Daily Ausaf:
2025-04-13@15:23:55 GMT

کچھوے کی چال اور صدر ٹرمپ کی چھلانگیں

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

صدر ڈونلڈٹرمپ ایک مقولے کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کہاوتیں، حکایتیں اور مقولہ جات وغیرہ بہت سبق آموز ہوتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کی واحد سپر پاور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر ہیں۔ کہانیوں سے اخذ کی گئی کہاوتوں میں عقل و دانش اور حکمت کا نچوڑ ہوتا ہے۔ گو کہ ٹرمپ اور ان کی ٹیم اور مشیران میں چوٹی کے جہاندیدہ اور زہین ترین افراد شامل ہوں گےلیکن ابھی تک ڈونلڈ ٹرمپ کے زیادہ تر بیانات اور فیصلوں میں جہاں بانی، انصاف اور دانش کی کمی نظر آتی ہے۔ محاورے اور مقولے لکھنے والے دانشوران اپنے تجربات کو دلکش کہانیوں کی صورت میں لکھتے ہیں تاکہ اس سے پڑھنے والوں کے دل پر گہرے اثرات مرتب ہوں لیکن صدر موصوف ڈھنگ کی سیاست نہیں کر پا رہے ہیں اور محاورتاًکچھوے کی چال چلنے کی بجائے خرگوش کی سرعت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
سکول کے زمانے میں ایک کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کے بارے کہانی پڑھی تھی۔ یہ کہانی بہت سبق آموز تھی اور اگر کوئی اسے سمجھنا چاہےتو آج بھی اس سے کچھ سیکھا جا سکتا ہے لیکن صدر ٹرمپ ہوا کے گھوڑے پرسوار ہیں ان کے لیے اس کہانی سے کوئی سبق لینا جوئے شیر لانے کے مترادف دکھائی دیتا ہے لیکن ہمارا فرض ہے کہ دنیا میں ہم آہنگی اور امن قائم کرنے کے لیے ہم کچھ سمجھائے دیتے ہیں۔
اس کہانی کے مطابق جب دوڑ شروع ہوتی ہے تو خرگوش آنا فاناً چھلانگیں بھرتا ہوا آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہےلیکن کچھوا اپنی فطری چال کے مطابق دھیرے دھیرے چلتا ہے اور پیچھے رہ جاتا یے۔ جب خرگوش میاں دیکھتے ہیں کہ کچھوا کہیں نظر نہیں آ رہا تو وہ ایک درخت کے سائےمیں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے لیٹتے ہیں تو وہ سوجاتے ہیں جبکہ کچھوا بغیر سستائے آہستہ آہستہ چلتا رہتا ہے اور اپنی منزل پر خرگوش سے پہلے پہنچ جاتا ہے۔
صدرڈونلڈٹرمپ خرگوش کی رفتار سےچھلانگیں مار رہےہیں اوراپنے ملکی وعالمی منصوبوں پر عمل کرنے میں بہت جلدی دکھا رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو عہدہ سنبھالے ابھی ایک ماہ سے بھی کم وقت ہوا ہے مگر انہوں نے بیک وقت اندرون اور بیرون ملک کئی محاذ کھولے ہیں جس میں کینیڈا کو امریکی ریاست کے طور پر شامل کرنا، روس، چین، یورپی ممالک حتی کہ برطانیہ وغیرہ سے درآمدات پر ٹیرف کی شرح میں غیر معمولی اضافے کا اعلان کرنا شامل ہے۔ اس کے جواب میں ان ممالک نے فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بھی نہ صرف اسی حساب سے اپنی برآمدات کی قیمتوں میں اضافہ کریں گے بلکہ وہ امریکی درآمدات پر بھی ٹیکس زیادہ لگائیں گے۔ اس سے ایک تو دنیا بھر میں مہنگائی کا سیلاب آئے گا اور دوسرا ڈونلڈ ٹرمپ کی ستائش دنیا کی نظروں میں کم ہو جائے گی۔
اس پر مستزاد امریکی صدر نے اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ مل کر غزہ پر قبضے کے بارے جو پریس کانفرنس کی ہے اسے پوری دنیا نے نہ صرف یکسر مسترد کر دیا ہے بلکہ اسے احمقانہ بھی قرار دیا ہے۔ ٹرمپ نے دعوی کیا کہ فلسطینیوں کو غزہ کے علاقوں سے نکال کر مصر اور اردن وغیرہ میں آباد کیا جائے گا۔ اس پلان کی مخالفت کا اعلان ٹرمپ کے اعلان کے فوراً بعد خود حماس، مصر اور اردن نے کیا، اور ساتھ میں چین، روس، آسٹریلیا، سعودی عرب اور دیگر ممالک نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کو مسترد کر دیا بلکہ الٹا فلسطینی ریاست کی حمایت کا اعلان کیا۔
کہتے ہیں کہ آنے والے واقعات اپنی پرچھائیاں پہلے چھوڑتے ہی جو کہ ایک زمینی حقیقت ہے۔ کچھوے اور خرگوش کی کہانی میں بھی یہی کچھ کہا گیا ہے کہ آہستگی، تسلسل اور مستقل مزاجی ہی کامیابی کی ضمانت ہیں کہ صدر موصوف آگے دوڑ کر پیچھا چوڑ کرتے رہیں گے تو خود امریکی اور عالمی معاملات سلجھنے کی بجائے الجھتے چلے جائیں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ لاابالی طبیعت کے مالک ہیں اور کافی جذباتی بھی ہیں۔ ان کی شخصیت کی یہ دونوں صفات سیاسی بصیرت (سٹیٹس مین شپ) میں نہیں آتی ہیں۔ لہذا لگتا نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسی تیزی کے انداز میں اور بےصبری سے غیردانشمندانہ فیصلے کرتے رہے تو وہ امریکہ کے کامیاب ترین صدر ثابت ہوں گے۔
ڈونلڈ میاں کو چاہیے کہ وہ بلند مرتبت کامیابیاں لینا چاہتے ہیں یا کوئی نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں تو خرگوش بننے کی بجائے کچھوے کی چال چلیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ خرگوش کی ہیں کہ

پڑھیں:

دنیا پر ٹرمپ کا قہر

جب امریکا کسی ملک کو دھمکیاں دے رہا ہے، کسی پر پابندیاں لگا رہا ہے، کسی پر قبضہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور اقوام متحدہ کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے گویا خود کو پوری دنیا کا مالک اور ٹھیکیدار سمجھ رہا ہے پھر اپنی ہر زیادتی کو اپنا استحقاق بھی سمجھ رہا ہے تو ایسے میں دنیا میں افراتفری، انتشار اور سیاسی و معاشی عدم استحکام کا پیدا ہونا یقینی ہے پھر جب سب کچھ امریکا کو ہی کرنا ہے تو اقوام متحدہ کے وجود کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟

امریکا تو اپنی من مانی کر ہی رہا ہے، اس کا بغل بچہ اسرائیل اس سے بھی دو ہاتھ آگے جا رہا ہے، اس نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے مگر مجال ہے کہ کوئی اسے روک یا ٹوک سکے۔ اقوام متحدہ میں حالانکہ اسرائیل کے خلاف اسے جنگی جنون سے باز رکھنے کے لیے کئی قراردادیں پیش ہو چکی ہیں مگر اس کے آقا امریکا نے کسی کو پاس نہ ہونے دیا اور اگر کوئی پاس بھی ہو گئی تو اس پر عمل نہ ہونے دیا۔

چنانچہ غزہ کیا پورے فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے دنیا تماشا دیکھ رہی ہے اور مسلمان ممالک بھی خاموش ہیں کیونکہ وہ اپنے مفادات کو دیکھ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں اقوام متحدہ کی بے بسی پر ترس آ رہا ہے پہلے لوگ او آئی سی کو بے حس گھوڑا کہتے تھے مگر اب تو اقوام متحدہ کا اس سے بھی برا حال ہے اگر اقوام متحدہ امریکا کے آگے بے بس ہے تو پھر اسے بند ہی کر دینا چاہیے اور امریکا بہادر کو من مانی کرنے دی جائے۔

اس سے کم سے کم یہ تو ہوگا کہ تمام ہی ممالک امریکا سے کیسے نمٹنا ہے اس پر سوچنا شروع کریں گے ابھی تو دنیا اپنے معاملات کے لیے یو این او کی جانب دیکھتی ہے مگر ان کے جائز مطالبات بھی پورے نہیں ہو پاتے اس لیے کہ تمام معاملات کو UNOخود نہیں امریکی مرضی سے نمٹاتی ہے۔

افسوس اس امر پر ہے کہ امریکا اپنے مفادات کا غلام ہے وہ صرف اپنے ملک اور قوم کی بھلائی کو دیکھتا ہے اسے کسی ملک کی پریشانی یا مشکل کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اس نے روس کو زیر کرنے کے لیے پاکستان کے دائیں بازو کے حکمرانوں، مذہبی طبقے اور افغان مجاہدین کو خوب خوب استعمال کیا۔ پھر پاکستان نے امریکی گلوبل وار آن ٹیررزم میں ہزاروں جانیں گنوائیں اور کروڑوں ڈالر کا نقصان اٹھایا مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب اس کا کام نکل گیا تو اس نے پاکستان کو اپنے حلیفوں کی فہرست سے نکال کر چین سے تعلقات توڑنے پر زور دینے لگا۔

امریکی حکمرانوں کو اگر اپنے ہم وطنوں کے علاوہ کسی کی پرواہ ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ امریکی ویٹو پاور اسرائیل کے کھل کر کام آ رہی ہے۔ وہ امریکی سپورٹ کے بل بوتے پر عربوں کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے اور کسی بھی عرب ملک کو نشانہ بنانے سے ذرا نہیں ہچکچا رہا ہے۔ شام اور عراق کے بعد اب وہ ایران پر حملے کی تیاری کر رہا ہے اور کسی بھی وقت وہ یہ حرکت کر سکتا ہے اور اگر ایران نے پلٹ کر وار کیا تو پھر امریکا اسے معاف نہیں کرے گا اور اسے اپنے مہلک ترین میزائلوں سے نشانہ بنا دے گا۔

اب بتائیے تقریباً دو سال سے اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے مگر امریکا سمیت تمام یورپی ممالک تماشا دیکھ رہے ہیں انھوں نے اسرائیل کو اس کی جارحیت روکنے کے لیے آج تک کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ امریکا نے اسرائیل کے لیے خطرہ بننے والے کتنے ہی ممالک کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے، اگر اس کے مفادات اور برتری قائم رکھنے کے راستے میں روس اور چین آڑے نہ آتے تو وہ پوری دنیا پر اپنا پرچم لہرا دیتا۔

دراصل امریکا کی برتری اس کی فوجی طاقت ہے۔ معیشت تو اس کی بھی ڈانواڈول ہے۔ وہ دنیا کو صرف اپنی فوجی طاقت سے ڈراتا رہتا ہے جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو اس سے بڑا اس کے لیے اور کیا لمحہ فکریہ ہوگا کہ وہ خود 36 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ امریکی معیشت روز بہ روز تنزلی کی جانب گامزن ہے۔

صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھال کر امریکی معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے ہی مختلف اقدام کیے ہیں جن میں مختلف عوامل شامل ہیں۔ امریکی ایڈ ختم کرنے سے لے کر ٹیرف کا بڑھایا جانا انھی اقدام میں شامل ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے لگائے گئے ٹیرف کو امریکا کے لیے مفید قرار دے دیتے ہوئے تین روز قبل اسے نافذ کرنے کا اعلان کیا کیا تو اس انتہائی اقدام سے پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی تھی۔

اسٹاک ایکسچینجوں میں لوگوں کے اربوں ڈالر ڈوب گئے ، وال اسٹریٹ میں کہرام بپا ہوا۔ جب خود امریکی عوام ٹرمپ کے اس اقدام سے بے زارنظر آتے ہیں تو ٹرمپ نے یو ٹرن لیتے ہوئے ٹیرف کے نافذ کو تین ماہ کے لیے معطل کرنے کا اعلان کیا ،البتہ چین کے خلاف 125 فی صد ٹیرف برقرار رکھنے کا اعلان بھی کیا۔

ٹرمپ کے اس غیر متوقع اقدام سے خود پاکستان کے بری طرح متاثر ہونے کا امکانات بڑھ گئے ہیں، کیونکہ اس وقت پاکستان اپنے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے اور اس میں اسے کئی کامیابیاں بھی ملی ہیں جس سے ملک میں معاشی استحکام پیدا ہونے کی امید ہو چلی تھی مگر ٹرمپ نے پاکستانی برآمدات پر29 فی صد بھاری محصول عائد کرکے پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔

دراصل امریکا پاکستانی مصنوعات کی ایک فائدہ مند منڈی ہے۔ پاکستان اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے امریکی انتظامیہ سے مذاکرات کرنے کا آغاز کرنے جارہا ہے مگر یہاں تو دنیا کا ہر ملک ہی امریکی حکومت سے اس کے ٹیرف کو کم کرنے پر مذاکرات کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

کیا ٹرمپ اپنے اعلان کردہ محصولات سے مستقل طور پر پیچھے ہٹ جائیں گے ؟ان کی سخت طبیعت کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا نہیں ہے مگر انھیں پیچھے ہٹنا پڑے گا ورنہ خود امریکی معیشت پہلے سے زیادہ تنزلی کا شکار ہو سکتی ہے۔

اس وقت دنیا کی تجارت ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تحت انجام پا رہی ہے اس کے اصول بنانے میں بھی امریکی ہاتھ تھا اب خود امریکا اپنے مفاد کی خاطر عالمی تجارت کو ایسا نقصان پہنچانے جا رہا ہے جس کا نقصان اسے خود بھی بھگتنا پڑے گا اور ٹرمپ کو عوامی مقبولیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

انھیں چاہیے کہ امریکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کچھ دوسرے اقدام اٹھائیں۔ ٹیرف کے نفاذ کو اگر مناسب سطح پر بھی لے آئیں جس سے عالمی تجارت رواں دواں رہے اور چھوٹے ممالک کو نقصان نہ ہو تو اس سے نہ صرف امریکی امیج برقرار رہے گا بلکہ شاید اگلی بار انتخابات میں کامیابی ٹرمپ کا پھر مقدر بن جائے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ ٹیرف پر پریشان ضرور مگر جوابی اقدام کا ارادہ نہیں، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
  • ایران امریکہ مذاکرات
  • پاکستانی ساحل پر نایاب کچھوے زہریلے صنعتی فضلے کا شکار، ذمہ دار کمپنیوں پر جرمانہ
  • ایران کے ساتھ بات چیت مثبت پیش رفت ہے، ڈونالڈ ٹرمپ
  • دنیا پر ٹرمپ کا قہر
  • تجارتی جنگ اور ہم
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا دل اور دماغ کے ٹیسٹ کرانے کا انکشاف
  • کیا ڈونلڈ ٹرمپ کا دماغ ٹھکانے پہ ہے؟ رپورٹ کل آجائے گی
  • ڈونلڈ ٹرمپ کی دل اور دماغ کے ٹیسٹ کرانے کا انکشاف
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بالآخر چین کے ساتھ معاہدے پر آمادہ