Daily Ausaf:
2025-02-08@10:19:36 GMT

آئو سچ بولیں

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

جھوٹ ہمیشہ سے جنگ کا اک مہلک ہتھیار رہا ہے ، استعمار نے اسے فن بنادیا ، اورہمارے ٹوڈیان انتشار نے اسے طرہ امتیاز بنا لیا ہے ۔ ہندو متھڈولوجی کے گرو چانکیہ کوٹلیہ سے لے کر فرنگیوں کے استاد لارڈ میکالے تک نے سچ کو مات دینے کی خاطر جھوٹ کو ہتھیار بنایا، بھلا انتشاریوں کا گروگھنٹال کس طرح پیچھے رہ سکتا تھا؟ فرق صرف اتنا ہے کہ دور حاضر کے انتشاریوں کو تاریخ انسانی کے سب سے جدید ذرائع اور ٹیکنالوجی دستیاب ہے ، اور اوپر سے جھوٹ کمائی بھی کرتا ہے ، بلکہ ڈھیروں کماتا ہے، بھڑکیلا ہے ، شوخ اور رنگباز ہے،خوب بکتا ہے۔ سچ سادہ ہے ، کچھ تلخ اور کبھی کڑوا بھی ، خریدے کون ؟
یہ جھوٹ ہی ہے جس کا نیا نام ففتھ جنریشن وار رکھ دیا گیا ہے ، کسی نے خوب کہا ہے کہ جھوٹ کا یہ اسلحہ خانہ مہلک نہیں لیکن تباہ کن ضرور ہے۔ اس کے ہتھیاروں میں بے بنیاد پروپیگنڈہ، میڈیا لٹریسی کا ناجائز فائدہ اور تعمیری سوچ کو جھوٹی انفارمیشن سے تباہ کرنا شامل ہے۔ پس منظر یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کو جب یہ محسوس ہوا کہ تھرڈ اور فورتھ جنریشن وار کے امتزاج کے باوجود پاکستان ان کے دام شیطنت میں پھنسنے کو تیار نہیں ، دین سے وابستگی ، مقاصد پر نگاہ اور قوم کا اتحاد ویکجہتی راہنما ہے، لہٰذا عسکری اصطلاح کے مطابق ففتھ جنریشن وار متعارف کروا دی گئی، یعنی جھوٹ کی یلغار ، میڈیا اور سائبر فورس کی قوت سے گمراہی پھیلانے کی جنگ ۔ جس میں میدانِ جنگ واضح نہیں اور نہ ہی دشمن دوبدو ہے بلکہ اس کا مورچہ سوشل میڈیا اور ہتھیار افواہیں، پروپیگنڈا، مین سٹریم میڈیا، پرنٹ میڈیا، میوزک، فلمز، ڈاکیومینٹریز، یوٹیوب ویڈیوز، ٹوئیٹر وغیرہ ہیں۔ اس فتنہ ابلیس کا ہدف ٹھہرا عوام کا یقین ، امید اور عزم تاکہ ان میں بیزاری، بے یقینی، مایوسی اور ڈپریشن پھیلایاجائے۔ اس کے لئے ضرورت ایک راہنما کی تھی جو ہوس و حرص کا رسیا ہو اور اقتدار واختیار کی خاطر اقدار و عقیدے تک کو تباہ کرنے سے گریز نہ کرے ،یہ ضرورت بھی پوری کردی گئی ہے،اب چہار سو جھوٹ کی بھر مار ہے ، ڈالروں کی جھنکار میں سچ کے دشمن سچائی کی ہر علامت کو تہ وبالا کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ ہزیان گوئی ، کذب بیانی اور بہتان تراشی سے ہڈیوں میں سرائت کرجانے والی نسلوں کی بھوک ،چھچھور پن اور راتب خوری کی تسکین کی خاطر حالات بایں جا رسید کہ جھوٹ کے یہ لشکر بعض اوقات ایک دوسرے پر ہی پل پڑتے ہیں۔
سیانے کہہ گئے ہیں کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے ، چہ جائیکہ پوری دنیا کی طاقتیں اسے ریٹنگ دینے پر تلی ہوں ، بے شک شیطانیت کی ہر قوت اسے ٹرینڈ بنانے کی دوڑ میں ہو ۔ جس طرح تاریک شب میں ننھی سی دیا سلائی اندھیرے کا سینہ شق کر ڈالتی ہے ، اسی طرح جھوٹ ، اور ففتھ جنریشن وار کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کے لئے بھی سچ کی وہ ایک چنگاری ہی کافی ہے ، جو دلوں میں اطمینان بھردے ، امید کو زندہ اور یقین کو پختہ تر کردے۔ بقول قتیل شفائی
کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں
سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقعِ اظہار، آؤ سچ بولیں
شبہ نہیں کہ جھوٹ کے بادل چھٹ رہے ہیں ، انتشاریوں کی پھیلائی ظلمت سچ کی پو پھٹنے سے مٹ رہی ہے ، لیکن اس کے باوجود لازم ہےکہ جھوٹ کے اس کاروبار کو بند کیا جائے ، ملک دشمنی اور اغیار کی غلامی کی اس روائت پر قدغن لگائی جائے ، نوجوان نسل کے اذہان وقلوب کو زہر آلود کرنے کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کی جائے ۔ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ ایک جنگ ہے ، اس سے جنگی بنیادوں پر نمٹنے کی کوشش نہ کی گئی تو بحیثیت قوم زندہ رہنے کی صلاحیت خطرے میں پڑ جائے گی،اس جنگ کی شدت کو سمجھنے میں ناکام رہے، تو سماجی، اقتصادی اور سیاسی ڈھانچہ برباد ہو جائےگا،جس کے مظاہر ہم آئے روز اپنے گلی کوچوں، اور گھروں تک میں دیکھ رہے ہی۔کیا یہ جملہ اب زبان زد عام نہیں اور حالات کی سنگینی کو بیان کرنے کو کافی نہیں کہ انتشاری فتنے نے قوم کی اخلاقیات برباد کردی ہے ، چھوٹے بڑے کا ادب اور احترام تباہ کردیا ہے ، شرم و حیاکی جگہ اباحیت کو عام کردیا ہے ۔دو ٹوک بتائے دے رہے ہیں کہ سدباب کا وقت نکل گیا تو پھر ہاتھ ملنے کی بھی فرصت نہ ملے گی ، بندھ باندھنے اور اپنی معاشرت کو شیطانیت سے بچانے کا وقت مٹھی میں سے ریت کی پھسل رہا ہے ۔ ایک جانب سیاسی مقاصد کی خاطر شہداء تک کا تمسخر اڑانے کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب اخلاق ،اطوار،عادات اور زبان تک آلودگی کا شکار سیاسی مداری کا مقدس شخصیات سے موازنہ کرنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی، یہی لوگ ہیں ، جو نا صرف ناآسودہ سیاسی خواہشات کی خاطرملک کے وجود تک کے دشمن بنے پھرتے ہیں بلکہ دشمن کے بلا تنخواہ آلہ کار ہیں ، عدالتوں میں گستاخوں کے مقدمات کا ڈھیر لگتا جارہاہے، حد تو یہ کہ ایسے بھی ہیں جو دھڑلے سے ان کی وکالت کرتے شرم محسوس نہیں کرتے ۔ سوال یہ ہے کہ کبھی کسی نے سوچا تھا کہ پاکستان کے معاشرے میں اخلاقیات کا یوں جنازہ نکلے گا ؟ لیکن یہ سب ہو رہا ہے،یہ سب اسی جھوٹ کے بازار ،ففتھ جنریشن کے ابتدائی نتائج ہیں ۔ صرف اخلاقیات کا ہی قتل نہیں، بلکہ ریاست اور معاشرے کی تخریب بھی اسی جنگ کا ہدف ہے ، ایک جھوٹی خبر کے ذریعہ سے پنجاب کے تعلیمی اداروں کی چین کو تباہ نہیں کردیا گیا؟ سوفیصد جھوٹ پھیلا کر 9مئی کو ریاست پر حملہ نہیں کیا گیا ؟ دہشت گرد تنظیمیں بی ایل اے ، ٹی ٹی پی داعش کیا اسی سوشل میڈیا کے ذریعہ سے جھوٹ پھیلا کر نوجوانوں کو دہشت گردی کی بھٹی میں نہیں جھونک رہیں ؟ کیا سوشل میڈیا دہشت گردوں کو موقع فراہم نہیں کرتا کہ وہ نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف راغب کریں اور اپنی تنظیموں میں بھرتی کریں اورلسانی اور فرقہ وارانہ پروپیگنڈے سے نوجوانوں میں ریاست مخالف جذبات بھڑکائیں؟ بیرونی عناصر اور دشمن ریاستوں سے مالی معاونت حاصل کریں ؟ اگر یہ سب ہو رہا ہے ، اور واقعتاً ہو رہا ہے تو اس کے خلاف محاذ کیوں نہ بنایاجائے ؟ اس کے خلاف قوانین کا شکنجہ کیوں نہ کساجائے ؟معذرت کے ساتھ مجھے کوئی شبہ نہیں کہ فیک نیوز اور سوشل میڈیا کنٹرول کے قوانین کا راستہ روکنے والے عناصر وہ کوئی بھی ہوں ، دانستہ یا نا دانستہ ملک دشمنوں ، معاشرے کو برباد کرنےوالی قوتوں اورصحافت کے مقدس پیشے کو جھوٹ کا دھندہ بنانے والوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ یہ فیصلے کا وقت ہے ، طے کرنا ہوگا کہ ریاست نے شور شرابے اور آوازوں کے طوفان سے خوفزدہ ہو کر فیصلے کرنے ہیں یا ملک وقوم کا مفاد دیکھنا ہے؟ اگر مجرموں کی مرضی سےہی قانون بنانے ہی تو آج سوشل میڈیا کے جھوٹ فروش ہنگامہ بپا کئے ہوئے ہیں ،کل کچے کے ڈاکو بھی جلوس لے آئیں گے ؟ کس کس کی سنیں گے ؟کہاں کہاں سرنڈر کریں گے؟ ریاست نےاگر جھوٹ کادھندہ بند کروانے کا فیصلہ کرلیا ہے تو معذرت خواہی کی نہیں ڈٹ جانے کی ضرورت ہے ، ورنہ معاشرہ تباہ ہوگا اور بچے گی ریاست بھی نہیں ، یہ جھوٹ کی دیمک سب چاٹ کھائے گی ۔
کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں
سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقعِ اظہار، آؤ سچ بولیں
ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے اپنا
بنامِ عظمتِ کردار، آؤ سچ بولیں
سنا ہے وقت کا حاکم بڑا ہی منصف ہے
پکار کر سرِ دربار، آؤ سچ بولیں
تمام شہر میں اب ایک بھی نہیں منصور
کہیں گے کیا رسن و دار، آؤ سچ بولیں
جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار، آؤ سچ بولیں
چھپائے سے کہیں چھپتے ہیں داغ چہروں کے
نظر ہے آئنہ بردار، آؤ سچ بولیں
قتیل جن پہ سدا پتھروں کو پیار آیا
کدھر گئے وہ گنہ گار، آؤ سچ بولیں
(قتیل شفائی)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا جنریشن وار سچ بولیں کی خاطر جھوٹ کا ہیں کہ رہے ہی رہا ہے

پڑھیں:

امریکا میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف کارروائی پر بھارتی میڈیا کا واویلا

افریقی ملک جمہوریہ کانگو میں گوما شہر کی جیل کو آگ لگائے جانے کے بعد سیکڑوں خواتین کی بے حرمتی کی گئی ہے اور اُنہیں جلاکر مار ڈالا گیا ہے۔ روانڈا کے حمایت یفتہ ایم ٹوئنٹی تھری باغیوں نے مشرقی شہر گوما کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ اِس کے بعد جیل سے ہزاروں قیدی بھاگ نکلے۔ اس کے بعد شہر میں انتہائی درجے کا انتشار برپا ہوا اور جیل سے بھاگے ہوئے مجرموں نے شہریوں کا ناطقہ بند کردیا۔ سیکڑوں خواتین کو گھیر کر اُن کی بے حرمتی کی گئی اور پھر اُنہیں زندہ جلایا گیا۔

یہ تمام واقعات گزشتہ ہفتے کے ہیں۔ تب سے اب تک پورا شہر شدید خوف کی گرفت میں ہے۔ لوگ گھروں میں دُبکے ہوئے ہیں۔ سڑکوں پر اور گلیوں میں باغی گشت کر رہے ہیں۔ اُنہیں دیکھ کر شہری انتہائی خوفزدہ ہیں اور دکانیں، بازار کھولنے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے حکام نے بتایا ہےی کہ گوما کی مُنزینزے جیل کے اندر قیدیوں نے سیکڑوں خواتین پر حملے کیے۔ گوما میں تعینات اقوامِ متحدہ کی امن فوج کے نائب سربراہ ویوین وان ڈی پیرے نے بتایا ہے کہ جس وقت ہزاروں قیدی جیل سے فرار ہو رہے تھے تب خواتین کے بلاک کو آگ لگادی گئی۔

تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 27 جنوری کو مُنزینزے جیل کے احاطوں سے دھویں کے بادل اٹھ رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے امن فوجی اب تک اس جیل کا معائنہ نہیں کرسکے ہیں۔ شہر کے حالات انتہائی خراب ہیں۔ لوگوں کو معمولات بحال کرنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وارنٹ گرفتاری کی خبروں پر سونو سود کا ردعمل سامنے آگیا
  • حکومت صرف وہ جھوٹ بُرا سمجھتی ہے جو اسے نقصان پہنچائے،علامہ جواد نقوی
  • دو ریاستی حل بین الاقوامی دھوکا اور سفارتی جھوٹ ہے، صیہونی تجزیہ کار
  • سلمان خان کا عورتوں کے لباس سے متعلق بیان؛ سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی
  • روایتی میڈیا تو پہلے ہی بوٹوں کے نیچے ہے، اب پیکا سے سوشل میڈیا پر بھی مارشل لاء لگا دیا گیا
  • حمزہ اور شہبازشریف کی بریت ،جھوٹ، تہمت اور بے بنیاد الزامات لگانے والوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے ،مریم اورنگزیب
  • میڈیا، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ
  • پیکا ایکٹ اور پیپلزپارٹی کی تشویش؟
  • امریکا میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف کارروائی پر بھارتی میڈیا کا واویلا