روندو، 45 سالہ شخص نے دریائے سندھ میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
متاثرہ شخص کا تعلق تریکو سے بتایا جاتا ہے۔ واقعے کے فوراً بعد انتظامیہ، ریسکیو ٹیموں اور مقامی افراد نے فوری طور پر لاش کی تلاش کا عمل شروع کر دیا۔ تاہم، تاحال لاش برآمد نہیں ہو سکی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ روندو کے علاقے ہرسنگ نالہ کے قریب ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جہاں اقبال ولد حاجی رضا، عمر تقریباً 45 سال نے مبینہ طور پر دریا میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔ متاثرہ شخص کا تعلق تریکو سے بتایا جاتا ہے۔ واقعے کے فوراً بعد انتظامیہ، ریسکیو ٹیموں اور مقامی افراد نے فوری طور پر لاش کی تلاش کا عمل شروع کر دیا۔ تاہم، تاحال لاش برآمد نہیں ہو سکی ہے۔ انتظامیہ نے ریسکیو آپریشن کو تیز کرتے ہوئے مقامی افراد سے تعاون کی اپیل کی ہے۔ کسی بھی شخص کو دریا میں لاش یا کوئی سراغ ملنے کی صورت میں فوری طور پر اطلاع دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مزید معلومات یا اطلاع دینے کے لیے اسسٹنٹ کمشنر آفس روندو کے کنٹرول روم کے نمبر 05815922000 پر رابطہ کریں۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
اپر سندھ کی صورتحال
سکھر کے مضافاتی علاقے کی قدیم بستی سے لاپتہ ہونے والی پریا کماری کو کئی سال بیت گئے۔ حکومت سندھ کی بار بار یقین دہانیوں اور سندھ پولیس کے بڑے افسروں کی جلد ہی خوش خبری سنانے کے اعلانات کے باوجود پریا کماری کا پتہ نہیں چل سکا۔ پریا کماری کے غریب والدین سکھر سے کراچی تک ہر اس دروازے کو کھٹکھٹا چکے ہیں، جہاں سے انھیں مدد کی امید تھی مگر دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے برسوں میں تبدیل ہوگئے ہیں مگر پریا کماری کے بارے میں کچھ پتا نہیں چل سکا۔
انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان نے سندھ میں اقلیتوںکے بارے میں ایک اسٹڈی کرائی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امن و امان کی خراب صورتحال، عدم تحفظ کے احساس کی بناء پر اپر سندھ کے شہروں سے کئی ہندو افراد اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کئی خاندان بھارت بھی گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ بھارت کی حکومت نے گزشتہ سال غیرمسلم مہاجرین کو شہریت دینے کا قانون بنایا تھا مگر امیر ہندوؤں کو تو کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن غریب ہندو بھارت پہنچ کر بھی محتاجی کی زندگی گزار رہے ہیں اور یہ لوگ برسوں سے کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
اقلیتیوں کے حقوق کے حوالے سے سرگرم لوگوں کا کہنا ہے کہ اقلیتی لوگ اپنا گھر چھوڑنا نہیں چاہتے مگر بعض جگہوں پر حالات کے بگاڑ کی وجہ سے انھیں ایسا کرنے پر مجبور ہونا پڑجاتا ہے۔ بعض علاقوں میں پولیس اور با اثر افراد کا ناروا سلوک بھی اس کا ذمے دار بنتا ہے۔ کندھ کوٹ، جیکب آباد، شکارپور، سکھر اورگھوٹکی کے اضلاع میں ڈاکوؤں کی سرگرمیوں کی بناء پر اقلیتی لوگ ہی نہیں دیگر لوگ بھی پولیس پر اعتماد نہیں کرتے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ کے انسانی حقوق کے مشیر راجور سنگھ سوڈا نے تاریخی تناظر میں کہا ہے کہ اپر سندھ میں تو ہندو، پارسیوں اور عیسائیوں نے تمام اسپتال اور تعلیمی ادارے تعمیرکیے تھے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ غیر مسلم طلبہ کی مذہبی تعلیم کا انتظام اسکولوں میں کیا جائے۔ اس رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ 2023 کی مردم شماری کے مطابق ہندوؤں کی کل آبادی 5.2 ملین اور عیسائیوں کی آبادی 3.3 ملین تھی۔ ہندو برادری کو سرکاری طور پرکیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا اور ہندو جاتی دوسری شیڈول کاسٹ کہلاتی ہیں۔ ہندو جاتی آبادی کا 1.6 فیصد اور شیڈول کاسٹ 5.6 فیصد ہے۔
شیڈول کاسٹ زیادہ تر سندھ کے دیہی علاقوں تھرپارکر، عمرکوٹ اور میر پور خاص میں صدیوں سے آباد ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر زراعت کے شعبے میں ہاری کی حیثیت میں کام کرتے ہیں۔ ایچ آر سی پی کی رپورٹوں کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیڈول کاسٹ ہاری جاگیرداروں اور زمینداروں کے ظلم کا شکار رہتے ہیں۔ شیڈول کاسٹ کے بیشتر خاندان زمینداروں کے قرضوں سے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں۔ ہندو جاتی سے تعلق رکھنے والے افراد سندھ کے شہروں جیکب آباد، شکارپور،گھوٹکی اورکشمور وغیرہ میں تجارتی شعبے سے منسلک ہیں جب کہ کراچی سمیت مختلف شہروں میں کئی نامور ڈاکٹروں، وکیلوں اور اساتذہ کا تعلق ہندو برادری سے رہا ہے۔
اس اسٹڈی میں پاکستان سے ہندوؤں کے بھارت ہجرت کرنے کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس تحقیق کے مصنف کا کہنا ہے کہ جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور مذہبی فسادات پھوٹ پڑے تو پورے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنا آبائی وطن چھوڑنا پڑا۔ اس صورتحال کے اثرات سندھ پر بھی پڑے اور یہاں سے ہندو بھی بھارت منتقل ہوئے مگر کئی امیر خاندان ملائیشیا، سنگاپور، برطانیہ، ہانگ کانگ اور بہت کم تعداد میں امریکا منتقل ہوئے تھے۔
سندھ کی گزشتہ 50 سال کی تاریخ کے بغور جائزہ لینے والے ایک صحافی کہتے ہیں کہ 1986 میں سکھر جیل کے قیدیوں نے بغاوت کی اور 36 ایسے سزائے موت کے قیدی بھی سکھر جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جن پر قتل ، اغواء برائے تاوان کے الزامات تھے۔ ان قیدیوں کے فرار ہونے سے علاقے میں ایک خوف کی فضاء پیدا ہوئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی سندھ میں امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہے۔ باقاعدہ جرائم پیشہ افراد کے منظم گروہ ہیں، حکومت کی رٹ ان علاقوں میں نظر نہیں آتی۔ یہ علاقے بدترین طرزِ حکومت کا شکار ہیں۔
ان علاقوں میں قبائلی جھگڑوں میں تصادم عام سی بات بن کر رہ گئی ہے جس کے نتیجے میں سماجی و اقتصادی زندگی شدید متاثر ہوئی ہے۔ ان علاقوں میں اغواء برائے تاوان کا جرم عام ہے۔ جب کوئی مغوی رہائی پا کر گھر پہنچتا ہے تو پولیس دعویٰ کرتی ہے کہ اس فرد کی رہائی پولیس آپریشن کی بناء پر ہوئی ہے، مگر پھر یہ خبر آجاتی ہے کہ اغواء ہونے والے فرد کے رشتے داروں نے بھاری رقم بااثر افراد کو ادا کی جس کی بناء پر ان کے پیاروں کی رہائی عمل میں آئی۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلائمیٹ چینج کی بناء پر ہندو برادری کے بہت سے افراد اپنے آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ شمالی ہند میں گرمیوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سے بھی زیادہ پہنچ رہا ہے جس کی بناء پر تمام معاشی اور سماجی سرگرمیاں مفلوج ہوجاتی ہیں۔ لوگ اپنے روزگار کے لیے منتقل ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایچ آر سی پی یہ رپورٹ بروقت شایع ہوئی ہے۔ صوبائی اسمبلی اور پارلیمنٹ کو اس رپورٹ پر غور کرنا چاہیے۔