عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے دہلی اسمبلی انتخابات میں اپنی پارٹی کی شکست کو تسلیم کر لیا۔

یہ بھی پڑھیں:اروند کیجریوال کے بعد دہلی کی نئی وزیر اعلیٰ آتشی مارلینا سنگھ کون ہیں؟

ارند کیجریوال نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ہم عاجزی کے ساتھ عوامی مینڈیٹ قبول کرتے ہیں اور میں بی جے پی کو اس کی جیت کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں کہ امید کرتا ہوں کہ بی جے پی دہلی کے لوگوں کی امیدوں پر پورا اترے گی۔

اپنے ویڈیو پیغام نے اپنی پارٹی کے برسراقتدار رہتے دہلی میں ہوئے ترقیاتی کاموں کا ذکر کرتے ہوئے کیجریوال کا کہنا تھا کہ ہم نے دہلی والوں کے لیے تعلیم، پانی، بجلی، بنیادی ڈھانچے میں کافی کام کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب عام آدمی پارٹی اگلے 5 سال اسمبلی میں ایک تعمیری اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی، اور ہم دہلی کے لوگوں کو بھی دستیاب ہوں گے۔

انہوں نے اپنے پیغام میں دعویٰ کیا کہ ہم اقتدار کے لیے سیاست میں نہیں ہیں، بلکہ ہم اسے لوگوں کی خدمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

کیجریوال نے اپنے پارٹی ورکرز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں انتخابات کے دوران تمام عام آدمی پارٹی کی جانب سے انتھک محنت کے لیے ان شکریہ ادا کرتا ہوں اور ہم نے ایک اچھا الیکشن لڑا۔

واضح رہے کہ عام آدمی پارٹی گزشتہ 10 سال سے دہلی میں برسراقتدار تھی، جب کہ بی جے پی 1998 سے شہر میں اقتدار سے محروم چلی آرہی تھی۔  تاہم حالیہ انتخابات میں بی جے پی نے دہلی کا میدان مار لیا ہے۔70 نشستوں والی اسمبلی میں بی جے پی کی 36 نشستوں کی جیت کا امکان ہے۔

بی جے پی نے دہلی کا معرکہ کیسے سر کیا؟

دہلی کے حوالے سے بی جے پی نے 18 ماہ قبل ہی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔ بی جے پی نے عوامی عدم اطمینان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بشمول اروند کیجریوال عام آدمی پارٹی کے  لیڈروں کیخلاف بدعنوانی کے الزامات لگائے۔ گورننس کی ناکامیوں کو نشانہ بنایا اور دریائے یمنا میں آلودگی اور شراب کی پالیسی کے تنازع جیسے مسائل کو اجاگر کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: عام ا دمی پارٹی بی جے پی نے نے دہلی کے لیے

پڑھیں:

8 فروری: عوام کے مینڈیٹ کی پامالی کا دن

پاکستان میں سنگدلی اور بے حسی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ عوام کے مینڈیٹ کی پامالی کو بھی ایک کھیل بنا دیا گیا۔ جعلی مینڈیٹ پر قائم ہونی والی حکومتیں تادیر مصنوعی پائوں پر کھڑی بھی نہیں رہے سکتیں۔ 8 فروری 2024 کو پاکستان کے بارہوں انتخابات تھے ان انتخابات میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر پورے انتخابی عمل پر ایسا شب ِ خون مارا کہ الامان الحفیظ، اس بدترین دھاندلی پر ناصرف یہ کہ پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ایک شور مچ گیا لیکن پاکستان کے اداروں کو نہ احتساب کا خوف ہے اور نہ ہی قانون کا ڈر تمام ہی سیاسی جماعتیں جن میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف، جمعیت العلمائے اسلام، جی ڈی اے، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان کی قومی جماعتیں شامل ہیں سراپا احتجاج بنی ہوئی تھی۔ خاص طور پر کراچی میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی نشستوں پر ڈاکا ڈالا گیا اور یہاں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو زبردستی قوم پر مسلط کیا گیا اسی طرح پنجاب میں بھی تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو چوری کیا گیا۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے پاس فارم 45 پر کامیابی کے مصدقہ ریکارڈ اور ثبوت موجود ہیں لیکن اس کے باوجود فارم 47 کے ذریعے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو دھاندلی کے ذریعے کامیاب کروایا گیا۔ ایم کیو ایم کے امیدواروں کو تو بمشکل ایک ہزار ووٹ ہی ملے تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اپنے خاص مقاصد کے لیے انہیں جتوایا اور جعلی مینڈیٹ کی حکومت قائم کی گئی اور جس طرح سے آئین میں تبدیلیاں کی جارہی ہیں اور نئے قوانیںنافذ کیے جارہے ہیں اس نے تمام صورتحال واضح کر دی ہیں۔

2024 کے ان انتخابات میں ہونے والی بدترین دھاندلی پر عالمی میڈیا، اخبار وجرائد نے بھی بڑا شور وغل مچایا ان اخبارات اور جرائد میں اکانومسٹ ٹائمز، گارڈین، بلومبرگ، نیویارک ٹائمز، انڈیپنڈنٹ، فرانس 24، فنانشل ٹائمز، بی بی سی نیوز، سی این این، الجزیرہ ٹی وی، انسانی حقوق کی تنظیمیںشامل ہیں۔ ان سب نے پاکستان میں ہونے والے انتخابات کی شفافیت کے سلسلے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ امریکا برطانیہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ نے بھی سخت الفاظ میں اپنے خدشات ظاہر کیے۔ کامن ویلتھ کے مبصرین نے آرمی چیف اور نگران وزیراعظم سے ملاقات کرکے انتخابات کے سلسلے میں اپنے مشاہدات شیئر کیے تھے لیکن پاکستان کی وزارات خارجہ نے ان خدشات کو مسترد کردیا تھا۔

بلاشبہ 8 فروری کے انتخابات پاکستان کی سیاسی تاریخ اور جمہوریت کے نام پر ایک بدنما داغ ہے جو کہ کبھی بھی صاف نہیں ہوسکیں گے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے انتخابات کے نام پر جوکھیل کھیلا اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پاکستان میں انتخابی عمل پہلے ہی انتہائی مشکل ہوچکا ہے کروڑوں اور اربوں روپے کے اخرجات کیے جارہے ہیں اور ایک عام آدمی اس انتخابی عمل سے مکمل طور پر بے دخل ہوچکا ہے۔ صرف بڑے بڑے سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیرے، خان، نواب ہی اس کھیل کا حصہ بنے ہوئے۔ اس کے علاوہ ڈرگ مافیا، اسمگلرز بھی اس میں مداخلت کرتے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے خوب پیسہ لگاتے ہیں جس کی وجہ سے پورا کا پورا نظام ان مافیائوں کے قبضے میں ہے۔ جبکہ دوسری مذہبی وسیاسی جماعتیں اپنے کارکنان کے چندے اور محنت سے اس دنگل میں اُترتی ہیں گھر گھر جا کر انتخابی مہم کے لیے چندے کیے جاتے ہیں تب جا کر انتخابی مہم چلتی لیکن پاکستان کی ظالم اسٹیبلشمنٹ اپنے مفادات کے لیے ساری بساط لپیٹ دیتی ہے اور فارم 45 والے ہار جاتے ہیں اور فارم 47 والے جیت جاتے ہیں۔

جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اس انتخابی دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے خلاف انتخابی ٹریبونل میں بھی گئے لیکن افسوس ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کوئی نتیجہ ابھی تک برآمد نہیں ہوسکا۔ البتہ تحریک انصاف نے فارم 45 سے دستبرداری کا اظہار کر کے سب کو حیران کردیا ہے۔ جماعت اسلامی جو کہ اس انتخابی دھاندلی کے خلاف روز اوّل سے سراپا احتجاج بنی ہوئی تھی پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے آٹھ فروری کو ملک گیر یوم سیاہ منانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ آٹھ فروری کو الیکشن کمیشن کے دفاتر کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے اور بدترین دھاندلی کے خلاف بھرپور طریقے سے احتجاج کیا جائے گا۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کو مطمئن کرے اور آٹھ فروری کے انتخابی نتائج پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور فارم 45 کے مطابق جیتنے والے امیدواروں کو نشستیں دی جائیں۔ اسٹیبلشمنٹ نااہل لوگوں کو قوم پرمسلط کرنے کے اپنے کردار پر نظر ثانی کرے اور پاکستان کے تمام ادارے آئین کے مطابق کام کریں اور عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے۔ فارم 45 کے تحت جو پارٹی کامیاب ہوئی ہے اسے حکومت بنانے دی جائے ورنہ عوام میں پایا جانے والا غم وغصہ ملک میں ایک بڑی انارکی کو جنم دے سکتا ہے۔ اپنے ماضی سے بھی ہم نے اب تک کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جب ہم نے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں آدھا ملک ہم گنوا بیٹھے خدارا انا، ہٹ دھرمی کی سیاست کا خاتمہ کیا جائے اور پاکستان کو خوشحال اور مستحکم بنانے کے لیے سب مل جل کراپنا کردار ادا کریں۔

متعلقہ مضامین

  • دہلی انتخابی نتائج پر بی جے پی کو مبارکباد پیش کرتی ہوں، پرینگا گاندھی
  • عام آدمی پارٹی کو شکست، بی جے پی نے 27 سال بعد دہلی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرلی
  • نئی دہلی کے ریاستی انتخابات، مودی کی جماعت آگے
  • مریم نوازکا ملک میں کرکٹ ٹیموں کی آمد ،سہ ملکی ٹورنامنٹ کے آغاز پر اظہار تشکر
  • دہلی میں بی جے پی کو41اورعام آدمی آدمی پارٹی کو29نشستوں پر برتری
  • بی جے پی کا دہلی میں 27 سال بعد تاریخی فتح، کجریوال اپنی نشست ہار گئے
  • دہلی الیکشن: بی جے پی 27 سال بعد بھاری اکثریت سے کامیاب
  • 8 فروری: عوام کے مینڈیٹ کی پامالی کا دن
  • شاہد خاقان اور مفتاح اسماعیل کے پارٹی سے جانے کا ہمیں نقصان ہوا: رانا ثنااللہ کا اعتراف