پنجاب حکومت سے مایوسی؟ کسانوں نے گندم کی کھڑی فصل تباہ کرنا شروع کردی، ویڈیوز وائرل
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
لاہور (ویب ڈیسک) پنجاب حکومت سے مبینہ مایوسی اور گندم کے نرخوں کے بارے میں افواہوں کے بعد کسانوں نے گندم کی کھڑی فصل تباہ کرنا شروع کردی جس کی ویڈیوزبھی وائرل ہورہی ہیں جو بادی النظر میں فروری کے اوائل میں ہی اپ لوڈ کی گئی ہیں تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ یہ ویڈیو ز تازہ بنائی گئی ہیں یا پرانی ویڈیوز کو شیئر کیاگیا۔
تفصیل کے مطابق نثار لغاری نامی فیس بک صارف نے ویڈیو شیئر کی جس کے کپشن میں لکھا گیا کہ “22 سو روپے کے حساب سے گندم بیچنے سے اچھا ہے کہ چارہ بنا کر اپنے جانوروں کو کھلائیں”۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص گندم کی فصل کاٹنے میں مصروف ہے جبکہ آواز میں سنا جاسکتا ہے کہ “گندم کا ریٹ کوئی نہیں،حکومت نے دینا بھی کچھ نہیں، اب کاٹنا شروع کردی ہے، ساری دنیا کو کہیں کہ کاٹ کر جانوروں کو ڈال دیں، گندم اچھی تھی لیکن گھر کے لیے چھوڑ کر باقی لوگ بھی اپنے جانوروں کو ڈال دیں”۔
23 مزیدپڑھیں:ارب سے زائد کا ہوٹل صرف 2700 روپے میں فروخت کیلئے پیش
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
پاکستان: کیا ساری آبادی کو سبسڈی کسان دیں گے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 فروری 2025ء) کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ پورے ملک کو اپنی جیب سے سبسڈی فراہم نہیں کر سکتے اور حکومت کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ زرعی پیداوار میں استعمال ہونے والی اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرے۔ اس کے برعکس حکومت ایسے وقت میں ان کے بجلی کے میٹر کاٹنے پر تلی ہے جب انہیں پانی کی اشد ضرورت ہے۔
حال ہی میں گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے رینجرز کی جانب سے مبینہ طور پر کسانوں کو ہراساں کرنے پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے کسانوں کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج اور دیہات میں زبردستی بجلی کے بل وصول کرنے کی سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اوور بلنگ کے واقعات کو تسلیم کیا ہے، لیکن کسانوں سے ادائیگیاں وصول کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کے استعمال کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
(جاری ہے)
ڈرون ٹیکنالوجی سے پاکستانی کسانوں کی مدد کرنے والی خواتین کی سٹارٹ اپ
گورنر نے کہا، ''یہ کسی صورت قابل قبول نہیں کہ شہروں میں خوراک کی قیمتیں کم کرنے کے لیے کسانوں کی روزی روٹی کے معاملات کو اجیرن بنا دیا جائے۔‘‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت ملک میں گندم کی فصل کو پانی کی اشد ضرورت ہے اور ایسے وقت میں بجلی کے میٹر کاٹنا کسانوں کے لیے اور گندم کی فصل کے لیے بہت نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔
ماہرزراعت اور کلائمیٹ ایکٹیوسٹ عامر حیات بھنڈارا کہتے ہیں ، ''ایسے وقت میں میٹر کاٹنا کسی صورت بھی درست نہیں کہا جا سکتا اور یہ حکومتی پالیسی کے بھی خلاف ہے۔ ایک طرف حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے کہ کسان اپنی فصل کو ہر صورت پانی سپلائی کریں اور دوسری طرف بجلی کی بندش سے اس عمل میں بڑی رکاوٹ ہو گی۔‘‘عامر حیات کا مزید کہنا تھا کہ کسانوں کے بجلی کے بل عام لوگوں کے بجلی کے بلوں کی طرح نہیں ہیں۔
انہیں وقت دینا چاہیے۔ عموماً کسان فصل اٹھانے کے بعد بل ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس وقت تو کسانوں کو ایک ایک پیسے کی ضرورت ہے لہذا حکومت کو نرمی اختیار کرنی چاہیے۔پاکستان میں تیزی سے پھیلتی پارتھینئم کی جڑی بوٹی زراعت کے لیے کتنی خطرناک ہے؟
کسانوں کے حقوق پر کام کرنے والے اور شعبہ زراعت کے ماہر سمجھتے ہیں کہ ملک میں فوڈ سکیورٹی اس طرح یقینی نہیں بنائی جا سکتی اور نہ ہی افراط زر کو اس طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے کہ کسانوں کو ان کی اجناس کی جائز قیمت فراہم نہ کی جائے۔
کسانوں کے ایک ترجمان خالد کھوکھر کہتے ہیں، ’’حکومت نے کسانوں کو پورے شہری معاشرے، بشمول اشرافیہ، کی سبسڈی کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ زراعت کے بنیادی ستون کو سہارا دینے کی بجائے کسانوں کو مہنگی پیداوار اور کم قیمت پر فروخت کی پالیسی کے ذریعے تباہ کیا جا رہا ہے۔‘‘خالد کھوکھر نے حکومت کی زرعی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسانوں پر ناقابل برداشت مالی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
کئی افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور بیشتر کسانوں کے بجلی کے میٹر منقطع کیے جا رہے ہیں، جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔حکومت زرعی لاگت کم نہیں کر سکتی تو فصل کی قیمت کیوں طے کرتی ہے؟
کسانوں کی نمائندگی کرنے والے زرعی ماہرین سمجھتے ہیں کہ حکومت زرعی مداخل کی لاگت کو قابو میں رکھنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی اورآئی ایم ایف سے اپنے معاہدوں کے باعث کسانوں کوسبسڈی فراہم نہیں کر سکتی اور نہ ہی کوئی ضروری سہولیات فراہم کرتی ہے، لیکن جب بات زرعی پیداوار کی قیمت کی آتی ہے تو حکومت فوری مداخلت کرکے خود قیمت طے کرتی ہے۔
عامر حیات کا کہنا ہے کہ اگر زرعی لاگت کم کرنے کے لیے حکومت کوئی کردار ادا نہیں کرتی اور کی قیمتوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے تو پھر کسانوں کو بھی اپنی پیداوار کی قیمت خود طے کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور پورا عمل آزاد منڈی کے اصولوں کے تحت چلنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا،’’خوراک کی دستیابی یقینی بنائی جانی چاہیے، لیکن اس کی قیمت صرف کسانوں کو ادا نہیں کرنی چاہیے۔
زرعی شعبے میں پوری ویلیو چین کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ انڈسٹری کے بڑے لوگوں کو ریسرچ پر بھی پیسہ خرچ کرنا چاہیے تا کہ فی ایکڑ پروڈکشن بڑھ سکے اور کم قیمت پر بھی کسان کو نقصان نہ ہو۔‘‘زرعی ماہرین اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ حکومت پیداوار کی لاگت جانتے ہوئے بھی قیمت اس سے کم مقرر کر دیتی ہے۔ خالد کھوکھر کا کہنا ہے، ''گزشتہ سال محکمہ زراعت نے گندم کی پیداواری کی لاگت تین ہزار چار سو دس روپے فی چالیس کلو گرام مقرر کی، لیکن بعد میں محکمہ خوراک نے حکم دیا کہ اس فصل کو زیادہ سے زیادہ دو ہزار چھ سو پچاس روپے میں فروخت کیا جائے۔
‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت کسانوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہے اور وہ برادری، جو محنت کرکے پورے ملک کو خوراک فراہم کرتی ہے، اُس کو اتنا نظرانداز کیوں کیا جا رہا ہے۔