Jasarat News:
2025-02-08@06:48:33 GMT

ٹرمپ نے ایران پر مزید پابندیاں عاید کردیں

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

واشنگٹن/تہران /تل ابیب /غزہ/بیجنگ /ریاض (مانیٹرنگ ڈیسک/اے پی پی) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر مزید پابندیاں عاید کر دیں۔ عرب میڈیا کے مطابق امریکی صدر کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد ایران کے خلاف یہ پہلی پابندیاں ہیں جس میں امریکی محکمہ خزانہ نے ایران کے تیل کے نیٹ ورک کو نشانہ بنایا ہے۔عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ ایران میں پہلے سے پابندیوں کا شکار کمپنیوں سے منسلک افراد، جہازوں اور فرموں پر پابندیاں لگائی ہیں۔ امریکی وزیر خزانہ نے الزام عاید کیا ہے کہ ایران تیل کی آمدنی کو جوہری پروگرام، بیلسٹک میزائل اور ڈرونز پر لگا رہا ہے، ایران اپنی تیل کی آمدنی کو دہشت گرد گروپوں کی مدد کے لیے بھی استعمال کر رہا ہے لہٰذا غیر قانونی سرگرمیوں کی فنڈنگ روکنے کے لیے مزید سخت اقدامات کریں گے۔عرب میڈیا کا بتانا ہے کہ ایران نے امریکی پابندیوں کو بحری قزاقی قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔امریکی صدر نے عالمی فوجداری عدالت کے حکام پر تجارتی اور سفری پابندیاں عاید کردیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تجارتی اور سفری پابندیاں عاید کرنے پر عالمی فوجداری عدالت کا ردعمل سامنے آگیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی فوجداری عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی پابندیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ عالمی فوجداری عدالت نے اپنے رکن ممالک سے متحد ہونے کی اپیل کرتے ہوئے ہر حال میں انصاف کی فراہمی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ انصاف کی فراہمی کی پاداش میں مشکلات کا سامنا کرنے والے اپنے عملے کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔عالمی فوجداری عدالت کے بیان میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ امریکا کی جانب سے ایران پر عاید پابندیوں پر ردعمل دیتے ہوئے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے امریکا کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کردیا۔ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر پابندیاں لگانے کے بعد ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے امریکا کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات سمجھداری اور قابل احترام نہیں ہوں گے‘ مذاکرات سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے، ایران نے ماضی میں بہت سی رعایتیں دیں مگر امریکا نے ان معاہدوں کو توڑ دیا، ایسی حکومت کے ساتھ بات چیت نہیں ہونی چاہیے۔ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اگر امریکا نے ہماری سلامتی کو خطرے میں ڈالا تو ہم ان کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈالیں گے۔ ایران نے اوپیک سے امریکا کو رکن ممالک پر دباؤ ڈالنے سے روکنے کا مطالبہ کر دیا۔عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے گزشتہ روز دارالحکومت تہران میں اوپیک کے سیکرٹری جنرل ہیثم الغیث کے ساتھ ملاقات کی اور انہوں نے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) کے اراکین پر زور دیا کہ وہ متحد ہو جائیں اور امریکا کو رکن ممالک میں سے کسی پر دباؤ ڈالنے سے باز رکھا جائے‘اگر اوپیک کے اراکین متحد اور مستقل طور پر کام کرتے ہیں تو امریکا ان میں سے کسی ایک پر بھی پابندی نہیں لگا سکے گا اور نہ ہی دباؤ میں ڈال سکے گا۔ غزہ میں سیز فائر کے باوجود اسرائیلی جارحیت نہ تھمی، 24 گھنٹے میں مزید2 فلسطینی شہید اور 4 زخمی ہوگئے۔ملبے سے مزید28 لاشیں نکال کر اسپتال منتقل کی گئیں، شہید فلسطینیوں کی تعداد47 ہزار583 تک پہنچ گئی، غزہ میں طوفان نے فلسطینیوں کے مسائل میں اضافہ کر دیا، سیوریج اور بارش کا پانی غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کے کیمپوں میں داخل ہوگیا۔جبالیہ میں غذائی قلت اور پانی کی شدید کمی ہوگئی‘ 30 پانی کے کنوؤں میں سے 25 اسرائیل نے تباہ کر دیے، بے گھر فلسطینی ملبہ ہٹا کر نئے کنویں کھودنے پر مجبور ہوگئے۔اقوام متحدہ نے عالمی قوتوں سے غزہ میں امداد کی سپلائی بڑھانے کا مطالبہ کردیا۔ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے نائب سربراہ مروان عیسیٰ ابو البرا کی شہادت کے ایک سال بعد تدفین کردی گئی۔عرب میڈیا کے مطابق مروان عیسیٰ 10 مارچ 2024ء کو نصیرات کیمپ پر اسرائیلی بمباری میں شہید ہوگئے تھے، ان کی تدفین جمعے کو غزہ کے بریج کیمپ میں کی گئی۔مروان عیسیٰ کی نماز جنازہ اور تدفین میں فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے جنگجوؤں اور سیکڑوں فلسطینیوں نے شرکت کی۔ مروان عیسیٰ ابو البرا القسام بریگیڈ کے شہید سربراہ محمد الضیف کے نائب تھے۔علاوہ ازیں اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود باراک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ کی پٹی میں بسنے والے تقریباً 20 لاکھ فلسطینیوں کو بیرون ملک آباد کرنے کے منصوبے کو خیالی قرار دیا ہے۔ العربیہ اردو کے مطابق انہوں نے گزشتہ روز اسرائیل کے آرمی رڈیو کو بتایا کہ یہ کسی ایسے منصوبے کی طرح نہیں لگتا جس پر کسی نے سنجیدگی سے غور کیا ہو۔ چین نے کہا ہے کہ غزہ فلسطینیوں کا ہے، یہ جنگل کے قانون کا نشانہ نہیں بنے گا ۔ یہ بات چین کی وزارت خارجہ نے گزشتہ روز غزہ کی پٹی کی آبادی کی جبری ہجرت سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی۔ العربیہ اردو کے مطابق وزارت خارجہ نے بیان میں کہا ہے کہ چین فلسطینی عوام کے قانونی قومی حقوق کی بھرپور حمایت کرتا ہے ۔ امریکا میں سعودی عرب کے سابق سفیر پرنس ترکی الفیصل نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ پر کنٹرول اور فلسطینیوں کو نکالنے کا منصوبہ نسل کشی کے مترادف ہو گا جو نئے تنازعات اور خونریزی کو جنم دے گا۔ عرب نیوز کے مطابق پرنس ترکی الفیصل نے کہا کہ وہ عرب دنیا، مسلم ممالک، یورپ اور دوسرے ممالک سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھائیں تاکہ یہ واضح ہو سکے دنیا پاگل پن پر مبنی نسل کشی کے منصوبے کی مخالفت کرتی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عالمی فوجداری عدالت پابندیاں عاید کر مروان عیسی عرب میڈیا کے مطابق ایران پر کے ساتھ ٹرمپ کی

پڑھیں:

عالمی برادری متحد ہو کر ٹرمپ کا راستہ روکے!

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس میں غزہ پر امریکی قبضہ کے جس شرمناک منصوبے کا اعلان کیا تھا، اپنے سالانہ ناشتے کی تقریب سے خطاب کے دوران اسے ایک بار پھر دہرایا ہے اور کہا ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد غزہ کی پٹی اسرائیل کے ذریعے امریکا کے حوالے کر دی جائے گی امریکا احتیاط سے غزہ کی تعمیر شروع کرے گا اور دنیا کے بہترین ترقیاتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ تعمیر نو کے بعد غزہ اپنی نوعیت کی سب سے عظیم اور سب سے شاندار پیش رفت میں سے ایک ہو گی، اس کام کے لیے امریکا کو کسی فوجی کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اس سے خطے میں استحکام آئے گا۔ امریکی صدر کے اس منصوبے پر اسرائیل کس طرح بغلیں بجا رہا ہے اور اس ضمن میں امریکا اور اسرائیل کے مستقبل کے عزائم کیا ہیں اس کا اندازہ اسرائیل کے وزیر دفاع کے فوج کو تیار رہنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے دیے گئے بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ فوج غزہ کے رہائشیوں کو رضا کارانہ طور پر علاقہ چھوڑنے کی منصوبہ بندی کے لیے تیار ہے، میں صدر ٹرمپ کے دلیرانہ منصوبے کا خیر مقدم کرتا ہوں، غزہ کے رہائشیوں کو آزادی سے ہجرت کرنے کی اجازت ہونی چاہیے جیسا کہ دنیا بھر میں قوانین ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع سے سوال کیا گیا کہ فلسطینیوں کو کون لے گا؟ اس سوال پر ان کا جواب تھا کہ وہ ممالک جنہوں نے غزہ میں اسرائیل کے فوجی آپریشن کی مخالفت کی جیسے اسپین، آئر لینڈ، ناروے اور دیگر ممالک جنہوں نے اسرائیل پر فوجی آپریشن سے متعلق جھوٹے الزمات عائد کیے۔ اب انہیں قانونی طور پر غزہ کے رہائشیوں کو اپنے ملک میں داخلے کی اجازت دینی چاہیے، ہم غزہ کے شہریوں کو بھیجنے کے لیے زمینی راستے سمیت جہاز اور سمندری راستے سے خصوصی انتظامات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ امریکا کے دورے پر آئے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ہمراہ وائٹ ہائوس میں پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب پہلی بار غزہ پر امریکی قبضے کے منصوبے کی نقاب کشائی کی تھی تو محسوس ہوتا تھا کہ یہ دیوانے کی بڑ ہے مگر اب اپنے سالانہ ناشتہ کے موقع پر ان کی طرف سے اس پر اصرار اور اس پر عملی پیش رفت کے لیے ممکنہ اقدامات کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اعلان پر عمل درآمد میں کس قدر سنجیدہ ہیں اور جلدی میں ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر اسرائیلی وزیر دفاع نے منصوبے کی جن تفصیلات سے پردہ اٹھایا اور یہ تک بتا دیا ہے کہ وہ فلسطینی باشندوں کو غزہ سے دیس نکالا دے کر کیسے کیسے اور کہاں کہاں بھیجنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں اس کے بعد عالمی برادری پر لازم ہو گیا ہے کہ وہ محض زبانی اس ظالمانہ منصوبے کی مخالفت تک محدود نہ رہے بلکہ عملاً اس کو روکنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جانا لازم ہے کیونکہ موجودہ امریکی صدر سے کچھ بعید نہیں، امریکا کے سابق صدور، جن کی شخصیت میں اس طرح کی نامعقولیت کی شہرت نہیں تھی، ان کے ادوار میں بھی امریکا نے ہمیشہ طاقت کے نشہ میں دھت ہو کر جارحانہ اور ظالمانہ اقدامات سے گریز نہیں کیا۔ ماضی قریب میں نائن الیون کا جواز بنا کر امریکا کی افغانستان پر چڑھائی اور زہریلی گیسوں کی تیاری کا الزام عائد کر کے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے جیسے کام امریکی جارحانہ ذہنیت کی نادر مثالیں ہیں تاہم افغانستان اور عراق پر ان حملوں کے لیے اس وقت کی امریکی قیادت نے جھوٹے سچے بہانے تراش کر دنیا کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی اور یہی وجہ تھی کہ بہت سے ممالک نے ان حملوں میں امریکا کا ساتھ دیا تھا مگر صدر ٹرمپ کے غزہ پر قبضہ کے منصوبے کو تاحال اسرائیل کے علاوہ کسی ایک بھی ملک کی حمایت حاصل نہیں ہو سکی حالانکہ صدر ٹرمپ نے اپنی ابتدائی پریس کانفرنس کے دوران اپنے منصوبے پر مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک کو اعتماد میں لینے اور ان کا تعاون حاصل ہونے کا دعویٰ کیا تھا مگر اب تک مسلم دنیا اور باقی عالمی برادری کا جو رد عمل سامنے آیا ہے، سب نے غزہ پر امریکی قبضے کی تجویز کو مضحکہ خیز، ناقابل عمل اور ناقابل قبول ہی قرار دیا ہے۔ اسی طرح غیر مسلم دنیا میں یورپ اور ہر طرح کے حالات میں امریکا کے ساتھ کھڑے ہونے والے برطانیہ جیسے ملک سمیت پوری عالمی برادری نے اس منصوبے کو غیر معقول قرار دے دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکا اپنی طاقت کے بل پر دھونس اور دھمکی یا لالچ وغیرہ کے حربوں کے ذریعے کل کچھ ممالک کو اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب ہو جائے تاہم فی الوقت تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی واضح الفاظ میں غزہ سے فلسطینی باشندوں کے انخلا اور امریکا کے وہاں پر جبری تسلط کے ٹرمپ منصوبے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کے آبائی وطن غزہ سے جبری طور پر بے دخل کرنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، امریکی صدر کا نام لیے بغیر انتونیو گوتریس نے کہا کہ ایسے بیانات سے حالات مزید خراب اور پیچیدگی کی طرف جا سکتے ہیں، ہم فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں، غزہ کے مسئلے کا پر امن اور مستقل حل تلاش کیا جائے اور اس کے لیے سب کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا ہو گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ مسئلے کا حل تلاش کرنے کے نام پر ہمیں اسے مزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم بین الاقوامی قانون کی بنیادوں پر عمل پیرا رہیں اور نسلی صفائی کی کسی بھی صورت سے بچیں۔عالمی برادری کے ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر امریکی قبضہ کے منصوبے کے استرداد اور اس کی مخالفت میں یک آواز ہونا فلسطینی عوام اور امت مسلمہ کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں، اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ امریکا کو اپنے اس غاصبانہ اور جابرانہ منصوبے کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے کے لیے دھونس، دھمکی اور لالچ وغیرہ کے اقدامات کا موقع دیے بغیر امت مسلمہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے اس پیغام پر فوری توجہ دے کہ:۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

مسلم ممالک ٹرمپ کے منصوبے کو خاک میں ملانے کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں فوری طور پر عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس بلائے جائیں اور ماضی کے’’نشستند گفتند، برخاستند‘‘ کے تجربات کو دہرانے کے بجائے ٹھوس حکمت عملی وضع کی جائے جس کے ذریعے فلسطینی بھائیوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔ مسلم ممالک کے مشترکہ موقف اور متحدہ اقدام کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی جانب سے ٹرمپ منصوبے کی مخالفت کو بھی منظم کرنے کا اہتمام کیا جائے اور پھر اقوام متحدہ کی جنرل کونسل اور سلامتی کونسل کے ارکان سے موثر رابطوں کے بعد ان کے اجلاس بلائے جائیں اور رائے عامہ کی باقاعدہ تشکیل کے ذریعے روس، چین، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، کینیڈا وغیرہ اور دیگر انصاف پسند ممالک کو ٹرمپ کے اس منصوبے کی مزاحمت کے لیے کھڑا کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی برادری متحد ہو کر ٹرمپ کا راستہ روکے!
  • ٹرمپ نے ایران اور عالمی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کر دیں
  • ٹرمپ نے ایران اور عالمی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کردیں
  • نیتن یاہو کےوارنٹ گرفتاری کیوں نکالے؛ ٹرمپ نے عالمی فوجداری عدالت پر پابندی عائد کردی
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر مزید پابندیاں لگادیں
  • جوہری پروگرام کے فروغ کا الزام، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر نئی پابندیاں لگادیں
  • امریکی صدر ٹرمپ نے عالمی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کردیں
  • ٹرمپ کا بین الاقوامی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا عالمی فوجداری عدالت پر پابندیاں لگانےکا فیصلہ