سلمان خان نے موٹویشنل باتوں کو فضول قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
ممبئی: بالی ووڈ کے سپر اسٹار سلمان خان نے پہلی بار پوڈکاسٹ میں شرکت کرتے ہوئے زندگی، محنت اور کامیابی کے اصولوں پر کھل کر گفتگو کی۔
سلمان خان نے اپنے بھانجے ارہان خان کے یوٹیوب چینل "ڈم بریانی" پر پہلی بار کسی پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے کئی موضوعات پر اپنی بے باک رائے دی اور "موٹیویشنل ٹاکس" کو فضول قرار دے دیا۔
سلمان خان نے کہا کہ موٹیویشنل لیکچرز کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ سیکھنے کی لگن ہو تو دیوار یا درخت سے بھی سیکھا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اگر آپ واقعی سیکھنا چاہتے ہیں تو کسی درخت یا دیوار سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے، آپ کو اپنے استاد کی بات سننی چاہیے، لیکن وہ استاد گوگل یا یوٹیوب بھی ہو سکتا ہے۔ اصل چیز ڈسپلن ہے۔"
سلمان خان نے اس بات پر زور دیا کہ لوگ جم جانے یا کچھ نیا سیکھنے میں حیلے بہانے بناتے ہیں جبکہ یہ سب مشکل اور تکلیف دہ ضرور ہوتا ہے لیکن ضروری بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "مجھے یہ موٹیویشن کی بکواس بالکل پسند نہیں۔ دانت برش کرو اور باہر نکلو۔ کوئی بھی جم جانا یا کچھ نیا سیکھنا پسند نہیں کرتا، کیونکہ یہ سب دردناک ہوتا ہے۔ لیکن خود کو اس کام پر مجبور کرنا پڑتا ہے اور پھر اس میں مہارت حاصل کرنی ہوتی ہے، جوش و خروش نہ کھوئیں، ورنہ عمر سے پہلے بوڑھے ہو جائیں گے"۔
سلمان خان نے جوش و خروش اور محنت کی اہمیت پر بھی بات کی اور کہا کہ اگر آپ زندگی میں کسی بھی چیز کے لیے اپنا جوش و خروش کھو بیٹھیں، تو آپ خود کو قبل از وقت بوڑھا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم بچپن میں کھیلتے تھے اور تھک کر ہانپنے لگتے تھے، لیکن پھر بھی ہمارے چہروں پر مسکراہٹ ہوتی تھی اور ہم دوبارہ کھیلنے کے لیے تیار ہوتے تھے۔ آج کل لوگ تھوڑی سی محنت کے بعد سست ہو جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔"
سلمان خان نے اپنی نیند کی عادات کے بارے میں بھی بتایا اور کہا کہ ان کا سونے کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہوتا، میں زیادہ تر دو گھنٹے ہی سوتا ہوں، لیکن مہینے میں ایک بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ 7-8 گھنٹے کی نیند پوری ہو جائے۔
انہوں نے کہا کہ شوٹنگ کے دوران اگر چند منٹ کا وقفہ مل جائے تو بھی نیند لے لیتا ہوں۔ جب میرے پاس کرنے کو کچھ نہ ہو، تبھی میں سوتا ہوں۔ اس لیے جیل میں میں نے خوب نیند پوری کی۔"
سلمان خان نے کہا کہ کامیاب لوگ اکثر اپنی کامیابی کا مکمل کریڈٹ خود لے لیتے ہیں، جو کہ غلط ہے، آپ اپنی ناکامیوں کی مکمل ذمہ داری لے سکتے ہیں، لیکن کامیابی کبھی صرف آپ کی نہیں ہوتی۔ اگر آپ اسے اپنے سر پر سوار کر لیں، تو آپ خود کو تباہ کر لیں گے۔"
یہ انٹرویو سلمان خان کے مداحوں کے لیے ایک منفرد موقع تھا، جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے اصول، محنت، ڈسپلن اور کامیابی کے بارے میں اپنی سوچ کا کھل کر اظہار کیا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
عطا تارڑ بطور وزیر اطلاعات
پاکستان کی سیاست کا ایک المیہ یہ بھی بن گیا ہے کہ اب یہاں کارکردگی کے بجائے بیانیوں کی لڑائی رہ گئی ہے۔ حقائق کے بجائے پراپیگنڈے کی لڑائی بن گئی ہے۔ سچ کے بجائے جھوٹ کی طاقت کی لڑائی بن گئی ہے۔ خبر کے بجائے ٹرول کی لڑائی بن گئی ہے۔ پاکستان کی میڈیا وار پاکستان سے باہر چلی گئی ہے۔ باہر بیٹھے لوگ پاکستان کا میڈیا کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں حکومتی ترجمان اور وزارت اطلاعات ایک نہایت مشکل کام بن گئی ہے۔ یہ ماننا ہوگا کہ تحریک انصاف کے ٹرول اور بیانیوں کی جنگ نے میڈیا وار ہی بدل دی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کریں ۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے جب وزارت اطلاعات کا قلمدان سنبھالا تو یقیناً کوئی آئیڈیل صورتحال نہیں تھی۔ انھیں مختلف محاذوں پر میڈیا وار کا سامنا تھا۔ تحریک انصاف کے ان کے پیش رو ایسی روایات طے کر گئے تھے کہ کام بہت مشکل ہو گیا تھا۔ عطا تارڑ کے پاس کوئی ٹرول بریگیڈ نہیں تھی۔ ان کا وزیر اعظم جھوٹے بیانیوں کے ساتھ کام چلانے کے حق میں نہیں تھا۔ وہ جھوٹ بیچ نہیں سکتے تھے۔ ان کے ہاتھ کافی محاذوں پر بندھے ہوئے تھے۔
وہ نہ تو میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کر سکتے تھے اور نہ ہی ان کو اپوزیشن کے خلاف وہ زبان استعمال کرنی تھی جو ان سے پہلے تحریک انصاف کے وزیر اطلاعات استعمال کرتے رہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بانی تحریک انصاف کو وہی وزیر اطلاعات پسند تھا جو زیادہ بدتمیز ہو ۔ جو جتنی زیادہ گالی نکال سکتا تھا اتنا ہی اچھا وزیر اطلاعات تھا۔ لیکن عطا تارڑ کو تو گالی نکالنے کی بھی اجازت نہیں۔ اس لیے میری رائے میں ان کے لیے گالی نکالنا کافی مشکل تھا۔
شاید کسی کو یاد نہ ہو لیکن جب 2018میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تھی تو سب سے زیادہ برا وقت میڈیا پر ہی آیا تھا۔ ایک بیانیہ بنایا گیا کہ میڈیا کو اشتہارات جاری نہیں کیے جانے چاہیے۔ جس کی وجہ سے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز ڈاؤن سائزنگ کرنے پر مجبور کر دیے گئے‘ روزانہ کی بنیاد پر صحافی بے روز گار ہونے لگے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی جو بچ گئے ان کی تنخواہیں کم کرنا پڑ گئیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ کئی بے روز گار صحافیوں نے بریانی کے اسٹال بھی لگائے تھے کہ ہم کیاکریں۔ ہمارے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اینکرز اور سنئیر صحافیوں کی تنخواہوں کے خلاف ایسے بیانیہ بنایا گیا جیسے یہ کوئی ڈکیتی کر رہے ہیں۔ ایسی پالیسی اور ایسے حربے اختیار کیے گئے کہ سب کی تنخواہیں کم ہو جائیں۔
اس کے جواب میں ایک سال کا جائزہ لیا جائے تو مجھے کہیں کسی بھی جگہ ڈاؤن سائزنگ نظر نہیں آئی ہے۔ کسی ادارے نے بھی بڑی تعداد میں بیک جنبش قلم صحافیوں کو نوکریوں سے نہیں نکالا ہے۔ کئی اداروں کی مالی حالت بہتر ہوئی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عطا تارڑ کے دور میں عام صحافی کی حالت بہتر ہوئی ہے۔ میں مانتا ہوں صورتحال آئیڈیل نہیں ہے۔ لیکن اگر تحریک انصاف کے دور سے موازنہ کیا جائے تو صورتحال کافی بہتر ہے۔ مشکلات ہیں لیکن کم بھی ہوئی ہیں۔
عطا تارڑ نے کافی حد پاکستان کی سیاست سے گالم گلوچ کے کلچر کو بھی کم کیا ہے۔ انھوں نے گالم گلوچ کے بجائے دلیل سے بات کرنے کے ماحول کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب ٹاک شوز میں ویسے گالم گلوچ نظر نہیں آتی جیسے پہلے تھی۔ اب حکومتی وزرا اپوزیشن کو اپنی طاقت سے چپ کرواتے نظر نہیں آتے۔ لیکن پھر بھی حکومتی بیانیہ چل رہا ہے۔ عطا تارڑ نے ثابت کیا ہے بدتمیزی کے بغیر بھی بات منوائی جا سکتی ہے۔
لوگوں کو آج بھی دلیل سے قائل کیاجا سکتا ہے۔ہمیں اس تبدیلی کو سمجھنا اور اس کا احساس کرنا ہوگا۔ اگر ہم پاکستان میں مہذب سیاست چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی پذیرائی بھی کرنا ہوگا۔شاید آپ کو یاد ہو جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ایک حکومتی وزیر نے ایک ٹاک شو میں مسلم لیگ ن کی خاتون رہنما پر ایک بھارتی اداکارہ سے تشبیح دی تھی‘ ساتھی خاتون سیاستدان کو ایسا کہنا کوئی اچھی روایت نہیں تھی۔ لیکن حکومتی پالیسی یہی تھی کہ بس حملہ کر دو۔ عطا تارڑ نے آج تک کسی اپوزیشن کی خاتون رہنما کو ایسے ناموں سے نہیں پکارا۔ یہی فر ق ہے۔ عطا تارڑ نے اپنے ساتھ کوئی شہباز گل بھی نہیں رکھا ہوا۔ ورنہ حکومت کو تو ایک نہیں کئی شہباز گل مل سکتے ہیں۔
عطا تارڑ کا راستہ مشکل ضرور ہے۔ لیکن ایک سال میں انھوں نے ثابت کیا ہے کہ یہی صحیح راستہ ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ ان پر کس قدر دباؤ تھا کہ بس اینٹ کا جواب پتھر سے دیں۔ ایک گالی کے جواب میں دس گالیاں دی جائیں۔ ان پر بھی دباؤ تھا کہ ایک گالم گلوچ بریگیڈ بھرتی کر لیں۔ لوگوں کو گالم گلوچ پر لگا دیں۔ حکومتی وسائل سے یہ کوئی مشکل نہیں۔ آج بھی کے پی حکومت میں سیکڑوں لوگوں کو اسی کام کے لیے بھرتی کیاگیا ہوا ہے۔عطا تارڑ کے پاس یقیناً کے پی حکومت سے زیادہ وسائل ہیں لیکن انھوں نے یہ کام نہیں کیا ہے۔
عطا تارڑ حکومتی کارکردگی اور کام پر حکومتی بیانیہ بنا رہے ہیں۔ مشکل کام ہے، لمبا راستہ ہے لیکن صحیح راستہ ہے۔ وہ حکومت کے ترجمان کے طور پر حکومتی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ ان کی زیادہ تر میڈیا ٹاک حکومتی کارکردگی پر ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کی بھی زیادہ تر گفتگو حکومتی کارکردگی پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے کام عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یقیناً اس راستے میں راتوں رات نتائج نہیں آتے۔ لیکن یہ دیرپا اور مثبت نتائج دیتا ہے۔ اس لیے ایک سال بعد یقیناً حکومتی کارکردگی کے بارے عام آدمی کی مثبت رائے سامنے ہے۔ عام آدمی کہہ رہا ہے کہ حکومت نے ایک سال میں کافی کام کیا ہے۔ مہنگائی کم ہوئی ہے۔ گالم گلوچ کے مقابلے میں کارکردگی کو بیچنا مشکل ہے۔ لیکن اصل کام یہی ہے۔
آپ کہیں گے کہ وہ تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہیں۔ تنقید سیاست کا بنیادی جزو ہے۔لیکن تنقید اخلاق کے دائرے میں ہونی چاہیے ۔ انھوں نے پاکستان میں اخلاق سے بات کرنے کا کلچر دوبارہ شروع کیا ہے۔اب اپوزیشن کو ویسے گالیاں نہیں دی جاتیں جیسے پہلے دی جاتی تھیں۔ یہ تبدیلی محسوس کرنی چاہیے۔ میری رائے میں عطا طارڑ کے لیے گالم گلوچ کا راستہ آسان راستہ تھا۔ لیکن انھوں نے ایک مشکل راستے کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن ایک سال بعد اس کے کافی حد تک نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔