سپریم جوڈیشل کمیشن میں ججوں کیخلاف شکایات کا جائزہ، ضابطہ اخلاق میں ترمیم پر غور
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے گزشتہ 2 اجلاسوں کے دوران آرٹیکل 209 کے تحت آئینی عہدیداروں (ججز) کے خلاف 46 شکایات کا جائزہ لیا، ان میں سے 40 کو نمٹا دیا، 5 شکایات پر تبصرے طلب کیے اور ایک کیس میں مزید معلومات طلب کیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل اپنے ضابطہ اخلاق اور انکوائری کے طریقہ کار 2005 میں ترامیم پر بھی سرگرمی سے غور کر رہی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی مدت ملازمت کے پہلے 100 دن مکمل ہونے پر سپریم کورٹ آفس کی جانب سے یہ معلومات فراہم کی گئیں، انہوں نے 26 اکتوبر 2024 کو 30 ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے عدالتی احتساب کے لیے اپنی آپریشنل صلاحیت کو بڑھانے کے لیے علیحدہ سیکریٹریٹ بھی قائم کیا، سپریم کورٹ کے دفتر کے مطابق ایس جے سی کے مستقل سیکریٹری کی تقرری کا عمل شروع کیا گیا تھا، بہتر نگرانی اور مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے باقاعدگی سے اجلاسوں کو ادارہ جاتی شکل دی گئی۔
پہلے 100 دنوں کے دوران، عدلیہ نے انصاف کے شعبے میں کارکردگی، شفافیت، احتساب اور رسائی کو بڑھانے کے لیے اہم اصلاحات بھی متعارف کروائیں، ان کوششوں میں کیس مینجمنٹ کو بہتر بنانے، مدعی اور وکلا کو سہولت فراہم کرنے اور قانونی معاملات کے بروقت حل کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی۔
آئینی عہدیداروں کے خلاف شکایات کا فوری ازالہ، احتساب کے طریقہ کار کے موثر کام کو یقینی بنانا اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد برقرار رکھنا ان اصلاحات کے اہم پہلو تھے۔
سپریم کورٹ آفس نے وضاحت کی کہ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان (ایل جے سی پی) نے ریٹائرڈ ججوں کو تبدیل کرکے اور اسٹیک ہولڈرز کی وسیع تر شرکت کو یقینی بنا کر عدالتی کارکردگی اور قانونی نمائندگی کو مضبوط بنانے کے لیے بڑی اصلاحات متعارف کروائی ہیں۔
نئے شامل ہونے والے بار نمائندگان میں مخدوم علی خان (کراچی)، خواجہ حارث (پنجاب)، کامران مرتضیٰ (بلوچستان)، فضل الحق (پشاور) اور منیر پراچہ (اسلام آباد) شامل ہیں، جب کہ پاکستان کی تمام بار کونسلز کی جانب سے مشترکہ طور پر نامزد ایک رکن شامل ہے۔
کمیشن نے جیل اصلاحات کا بھی آغاز کیا، جس میں باقاعدگی سے جیلوں کے دورے اور دور دراز اضلاع تک رسائی شامل ہے، تاکہ حالات کا جائزہ لیا جاسکے اور منصفانہ قانونی نگرانی کو یقینی بنایا جاسکے۔
فروری کے آخری ہفتے میں متوقع نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی (این جے پی ایم سی) کے اجلاس کے ایجنڈے کی تیاری تیزی سے جاری ہے، اسی طرح فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی (ایف جے اے) نے مسلسل قانونی تعلیم اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیے ایک اقدام شروع کیا ہے۔
پیشہ ورانہ ترقی
ضلعی عدلیہ کی استعداد کار کو مضبوط بنانے کے لیے غیر ملکی تربیتی پروگرام متعارف کرائے گئے ہیں، جن سے ضلعی ججوں کو بین الاقوامی بہترین طریقوں سے واقفیت حاصل کرنے میں مدد ملے گی، کمیشن میں نئے سیکریٹری کی تقرری سے انتظامی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا۔
بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کے لیے مخصوص واٹس ایپ کمیونٹی قائم کی گئی، جو ملک بھر میں قانونی ماہرین کو آن لائن کورسز اور تعلیمی وسائل تک مفت رسائی فراہم کرتی ہے۔
یہ اقدام کیمپس میں تربیت کی تکمیل کرتا ہے، خاص طور پر دور دراز علاقوں کے وکلا کو فائدہ پہنچاتا ہے، جن کے پاس پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع تک رسائی نہیں ہوسکتی، یہ اقدامات عدالتی اصلاحات میں بار کی فعال شرکت کو یقینی بنا کر قانونی برادری کو مضبوط بنانے کے لیے اٹھائے گئے۔
سپریم کورٹ کے دفتر نے کہا کہ اس کے علاوہ، تصور سے لے کر اصلاحات کے نفاذ تک بار سے مشاورت کی جا رہی ہے، جلد سماعت کے بارے میں پالیسی کو بار کی مشاورت سے حتمی شکل دی گئی اور اسے عملی جامہ پہنایا گیا۔
مزید برآں، قانونی پیشہ ور افراد کو جدید قانونی علم، قانونی چارہ جوئی کی تکنیک اور بہترین اخلاقی طریقوں سے لیس کرنے کے لیے تربیت اور صلاحیت سازی کے پروگرام متعارف کرائے گئے ہیں۔
ایک زیادہ جامع قانونی فریم ورک کے لیے، چیف جسٹس نے قانونی برادری، ترقیاتی ماہرین اور ماہرین تعلیم کے ساتھ رابطہ کیا، اس کے علاوہ عدالتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے بصیرت اور سفارشات جمع کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی آفیشل ویب سائٹ پر ’آن لائن فیڈ بیک فارم – اسٹیک ہولڈرز انگیجمنٹ فار جوڈیشل ریفارم‘ بھی دستیاب تھا۔
اقتصادی نظم و نسق میں ٹیکس سے متعلق قانونی چارہ جوئی کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے عدلیہ نے ایسے معاملوں کے حل میں تیزی لانے اور بیک لاگ کو کم کرنے کے لیے درجہ بندی کے اقدامات متعارف کرائے۔
آٹومیشن
یہ مباحثے ایسی پالیسیوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو منظم چیلنجز سے نمٹتی ہیں، مختصر، وسط اور طویل المدتی اہداف کے ذریعے قانونی عمل کو ہموار کرتی ہیں، اس سمت میں ایک بڑا قدم ای حلف نامہ اور فوری تصدیق شدہ کاپیاں متعارف کروانا تھا۔
گزشتہ 100 دن میں سپریم کورٹ نے 8174 معاملات کا فیصلہ کیا اور 4963 نئے کیسز موصول ہوئے جو ورک فلو میں مثبت تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں، اس سے حالیہ اصلاحات کے اثرات پر روشنی پڑتی ہے، جن میں اسٹرکچرڈ رول میکنگ، آٹومیشن اور ہموار طریقہ کار شامل ہیں، جو زیادہ مؤثر اور جوابدہ عدالتی نظام میں کردار ادا کرتے ہیں۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کی افادیت کو بڑھانے کے لیے بنیادی توجہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے ذریعے جامع قواعد وضع کرنے پر مرکوز رہی ، قواعد شفافیت اور کارکردگی کو یقینی بنانے کے لیے واضح میرٹ پر مبنی معیار قائم کرتے ہیں، تشخیص کو ہموار کرتے ہیں، اور آٹومیشن کو ضم کرتے ہیں۔
پانچوں ہائی کورٹس میں 36 ایڈیشنل ججز کی تقرری اور سپریم کورٹ آف پاکستان اور سندھ ہائی کورٹ میں آئینی بینچوں کی تشکیل کی گئی۔
آئینی مینڈیٹ کی پاسداری کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں منصفانہ اور مساوی صوبائی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے، جب کہ سپریم کورٹ میں میرٹ کی بنیاد پر تقرریوں کو تقویت دی گئی اور ہر ہائی کورٹ کے 5 سینئر ترین ججز کو ترقی دینے پر غور کیا گیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کو مضبوط بنانے کے لیے سپریم جوڈیشل سپریم کورٹ آف پاکستان ہائی کورٹ کرتے ہیں کو یقینی کی گئی
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کا تبادلہ غیر قانونی: جسٹس بابرستار کا چیف جسٹس کوخط
اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کے ٹرانسفر تین ججوں سے متعلق اقدامات کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ سینیارٹی لسٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے نوٹیفکیشن واپس لیے جائیں۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق جسٹس بابر ستار نے 3 ججوں کے لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہونے کے معاملے پر چیف جسٹس عامر فاروق کو 6 صفحات پر مشتمل خط لکھ کر ٹرانسفر ججوں کی سینیارٹی لسٹ جاری کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ سینیارٹی لسٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھائے بغیر ٹرانسفر ججوں کو کمیٹی میں رکھنا غیر قانونی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ ، اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر کے بعد تینوں ججوں نے حلف نہیں اٹھایا جو ضروری تھا، ٹرانسفر نوٹیفکیشن میں کہیں نہیں لکھا ٹرانسفر عارضی ہے یا مستقل، یہ عمل کسی بھی طریقے سے قانونی نہیں ہے۔