میں کافی دنوں سے آپ کو خط لکھنے کا سوچ رہا تھا مگر آپ کا کوئی خط ہی نہیں آ رہا تھا جس کے جواب میں آپ کو میں خط لکھتا ، میری ”ٹ±وئٹ“ بھی میرا خط ہی ہوتا ہے مگر جو تفصیلی باتیں آمنے سامنے بیٹھ کر یا بذریعہ خط کی جاسکتی ہیں وہ بذریعہ ٹوئٹ نہیں کی جا سکتیں ، جب ٹوئٹ اور موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا مجھے بہت خط آتے تھے ، میں یہ سارے خط ردی میں بیچ کر اس سے حاصل ہونے والی کمائی بھی شوکت خانم ہسپتال کے لئے وقف کر دیتا تھا ، آپ نے شاید کبھی کسی کو خط نہیں لکھا ہوگا ، میں بھی آپ کو خط نہیں لکھنا چاہتا تھا مگر میں نے سوچا آپ تو مجھے جیل میں ڈال کر بھول ہی گئے ہیں چنانچہ ایک آدھ خط لکھ کر مجھے آپ کو یاد کرانا چاہئے میں ابھی تک جیل میں ہوں ، سب سے پہلے میں آپ کا اس بات پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں آپ نے مجھے جیل میں ا±س طرح نہیں رکھا ہوا جس طرح جنرل ضیاالناحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو رکھا ہوا تھا ، مجھے یہاں اپنی مرضی کے کھانے وغیرہ کھانے کی مکمل سہولت حاصل ہے ، حتی کہ ہفتے میں دو دن دیسی مرغا بھی مل جاتا ہے جو میری مرغوب غذا ہے ، البتہ دیسی م±رغا میرے پیٹ میں جا کر جو ” بانگیں“ دیتاہے اس کے توڑ کی کوئی سہولت مجھے میسر نہیں ہے ، ا±مید ہے آپ میرا اشارہ سمجھ گئے ہوں گے ، اگر اس طرح کی کوئی سہولت مجھے مل جائے میں اور مراد سعید دونوں آپ کے ممنون ہوں گے ، میں نے جب آپ کو خط لکھنے کے لئے جیل انتظامیہ سے کاغذ اور قلم مانگا وہ سمجھے میں نے عائلہ ملک کو خط لکھنا ہے کہ”بدتمیز تم ایک بار بھی جیل میں مجھ سے ملنے نہیں آئی“’ ، جیل انتظامیہ کو جب پتہ چلا میں نے یہ خط آپ کو لکھنا ہے ا±ن کے ہاتھ پاو¿ں پھول گئے ، وہ مجھ سے اپنا کاغذ قلم واپس لینے آئے مگر تب تک میں خط لکھ کر آپ کو بھیج چ±کا تھا ، اب ا±نہیں سمجھ ہی نہیں آرہی میں نے کس ذریعے سے خط بھیجا ؟ شک کی بنیاد پر جیل کے سارے کبوتر مع منصور علی خان کے کبوتر کے ا±نہوں نے اندر کر دئیے ہیں ، اور اب جیل کے سارے کوے ا±ن کبوتروں کی تفتیش کر رہے ہیں کہ کہیں کسی کبوتر نے تو میرا خط آپ تک نہیں پہنچا دیا ؟ کبوتروں کی تو ایسے ہی شامت آگئی ورنہ آپ کو پتہ توہی ہے میں نے کس ذریعے سے اپنا خط آپ تک پہنچایا ؟ مجھے یقین ہے میرا خط آپ کو مل گیا ہے مگر آپ اس کا اعتراف ا±سی طرح نہیں کر رہے جس طرح آپ اپنے سیاست میں ملوث ہونے کا اعتراف نہیں کرتے ، مجھے ذاتی طور پر آپ کے سیاست میں ملوث ہونے پر کوئی اعتراض نہیں مگر میں چاہتا ہوں آپ صرف مجھے فائدہ پہنچانے کی حد تک سیاست میں ملوث ہوں ، یہ جو آپ شریف برادران اور زرداری وغیرہ کی سیاست کو تقویت پہنچانے میں ملوث ہوتے ہیں مجھے صرف ا±س پر اعتراض ہے ، جیسے مجھے صرف اس بات پر اعتراض ہے کوئی امریکی صدر کون ہوتا ہے میری حکومت ختم کرنے والا ؟ لیکن اگر کوئی امریکی صدر میری حکومت بنانے میں سہولت کار بننا چاہتا ہے اس پر مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟ دوسری بات یہ ہے خود پاکستانی سیاست کو آپ کے کردار کا اتنا چسکا پڑ گیا ہے آپ کے بغیر وہ بے چاری اب چل ہی نہیں سکتی ، آپ اگر سیاست سے سچی سچی اور پکی پکی توبہ کر بھی لیں ممکن ہے ایسی صورت میں م±لک بھر کے سیاستدان آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ کے چرن چھو کر گزارش کریں”سر آپ کے بغیر سیاست کا ذرا مزہ نہیں آرہا ، آپ کی سرپرستی کے بغیر ہم مسکین بالکل ہی یتیم ہوگئے ہیں ، ارکان اسمبلی ہمارے قابو میں آرہے نہ اتھری بیوروکریسی آ رہی ہے ، ججوں نے تو ہمیں بالکل ہی فارغ کرا دیاہے ، انتہائی دیدہ دلیری سے مال بنانے کی ہمت بھی ہمیں نہیں پڑ رہی ، چنانچہ آپ سیاست سے اپنی توبہ فوری طور پر واپس لے کر ہمیں اپنی تابعداری اور شکرگزاری کا مزید موقع فراہم کرتے رہیں ، ویسے بھی میں کوئی اس طرح کا پاگل تھوڑی ہوں جو آپ کو سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا دل سے کہوں ؟ ، جب مجھے پتہ ہے فطرت تبدیل نہیں ہوتی میں آپ سے ایسے تقاضے کیوں کروں ؟ فطرت میری تبدیل ہونی ہے نہ آپ کی ہونی ہے ، پھر ایک دوسرے سے ہمیں صرف وہی تقاضے کرنے چاہئیں جو فطری طور پر پورے کرنے کے ہم قابل ہوں ، اب آپ اگر مجھ سے یہ تقاضا کریں میں اپنے کسی عمل پر آپ سے معافی مانگ ل±وں گا وہ میں نے کبھی اللہ سے نہیں مانگی آپ کی کیا حیثیت ہے ؟ اسی طرح آپ اگر مجھ سے یہ تقاضا کریں میں آپ کو یہ گارنٹی دوں اقتدار میں آ کر آپ کے مفادات کو ہلکی سی زد بھی نہیں پہنچاو¿ں گا ، علاوہ ازیں کے پی کے اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ ایماندار اور اہل لوگوں کو لگاو¿ں گا ، علاوہ ازیں اپنی بیگم اور ا±ن کی کرپٹ سہیلیوں کو پابند کر دوں گا آپ سیاسی و سرکاری معاملات میں مداخلت بند کر کے اپنی آمدنی میں اربوں کھربوں کا اضافہ نہیں کریں گی تو ظاہر ہے اس طرح کے تقاضے پورے کرنا میری فطرت کے برعکس ہے ، باقی یہ خط میں کافی دنوں سے آپ کی وساطت سے جنرل باجوے کا شکریہ ادا کرنے کے لئے بھی آپ کو لکھنا چاہتا تھا ، جنرل باجوے نے جس طرح میری حکومت کا سوا سال پہلے خاتمہ کر کے تیزی سے گرتی ہوئی میری مقبولیت کو نئی زندگی بخشی اس پر ہم صرف ظاہری طور پرہی ا±ن کے خلاف ہیں ، اندروں اندری ہم ا±نہیں دعائیں دیتے ہیں ہماری حکومت ختم کرنے کا کارنامہ وہ اگر نہ کرتے ممکن ہے اگلا الیکشن خود مجھے بھی نون لیگ کی ٹکٹ پر لڑنا پڑ جاتا ، جنرل باجوے نے ہمارے لئے آسانیاں پیدا کر کے آپ کے لئے جو مشکلات پیدا کیں مجھے یقین ہے ا±س کا اندازہ پل پل اب آپ کو ہو رہا ہوگا ، آخر میں آپ کا بھی شکریہ کہ جنرل باجوے نے میری مقبولیت کی واپسی کا جو بیڑا ا±ٹھایا تھا آپ مجھے مسلسل جیل میں رکھ کر ا±س میں مسلسل اضافہ کرتے جا رہے ہیں ، میں اکثر سوچتا ہوں میں اگر رہاہوگیا اور آپ کی وساطت سے پھر اقتدار میں آگیا لوگوں کو کیا منہ دکھاو¿ں گا ؟ ؟ ؟
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: جنرل باجوے سیاست میں میں ملوث جیل میں کے لئے
پڑھیں:
اڈیالہ جیل سے صنم کو خط لکھا گانے کے مصداق سیاسی این آر او مانگا جارہا ہے، گورنر خیبرپختونخوا
خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی نے عمران خان کو بتایا صوبے میں میرجعفر اور میرصادق کون ہے۔
وفاق المدارس العریبہ پاکستان کے سالانہ امتحانات کے دورے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنرخیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے سب کو سائیڈ لائن کیا۔بانی پی ٹی ائی کی 14 سال کی سزا پر یہاں کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی اپنی صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے جا رہی ہے۔ احتجاج ہوئے لیکن سرکاری لوگوں کے علاوہ کس نے حصہ نہیں لیا۔
گورنر کے پی نے کہا کہ اڈیالہ جیل سے "صنم کو خط لکھا" گانے کے مصداق اب سیاسی این آر او مانگا جارہا ہے۔صوبائی حکومت کا کام لوگوں کو تحفظ دینا ہے اور وہ اپنے ہی خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی حکومت پی ٹی آئی کے خلاف احتجاج میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ 500 ارب روپے کہاں خرچ ہوئے ہیں اس کا جواب ائیں بائیں شائیں کر رہے ہیں۔ قبائلی اضلاع کے پیسے اتے ہیں یہ اپنے دھرنوں اور عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں۔
گورنر خیبرپختونخوا نے مزید کہا کہ اسی لیے کمیٹی بنائی گئی ہے تو اس سے حکومت کو تکلیف ہو رہی ہے۔ اپنی جیب بھرنے کے لیے خط لکھنے کے بجائے صوبے کے امان و امان کے لیے لکھنا چائیے تھا۔ جب تک وفاق سے بات چیت نہ ہو تو افغانستان وفد نہیں بھیجنا چاہیے۔ افغانستان کو واضح ہیغام ہے کہ ان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ مذاکرات برابری کی بنیاد پر ہونا چاہییے ہیں۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ہم نے اج تک سیکورٹی کو سنجیدہ نہیں لیا۔ کیا ہماری اسمبلی میں سیکورٹی پر کوئی بحث ہوئی ہے۔ جس صوبائی اسمبلی میں پاک فوج کے خلاف قرارداد پاس ہو وہاں کیا ہو گا۔ آن کیمرہ سیشن ہونا چاہیے جس میں تمام معاملات دیکھے جائیں۔