دستور ریاست مدینہ اور فلاحی مملکت
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
دستور یا آئین کسی بھی ریاست کا سب اہم حصہ ہوتا ہے اور دور جدید میں اس کے بغیر ریاست کا تصور محال ہے۔ اسلام سے قبل اگر سرزمین عرب کا جائزہ لیا جائے تو وہاں کوئی باقاعدہ ریاست موجود نہیں تھی بلکہ ایک قبائلی معاشرہ تھا اور وہ لوگ کسی وحدت میں نہیں تھے۔ رسول اکرم ﷺنے جب اعلان نبوت کیا تو کفار مکہ کی جانب سے مخالفت محض اس بنیاد پر نہ تھی کہ آپ انہیں بتوں کی پوجا سے روکتے تھے بلکہ مخالفت کی وجہ وہ پیغام انقلاب تھا جسے ابوجہل اور اس کے ساتھی سمجھتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ صرف بتوں کی پوجا سے روکنے والی بات نہیں بلکہ تمام نسلی بتوں اور سود خور سرمایہ داری کا خاتمہ کرکے ایک ریاست کا قیام عمل میں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ اپنے ساتھیوں سمیت مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو تو کفار مکہ کو اطمینان کا سانس لینا چاہیے تھا کہ انہیں بتوں کی عبادت سے منع کرنے والا وہاں سے چلا گیا لیکن انہوں نے باربار مدینہ پر چڑھائی کی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر ریاست مدینہ قائم یوگئی تو پھر مکہ بھی اس کی تولیت میں چلا جائے گا۔ اس حقیقت کو علامہ اقبال نے بہت شاندار انداز میں نوحہ ابوجہل میں لکھا ہے۔ مکہ میں چند لوگوں کے اسلام قبول کرنے اور کفار کے مظالم کے باعث اہل ایمان بہت مجبور زندگی بسر کررہے تھے۔ ان حالات آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ مجھے اسلامی ریاست کے لئے وزرا چاہئیں، اس وقت ان لوگوں کے لئے ناقابل فہم تھا لیکن تاریخ نے دیکھا کہ چند سالوں بعد وہ سچ ثابت ہوا جب سرزمین عرب میں ایک باقاعدہ اور دنیا کی پہلی فلاحی مملکت قائم ہوگی۔
رسول اکرم ﷺجب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو یہاں پیغمبرانہ فراست اور آپ کی قائدانہ خوبیوں کا اعتراف غیر مسلم مفکرین نے بھی کیا ہے کہ کس طرح آپ نے مواخات مدینہ اور میثاق مدینہ جیسے تاریخ ساز کام کیے۔ مدینہ پر کفار کے حملوں اور وہاں منافقین اور یہود کی موجودگی کے باوجود اپنی سربراہی میں ایک ریاست قائم کرنا، آج بھی تاریخ اور سیاسیات کے ماہرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ آقاﷺنے ریاست مدینہ کا دستور دیا اور ایسا آئین ہے جو دنیا کی دستوری تاریخ میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا میں فلاحی مملکت کا تصور عملی صورت میں ریاست مدینہ کی صورت میں ظاہر ہوا۔
دور حاضر میں اس دستور اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی فلاحی مملکت کو منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اپنی تحقیق “The Constitution of Medina and the Concept of welfare State” کتاب کی صورت میں لکھ کر ایم شاندار کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کی ہر سو ستائش ہورہی ہے۔ اس عظِیم تحقیقی کا کا اعتراف غیرمسلم حلقوں کی جانب سے بھی کیا جارہا ہے کہ اس سے پہلے اس حوالے سے کام نہیں ہوا۔ ان کا تحقیقی کام کتابوں کی صورت میں انگریزی اور اردو میں شائع ہوا ہے۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ’’مدینہ کا آئین اور فلاحی ریاست کا تصور‘‘کے حوالے سے اپنے کام کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے جدید فلاحی ریاستوں کے ساتھ اس کی مطابقت پر زور دیتے ہوئے مدینہ کے تاریخی آئین میں درج حکمرانی، شمولیت اور سماجی بہبود کے لازوال اصولوں کی وضاحت کی ہے۔ ان کا یہ تحقیقی قانون، سیاسیات اور تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے کے لئے بہت اہم ہوگا۔ اس سے مزید تحقیق اور مطالعہ کی راہیں کھلیں گی اور ان سوالوں پر بات آگے بڑھے گی کی دور حاضر میں کیسے ریاست مدینہ وجود میں آسکتی ہے؟ اس جدید ریاست مدینہ کا خاکہ کیسا ہوگا اور نظام مملکت کیسے تشکیل پائے گا۔ کیا ہم آج بھی ایک پرامن اور فلاحی معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں؟
کیا جدید ریاست مدینہ پارلیمانی انداز میں کام کرے گی اور اس میں سیاسی جماعتوں کا وجود ممکن ہوگا۔ عدلیہ کی تشکیل اور قانون سازی کیسے ہوگی اور اجتہاد کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ ایسے ہی بہت سے سوالات جو ذہنوں میں جنم لیتے ہیں، ان پر مزید تحقیقات کی ضرورت ہوگی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ’’مدینہ کا آئین اور فلاحی ریاست کا تصور‘‘آنے والے محققین کو ایک بنیاد فراہم کرے گا۔ اس عظیم تحقیقی کا پر انہیں مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ توقع ہے کہ دور حاضر کے اہم مسائل کو مستقبل میں اپنی تحقیق کا موضوع بنائیں گے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ریاست مدینہ اور فلاحی ریاست کا مدینہ کا کا تصور
پڑھیں:
گریٹر اسرائیل: آخری معرکہ حق و باطل کی تیاری
حق و باطل کی حتمی اور فیصلہ کن لڑائی ارض فلسطین پر ہی لڑی جانی ہے۔ فلسطین ایک اعلیٰ، ارفع اور انبیاءکا مسکن رہی ہے۔ جد الانبیاءسیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰة اسلام یہیں آسودہ خاک ہیں۔ بنی اسرائیل کے عروج کی شاہد، یہی سرزمین ہے۔ یہودیت نے اسی سرزمین پر اپنی عظمت کے نشان ثبت کئے۔ مسیحیت نے اسی سرزمین پر جنم لیا۔ عیسیٰ ابن مریمؑ نے اسی سرزمین پر آنکھ کھولی۔ انجیل مقدس کا بیان اسی سرزمین کی عظمت کی گواہی ہے۔ داﺅد علیہ السلام کو عظیم الشان عبادت گاہ کی تعمیر کا نقشہ دیا گیا جو اسی سرزمین پر تعمیر کی جانا تھی۔ داﺅدؑ نے اپنے بیٹے کو اس عبادت گاہ کی تعمیر و تکمیل کی وصیت کی۔ سلمانؑ نے وہ عظیم الشان ھیکل تعمیر کیا۔ اس کی تعمیر میں جن و انس نے حصہ لیا۔ ھیکل سلیمانی بنی اسرائیل کی عظمت کا نشان بن گیا۔ بنی اسرائیل کے لئے من و سلویٰ تو آتا ہی تھا۔ سلیمانؑ کو بحر و بر، چرند و پرند پر بھی غلبہ عطا کیا گیا۔ وہ اللہ کی چنیدہ قوم تھے۔ اللہ رب العزت نے ان پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کی بارش برسا دی۔ اپنی تمام نعمتیں ان پر جاری کر دیں، انہیں ارض مقدس عطا کی۔ ھیکل سلیمانی مرکز قرار پایا، انہیں غلبہ اور سلطنت دیا گیا لیکن انہوں نے اپنے رب کے ساتھ کئے گئے وعدوں سے انحراف کیا، نافرمانی کی، نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے لہو و لعب کا شکار ہو گئے۔ اللہ رب العزت نے اتمام حجت کے لئے بنی اسرائیل کی طرف ان کا آخری نبی، عیسیٰ ابن مریم بھیجا۔ بنی اسرائیل نے ان کی تکذیب کی، ان کی باتیں سنی ان سنی ہی نہیں کیں بلکہ انہیں جھٹلایا، اذیتیں دیں اور بالآخر انہیں صلیب تک پہنچا کر دم لیا۔ اللہ کی طرف سے عیسیٰ ؑ ابن مریم آخری وارننگ تھے۔ اس کے بعد یہود کو ان کے منصب عالیہ سے معزول کر دیا گیا۔ بنی اسرائیل پر عیسیٰؑ کی زبانی جو لعنت کی گئی تھی اسے عملی شکل دے دی گئی۔ 70عیسوی میں ھیکل سلیمانی تباہ و برباد کر دیا گیا۔ بنی اسرائیل پر اللہ کا عذاب نازل کر دیا گیا، انہیں منتشر کر دیا گیا۔ بنی اسرائیل اس کے بعد 1948ءمیں ریاست اسرائیل کے قیام تک منتشر رہے، ان کی مرکزیت ختم ہو گئی۔ وہ مختلف قوموں کے غلام بن کر ذلیل و خوار ہوتے رہے حتیٰ کہ انہوں نے یورپ اور امریکہ میں اپنی نحوست کے پنجے گاڑے۔ عیسائیت جو ایک توحیدی مذہب تھا، کو انہوں نے عجیب و غریب رنگ دے ڈالا۔ انجیل مقدس میں تحریف کی۔ یہ یہودیوں کی سازشی ذہنیت کا کمال ہے کہ عیسائی جو صدیوں سے یہودیوں کو مسیح کا قاتل سمجھتے آ رہے تھے، یہودیوں کے نگران و مہربان بن گئے۔ پہلے برطانیہ عظمیٰ نے ریاست اسرائیل کے لئے بالفور ڈیکلیئریشن جاری کیا پھر عظیم امریکہ نے اسی ریاست کی بقا اور مضبوطی کے لئے اپنے تمام وسائل خرچ کئے اور اس طرح عیسائیوں نے قاتلان مسیح کے لئے جائے امن قائم کر دکھائی۔ بات یہاں تک رہتی تو شاید پنپ جاتی، امریکہ نے تو ریاست اسرائیل کی حمایت کا بیڑا اس طرح اٹھا رکھا ہے کہ اسے ہر طرح کی من مانی اور ظلم و ستم کرنے کی نہ صرف کھلی چھٹی دے رکھی ہے بلکہ اسے عربوں کے سینے پر مونگ دلنے کے لئے ہر طرح کی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ 1948ءمیں اپنے قیام سے لے کر ہنوز، وہ اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق اسرائیل کا جغرافیہ تبدیل کرتا چلا جا رہا ہے۔ اب تو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے گریٹر اسرائیل کا نقشہ بھی جاری کر دیا ہے اور دنیا کو کھلے الفاظ میں بتا دیا ہے کہ وہ ایک عظیم الشان یہودی ریاست کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں جس کی سرحدیں ایسی ہوں گی۔ عربوں نے مذمتی بیان جاری کئے ہیں جن کی پُرکاہ کے برابر بھی وقعت اور حیثیت نہیں ہے۔ سابق امریکی صدر جو بائیڈن، امریکی خارجہ پالیسی کے مطابق اسرائیل کو فلسطینیوں پر بم برسانے اور غزہ کو ملیامیٹ کرنے کے لئے بموں کی کھیپ مہیا کرتے رہے۔ ہر روز بحری جہازوں کے ذریعے گولہ بارود اسرائیل پہنچتا رہا تاکہ اسرائیل بلاروک ٹوک غزہ پر آتش و آہن کی بارش برساتا رہے۔ اس طرح امریکہ کی عملی امداد کے ساتھ اسرائیل نے غزہ کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ وہ اب قابل رہائش نہیں ہے۔ اسرائیل غزہ کو ریاست اسرائیل میں ضم کرنا چاہتا ہے۔ گریٹر اسرائیل کے قیام کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کا خاتمہ، اسرائیل صہیونی حکمرانوں کا ٹارگٹ ہے۔ فلسطینی بالعموم اور حماس بالخصوص ان کا ٹارگٹ ہیں۔ اسرائیل کے حکمران جس گریٹر اسرائیل کو قائم کرنا چاہتے ہیں، یروشلم اس ریاست کا معنوی و حقیقی مرکز و محور ہے۔ عظیم ریاست اسرائیل کا دارالحکومت ہے جبکہ فلسطینی جو ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں، یروشلم اس کا بھی دارالحکومت ہے۔ عیسائی تو اس حوالے سے یہودیوں کے ہمنوا نظر آتے ہیں جو آسمانی بادشاہت کے قیام پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ عیسیٰ ابن مریم کی آمد ثانی کے منتظر ہیں۔ اس کے لئے ھیکل سلیمانی کی تیسری دفعہ تعمیر ضروری ہے۔ تخت داﺅدی جو برطانیہ کے سرکاری گرجا گھر میں محفوظ پڑا ہے، پر بیٹھ کر عیسیٰؑ پوری دنیا پر غلبہ حاصل کریں گے لیکن یاد رہے یہودی بھی ایک مسیحا کی آمد کے منتظر ہیں جو انہیں ویسا ہی غلبہ و عظمت عطا فرمائے گا جیسا سلیمانؑ کے دور میں حاصل ہوا تھا۔ یہودی، ایسی ہی ریاست یعنی گریٹر اسرائیل کے قیام کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں بالفور ڈیکلیئریشن کے اجرا سے لے کر 1948ءمیں قیام ریاست اسرائیل تک پوری دنیا کے یہودی کاوشیں کرتے رہے۔ روتھ چائلڈ یہودی خاندان نے پوری دنیا میں بکھرے یہودیوں کو ریاست اسرائیل کی طرف ہجرت کرنے کی ترغیب بھی دی اور مالی وسائل بھی مہیا کئے۔ 1948ءمیں ریاست کے قیام کے بعد اس کی تعمیر و بقا کے لئے بھی اسباب مہیا کئے۔ اب تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر کے لئے بھی پوری دنیا سے وسائل اکٹھے کئے جا چکے ہیں۔ روتھ چائلڈ خاندان اب بھی اس ”نیک کام“ میں آگے آگے ہے۔ اسرائیل جس طرح فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے
اسی طرح تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر اور گریٹر اسرائیل کے نقشے میں رنگ بھرنے میں مصروف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ معاملات حتمی مراحل طے کرتے ہوئے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تھرڈ ٹیمپل تعمیر ہو کر رہے گا، گریٹر اسرائیل بن کر رہے گا۔ یہودی عالمی اقتصادیات پر پہلے ہی غلبہ حاصل کر چکے ہیں۔ عالمی سیاست بھی ان کے قبضے میں آ کر رہے گی۔ عالم اسلام کی واحد عسکری طاقت، ایٹمی پاکستان پر بھی ان کی نظریں ہیں۔ یہاں بھی روتھ چائلڈز (گولڈ سمتھ) اپنے قدم جما چکے ہیں۔ پاکستانی سیاست پر عمران خان ایک جونک کی طرح چمٹا ہوا ہے جو اسے دن بہ دن کمزور کرنیکی شعوری کاوشیں کر رہا ہے۔ جیل میں ہونے کے باوجود وہ اپنا کام تندہی کے ساتھ کرتا چلا جا رہا ہے۔ فلسطینی لہولہان ہو رہے ہیں۔ عالم عرب پر جمود طاری ہے، عالم اسلام منتشر ہے۔ یہودی غالب آ رہے ہیں۔ گریٹر اسرائیل بن کر رہے گا۔ باقی مستقبل کے حالات تو صرف اللہ کو معلوم ہیں۔