آپ کو اعتراض ٹرانسفر پر ہے یا سنیارٹی پر؟ اس پر منیر اے ملک نے جواب دیا ہمارا اعتراض دونوں پر ہے۔
جسٹس علی مظہر نے کہاکہ آپ نئے الفاظ آئین میں شامل کروانے کی بات کر رہے ہیں، آرٹیکل 62 ون ایف نااہلی کیس میں آئین میں نئے الفاظ شامل کرکے نااہلی تاحیات کر دی گئی، اس فیصلے پر شدید تنقید ہوئی جسے نظرثانی میں تبدیل کیا گیا۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ جب ججزکی اسامیاں خالی تھیں توٹرانسفر کے بجائے ان ہی صوبوں سے نئے جج تعینات کیوں نہیں کئے گئے؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ جج کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟ اس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا ذکر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف اٹھاتے" اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری" کا ذکرآتا ہے۔
آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنےکی استدعا مستردکردی، اس کے علاوہ ٹرانسفر ہونے والے ججز کو کام سے روکنے کی استدعا بھی مسترد کردی گئی۔
بعدازاں عدالت نے 5 ججز کی درخواست پر نوٹسز جاری کرتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین، جسٹس محمد آصف اورجوڈیشل کمیشن سمیت اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 17اپریل تک ملتوی کردی۔
والدین علیحدگی کے باوجود دوست تھے، وفات سے قبل والد ہی والدہ کو ہسپتال لیکرگئے: بیٹی نور جہاں
مزید :