بارشوں کی قلت نےخشک سالی کےخطرے کی گھنٹی بجادی
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
بارشوں کی قلت نےخشک سالی کےخطرے کی گھنٹی بجادی WhatsAppFacebookTwitter 0 8 February, 2025 سب نیوز
تحریر عنبرین علی
سردیاں ختم ہونے کو ہیں مگر بارشیں یوں لگتا ہے جیسے اب قطع تعلق کر چکی ہیں ۔دسمبر سے لے کر فروری تک بارشیں نہ ہونے سے مسلسل خشک سالی کا راج ہے ۔دن کے وقت شدید دھوپ کے باعث موسم خاصا نارمل رہتا ہے جبکہ جونہی شام ہوتی ہے ٹھنڈی ہوائیں زور پکڑ لیتی ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے موسم خزاں شدت اختیار کر رہا ۔اور پھر یونہی راتیں سرد اور صبح کے وقت سردی کے بعد ،دن میں موسم پھر سے نارمل محسوص ہوتا ہے ۔موسم کی اس کشمکش نے اب شہریوں کو بھی پریشان کر رکھا ہے ۔وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لباس میں اب نارمل سٹف کا انتخاب کریں ،یا پھر گرم کپڑے پہنیں کیونکہ ایک دن کوٹ پہنتے ہیں تو دوسرے دن ایک شال پہننے سے بھی گزارا ہو جاتا ہے۔ موسم کے بدلتے یہ رنگ بالکل بھی مناسب نہیں۔
اسلام آباد کی بات کریں تو یہ شہر سردی کی شدت کے باعث خاصا مشہور تھا اور بارشوں کی آئے روز نہ صرف پیش گوئی ہوتی تھی بلکہ بادل تھمنے کا نام ہی نہ لیتے تھے ۔اور یوں سردیوں میں شدید سردی تو ہوتی تھی مگر اس سردی میں شہری گھومنے پھرنے نکل جایا کرتے تھے مگر اب بارشوں کی قلت نے خشک سالی کو جنم دے دیا ہے اسکے ساتھ ساتھ خشک سردی سے وائرل انفیکشنز بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔اب ہر دوسرے شخص کو کھانسی ،بخار ،گلے میں درد عام سی بات ہے ۔درختوں ہر نگاہ دوڑائیں تو دھول مٹی سے اٹے پڑے ہیں ۔
محکمہ موسمیات کی جانب سے جنوری میں اعلامیہ جاری کیا گیا جسمیں بارش اور پہاڑوں پر برفباری کی پیش گوئی کی گئی مگر بارشیں نہ ہوئیں پہاڑوں پر برف پڑی ،لیکن وہ سلسلہ بھی زیادہ دیر تک نہ رہا۔جبکہ جنوری کی اختتام پر محکمہ موسمیات نے بتا دیا کہ فی الحال بارش کا کوئی امکان نہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ملک میں خشک سالی کے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق بارشوں میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جس سے زرعی پیداوار اور پانی کی کمی کے مسائل مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔ یکم ستمبر 2024 سے 15 جنوری تک کے دوران پنجاب کے مختلف علاقوں میں خشک سالی کے اثرات واضح ہونے لگے ہیں۔پنجاب سندھ میں تو خشک سالی زرعی پیداوار متاثر ہو گی اسکے علاوہ اسلام آباد میں بھی خشک سالی سے اب زمین سے پانی تقریبا ختم ہو رہا ہے پچاس فیصد سے زائد شہریوں کا انحصار ٹینکرز کے پانی پر ہے جہاں بورنگ کے ذریعے پانی لیا جاتا رہا اب وہ بور بھی سوکھ رہے ہیں کیونکہ بارشیں کے بغیر پانی کی قلت کو پورا کرنا نا ممکن ہے جبکہ آنے والے موسم گرما کٹھن ترین ہو گا اور ممکن ہے کہ گرمی کا پچھلے کئی سال کو ریکارڈ بھی توڑ دے ،آنے والے والے موسم بھی بارش نہ ہوئی تو پانی سے محروم ہونے کے خدشے کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے بڑھنے کا بھی خدشہ ہے تاہم بارش کی دعا کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کو اب اس خشک سالی سے نمٹنے کے لیے کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
میلہ چراغاں: موسم بہار میں لاہور کی ثقافتی پہچان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اپریل 2025ء) باغبان پورہ میں شاہ حسین کی درگاہ پر آگ کا الاؤ روشن تھا۔ منڈیر پر چھوٹے چھوٹے چراغ اور موم بتیاں جل رہی تھیں۔ مرد و خواتین باری باری آتے، چراغ میں انگلی ڈبوتے اور تیل اپنے جسم پر مل لیتے۔ یہ منظر لاہور کے سالانہ میلہ چراغاں کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ سینکڑوں برس سے مارچ کے آخری ہفتے لگتا آ رہا یہ میلہ چراغاں یا میلہ شالامار، جسے لاہور کا سب سے بڑا تہوار سمجھا جاتا ہے، اس مرتبہ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہنے کے بعد پیر کے روز اختتام پزیر ہو گیا۔
ہم میں سے کئی نسلیں سکول کے نصاب میں وہ نظم پڑھتے ہوئے جوان ہوئیں جس کی لائنیں تھیں: کھیتوں سے منہ موڑ کے، سب کاموں کو چھوڑ کے، دہقانوں کی ٹولیاں، گاتی آئیں بولیاں، میلہ شالامار کا۔
(جاری ہے)
’’سوہنا شہر لاہور‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی کتاب کے مصنف طاہر لاہوری اس کی تاریخ سادہ لفظوں میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ”یہ میلہ حضرت شاہ حسین کے عرس کا ہوتا تھا۔
اس لیے اسے میلہ مادھو لعل حسین بھی کہتے تھے، میلہ چراغاں اس لیے مشہور تھا کہ حضرت شاہ حسین کے مزار پر لوگ کثرت سے چراغ جلاتے تھے۔ اس سے اگلے دن عرس کی بقیہ تقریبات ہوتی تھیں۔ جب اس میلے کی شہرت دور دور تک پھیلی، تو اس میلے نے عرس کے ساتھ موسمی میلے کی صورت اختیار کر لی۔ موسم بہار کے آغاز پر اس میلے کے انعقاد نے بہاریہ میلے کا رنگ اختیار کر لیا کیونکہ اس میں ہر مذہب اور رنگ و نسل کے لوگ شریک ہوتے تھے۔ اسے میلہ شالا مار بھی کہا جانے لگا۔"خیال رہے شاہ حسین سولہویں صدی کے پنجابی شاعر تھے جن کی کافیاں خطے کے لوک کلچر کا حصہ بن چکی ہیں۔
وہی شاہ حسین جس نے کہا تھا،
رہا میرے حال دا محرم توں
اندر توں باہر تو روح روح وچ توں
تو ہی تاناں توں ہی باناں سبھی کچھ میرا توں
کہے حسین فقیر نمانا میں نہ ہی سبھ توں
مشتاق صوفی کے مطابق، ”ہماری ثقافتی روایات کی شاہ حسین سے بہتر مجسم شکل کوئی دوسری نہیں۔
" چراغ، ڈھول، دھمال اور گلاب: میلہ چراغاں کیسے منایا گیا؟رمضان کی وجہ سے رواں برس میلہ چراغاں مارچ کے آخری ہفتے کے بجائے اپریل میں منعقد ہوا۔ ایک دوسرا نمایاں پہلو میلے کا دوبارہ سے شالامار میں منعقد ہونا تھا۔
روایتی طور پر میلہ چراغاں شالامار باغ میں ہی لگتا آیا مگر ایوب خان نے 1958ء میں اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔
رواں برس پنجاب حکومت نے شالامار کے دروازے کھول کر 67 برس قدیم روایت سے جوڑنے کی کوشش کی۔بارہ اپریل سنیچر کے روز باغبانپورہ میں مادھو لال حسین کے دربار پر خواتین، مرد اور بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ دربار کے بالکل سامنے مچ یا آگ کا الاؤ روشن تھا جس میں عقیدت مند موم بتیاں ڈال رہے تھے۔ بہت سے لوگ تیل والی اپنی بوتل کسی چراغ میں انڈیل کر وہاں سے چند قطرے واپس اپنی بوتلوں میں رکھ لیتے۔
انہیں میں سے ایک جھنگ کی بھاگ بھری تھیں۔ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”میں تقریباً چالیس پینتالیس برس سے آ رہی ہوں۔ یہ تیل برکت والا ہے، میں نے اپنا لایا تیل انڈیل کر یہاں سے چند قطرے واپس ڈال لیے، جو گھر لے جاؤں گی۔ ہم سارا سال اسے استعمال کرتے ہیں۔ زخم یا پھوڑے پھنسیاں نکل آئیں تو یہ تیل لگانے سے فوراً شفا ملتی ہے۔
"چراغ رکھنے والا سٹینڈ ہو یا مادھو لال اور شاہ حسین کے مزاروں کی تختیوں پر لکھے ان کے نام، فقیروں کے لباس سے درختوں پر لگی کاغذ کی جھنڈیوں تک ہر طرف دو رنگ بہت نمایاں تھے، سرخ اور پیلا۔ مچ کے ساتھ ہی ابوذر مادھو دھمال ڈال رہے ہیں جو لاہور میں استاد اور راوی بچاؤ تحریک کی نمایاں آواز ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”سرخ رنگ شاہ حسین کا ہے جب کہ پیلا رنگ مادھو لال کا ہے۔
سرخ رنگ محبت کی آگ ہے، پیلا رنگ محبوب کی سپردگی ہے۔ شاہ حسین کی تائید میں فقیر سرخ رنگ پہن کر دھمال ڈالتے ہیں۔"دربار کے اندرونی احاطے میں، جہاں شاہ حسین اور مادھو لال دفن ہیں وہاں گلاب کی پتیاں بکھری پڑی تھیں۔ عقیدت مند دعائیں مانگتے اور پھول رکھتے جا رہے تھے۔ دربار کے ساتھ ہی قبرستان ہے، جس میں جگہ جگہ فقیر منڈلیاں لگائے بیٹھے تھے۔
کہیں دھمال اور ڈھول کی تھاپ تو کہیں بھنگ کے پیالے بھر بھر پیے جا رہے ہیں۔ سامنے لنگر خانے میں ایک کے بعد ایک دیگ کھلتی چلی جا رہی تھی۔ادھر شالامار باغ میں بھی بھر پور رش تھا، جہاں فوڈ سٹال، آرٹ ولیج، رقص و موسیقی اور کیا کچھ نہ تھا مگر سب سے زیادہ رش پانی کے فواروں اور ان میں جلتے ہوئے فانوسوں کے اردگرد تھا۔
’گلابی موسم اور لاہوریوں کی دیوانگی‘سوشل میڈیا پر بھرپور طریقے سے میلہ چراغاں منانے کے حکومتی فیصلے کو سراہا گیا۔
ایسے میں بہت سے لوگ یادوں کے دریچے کھول کر بیٹھ گئے کہ ماضی میں میلہ شالامار کیسا ہوا کرتا تھا۔باغبان پورہ کے رہائشی وقار حسین گانے بجانے سے منسلک ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”ہم نے پچیس تیس سال پہلے تک جو میلہ چراغاں دیکھا وہ کہیں بجھ کر ہی رہ گیا۔ تب دہلی دروازے سے مادھو کے دربار تک پورا شہر روشنیوں میں نہا جاتا تھا، آرے بازار سے باغبان پورہ تک فقیروں کی دھمال ہوتی تھی۔
عید پر کوئی نئے کپڑے اور جوتے خریدے یا نہ خریدے میلہ چراغاں پر ضرور خریدتا تھا۔ ہفتہ دس دن پہلے قدم قدم پر مٹھائی اور بیسن کے قتلمے تیار کرنے والے اپنے شامیانے لگا لیتے، ہارن سے کان پھاڑتی گاڑیوں کی جگہ تانگوں اور بیل ریڑھیوں کی مدھر گھنٹیوں کی آواز ہوتی۔"معروف ادیب یونس ادیب اپنی کتاب ’’میرا شہر لاہور‘‘ میں لکھتے ہیں، ”شاہ حسین کے میلہ چراغاں کی خوشبوئیں روایتی بھی ہیں اور موسمی بھی۔
اس وقت پنجاب میں بہار کا موسم ہوتا ہے اور فصلیں پک کر تیار ہو چکی ہوتی ہیں۔ لاہور میں بہار کی ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں، اسے لاہور میں گلابی موسم کہا جاتا ہے۔"مستنصر حسین تارڑ اپنی کتاب ’’لاہور دیوانگی‘‘ میں میلہ چراغاں کو یاد کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتے ہیں، ”لاہور ہے یا آتش کدوں کا شہر بلخ ہے کہ جس طرف کوئی دیکھے آگ بھڑک اٹھتی ہے چراغوں کی، شعلے اٹھتے ہیں الاؤ سے، کیا اہل شہر آتش پرست ہو گئے ہیں؟"
اب فانوسوں اور فواروں سے شالامار باغ بہشت کا نقشہ پیش کرتا ہے تو تقسیم برصغیر سے پہلے یہاں کیا صورتحال ہوتی ہو گی؟
مسعود نظامی مشہور رسالے نقوش کے لاہور نمبر میں لکھتے ہیں، ”میلے کے دنوں میں باغات کا منظر بہت دلکش اور دل آویز ہوتا ہے۔
تالاب اور حوض پانی سے بھرے ہوتے ہیں، فورارے چھوٹتے ہیں، سنگ مر مر کی آبشار سے جب پانی گرتا ہے تو سماں بندھ جاتا ہے۔ درختوں اور گل بوٹوں اور لوگوں کے رنگارنگ لباسوں کی بوقلمونی سے مغل شہنشاہ شاہجہاں کا یہ باغ پرستان کا منظر پیش کرتا ہے۔"وقار حسین کہتے ہیں، ”جنہوں نے میلہ چراغاں کی پہلے والی آن بان دیکھی انہیں آج کی رونق خوش نہیں کر سکتی۔ پھر بھی اچھا تو لگتا ہے، اتنے زیادہ لوگ آ رہے ہیں، ہمارا تو عقیدہ ہے مادھو لال حسین کا چراغ ہمیشہ روشن رہے گا، لوگ آتے رہیں گے۔"