گلگت، آغا راحت کی قیادت میں عوام کی کثیر تعداد جماعت خانہ آمد، آغا خان کی وفات پر تعزیت
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے شیخ کرامت حسین نجفی نے شاہ کریم الحسینی کی گراں قدر خدمات کا تذکرہ کیا، جبکہ آغا راحت حسین الحسینی نے خصوصی دعا کرائی۔ اسلام ٹائمز۔ قائدِ ملتِ جعفریہ گلگت بلتستان سید راحت حسین الحسینی کی قیادت میں عوام کی بڑی تعداد پرنس کریم آغا خان کی رحلت پر تعزیت کرنے اور نئے امام کی تقرری پر مبارکباد دینے کے لیے سینٹرل جماعت خانہ گلگت پہنچ گئی، جہاں انہوں نے شاہ کریم الحسینی کی رحلت پر اسماعیلی کونسل اور جماعت سے تعزیت کا اظہار کیا۔ آغا راحت حسین الحسینی کے ہمراہ علماء کرام، پی پی پی کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈووکیٹ، وزیر اعلی کے معاون خصوصی حسین شاہ سمیت عوام کی ایک بڑی تعداد آغا خان کے مریدوں سے اظہارِ تعزیت اور نئے امام کی تقرری پر مبارکباد دینے کے لیے جماعت خانہ پہنچی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے شیخ کرامت حسین نجفی نے شاہ کریم الحسینی کی گراں قدر خدمات کا تذکرہ کیا، جبکہ آغا راحت حسین الحسینی نے خصوصی دعا کرائی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: راحت حسین الحسینی الحسینی کی
پڑھیں:
اختر مینگل کا دھرتنے کے مقام پر کثیر الجماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ
کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 13 اپریل 2025ء ) بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل نے دھرنے کے مقام پر کثیر الجماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کرلیا، اس سلسلے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو دعوت نامے بھجوا دیئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے پر پیر کو کوئٹہ میں کثیر الجماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یہ کانفرنس دھرنے کے مقام پر منعقد کی جائے گی، جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے۔ سردار اختر مینگل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں بلوچ لانگ مارچ کرنے والوں کے مطالبات اور بلوچستان کو درپیش سنگین مسائل پر غور کیا جائے گا، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر خواتین سیاسی کارکنوں کی رہائی بی این پی کا بنیادی مطالبہ ہے لیکن صوبائی حکومت بلوچ خواتین کارکنوں کی گرفتاری جیسے حساس معاملات پر سنجیدہ نہیں اور یہی ریاست کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے بتایا کہ حکومت کے ساتھ تین مرتبہ مذاکرات کیے گئے لیکن کوئی بامعنی نتیجہ نہیں نکلا، بلوچستان ایک بار پھر ریاستی جبر کا شکار ہے اور پانچویں فوجی آپریشن سے گزر رہا ہے، جو لوگ کبھی پرامن احتجاج کرتے تھے وہ اب پہاڑوں میں چلے گئے ہیں کیوں کہ جبری گمشدگیوں اور لاشوں کے پھینکے جانے جیسے مظالم نے احتجاج کا دروازہ بند کر دیا ہے، خواتین قانون سازوں کو آئینی ترامیم کے لیے ووٹ دینے پر اغوا اور دباؤ کا سامنا ہے، بڑی سیاسی جماعتیں بلوچستان کے عوام کے ساتھ مخلص نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر صوبے کے وسائل پر قبضہ کر رہی ہیں۔