آج یوم تعمیر و ترقی منایا جارہا ہے اور پی ٹی آئی فساد اور احتجاج کی سیاست کررہی ہے، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
سیالکوٹ(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔08 فروری 2025)وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ آج یوم تعمیر و ترقی منایا جارہا ہے اور پی ٹی آئی آج بھی فساد اور احتجاج کی سیاست کررہی ہے، چیمپیئنز ٹرافی کے آغاز پر ہی احتجاج کا پروگرام بنایا گیا،انہیں دوبارہ 9 مئی اور 26 نومبر برپا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، سیالکوٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے اپنے احتجاج کو عالمی سطح کے اسپورٹس ایونٹ کے ساتھ منسلک کر دیا ہے تاکہ پاکستان کا امیج پھر خراب ہو۔
ہم تو کہتے ہیں کاش قذافی اسٹیڈیم جیسی رونقیں پشاور میں بھی لگیں۔ جب بھی پاکستان کی عزت کا موقع آتا ہے فسادی ٹولہ سر اٹھا لیتا ہے۔ انہوں نے ایس سی او کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی پر فساد برپا کرنے کی کوشش کا الزام لگایا اور کہا کہ عالمی سطح پر پاکستان کے تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے مگر پی ٹی آئی عالمی ایونٹس کی توقیر میں کمی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔(جاری ہے)
پر امن احتجاج پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر گزشتہ 2 سال سے تحریک انصاف کی جو روایت رہی ہے اس کے مطابق ہر احتجاج پرتشدد ہوتا ہے۔سیاسی جماعتوں کو سیاسی اقدار اپنانی چاہئیں۔ان کا کہنا تھا کہ آج خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کا جلسہ ہے۔ صوابی میں سرکاری مشینری اور وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ سیاسی روایات کے مطابق جلسے کئے جائیں تو کسی کو اعتراض نہیں مگر اسلام آباد پر چڑھائی کرنا پی ٹی آئی قیادت کا وطیرہ ہے۔پی ٹی آئی کی اصل قیادت ان کی جماعت میں موجود مخصوص ٹولے کی سازشوں کا شکار ہوکر مصلحت کا شکار ہوگئی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ صوابی میں پی ٹی آئی کا آج ہونے والا جلسہ بھی اختلافات کا شکار ہے جس کا آج شام تک سب کو پتا لگ جائے گا۔ اس وقت پاکستان میں دو صوبے دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں انتشار پھیلانے والے واقعات کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو سیاسی رویہ اپنانے کی ضرورت ہے، کسی کو مسلح جتھوں یا دہشت گرد گروہ کی طرح طور طریقے اپنانے کو قبول نہیں کرسکتے۔پی ٹی آئی والوں کا رویہ پاکستان کے مفادات کیلئے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ خود کہتے ہیں کہ ہمارے 99 فیصد مطالبات منظور ہوچکے ہیں اگر ایسا ہوگیا ہے تو پھر احتجاج کی کیا ضرورت ہے۔ اب تو انہیں جشن منانا چاہیے۔ احتجاج کس بات کا کر رہے ہیں؟۔ امریکی صدر ٹرمپ آگیا مگر بانی پی ٹی آئی عمران خان کا کچھ نہیں بن سکا۔ اس سے پہلے شور مچا کہ ٹرمپ آئے گا اور بانی پی ٹی آئی باہر آجائے گا۔ ٹرمپ تو آگیا لیکن ان کا کچھ نہیں بنا۔ پاکستان آئے ہوئے امریکی شخص نے کہا کہ یہ لوگ ماہانہ 3 سے 4 ملین ڈالر لابنگ پر خرچ کر رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک دن خط لکھ دیا جاتا ہے اور اس میں ایسے نکات لکھے جاتے ہیں کہ جن سے یہ ساری صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ تو پہلے سے تھا، نیا کیا ہوا ؟۔حکومت اور ن لیگ کی قیادت عوامی مسائل سے پوری طرح با خبر ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان بہتری کی جانب جارہا ہے۔ ایک سال میں وہ کام ہوگئے، جن کی توقع ہم دو سال میں ہونے کی کر رہے تھے۔ مہنگائی 38 سے ڈھائی فیصد کی شرح پر آگئی۔ معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ پی آئی اے بحال ہورہی ہے۔سٹاک مارکیٹ ایک لاکھ 18 ہزار پر چلی گئی۔ زرمبادلہ ذخائر بلند سطح پر ہیں، پاکستان کا قومی وقار بلند ہو رہا ہے۔ حکومتی کوششوں سے معیشت مستحکم ہو چکی ہے۔ پالیسی ریٹ 22 سے کم ہو کر 12 فیصد پر آ گیا ہے۔ مہنگائی کی شرح کم ہو رہی ہے۔.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پی ٹی آئی جارہا ہے کہا کہ کر رہے
پڑھیں:
بلوچستان کا سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا
بلوچستان کے حوالے سے ہمارے پاس تین آپشن ہیں۔اول، بغیر کسی سمجھوتے کے حالات کی درستگی کے لیے مکمل طاقت کا استعمال کیا جائے، جو لوگ ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں، ان کو سختی سے کچلا جائے اور کوئی نرمی نہ کی جائے۔دوئم، بلوچستان کا سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا۔ اس تناظر میں بلوچستان میں جو بھی سیاسی یا غیر سیاسی فریقین ہیں ان کو اعتماد میں لے کر ایک بڑا سیاسی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔
اس طبقہ کے بقول طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں بلکہ بگاڑ پیدا کرے گا۔سوئم، ہمیں طاقت کا استعمال اور سیاسی حکمت عملی کو ساتھ ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہوگا ، جہاں طاقت ضروری ہو وہیں اس کا استعمال کیا جائے لیکن مستقل حکمت عملی سیاسی بنیادوں پر تلاش کرنا ہی ریاست کے مفاد میں ہوگا۔ ماضی میں ہم نے بلوچستان میں کئی آپریشن کیے ہیں۔لیکن کوئی مستقل حل نہیں نکلا بلکہ حالات زیادہ بگاڑ کا شکار ہو گئے ہیں۔
سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ بلوچستان میں سیاسی اور جمہوری لوگ بھی تحفظات رکھتے ہیں۔ بلوچستان میں موجود سیاسی قیادت یا حکومت کے درمیان بد اعتمادی کا یہ ماحول حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بن رہا ہے۔وفاقی حکومت یا بلوچستان کی صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی ایسی سنجیدہ کوشش یا عملی اقدام ابھی تک نظر نہیں آیا جس میں انھوں نے بلوچستان کی تمام سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا ہو ۔
بظاہر ایسے لگتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت ایک جانب کھڑی ہیں اور دوسری جانب بلوچستان کی حکومت مخالف سیاسی قیادت ہے جو حکومت سے مختلف سوچ رکھتی ہے۔حالانکہ حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہی ہونی چاہیے تھی کہ بلوچستان میں موجود تمام علاقائی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جاتا۔ حالانکہ سردار اختر مینگل،محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ماضی میں مختلف سیاسی ادوار میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا باقاعدہ حصہ رہے ہیں۔ لیکن اب حکومت اور بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتوں کے درمیان فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔
ہمیں بلوچستان کے مسئلے کے حل میں وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کا کوئی بڑا سیاسی کردار دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ایسے لگتا ہے کہ وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔اسی طرح ایک اور غلطی یہ کی جا رہی ہے کہ بلوچستان کے حل کو محض ایک صوبائی مسئلہ سمجھ کر حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔حالانکہ یہ محض ایک صوبائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا براہ راست تعلق قومی سیاست یا ملک کے سیاسی ، سیکیورٹی اور معاشی عدم استحکام سے جڑاہوا ہے۔
بلوچستان کے حالات کی بہتری میں محض طاقت کے استعمال کی حکمت عملی کسی صورت کارگر ثابت نہیں ہوگی بلکہ اس کا نتیجہ مزید سیاسی انتشار اور بگاڑ کی صورت میں پیدا ہوگا۔بالخصوص جب ہمارا موقف یہ ہے کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی میں بھارت کی مداخلت سر فہرست ہے اور جو لوگ بلوچستان میں بیٹھ کر پاکستان کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں ان کو کسی نہ کسی شکل میں بھارت کی معاونت اور سہولت کاری حاصل ہے تو ایسے میں ہمیں سیاسی محاذ پر اور زیادہ ذمے داری کے ساتھ صوبے کے حالات کو درست کرنے کی طرف حکمت کو اختیار کرنا ہوگا۔
بھارت کی مداخلت اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے داخلی معاملات سے جڑے مسائل اور خرابیاں بھی ہمارے حالات کو خراب کرنے کے ذمے دار ہیں۔پچھلے دنوں آرمی چیف نے بجا کہا تھا کہ ہمارے حالات کی خرابی میں جہاں داخلی سطح کے معاملات ہیں وہیں گورننس سے جڑے مسائل بھی ہمارے لیے حالات کو خراب کرنے کی وجہ بن رہے ہیں۔ گورننس کے حالات محض صوبہ بلوچستان میں خراب نہیں بلکہ ملک کی مجموعی صورتحال ہی ایسی ہے۔اس لیے ہمیں داخلی معاملات کا تجزیہ کرنا ہوگا اور یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ حالات کی خرابی میں ہمارے داخلی معاملات کا ہاتھ بیرونی مداخلتوں سے زیادہ ہے ۔
بلوچستان میں جہاں گورننس سے جڑے مسائل اہمیت رکھتے ہیں وہیں سیاسی مسائل بھی حالات کی خرابی میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔لاپتہ افراد کا معاملہ ہو یا لوگوں کے بنیادی شہری یا انسانی حقوق ہو یا قانون کی حکمرانی کی عدم موجودگی ہو یا لوگوں میں بڑھتا ہوا سیاسی اور معاشی محرومی کا پہلو ہو یہ سب وہ نکات ہیں جس پر بلوچستان کے لوگوں میں سخت تحفظات پائے جاتے ہیں۔لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست اور حکومت کے ادارے ان کے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے اور یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس کا علاج ریاستی اور حکومتی اداروں کو ہر سطح پر تلاش کرنا چاہیے۔
کیونکہ اگر ہم نے بلوچستان کے حالات کو درست کرنا ہے تو یہ بلوچستان کے لوگوں کو شامل کیے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گا۔ مرکزی اور بلوچستان میں موجود سیاسی قیادت کے درمیان اتفاق رائے کا پیدا ہونا اور ایک دوسرے کے معاملات یا فہم کو سمجھنا اور ایک مشترکہ حکمت عملی بنانا اہم ہے۔لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ہی ممکن ہوگا جب ہم طاقت کی حکمت عملی سے باہر نکل کر سیاسی حکمت عملی کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل میں وفاقی حکومت فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرے اور اس اجلاس میں بلوچستان کے حالات کو درست کرنے میں بڑا فریم ورک سامنے لانا ہوگا۔
بلوچستان کے حالات کو درست کرنے میں اس تاثر کی ہر سطح پر نفی ہونی چاہیے کہ وہاں پر جو بھی فیصلے ہو رہے ہیں اس میں سیاسی جماعتوں یا سیاسی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی باہمی حکومت ہے۔ لیکن ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی صوبے کے حالات کی بہتری میں ابھی تک کوئی اہم کام نہیں کیا۔ بلوچستان میں صوبائی حکومت کی کمزوری نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
وفاقی حکومت یا بلوچستان کی صوبائی حکومت ابھی تک ہمیں ان کی جانب سے کوئی ایسی سنجیدہ کوشش یا اہم عملی اقدام نظر نہیں آیا جس میں انھوں نے بلوچستان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا ہو یا ان کی مدد سے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ریاست کے ادارے وفاقی اور صوبائی حکومت ایک جانب کھڑے ہیں اور دوسری جانب بلوچستان کی سیاسی قیادت ہے جو معاملات کی بہتری میں ریاست اور حکومت سے مختلف سوچ یا نقطہ نظر رکھتی ہے۔
حالانکہ ریاست اور حکومت کی پہلی ترجیح یا حکمت عملی یہ ہی ہونی چاہیے تھی کہ آگے بڑھنے کے لیے سب سے پہلے بلوچستان میں موجود تمام علاقائی جماعتوں یا ان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جاتا۔ ایک طرف بلوچستان کے پہاڑوں پر بیٹھ کر ریاست یا حکومت کو مسلح مزاحمت یا اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف بلوچستان کی عملا سیاسی قیادت کی جانب سے سیاسی مزاحمت بھی ایک بڑے خطرہ کے طور پر سامنے آئی ہے۔
بلوچستان میں موجود لوگوں کے جو مسائل ہیں ان کو محض جذباتیت کی بنیاد پر دیکھنے کی بجائے یا الزام تراشیوں کا سہارا لینے کی بجائے یہ سمجھا جائے کہ ان مسائل کی حقیقت کیا ہے اور وفاقی یا صوبائی حکومت اس کی بہتری میں کیا کردار اداکر سکتی ہے۔سردار اخترمینگل، محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تجربہ کار سیاستدان ہیں اور ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ سیاسی راستہ تلاش کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔