پی ٹی آئی کو دوبارہ 9 مئی اور 26 نومبر کی اجازت نہیں دیں گے، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
سیالکوٹ:
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملک میں عالمی ایونٹ چیمپئنز ٹرافی ہونے والا ہے دوبارہ 9 مئی اور 26 نومبر برپا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سیالکوٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ پی ٹی آئی احتجاج اور فساد کی سیاست کررہی ہے، جب بھی پاکستان کی عزت کا موقع آتا ہے تو فسادی ٹولہ آسمان سر پر اٹھالیتا ہے، ایس سی او کانفرنس کے دوران بھی پی ٹی آئی والوں نے فساد برپا کرنے کی کوشش کی، آج یوم تعمیر و ترقی منایا جارہا ہے اور پی ٹی آئی آج بھی فساد اور احتجاج کی سیاست کررہی ہے کسی بھی عالمی ایونٹ کی توقیر میں کمی کرنا پی ٹی آئی کا وطیرہ ہے۔
انہوں ںے کہا کہ آج کے پی میں پی ٹی آئی کا جلسہ ہے، صوابی میں سرکاری مشینری اور وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے، سیاسی روایات کے مطابق جلسے کیے جائیں تو کسی کو اعتراض نہیں مگر اسلام آباد پر چڑھائی کرنا پی ٹی آئی قیادت کا وطیرہ ہے، پی ٹی آئی کی اصل قیادت ان کی جماعت میں موجود مخصوص ٹولے کی سازشوں کا شکار ہوکر مصلحت کا شکار ہوگئی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی والوں کا رویہ پاکستان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے، جس دن چیمپئنز ٹرافی کا میچ ہے انہوں ںے اس دن احتجاج رکھا، دوبارہ 9 مئی اور 26 نومبر برپا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت آج کے جلسے میں مختلف گروہوں میں اختلافات ہیں، وزیراعلیٰ کے پی کہتے ہیں کہ ان کے 99 فیصد مطالبات پورے ہوچکے ہیں اگر مطالبات پورے ہوچکے ہیں تو احتجاج کس بات کا؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی کہا کہ
پڑھیں:
نومبر 2024اور اپریل 2025کا فرق سمجھیں
آجکل بانی تحریک انصاف سے ملاقات پر کافی سختی ہے۔ کون ملے گا، کون نہیں ملے گا، اس پر کافی بحث چل رہی ہے۔ لیکن ایسے میں یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ نومبر 2024میں امریکا سے کچھ لوگ آئے تھے جن کی بانی تحریک انصاف سے ملاقات کرائی گئی تھی۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس ملاقات کو جہاں حکومت پاکستان اور اسٹبلشمنٹ نے خفیہ رکھا ، وہاں بانی تحریک انصاف اور اور تحریک انصاف کی قیادت نے بھی خفیہ رکھا۔حالانکہ اس کے بعد کئی سماعتوں میں بانی تحریک انصاف کی صحافیوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ انھوں نے بہت باتیں کی ہیں لیکن اس ملاقات کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس ملاقات کی تب کوئی خبر میڈیا میں بھی نہیں آئی۔ ورنہ اڈیالہ میں تو چڑیا بھی پر مارے تو میڈیا میں شور مچ جاتا ہے۔
اعظم سواتی صبح ملیں تو میڈیا میں خبر آجاتی ہے۔ لیکن امریکا سے آنے والے ان مہمانوں کی ملاقات کی کوئی خبر نہیں آئی۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ پاکستانی امریکی تھے۔ اب آپ دیکھیں گزشتہ برس نومبر میں پاکستانی امریکی پاکستان آتے ہیں، بانی تحریک انصاف سے جیل میں ملتے ہیں، اسٹبلشمنٹ کے نمایندوں سے ملتے ہیں۔ بانی تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان سیز فائر اور صلح کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کوئی شور نہیں مچتا۔ اس کے بعد چند امریکی پاکستانی امسال مارچ میں جب پاکستان آتے ہیں تو تحریک انصاف نہ صرف شور مچا دیتی ہے۔ بلکہ ان کو غدار بھی قرار دیا جاتا ہے۔
نومبر میںآنے والے غدار نہیں تھے، مارچ میں آنے والے غدار ہیں۔ یہ تضاد بھی قابل غور ہے۔ بہر حال کیا آج یہ صورتحال ہے کہ کسی غیر ملکی کو بانی تحریک انصا ف سے ملاقات کی اجازت دی جائے؟ آج تو گھر والوں کو ملنے کی اجازت نہیں مل رہی۔ آج تو صورتحال یہ ہے کہ اگر کوئی پارٹی عہدیدار مل لے تو وہ غدار ہے۔ اگر پارٹی چئیرمین بیرسٹر گوہر کی ملاقات ہو جائے توپارٹی سیکریٹری جنرل انھیں منظور نظر کہنے لگ جاتے ہیں۔ انھیں بھی اسٹبلشمنٹ کے ایجنٹ کا سرٹیفکیٹ مل جاتاہے۔ اس لیے یہ نومبر 2024 نہیں بلکہ یہ اپریل 2025ہے۔ ہمیں اب نومبر اور اپریل کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔
گزشتہ برس نومبر میں ٹرمپ کے آنے کا شور تھا۔ وہ الیکشن جیت چکے تھے۔ ایک ماحول تھا کہ ٹرمپ آئے گا تو پتہ نہیں کیا ہوجائے گا۔ رچرڈ گرنیل اور جو ولسن کے ٹوئٹس نے پاکستان میں ایک ماحول بنایا ہوا تھا کہ ٹرمپ آتے ہی سب سے پہلے بانی تحریک انصاف کی رہائی کروائیں گے۔ تحریک انصاف امریکا کہہ رہی تھی کہ ٹرمپ سے بات ہو گئی ہے۔ الیکشن میں ہم نے ٹرمپ کو لاکھوں ڈالر چندہ ہی اس شرط پر دیا ہے کہ وہ بانی تحریک انصاف کی رہائی کروائیں گے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ پہلی تقریر میں بانی کی رہائی کی بات ہوگی۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ حلف اٹھانے کے بعد ٹوئٹ آئے گا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ فون کریں گے۔
غرض کے ایک ماحول تھا کہ ٹرمپ بانی تحریک انصاف کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے۔ پاکستان میں تھنک ٹینک اس بات پر غور کر رہے تھے کہ کیا صرف بات کریں گے یا اس کے ساتھ ایکشن بھی کرایں گے۔ جب تک ان کی بات مانی نہیں جائے گی کیا پاکستان پر پابندیاں لگا دیں گے۔ اس لیے جب نومبر 2024کی بات دیکھیں تو اس وقت کے ماحول کو بھی سامنے رکھیں۔یعنی بانی تحریک انصاف سے بات چیت کی جا رہی ہوگی تا کہ کوئی بھی غیر ملکی دباؤ آنے سے پہلے معاملات طے کرلیے جائیں۔
کوئی درمیانی راستہ نکال لیا جائے۔ اکٹھے چلنے کی کوئی راہ نکالی جائے۔ اس میں بانی تحریک انصاف کو جیل سے نکالنا شاید شامل نہ ہو لیکن اور بہت چیزیں شامل ہو سکتی تھیں۔ لیکن پھر نومبر میں کیا ہوا۔ نومبر میں بانی تحریک انصاف نے اسلام آباد پر چڑھائی کی کال دی۔ حکومت اور اسٹبلشمنٹ نے اس کال کو ملتوی کرانے کی بہت کوشش کی۔ تحریک انصا ف کے دوست بتاتے ہیں کہ ڈی چوک کی جگہ سنگجا نی پر دھرنے اور جلسہ کی اجازت کی پیشکش کی گئی۔
گنڈا پور تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بانی تحریک انصاف کو بنی گالہ شفٹ کرنے کی بات بھی ہوئی۔ لیکن بانی تحریک انصاف کچھ نہیں مانے۔ نہ امریکا سے آئے لوگوں کی مانے اور نہ ہی اپنی جماعت کے دوستوں کی مانے۔ اور ڈی چوک جانے کے اعلان پر قائم رہے۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ بشریٰ بی بی رہا ہو چکی تھیں۔ ان کے بھی بیک چینل رابطوں کی بات ہو رہی تھی۔ یقینا انھیں بھی ڈی چوک جانے سے روکنے کی کوشش کی گئی ہوگی۔ لیکن وہ بھی نہیں مانیں۔ حکومت اور اسٹبلشمنٹ نے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن تحریک انصاف نہیں مان رہی تھی۔ آج سمجھ آتی ہے کہ وہ ٹرمپ کا بخار تھا۔
پھر کیاہوا۔ وہی جس کو روکنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ لیکن شاید تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کا اسکرپٹ ہی یہی تھا۔ وہ حالات خراب ہی رکھنا چاہتے تھے۔ آج سمجھ آتی ہی کہ ان کو بتایا گیا تھا کہ جیسے ہی حالات خراب ہوںگے، لاشیں گریں گی، ویسے ہی امریکا سے ٹرمپ کو دباؤ ڈالنے کا موقع مل جائے گا۔ بس ایک وجہ چاہیے۔ وہ سارا ڈرامہ ٹرمپ کو پاکستان میں مداخلت اور بانی کی رہائی کا جواز بنانے کے لیے تھا۔ جو لوگ بانی کے لیے ٹرمپ سے لابنگ کر رہے تھے۔ یہ ان کا پلان تھا۔ جس پر یہاں عمل کیا جا رہا تھا۔ ملاقاتوں اور مذاکرات کو اسٹبلشمنٹ کی کمزوری سمجھا جا رہا تھا۔ بانی سمجھ رہے تھے کہ ٹرمپ کے خوف میں سارے پتے ان کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ نومبر کا ماحول تھا۔
لیکن آج اپریل میں ایسا نہیں ہے۔ ٹرمپ کارڈ ٹھس ہو گیا ہے۔ امریکی کانگریس مینز پاکستان آئے ہوئے ہیں، انھوں نے بانی سے ملنے کی کوئی شرط نہیں رکھی۔ اس پر تحریک انصاف میں صف ماتم ہے۔ٹرمپ اپنے پہلے صدارتی خطاب میں پاکستان کی تعریف کر چکے ہیں۔ کہاں یہ ماحول بناگیا تھا کہ وہ پاکستان کے خلاف بیان دیں گے۔ کہاں وہ تعریف کر رہے ہیں۔ اس لیے نومبر سے اپریل تک تحریک انصاف کافی حد تک جنگ ہار گئی ہے۔ اور اسٹبلشمنٹ نے فتوحات حاصل کر لیں ہیں۔ اس لیے نومبر اور اپریل کا فرق سمجھیں۔ یہ فرق ساری کہانی بیان کر دے گا۔ اسی میں ساری صورتحال ہے۔
آج گزشتہ برس نومبر کی شرائط پر بات نہیں ہو سکتی، جو نومبر میں ٹیبل پر موجود تھا، وہ آج نہیں ہے۔ بانی تحریک انصاف نے بھی اپنے سارے کارڈ استعمال کر لیے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ نے بھی کئی مشکل مراحل عبور کر لیے ہیں۔ اس لیے دونوں کی پوزیشن بدل گئی ہے اور یہ سیاست میں بہت اہم ہے۔ کسی بھی گفتگو کے لیے یہ بہت اہم ہے۔ آپ کچھ کارڈ ہاتھ میں رکھ کر بات کرتے ہیں۔ سارے کارڈ کھیل کر اور ہار کر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔ یہ فرق سمجھیں۔ تو نومبر اور اپریل کا فرق بھی سمجھ آجائے گا۔