’تمہیں برطرف کردیا گیا‘، ٹرمپ نے جو بائیڈن کی سیکیورٹی کلیئرنس ختم کردی WhatsAppFacebookTwitter 0 8 February, 2025 سب نیوز

نیویارک:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے جو بائیڈن کی سیکیورٹی کلیئرنس ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کے روز اعلان کیا کہ وہ خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے اپنے پیشرو جو بائیڈن کی سیکیورٹی کلیئرنس ختم کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 4 سال قبل کیے گئے جو بائیڈن کے اقدام پر جیسے کو تیسا جواب ہے۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر جاری اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہ جو بائیڈن کو خفیہ معلومات تک رسائی رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، لہذا ہم فوری طور پر جو بائیڈن کی سیکیورٹی کلیئرنس منسوخ کر رہے ہیں اور ان کی ڈیلی انٹیلی جنس بریفنگ روک رہے ہیں۔
ریپبلکن رہنما نے مزید کہا کہ انہوں نے ( جو بائیڈن) نے یہ مثال 2021 میں قائم کی تھی جب انہوں نے انٹیلی جنس کمیونٹی (آئی سی) کو ہدایت کی کہ وہ امریکا کے 45 ویں صدر (ڈونلڈ ٹرمپ) کی قومی سلامتی سے متعلق تفصیلات تک رسائی سے روکے، یہ وہ سہولت تھی جو کہ سابق صدور کو حاصل تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بائیڈن کی خصوصی کونسل کی حساس دستاویزات کے حوالے سے گزشتہ سال کی رپورٹ کا حوالہ دیا۔
انہوں نے لکھا کہ رپورٹ نے انکشاف کیا کہ جو بائیڈن ‘ بھولنے کی بیماری ‘ کا شکار ہیں اور وہ حساس معلومات کے حوالے سے ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، میں ہمیشہ اپنی قومی سلامتی کی حفاظت کروں گا، جو بائیڈن آپ کو برطرف کر دیا گیا۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ تک رسائی انہوں نے

پڑھیں:

مشرق وسطیٰ اور ڈونلڈ ٹرمپ کا قالین

سیاست میں ایک بے پناہ اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ وقت سے قبل یہ بھانپ لیا جائے کہ کسی خاص صورتحال میں کسی لیڈر کا ممکنہ طرزِ عمل یا ردعمل کیا ہوگا؟ چنانچہ نہ صرف یہ کہ متحارب سیاسی قوتیں اپنی چال چلنے یا نہ چلنے کا فیصلہ بھی اسی بنیاد پر کرتی ہیں بلکہ تجزیہ کاروں کی روزی روٹی بھی اسی چیز سے جڑی ہوتی ہے۔ کیونکہ تجزیہ حال سے کم اور مستقبل سے زیادہ جڑا ہوتا ہے۔ ہرچند کہ ناقابل یقین سی بات ہے مگر ہوتے سیاسی لیڈر بھی بہر حال انسان ہی ہیں۔ اور ہر انسان کی ایک نفسیات ہوتی ہے، اسی بنیاد پر اس کے حوالے سے یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ کس صورتحال میں اس کا طرز عمل یا ردعمل کیا ہوگا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کے حوالے سے یقین کی حد کو پہنچی ہوئی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔ امریکا کے حالیہ صدارتی انتخابات سے چند ماہ قبل جب روسی صدر ولادیمیرپیوٹن سے سوال ہوا کہ وہ بائیڈن اور ٹرمپ میں سے کس کی جیت چاہتے ہیں؟ تو پیوٹن کا یہی کہنا تھا کہ وہ بائیڈن کی جیت چاہتے ہیں کیونکہ وہ ’پریڈکٹ ایبل‘ ہیں۔ یعنی کسی بھی صورتحال میں ان کے چلن کو پیشگی بھانپا جاسکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ’پریڈکٹ ایبل‘ نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ روایتی سیاستدان نہیں ہیں۔ سو وہ سیاست کے روایتی راستوں پر نہیں چلتے۔ مثلاً آپ ان کا ٹیرف کارڈ ہی لے لیجیے۔ یہ کارڈ ہر جگہ کارآمد نہیں مگر اس کے کارآمد ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان سے قبل یہ کارڈ کسی امریکی صدر نے استعمال نہیں کیا۔ یہ ان کا بالکل ہی آؤٹ آف دی بکس ٹول ہے، اور اب تک وہ اسے کولمبیا، میکسیکو اور کینیڈا کے خلاف کامیابی سے استعمال کر چکے ہیں۔ ٹرمپ یورپ کے خلاف بھی یہ کارڈ چلنے کا واضح اشارہ دے چکے، جو آنے والے ایام میں عالمی سیاست کے لیے مزید ارتعاش کا باعث بنے گا۔

ہم نے اپنے پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ غزہ سیز فائر کے حوالے سے ہمارا کالم تاخیر کا اس لیے شکار ہوا کہ سیاست لین دین کا کھیل ہے۔ ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ کیا ہے جو ٹرمپ سیز فائر کے بدلے اسرائیل کو دینا چاہتے ہیں؟ اگرچہ ان دنوں یہ آئیڈیا فلوٹ ہوچکا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ خالی کروانے کا پلان رکھتے ہیں۔ مگر فلوٹ کیے گئے آئیڈیاز بالعموم ٹرک کی بتی ثابت ہوتے ہیں، سو ہم ان کے تعاقب سے گریز کرتے ہیں۔ ہم کسی آئیڈیے کو اسی صورت موضوع بناتے ہیں جب وہ آفیشل ہوجائے۔

غزہ انخلا کا آئیڈیا دو روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی مشترکہ پریس کانفرنس میں آفیشل ہوچکا۔ فی الحال اعلان کی حد تک ہی سہی مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے باقاعدہ اون کرلیا ہے۔ کسی بھی آئیڈیے کی طرح اس آئیڈیے کے حوالے سے بھی سب سے پہلے ہمیں یہی دیکھنا ہے کہ یہ قابل عمل کتنا ہے؟ اس آئیڈیے پر بی بی سی کے ردعمل سے ہی اندازہ لگا لیجیے کہ یہ آئیڈیا کتنا قابل عمل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان پر بی بی سی کی ہیڈلائن ہے “Trump’s Gaza plan will be seen as flying in face of international law” یعنی ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جائےگا۔

یہ ایک ہی سقم اتنا بڑا ہے کہ اسی کی بنیاد پر ٹرمپ کے اعلان کو مضحکہ خیز قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ معاملہ ہے کہ خود اہل غزہ اسے قبول کریں گے یا نہیں؟ اپنی سرزمین سے فلسطینیوں کی کمٹمنٹ کس درجے کی ہے اس کا اندازہ پچھلے ایک سال کی جنگ سے لگایا جاسکتا ہے۔ روایتی طور پر دنیا بھر میں ہوتا یہ ہے کہ جب کسی ملک میں جنگ چھڑتی ہے تو اس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہجرت کر جاتا ہے۔ یہ ہم افغان جنگ کے دوران بھی دیکھ چکے جب لگ بھگ ایک کروڑ افغان اپنے وطن سے ہجرت کرگئے تھے، اور یہ ہم یوکرین میں بھی دیکھ سکتے ہیں جس کی لگ بھگ چالیس فیصد آبادی ہجرت کرچکی ہے۔ لیکن غزہ میں چلن نظر نہیں آیا، وہاں کے لوگوں نے تاریخ کے بدترین قتل عام کے دوران بھی اپنی سرزمین نہیں چھوڑی۔ اس کی آبادی میں اگر کوئی کمی واقع ہوئی تو وہ کمی بس انہی افراد کی ہے جو اسرائیلی قتل عام میں شہید ہوچکے۔ اہل غزہ اس قتل عام کے دوران غزہ کی ہی حدود میں کبھی شمال تو کبھی جنوب کا رخ کرتے رہے، لیکن اپنی سرزمین کو انہوں نے نہیں چھوڑا۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس جادو کی وہ کون سی چھڑی ہے جس کے ایک اشارے سے اہل غزہ اپنی سرزمین سے دستبردار ہو جائیں گے؟ کیا اہل غزہ وہاں اس لیے بیٹھے ہیں کہ وہ تو نکلنا چاہتے ہیں مگر کوئی نکلنے نہیں دیتا؟ اور ڈونلڈ ٹرمپ راستے کھول دیں گے؟ سرنگوں کا ایک جال ہے جو ایک جانب مصر اور دوسری جانب لبنان تک پہنچتا ہے۔ یہی تو وہ سپلائی لائن ہے جس کا تاحال اسرائیل کے پاس کوئی توڑ نہیں۔ سو اگر کوئی غزہ چھوڑنا چاہتا تو یہ سرنگیں اس کے لیے کارآمد تھیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فلسطین کی تحریک کا سب سے طاقتور عنصر ہی یہ ہے کہ فلسطینی اپنی سرزمین کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہتے۔

پھر ایک اہم معاملہ یہ بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اہل غزہ کو بسائیں گے کہاں؟ سردست مصر اور اردن کے نام لیے جا رہے ہیں، مگر یہ اتنا آسان معاملہ نہیں کہ ان ممالک کے حکمران ہاں کردیں گے اور سب بخیر و خوبی طے پاجائے گا۔ ان کے ہاں کرتے ہی خود ان حکمرانوں کا اقتدار خطرے میں ہوگا، بالخصوص مصر میں اخوان کے ہاتھ اتنا بڑا ایشو آجائے گا کہ جنرل سیسی کے لیے اس سے نمٹنا ممکن ہی نہ رہے گا۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ فلسطین کا ہی ایشو تھا جس پر سودے بازی کے نتیجے میں انور سادات کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ سیسی کے پاس تو پھر بھی کسی نہ کسی درجے میں مصری فوج ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ کا حال تو اور بھی پتلا ہے۔ وہ پہلے ہی ان تیس لاکھ فلسطینیوں کے خوف میں رہتے ہیں جو دہائیوں سے وہاں آباد ہیں۔ سو ایسے میں غزہ انخلا کے لیے ہاں کرتے ہی شاہ عبداللہ خطرے میں ہوں گے۔

اس صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لگ بھگ ناممکنات کی حد کو پہنچا ہوا آئیڈیا ٹرمپ نے پیش ہی کیوں کیا؟ ڈونلڈ ٹرمپ سیاست کے روایتی طریقوں سے جتنا بھی انحراف کرلیں وہ سیاست کے دائرے سے باہر تو جانے سے رہے۔ سو سیاست کے بازار کا ایک چلن یہ ہے کہ یہاں قالین کی قیمت ہمیشہ پٹھانوں والی لگائی جاتی ہے۔ اور پھر اس پر بارگین کی صورت اس قیمت کو پہنچا جاتا ہے جو فی الواقع مطلوب ہوتی ہے۔

سی آئی اے اور ایم آئی سکس کے کچھ ریٹائرڈ اعلیٰ سطح کے افسران ایسے ہیں جو فلسطین کے ایشو پر فلسطینیوں کے بہت بڑے حامی ہیں۔ ایسے ہی ریٹائرڈ افسران میں سے ایک ایلسٹر کروک ہیں۔ ایلسٹر کو باقاعدگی سے فالو کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وہ انتہائی باخبر شخص ہیں۔ ایلسٹر کروک نیتن یاہو کے دورے سے دو روز قبل اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیز فائر پلان سے جس شخص کے لیے سب سے زیادہ مشکلات کھڑی کردی ہیں وہ نیتن یاہو ہے۔ اس کا اقتدار کھڑا ہی دو انتہا پسند صہیونی لیڈروں کی حمایت پر تھا۔ ان میں سے ایتمار بین گویر سیز فائر والے ایشو پر نیتن یاہو کا ساتھ چھوڑ چکا جبکہ سموٹریج بھی ایسا کرسکتا ہے۔ سو نیتن یاہو نے سیز فائر کے دوسرے مرحلے کے لیے اپنا نمائندہ دوحہ بھیجنے کے بجائے خود واشنگٹن جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایلسٹر کروک کے مطابق غزہ انخلا کا جو آئیڈیا فلوٹ کیا گیا ہے یہ درحقیقت نیتن یاہو کو سیاسی آکسیجن فراہم کرنے کے لیے ہے۔ کوئی ایسا لولی پاپ نیتن یاہو کی اشد ضرورت ہے جسے وہ تل ابیب کے سیاسی بازار میں سیل کرسکے۔ اور اس خفت سے جان چھڑا سکے جس کا سامنا نیتن یاہو کو قیدیوں کے تبادلے والے مناظر سے کرنا پڑا ہے۔

ہم ایلسٹر کروک سے اس اضافے کے ساتھ متفق ہیں کہ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ قالین کا نام ’ابراہیمی معاہدہ‘ ہے۔ لیکن ٹرمپ کا یہ قالین غیر مشروط فروخت ہو پائے گا یا نہیں؟ یہی دیکھنے والا اصل نکتہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

wenews جنگ بندی معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ رعایت اللہ فاروقی فلسطینی مشرق وسطیٰ نیتن یاہو وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • ’جو‘ تمہیں نکال دیا گیا ہے‘ ڈونلڈ ٹرمپ کا بائیڈن سے ایک اور انتقام
  • صدر ٹرمپ نے جو بائیڈن کی سیکیورٹی کلیئرنس ختم کردی
  • کچھوے کی چال اور صدر ٹرمپ کی چھلانگیں
  • ٹرمپ نے سابق صدر جو بائیڈن کی خفیہ معلومات تک رسائی روک دی
  • پاکستان کی معیشت میں استحکام، فچ ایجنسی نے ترقی کی پیش گوئی کردی
  • معاشی استحکام بحال، فچ ایجنسی نے پاکستان کی معاشی صورتحال پر رپورٹ جاری کردی
  • پاکستان معاشی استحکام بحالی پر پیشرفت کررہا ہے،فچ نے رپورٹ جاری کردیا
  • مشرق وسطیٰ اور ڈونلڈ ٹرمپ کا قالین
  • سیکیورٹی کا مسئلہ،سٹی کورٹ اور ملیر کورٹ کا علاقہ حساس قرار