Daily Ausaf:
2025-04-15@03:02:59 GMT

مسئلہ کشمیر کا تاریخی پس منظر اور موجودہ صورتحال

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس کے بعد سے کشمیری عوام ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مسلسل یہ آواز بلند کر رہے ہیں کہ بین الاقوامی وعدہ کے مطابق آزادانہ استصواب کے ذریعے سے انہیں حق خود ارادیت کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے مگر نہ بھارت اس کے لیے تیار ہو رہا ہے اور نہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری ہی کشمیری عوام کو ان کا یہ جائز اور مسلمہ حق دلوانے میں کسی سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جبکہ اس وقت مبینہ طور پر چھ لاکھ کے لگ بھگ انڈین آرمی جموں و کشمیر کے بھارتی مقبوضہ حصے پر مسلط ہے اور ریاست کے عوام جبر و تشدد کے وحشیانہ ماحول میں سنگینوں کے سائے تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ کشمیری عوام نے بھارتی مظالم اور اقوام متحدہ کی بے حسی کے خلاف تنگ آ کر متعدد بار ہتھیار اٹھائے اور ہزاروں نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس دوران میں کئی بار مذاکرات کی میز بچھی مگر پون صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط اس جدوجہد کا ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور احتجاج اور قربانی کا کوئی مرحلہ بھارت اور عالمی برادری کے طرز عمل میں تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
ریاست جموں و کشمیر کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ بتائی جاتی ہے جس کی غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ پاکستان اور دیگر ممالک میں مہاجر کے طور پر زندگی بسر کر رہا ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے میں رہنے والے کشمیری اپنے اس مطالبہ پر پوری طرح متفق اور اس کے لیے سرگرم عمل ہیں کہ انہیں اقوام متحدہ کے وعدے کے مطابق آزادانہ حق خود ارادیت کے ذریعے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ کشمیر دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ہے اور یہ ایسی جنت نظیر وادی ہے جس کے بارے میں کسی فارسی شاعر نے کہا تھا کہ
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
مگر آج یہ جنت ارضی انڈیا کی چھ لاکھ فوج کی سنگینوں تلے آگ اور خون کا میدان کارزار بن چکی ہے اور اس خطے کے مظلوم مسلمان اپنی آزادی اور دینی تشخص کے لیے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔
یہ تو مسئلہ کشمیر کا تاریخ پس منظر ہے جس کا تعلق ماضی سے ہے اور اس خطے کے عوام کے مسلمہ حقوق سے ہے، مگر اس مسئلے کا ایک معروضی تناظر بھی ہے جسے اس موقع پر سامنے رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ:
(۱) جس طرح پون صدی قبل تقسیم ہند کے موقع پر بین الاقوامی قوتوں بالخصوص مغربی استعمار کا مفاد اس میں تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی فضا بہرحال قائم رکھی جائے اور اسی مقصد کے لیے طے شدہ پلان کے مطابق کشمیر کا مسئلہ سازش کے ذریعے سے کھڑا کیا گیا اور پھر اسے کبھی حل نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی گئی، اسی طرح آج ان قوتوں کا مفاد اس میں ہے کہ یہ کشیدگی کم ہو اور پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آکر اس بین الاقوامی ایجنڈے پر عملدرآمد کی مشترکہ طور پر راہ ہموار کریں جو ’’گلوبلائزیشن‘‘ کے نام سے پوری دنیا پر مغرب کی حکمرانی مسلط کرنے کے لیے منظم طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
(۲) مغربی حکمرانوں کو پاکستان کی ایٹمی طاقت کھٹک رہی ہے کیونکہ یہ مسلم دنیا کی ایٹمی قوت سمجھی جا رہی ہے اس لیے پاکستان کو ایٹمی طاقت سے دستبردار ہونے پر آمادہ کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر کو کسی نہ کسی طرح حل کرنا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔
(۳) مغربی استعمار کو پاکستان کی فوج کا موجودہ سائز، صلاحیت اور جہاد کے عنوان سے اس کی تربیت کھٹک رہی ہے اور پاک فوج کی ڈاؤن سائزنگ اور اس کا ذہنی رخ بدلنے کے لیے کشمیر کا ٹارگٹ اس کی نگاہوں سے اوجھل کرنا ضروری سمجھا جا رہا، اس لیے بھی مسئلہ کشمیر کا کوئی نہ کوئی حل ضروری خیال کیا جاتا ہے۔
(۴) جہاد کے عنوان سے روسی جارحیت سے نجات حاصل کرنے کے بعد افغان مجاہدین نے وہاں جو اسلامی نظریاتی حکومت قائم کر لی ہے، اس تجربہ کا کشمیر میں اعادہ مغربی استعمار کے نزدیک ناقابل برداشت ہوگا، اس لیے بین الاقوامی حلقوں کے نزدیک یہ ناگزیر ہوگیا ہے کہ کشمیر میں کوئی بھی تبدیلی جہاد کے عنوان سے نہ ہو اور بین الاقوامی سیاسی رابطوں کے ذریعے سے اسی طرح کا کوئی حل کشمیریوں پر مسلط کر دیا جائے جیسے ’’جنیوا معاہدہ‘‘ کے تحت روسی افواج کو افغانستان سے واپسی کا راستہ دے کر کابل میں ایک کمزور سی حکومت بٹھا دی گئی تھی اور افغان مجاہدین کے مختلف گروپوں کو مستقل طور پر آپس میں لڑاتے رہنے کا اہتمام کر لیا گیا تھا۔
(۵) مغربی حکمرانوں کو چین کے خلاف اپنا حصار مضبوط کرنے اور جنوبی ایشیا کو ایک بلاک کی صورت میں چین کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے بھی پاکستان اور بھارت کی دوستی اور اشتراک کار درکار ہے اور یہ مسئلہ کشمیر کے کسی نہ کسی حل کے سوا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ چین کے خلاف عسکری مہم جوئی کے لیے جغرافیائی طور پر وادی کشمیر سب سے مضبوط اور موزوں عسکری مرکز ثابت ہو سکتی ہے اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان اور بھارت کسی نہ کسی صورت میں اسے بین الاقوامی کنٹرول کے نام سے مغربی ملکوں کے سپرد کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
(۶) بھارت کو ریاست جموں و کشمیر سے دستبرداری میں اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور پاکستان دشمنی کے ساتھ ساتھ یہ مشکل پیش آرہی ہے کہ اس کے اپنے مختلف علاقوں میں آزادی کی تحریکات چل رہی ہیں اس لیے کشمیر کو آزادی دینے کی صورت میں مختلف علاقوں کی ان تحریکاتِ آزادی کا راستہ روکنا مشکل ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں بھارت اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے جس طرح جہاد افغانستان کے نتیجے میں سوویت یونین کے حصے بخرے ہوگئے تھے۔
(۷) پاکستان کے لیے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بقول کشمیر ’’شہ رگ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور کشمیری عوام کے ساتھ پاکستان کے لازوال دینی، ثقافتی اور جغرافیائی رشتوں اور تعلقات کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے ہے کہ کشمیر اس کے بیشتر دریاؤں کا سرچشمہ ہے اور مستقبل قریب میں پانی کے عالمی سطح پر پیدا ہونے والے متوقع عظیم بحران سے قبل اپنے دریاؤں کے سرچشموں سے دستبرداری پورے پاکستان کو بنجر بنانے اور ایتھوپیا اور سوڈان جیسے خوفناک قحطوں کو قبول کرنے کے مترادف ہوگا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت بین الاقوامی مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کرنے کے لیے کے ذریعے سے کشمیر کا کے خلاف اس لیے اور اس ہے اور رہی ہے رہا ہے

پڑھیں:

بھارت اور چین کے مسافر پروازیں بحال کرنے پر پھر مذاکرات، تاریخ مقرر نہیں ہوسکی

بھارت اور چین کے درمیان براہ راست مسافر بردار طیاروں کی پرواز دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں بات چیت کا ایک دور ہوا لیکن ابھی تک کوئی تاریخ طے نہیں کی جاسکی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت اور چین کا تقریباً 5 سال بعد پروازیں بحال کرنے پر اتفاق

رائٹرز کے مطابق دونوں پڑوسیوں نے جنوری میں تجارتی اور اقتصادی اختلافات کو حل کرنے پر کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس اقدام سے ان کے ہوابازی کے شعبوں کو فروغ ملے گا۔

سول ایوی ایشن کے سیکریٹری ووملن منگ وولنم نے نئی دہلی میں انڈین چیمبر آف کامرس کے زیر اہتمام ایک کانفرنس میں کہا کہ شہری ہوا بازی کی وزارت اور چین میں ہمارے ہم منصب نے بات چیت کی ہے۔

انہوں نے تفصیل میں جائے بغیر مزید کہا کہ اب بھی کچھ مسائل حل ہونے ہیں۔

مزید پڑھیے: پاک-بنگلہ تجارت اور بھارت کا گمراہ کن بیانیہ

ہمالیہ میں سرحد کے ساتھ فوجیوں کے درمیان سنہ 2020 میں ہونے والے تصادم کے بعد بھارت اور چین کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے تھے۔ اس جھڑپ میں کم از کم 20 بھارتی فوجی اور 4 چینی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

اس کے بعد بھارت نے ملک میں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ سیکڑوں مشہور ایپس پر پابندی لگا دی تھی اور مسافروں کے راستے کاٹ دیے تھے۔ تاہم دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست کارگو پروازیں جاری رہیں۔

اکتوبر میں پہاڑی سرحد پر فوجی تعطل کو کم کرنے کے معاہدے کے بعد سے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ اسی ماہ صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے روس میں بات چیت بھی کی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت چین چین بھارت پروازیں چین بھارت مذاکرات

متعلقہ مضامین

  • جب تک ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تب تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی: رانا ثنا اللہ
  • بھارت اور چین کے مسافر پروازیں بحال کرنے پر پھر مذاکرات، تاریخ مقرر نہیں ہوسکی
  • امریکی خاتون کو محبت میں دھوکا دینے والا لڑکا منظر عام پر آگیا، حیران کن انکشافات
  • امریکی ٹیرف: پاکستان کی برآمدات کے حجم میں ایک ارب ڈالر زائدکی کمی کا خدشہ
  • حکومت پاکستان کا آزاد کشمیر میں ایئرپورٹ تعمیر کرنے کا فیصلہ
  • حکومت پاکستان کا آزاد کشمیر میں ایئرپورٹ تعمیر کرنے کا فیصلہ
  • چینی قربت حاصل کرنے پر بھارت کی بنگلادیش کو سزا
  • متنازعہ وقف بل کے باعث پورا بھارت ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا
  • جہاز رانی میں مضر ماحول گیسوں کا اخراج کم کرنے پر تاریخی معاہدہ طے
  • بھارتی وزیر داخلہ کا دورہ مقبوضہ کشمیر عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہے، حریت کانفرنس