مولانا حمیدالدین فراہی رحمہ اللہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
برصغیر کی مٹی کو یہ شرف حاصل ہے کہ دو چار نہیں یہاں سینکڑوں سیرت نگار اور بیسیوں مفسر قرآن پیدا ہوئے اور اپنے اپنے ملک اور شہروں کو ان حوالوں سے آسمان رفعت تک پہنچا دیا ۔ انہیں میں ایک نام حمیدالدین بن خلیل الرحمن رحمت اللہ علیہ کا تھا جو 1863 ء عیسوی میں اعظم گڑھ (ہندوستان)کے ایک گائوں فراہ میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے انہیں حمید الدین فراہی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
ابتدائی تعلیم اپنی جنم بھومی میں حاصل کرنے کے بعد شوق علم کی خاطر شہروں شہروں کے علمی مراکز کی یاترا کرتے ہوئے ان مراکز کے جید اساتذہ سے کسب فیض حاصل کیا۔عربی، فارسی،فلسفہ ،منطق،فقہ اور علم حدیث سیکھنے کے ذوق میں علامہ سید نذیر حسین دہلوی،حضرت مولانا شمس الحق عظیم آبادی،مولانافیض الحسن سہارنپوری، مولانا عبدالعلی فرنگی محلی اور حضرت مولانا لطف اللہ علی گڑھی کے حضور زانوئے تلمذ طے کیا ۔علم حدیث میں خصوصی مہارت کے حصول کے ساتھ ساتھ علوم القرآن میں مقام امتیاز تک پہنچے۔جب خود علوم دین میں دسترس پالی تو درس و تدریس کے لئے اپنے آپ کو وقف فرما دیا اور دیگر کئی تلامذہ کے علاوہ مولانا امین احسن اصلاحی جیسے نابغہ روزگار تلامذہ درس نظامی کو مہیا کئے۔جنہوں نے مولاحمیدالدین فراہی کے علمی ورثے کو چار چاند لگا کر عروج تک پہنچایا ۔
علم دین کے لئے جو کارہائے نمایاں حضرت فراہی نے انجام دیئے ان کی فہرست بہت طویل ہے تاہم انہوں نے “نظم قرآن “کے نظریئے کے فروغ میں جو کردارادا کیا وہ کسی اور پر بس ہے ۔فراہی رحمت اللہ تعالی علیہ نے یہ اجاگر کیا کہ ” قرآن محض الگ الگ سورتوں اور آیات کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ ایک مربوط و منظم کتاب ہے “۔انہوں نے قرآن کو ایک مربوط الہامی کلام کے طور پرسمجھنے کی بنیاد رکھی اور بعدازاں ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کے اس مشن کی تکمیل میں کمال محنت کی۔
مولانا حمیدالدین فراہی قرآنی نظم سے متعلق اپنی تحقیق کے سلسلے کو کامل بنانے کے لئے اعظم گڑھ میں “مدرسہ الاصلاح “قائم کیا جو وقت کے ساتھ ترقی کے زینے طے کرتا ہوا پورے برصغیرمیں جدید علوم قرآنی کامرکز بن گیا۔جہاں عربی زبان،اور نظم قرآن کے ساتھ ساتھ دینی موضوعات پر متعدد کتب مرتب کی گئیں ۔اس سلسلے میں مولانا کی بعض کتب کو شہرتدوام ملی ۔ان میں “دلائل النظام “ہے جس میں انہوں نے “نظم قرآن ” کے اصولوں کی وضاحت پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ ” قرآن محض متفرق آیات و سورتوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک منظم و مربوط اور ہم آہنگ کلام ہے ،جس کی ہر سورہ اور آیت ایک خاص ترتیب اور حکمت کے تحت رکھی گئی ہے۔
قرآن کی ہر سورہ کا ایک مرکزی موضوع (عمود) ہوتا ہے،جس کے گرد پوری سورہ کی آیات ترتیب دی گئی ہوتی ہیں “اسی طرح انہوں نے فرمایا کہ”تمام سورتیں اور آیات باہمی ربط رکھتی ہیں اور ایک خاص سلسلے کے تحت ترتیب دی گئی ہیں اور یہ ربط اور نظم نہ صرف ایک ہی سورہ کے اندر موجود ہوتا ہے بلکہ تمام قرآن ایک مکمل نظام کے تحت ترتیب دیا گیا ہے ۔اگر اس نظم کو سمجھ لیا جائے تو قرآن کا پیغام زیادہ واضح اور مربوط انداز میں سامنے آتا ہے “۔
مولانا کا مدعا یہ ہے کہ قرآن کا عرفان و ادراک حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے قرآن کے نظم کی آگہی حاصل کی جائے تبھی اس کے پیغام کی گہرائی تک رسائی ممکن ہے ۔اپنی تصنیف”دلائل النظام ” میں مولانا نے نظم قرآن پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کی اقسام پر گفتگو کی ہے کہ “نظم جزئی: ایک ہی سورہ کے اندر مختلف آیات کے درمیان ربط” نظم کلی ” تمام قرآن کی سورتوں کے درمیان ایک مربوطنظم۔ اس تقسیم کی روشنی میں مولانا نے اس امر کو واضح کیا ہے قرآن کی موجودہ ترتیب وحی کے عین مطابق ہے اور یہ کسی انسانی اجتہاد کا شاخسانہ نہیں۔
واضح رہے کہ کتاب مذکورہ ہی مولانا کی فکری بنیاد کی اصل دلیل ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی نے مولانا ہی کے فکری نظریئے کی روشنی میں اپنی تفسیر “تدبر قرآن مدون کی۔مولانا حمیدالدین فراہی کی ایکاور تصنیف کا نام “اسالیب القرآن ” ہے جس میں انہوں نے قرآن کے طرزبیان اور اس کی زبان کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے ۔کتاب ہذا کا مقصد اس امر کی وضاحت کرناہے کہ” قرآن کا اسلوب عام انسانی کلام سے مختلف اور انتہائی بلیغ و حکیمانہ ہے،اور اس کی زبان میں ایک خاص اعجاز (معجزانہ پہلو) پایا جاتاہے”۔مولانا کی تیسری اہم کتاب تفسیر نظام القرآن ” جس میں مولانا نے اپنے پیش کئے گئے ” نظم قرآن ” کے اصولوں ہی کی اساس پر قرآن کی تفسیر پیش کی ہے ۔مولانا حمیدالدین فراہی کی اس سلسلے کی چوتھی کتاب ” مفردات قرآن ” ہے جس میں انہوں نے قرآن کے الفاظ کے اصل معانی اور انہیں استعمال کرنے کے طریقہ کار پر بحث کی ہے ۔یہ کتاب کلام پاک کی زبان کو اس کے اصل عربی سیاق میں سمجھنے کی طرف توجہ مبذول کراتی ہے تاکہ قرآن کریم میں استعمال ہونے والے الفاظ اور اصطلاحات کا ادراک حاصل ہوسکے، کیونکہ قرآن کی ہر اصطلاح اپنے اندر ایک خاص مفہوم اور پس منظر رکھتی ہےجس کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے قدیم عربی زبان اور اس کے اسالیب کو جاننا از حد ضروری ہے۔
مولانا فرماتے ہیں کہ”الفاظ کے معانی کا تعین صرف لغوی اعتبار سے نہیں، بلکہ سیاق وسباق کے مطابق کیا جاناچاہیے “مراد یہ ہے کہ قرآن کے ہر ہرلفظ کے حقیقی معانی کے پیچھے مجازی معانی جڑے ہوتے ہیں ۔مولانا نے ہم معانی الفاظ کا موازنہ کرکے یہ اجاگر کیا ہے کہ بعض لفظ بظاہر ایک جیسے ہوتے ہیں مگر ان کے معانی میں باریک فرق ہوتا ہے ۔یہ ایک المناک رویہ ہے کہ ہم قرآن کو جزدانوں میں محفوظ کر کے رکھ دیا ہے اور قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے میں جن لوگوں نے عمریں کھپائی ہیں ان کے ذکر ہی سے ہماری تاریخ تہی ہوتی جاتی ہے ۔ہم نے انہیں بھلا دیا ہے جنہوں نے ہمیں یاد دلایاکہ کلمہ پڑھ لینے کے بعد اس کے حقوق کیسے ادا کرنے ہیں؟ اسی کو آئینہ استدراک کا زنگ آلودہ ہوجانا کہتے ہیں کاش آج پھر کوئی ایسا ہو جو یہ کہہ سکے کہ
انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں
زبان میری ہے بات ان کی
انہی کی محفل سنوارتا ہوں
چراغ میرا ہے رات ان کی
اقول قولی ھذا۔۔۔۔۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں مولانا مولانا نے انہوں نے قرآن کی قرآن کے کہ قرآن ایک خاص کے لئے اور اس
پڑھیں:
فلسطین پر صرف اور صرف فلسطینیوں کا حق ہے، مولانا فضل الرحمان
جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ فلسطین پر صرف اور صرف فلسطینیوں کا حق ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان پر سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی ملاقات اور ہرزہ سرائی پر امت مسلمہ سراپا احتجاج ہے۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ فلسطین پر صرف اور صرف فلسطینیوں کا حق ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو آج تک فلسطینیوں نے تسلیم نہیں کیا اور پوری امت مسلمہ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان پر قبضے کی کوشش میں بھی 20 سال وہاں خون بہایا۔