امریکی دھمکیوں کا ایرانی حکام پر کوئی اثر نہیں، رہبر معظم انقلاب
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
حماس کے رہنماوں سے اپنی ایک ملاقات میں ولی امر مسلمین کا کہنا تھا کہ آپ اسرائیل بلکہ در واقع امریکہ پر غالب آئے ہیں اور خدا کے فضل سے آپ نے انہیں کسی سازش میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اسلام ٹائمز۔ آج فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" کی سیاسی قیادت نے تہران میں حضرت آیت الله "سید علی خامنه ای" سے ملاقات کی۔ اس موقع پر ولی امر مسلمین جہاں نے غزہ و حماس کے شہداء، کمانڈروں بالخصوص شہید "اسماعیل هنیه" کو خراج تحسین پیش کیا۔ رہبر معظم نے حماس کے رہنماوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خداوندِ متعال نے غزہ کی عوام اور آپ کو کامیابی و کامرانی عطاء کی ہے۔ غزہ اس وقت قرآن حکیم کی اس آیت مبارکہ کا مصداق ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِين۔ رہبر معظم نے کہا کہ آپ اسرائیل بلکہ در واقع امریکہ پر غالب آئے ہیں اور خدا کے فضل سے آپ نے انہیں کسی سازش میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ رہبر معظم نے ان مصائب کا ذکر کیا جن کا غزہ کے عوام نے پندرہ مہینوں کی مقاومت میں سامنا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام سختیوں اور دکھوں کا ثمر باطل پر حق کی فتح کی صورت میں ملا۔ وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں مقاومت بستی ہے، غزہ کی عوام اُن کے لئے رول ماڈل ہے۔ انہوں نے حماس کے مذاکرات کاروں کی تعریف کی کہ جو دشمن کے ساتھ ایک کامیاب معاہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ولی امر مسلمین نے کہا کہ آج سارے عالم اسلام اور مقاومت کے حامیوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ غزہ کے عوام کی مشکلات میں کمی کے لئے امدادی سرگرمیاں شروع کریں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
اچھنبے کی بات تو ہے!
امریکی ریسٹورینٹ میں ویٹرس کی طرف سے اپنی جیب سے سو ڈالر کا کھانا کھلانے کی خبر نے پوری دنیا کے سوشل میڈیا پر بھونچال پیدا کردیا ہے کہ اس نے اپنی ضرورت کو پس پشت ڈال کر دو بوڑھے غریب جوڑے کو کھانا کھلایا۔ مسلمان روز لاکھوں لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی کیونکہ ان کا دین ایسا کرنے سے منع کرتا ہے مبادلہ کہ کسی غریب کی دل شکنی ہوجائے۔ روئے زمین پر مسلمان سے بڑا سخی کوئی اور مذہب کے ماننے والا نہیں۔ اس لڑکی کی کہانی یہ بتاتی ہے کہ امریکی معاشرہ کتنا انحطاط پزیر ہو چکا ہے یہ امریکیوں کے لیے بہت بڑی بات ہے کہ کوئی اپنی بھوک مار کر دوسروں کو کھانا کھلا دے۔ یہ امریکی معاشرے کی خود غرضی، خود پسندی، ذاتی اغراض اور بے حسی کی عکاسی کرتی ہے۔ ظاہر ہے جس معاشرے میں بوڑھے والدین کو نفسیاتی مریض بنانے کے لیے اولڈ ہاؤسز میں جمع کروا دیا جاتا ہو، والدین سے ہر قسم کا رشتہ ناتا توڑ لیا جاتا ہو، سال میں بس کرسمس کے موقع پر گلدستہ بھیج کر مزید ان کو دکھی کر دیا جاتا ہو۔ جہاں کوئی کسی کا نہ بھائی ہو، نہ بہن ہو، نہ باپ ہو، نہ ماں ہو۔ جہاں ہر رشتہ ڈالر میں فروخت کردیا گیا ہو، اس معاشرے میں واقعی یہ بہت بڑی اور اچھنبے کی بات ہو سکتی ہے ہمارے لیے تو عام سی بات ہے۔
زرا سا غور کرنے سے کھوکھلے امریکی بلکہ پورے مغربی معاشرے کی عکاسی ہو سکتی ہے کہ اگر ان غریب بوڑھے جوڑے کے بچے چاہتے تو اپنے بوڑھے والدین کو کھانا کھلا سکتے تھے مگر وہ تو حقوق کے نام سے ہی نا بلد ہیں جو ہمارے معاشرے میں تیسری جماعت کے بچے کو پڑھا دیا جاتا ہے کہ حقوق و فرائض کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ ایسے معاشرے میں واقعی ایک لڑکی سو ڈالر کا کھانا اگر غریب بوڑھے جوڑے کو کھلا رہی ہے تو اچھنبے کی بات تو ہے۔