Islam Times:
2025-04-13@16:05:50 GMT

امریکہ کے ساتھ مذاکرات، حماقت یا خیانت!

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

امریکہ کے ساتھ مذاکرات، حماقت یا خیانت!

اسلام ٹائمز: پچھلے ہفتے فارن افیئرز میں ریچارد نفیو کی تحریر تھی، جو ایران کے خلاف پابندیوں کے معمار ہیں، جنہوں نے پابندیوں اور ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے نتیجے میں مقاصد کے حصول کے بارے میں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ مذاکرات ہی ایران کا مقابلہ کرنے اور اسے قابو میں رکھنے اور الجھائے رکھنے کا واحد راستہ ہیں۔ کیا یہ سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ امریکہ مذاکرات کو ایران کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک بہانہ بناتا ہے۔ لیکن امریکہ کیساتھ مذاکرات کے حامی مشکلات حل کرنے کے لیے کمر کس لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حل امریکہ کیساتھ مذاکرات کے ذریعے نکل آئے گا۔ تحریر: حسین شریعتمداری

اسلامی جمہوریہ ایران کیخلاف امریکی پابندیوں کے خاتمے کے لئے مذاکرات کے حوالے سے روزنامہ کیھان کے مدیر کی رائے پر مبنی چند نکات حسب ذیل ہیں: 
1۔ جن لوگوں نے ان دنوں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا شیطانی آلہ تیار کیا ہے اور اس کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں اور اپنے گلے پھاڑ رہے ہیں، وہ یا تو "احمق" ہیں یا "غدار" اور دونوں صورتوں میں وہ نظام کی اہم ذمہ داریاں سنبھالنے کے لائق نہیں۔ امریکہ اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کا تختہ الٹنے کو ایک اسٹریٹجک ہدف کے طور پر آگے بڑھاتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس ملک میں (ریپبلکن اور ڈیموکریٹک) حکومتوں کی تبدیلی سے یہ اسٹریٹجک ہدف تبدیل نہیں ہوگا۔ یہ حقیقت اسلامی ایران کے بارے میں امریکہ کے چالیس سال سے زائد سالوں کے موقف اور اقدامات کا مختصراً جائزہ لینے سے ہی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس حد تک کہ امریکہ، امام خمینی کے الفاظ اور رہبر معظم انقلاب کے اسی طرح کے نقطہ نظر میں، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کسی بھی معاندانہ اقدام سے باز نہیں آیا، اور اگر اس نے کسی بھی مرحلے پر دشمنانہ اقدام سے گریز کیا ہے، تو وہ صرف اس لیے ہوا ہے کہ اس کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں تھی، اس لیے نہیں کہ وہ سمجھوتہ کرنے کی پوزیشن میں تھا۔

2۔ فوج کی فضائیہ اور فضائی دفاع کے کمانڈروں کے ایک گروپ کے ساتھ ملاقات میں رہبر معظم انقلاب کے کل کے بیانات عقل اور تجربے کا مرکب تھے، اسباب جو کسی شک و شبہ سے بالاتر تھے، اور امریکہ کی طرف سے وعدوں کی مسلسل خلاف ورزی کے بعد اعتماد کرنی کی بہت کم گنجائش بچتی ہے۔ تجربہ کہتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات سمجھداری، عقلمندی  اور شرافت پر مبنی عمل نہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی اس سے پہلے بھی بار بار اس نکتے پر زور دے چکے ہیں اور اس کی وجہ بھی بیان کر چکے ہیں، جن میں سے ایک مثال ۵ دی ماہ ۱۴۰۱ کو بسیجیوں کے اجتماع میں دی گئی، جہاں انہوں نے پہلے ان لوگوں سے شکایت کی جو ان کے بقول "سیاسی سمجھ بوجھ کا دعویٰ کرتے ہیں" اور "سیاست کرنے اور دنیا کے حالات سے آگاہ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں" لیکن مسائل کا حل امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں تلاش کرتے ہیں! پھر ایک حکیمانہ اور مستدل بیان میں فرما چکے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکہ کے ساتھ مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے، ہم جھگڑا نہیں چاہتے، سوال یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ کیا بیٹھ کر مذاکرات کرنے اور امریکہ سے عہد لینے سے مسئلہ حل ہوجائیگا؟ ہم بیٹھ کر امریکہ سے مذاکرات کریں، عہد لیں کہ آپ کو یہ کام کرنا ہے، یہ کام نہیں کرنا، کیا مسئلہ حل ہوگا؟ الجزائر کے بیانئے کے معاملے میں، ۶۰ میں یرغمالیوں کی آزادی کے معاملے میں، امریکہ کے ساتھ بات چیت ہوئی۔ میں اس وقت مجلس کا نمائندہ تھا، البتہ میں مجلس میں نہیں تھا، میں اہواز میں محاذ جنگ پر تھا، اس وقت تہران میں الجزائر کے توسط سے بات چیت ہوئی۔ البتہ مجلس کی منظوری سے ہوا یہ غیر قانونی کام نہیں تھا، انہوں نے معاہدہ کیا، متعدد عہد لیے کہ ہماری دولت واپس کرینگے، پابندیاں اٹھائیں، ہمارے داخلی امور میں مداخلت نہیں کریں گے، اور ہم بھی یرغمالیوں کو آزاد کریں گے۔ ہم نے یرغمالیوں کو آزاد کیا، کیا امریکہ نے اپنے عہد پر عمل کیا؟ کیا امریکہ نے پابندیاں اٹھائیں؟ کیا امریکہ نے ہماری ضبط شدہ دولت ہمیں واپس کی؟ نہیں، امریکہ عہد پر عمل نہیں کرتا، یہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور بیٹھنے کا نتیجہ ہے۔ یا ایٹمی معاہدہ کے بارے میں امریکیوں نے کہا کہ جوہری سرگرمیوں کو کم کریں، انہیں یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی کہیں کہ یہ سرگرمیاں مکمل طور پر بند کریں، کہا کہ اس کی مقدار میں کمی کریں، تو بدلے میں ہم یہ کام کریں گے، پابندیاں اٹھائیں گے، یہ کام کریں گے، وہ کام کریں گے، کیا انہوں نے یہ کام کیے؟ نہیں کیے۔ امریکہ کیساتھ مذاکرات مسائل کا حل نہیں ہیں۔

3۔ پچھلے ہفتے فارن افیئرز میں ریچارد نفیو کی تحریر تھی، جو ایران کے خلاف پابندیوں کے معمار ہیں، جنہوں نے پابندیوں اور ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے نتیجے میں مقاصد کے حصول کے بارے میں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ مذاکرات ہی ایران کا مقابلہ کرنے اور اسے قابو میں رکھنے اور الجھائے رکھنے کا واحد راستہ ہیں۔ کیا یہ سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ امریکہ مذاکرات کو ایران کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک بہانہ بناتا ہے۔ لیکن امریکہ کیساتھ مذاکرات کے حامی مشکلات حل کرنے کے لیے کمر کس لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حل امریکہ کیساتھ مذاکرات کے ذریعے نکل آئے گا۔

4۔ اب ان لوگوں سے جو امریکہ سے مذاکرات کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں، یہ سوال ہے کہ کیا وہ اس قدر واضح اور بدیہی حقیقت اور امریکہ کیساتھ مذاکرات سے پہنچنے والے نقصان کو نہیں سمجھتے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو یہ کم فہمی اور شعور کی کمی کی وجہ سے ہے، اور میری نگاہ میں انہیں نظام کی ذمہ داریوں میں نہیں ہونا چاہیے، اور اگر جواب اثبات میں ہے اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی تباہ کن نوعیت سے آگاہ ہونے کے باوجود وہ اس پر اصرار کیوں کرتے ہیں، تو کیا ان کا اصرار خیانت کے علاوہ کسی اور نام سے جانا جا سکتا ہے؟

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: قابو میں رکھنے ایران کے خلاف کے بارے میں کہ مذاکرات اور امریکہ امریکہ کی کرنے اور کریں گے ہیں اور اور اس یہ کام ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دینا چاہتے ہیں، ایران

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اپریل 2025ء) روایتی حریف ممالک امریکہ اور ایران کے مابین مذاکراتی عمل بحال ہو رہا ہے۔اس کا مقصد ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کو محدود بنانا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد تہران حکومت پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئے۔ عمان میں ہونے والے ان مذاکرات کا مقصد ایک ممکنہ جوہری معاہدے تک پہنچنا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو اچانک اعلان کیا کہ ان کی انتظامیہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرے گی۔

ان مذاکرات کی تاریخ طے کرنے سے قبل دونوں ممالک کے مابین بیان بازی کی جنگ جاری رہی، جس میں ٹرمپ نے دھمکی دی کہ اگر بات چیت ناکام ہوئی توفوجی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔

(جاری ہے)

صدر ٹرمپ کی اس دھمکی کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک مشیر نے کہا کہ ایران اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کو ملک سے نکال بھی سکتا ہے۔

اس بیان پر امریکہ نے خبردار کیا کہ ایسا کوئی بھی اقدام ''کشیدگی میں اضافے‘‘ کا باعث ہی ہو گا۔ امریکہ کو ایرانی ردعمل کی قدر کرنا چاہیے، ایرانی سفارت کار

جمعے کو ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا کہ ایران ''نیک نیتی اور مکمل احتیاط کے ساتھ سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دے رہا ہے‘‘۔

انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے ایک بیان میں کہا، ''امریکہ کو اس فیصلے کی قدر کرنا چاہیے، جو ان کی جارحانہ بیان بازی کے باوجود کیا گیا۔‘‘

یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ خامنہ ای کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں انہوں نے مذاکرات پر زور دیا اور خبردار کیا کہ اگر تہران نے انکار کیا تو فوجی کارروائی خارج از امکان نہیں ہے۔

تہران نے چند ہفتے بعد اس خط کا جواب دیا کہ وہ بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ لیکن اس وقت تک براہ راست بات چیت ممکن نہیں جب تک امریکہ اپنی ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی برقرار رکھتا ہے۔

مذاکرات سے قبل مزید پابندیاں

صدر ٹرمپ نے کہا کہ مذاکرات ''براہ راست‘‘ ہوں گے لیکن ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے زور دیا کہ بات چیت ''بالواسطہ‘‘ ہو گی۔

عراقچی اور امریکہ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف ان مذاکرات کی قیادت کریں گے۔

اس ملاقات سے قبل واشنگٹن نے ایران پر اپنی ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ ڈالنے کی پالیسی جاری رکھی اور تازہ پابندیوں میں ایران کے تیل کے نیٹ ورک اور جوہری پروگرام کو نشانہ بنایا۔

کیا فوجی کارروائی ممکن ہے؟

بدھ کو صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر مذاکرات ناکام رہے تو ایران کے خلاف فوجی کارروائی ''بالکل ممکن‘‘ ہے۔

اس کے ردعمل میں خامنہ ای کے ایک سینیئر مشیر علی شمخانی نے خبردار کیا کہ یہ دھمکیاں ایران کو ایسے اقدامات پر مجبور کر سکتی ہیں، جن میں اقوام متحدہ کے جوہری نگرانوں کو ملک سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔

واشنگٹن نے اس بیان کے جواب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دھمکی ایران کے ''پرامن جوہری پروگرام‘‘ کے دعوؤں کے منافی ہے اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو نکالنا ''کشیدگی میں اضافے کا باعث ہی بنے گا۔

ایران امریکہ سے مذکرات سے کتراتا کیوں ہے؟

ایران مسلسل اس بات کی تردید کرتا رہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ماضی کے ''تلخ تجربات اور اعتماد کے فقدان‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے تہران حکومت نے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے ہمیشہ احتیاط برتی ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کی تھی اور ایران پر سخت معاشی پابندیاں دوبارہ نافذ کر دی تھیں۔

واشنگٹن کی اس ڈیل سے علیحدگی کے بعد تہران نے ایک سال تک اس معاہدے کی پاسداری کی لیکن بعد میں اس نے بھی مرحلہ وار اپنی جوہری سرگرمیوں کو وسعت دینا شروع کر دی۔

بقائی نے کہا کہ ایران ہفتے کو ہونے والے مذاکرات سے قبل ''نہ تو کوئی پیشگی رائے قائم کرے گا اور نہ ہی کوئی پیشن گوئی‘‘ کرے گا۔ یاد رہے کہ ایرانی جوہری مذاکرات کے لیے عمان ایک طویل عرصے سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

بقائی نے کہا، ''ہم ہفتے کے روز دوسری طرف کے ارادوں اور سنجیدگی کا جائزہ لینا چاہتے ہیں اور اسی کے مطابق اپنےاگلے اقدامات کا تعین کریں گے۔‘‘

ادارت: عدنان اسحاق

متعلقہ مضامین

  • مسقط مذاکرات کے بارے مصر کا ایران، عمان و امریکہ کیساتھ رابطہ
  • ایران امریکہ مذاکرات
  • ایران کے ساتھ بات چیت مثبت پیش رفت ہے، ڈونالڈ ٹرمپ
  • قطر کی جانب سے ایران اور امریکہ کے درمیان غیر مستقیم مذاکرات کا خیرمقدم
  • اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ انگیج ہیں، ہماری آؤٹ لائن ہے مذاکرات بیک چینل رکھنا چاہیے، رہنما پی ٹی آئی
  • ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات آج ،ایٹمی پروگرام پر بات چیت متوقع
  • ایران و امریکہ کے مابین مذاکرات کا طریقہ کار طے کر لیا گیا
  • عمان میں ایران و امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا طریقہ کار طے
  • سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دینا چاہتے ہیں، ایران
  • بالواسطہ مذاکرات اور چومکھی جنگ