Nai Baat:
2025-04-15@06:32:23 GMT

تعلیم اور ہمارا مستقبل….!

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

تعلیم اور ہمارا مستقبل….!

یہ26 ستمبر1947ءکی بات ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا: ”تعلیم پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔دنےا اتنی تےزی سے ترقی کر رہی ہے کہ تعلےمی مےدان مےں مطلوبہ پےش رفت کے بغےر ہم نہ صرف اقوام عالم سے پےچھے رہ جائےں گے بلکہ ہوسکتا ہے کہ ہمارا نام ونشان ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے“۔
عصر حاضر میں جب وطن عزیز کی تعلیمی اداروں پر طائرانہ نظر دوڑاتے ہیں توعیاں ہوتا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے جدید تقاضا کو پورا نہیں کرتے ،ہمارے تعلیمی ادارے ڈگریاںدیتی ہیں لیکن تعلیم کے ساتھ طلبہ کی تربیت نہیں کرتے، اس لئے ڈگریوں کے حصول کے بعد ہمارے طلبہ روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔
تقرےباً پندرہ صدی قبل اللہ رب العزت کے محبوبﷺ غار حرا مےں محو عبادت تھے کہ حضرت جبرائےل آمےن تشرےف لائے اور فرماےا کہ "پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو خون کی پھٹک سے پےدا کےا۔پڑھ اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کرےم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھاےا۔انسان کو سکھاےا جو وہ نہےں جانتا تھا۔” یعنی اللہ رب العزت سورة العلق میں فرماتے ہیں ۔”اقرا باسم ربک الذی خلق ۔خلق الا نسان من علق۔اقرا و ربک الاکرم۔الذی علم بالقلم۔علم الانسان مالم ےعلم۔©”اللہ رب العزت کے ابتدائی کلمات مےںتعلےم کا تذکرہ اس بات کی دلےل ہے کہ انسان کو علم کے درےچوں مےں جھانکنا چاہےے اور انسان کے لئے علم کی کتنی اہمےت ہے؟انسان علم کے بغےر حےوان کی طرح ہے۔
خاکسار نے حال ہی میں کالاباغ کے گورنمنٹ گرلز کالج کا وزٹ کیاتو تعمیر و مرمت کا
کام بند تھا، وہاں پر بتایا گیا کہ گذشتہ چھ ماہ سے فنڈ بند ہیں،حالانکہ کالاباغ لاہور سے بھی قدیم شہر ہے،وہاں پر اعلیٰ تعلیمی ادارے ہونے چاہیے تھے، اس حلقے کے ایم پی اے میجر (ر) اقبال خٹک صوبائی اسمبلی پنجاب میں اپنے علاقے کے مسائل اجاگر کرتے رہتے ہیں،ان کی کاوشیں قابل تعریف ہیں،اسی علاقے کے ممبر قومی اسمبلی جمال احسن خان انسان دوست اور صاحب علم ہیں،وہ اپنے لوگوںکے مسائل کے حل کے لئے کوشاں رہتے ہیں،وہ اب ایم این اے ہیں مگر وہ حسب اختلاف میں ہیں،اس لئے وہ سرعت سے ترقیاتی کام نہیں کراسکتے ہیں اور نہ ہی قانون سازی میں کلیدی کردار ادا نہیں کرسکتے ہیںلیکن ان کی حب الوطنی ، اخلاص اور دیانت پر کوئی شبہ نہیں،ان کو جب بھی موقع ملے گا ،وہ اپنے ملک اور علاقے کے لئے صلاحیتوں کا استعمال کریں گے۔دس بارہ برس قبل انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ خالد خان ! اقتدار مےں آکر تعلےم، صحت اور روزگار کو ترجیح دوں گا۔ جدےد تعلےم حاصل کرنا ہمارے بچوں کا بنےادی حق ہے۔حکمرانوں سے تھانہ کچہری کی سےاست، سےورےج نالی اور گلےاں مانگنے کی بجائے صرف اور صرف تعلےم اور اچھے تعلےمی اداروں کا تقاضا کرےں۔” ان کی باتوں سے خا کسار افکار مےں کھوگےا کہ انھوں نے درست فرمایا۔ انسان کے لئے ان تےن چےزوں کا ہونا ناگزےر ہے، تعلیم ، صحت ، روزگار۔ (اول)تعلےم ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ (دوم) صحت کے بغےر کوئی کام نہےں ہوتا ےعنی جان ہے تو جہان ہے(سوم) انسان کے لئے روزگار بہت ضروری ہے۔
بلاشبہ تعلےم و تربیت ہی ترقی اور دوام کے لئے لازم ہے،اس کے بغےر ترکےب ِ زےست ناممکن ہے بلکہ اس کے بغےر ہمارا ٹھکانا نہ رہے گا۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے گرےبان مےں جھانکےں اور ماضی کی غلطےوں کو دھرانے کی بجائے ان سے سبق حاصل کرےں۔ اپنے منشور ، پلان اور فیصلہ جات مےں ان تےن درج بالا نکات کو سر فہرست رکھےں۔جدےد عصری تقاضوں سے ہم آہنگی کے لئے ہنگامی بنےادوں پرتعلےم کے فروغ کے لئے کام کرےں، سائنس اور ٹےکنالوجی کے علوم پر خصوصی توجہ دیں، دور دراز علاقوں مےں تعلےم کے فروغ کے لئے عملاً اقدامات اٹھائیں کہ طلبہ کو اپنے ہی علاقے میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملےں، اس سے ان کے اخراجات بچ جائیں گے اور بڑے شہروں پر بوجھ بھی کم ہوجائے گا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک جامع پلان بننا چاہیے،جس میں طلبہ کےلئے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت لازمی ہو، پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ اخلاقی تربیت بھی ہو۔اخلاقی تربیت سے ہی کافی مسائل حل ہوسکتے ہیں، اخلاقی تربیت کا باقاعدہ پیریڈہونا چاہیے،اسی طرح تعلیمی اداروں میںجسمانی تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے ۔نوجوان نسل کی جسمانی، اخلاقی اور پیشہ ورانہ تربیت کریں گے تو اس کے نتائج مثبت اوردور رس ہونگے ۔تعلیم و تربیت ہی کی بدولت سے وطن عزیز میں ترقی اور خوشحالی کا انقلاب بھرپا کیا جاسکتا ہے۔تعلیم وتربیت کے لئے اساتذہ کرام کی ذہنی آسودگی ناگزیر ہے،اس کےلئے لازمی ہے کہ اساتذہ کی تنخواہیں اور پنشن معقول ہو۔اساتذہ کرام کی عزت و احترام ہو، اساتذہ کو دوران سروس اور پنشن کا ایسا پیکیج دیںکہ اُن کواپنے مطالبات کےلئے سڑکوں پر آنا نہ پڑے۔قارئین کرام !ضرورت اس امر کی ہے کہ قائد کے فرمان کے مطابق تعلےمی مےدان مےں کسی سے پےچھے نہےں رہنا چاہےے کیونکہ تعلےم اقوام کےلئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے بغےر کے لئے

پڑھیں:

ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2 اپریل کو نافذ کئے جانے والے ٹیرفس کو 90 روز کے لئے روک کر ممالک کے ساتھ بات چیت کے عمل کے آغاز کا کہا ہے اور عندیہ دیا ہے کہ وہ نافذ کردہ ٹیرف میں امریکی فائدے کے حامل نتائج حاصل کر کےاس معاملے کو حل کریں گے لیکن اس 90 روزہ مہلت میں چین شامل نہیں ہے۔

بقول امریکی صدر، چین نے امریکہ پر جوابی ٹیرف لگایا ہے اس لئے اس سے بات نہیں ہو سکتی ۔اس خبر کے آتے ہی کئی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ٹیرف پالیسی کا اصل مقصد شاید چین کو ہی ٹیرف پالیسی میں لانا اور اس پر دباؤ ڈالنا تھا کیوں کہ باقی تمام ممالک سے بات کرنا اور چین سے اعلانیہ ٹیرف جنگ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے مابین تجارتی برتری کی کوشش کی امریکی پالیسی کا واضح اعلان ہے۔

چین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان کے دروازے بات چیت کے لئے کھلے ہیں لیکن یہ بات چیت باہمی احترام کے اصول پر ہونی چاہیے بصورت دیگر چین یہ لڑائی آخری دم تک لڑے گا۔

تاریخی طور پر دیکھیں تو چین کا رویہ خود سے منسلک ہر معاملے میں ایسا ہی ہے۔ چین کی بین الاقوامی سیاست کا ایک سب سے اہم پہلو ہی یہ ہے کہ چین کسی بھی معاملے میں بات چیت کے دروازے بند نہیں کرتا اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل نکالا جائے اور ترقی اور تعاون کے عمل کو جاری رکھا جائے۔

میں یہ تو نہیں کہ سکتا کہ چین کو اس بار امریکی صدر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے سے واقفیت نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ امریکی صدر کا رویہ مذاکرات والا نظر نہیں آرہا ،شاید اسی لئے چین کی جانب سے بھی اس بار سخت حکمت عملی اور جواب دیکھنے میں آرہا ہے۔

امریکی ٹیرف 34 فیصد ہوں، 125 یا 145 فیصد۔ جوابی ٹیرف 34 فیصد ہوں، 84 یا 125 فیصد، نقصان ہر حال میں دنیا کا ہی ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی ہر میڈیا ٹاک اور تقریبات میں یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ امریکہ کے سرکاری خزانے میں روزانہ کی مد میں اربوں ڈالرز جمع ہو رہے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتا رہے کہ یہ اربوں ڈالر انہیں کون جمع کر وارہا ہے؟کیوں کہ ٹیرف میں بہر حال قیمت تو عوام نے ادا کرنی ہے۔

اب ہر فرد کا ایک ہی سوال ہے۔ اس ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟ چین سمیت تمام ممالک اور عالمی تجارتی تنظیموں کا یہ ماننا ہے کہ یکطرفہ پسندی کی یہ سوچ زیادہ عرصہ چل نہیں سکتی اور اس کا اختتام بھی اچھا نہیں ہو گا لہذا جتنا جلد ممکن ہو سکے اس سے جان چھڑانی چاہیئے۔

ماہرین معاشیات بھی اس بات پر حیران ہیں کہ خود سابق امریکی صدور کا قائم کیا ہوا ادارہ اور نظام جسے دنیا ڈبلیو ٹی او کے نام سے جانتی ہے اور ان سابق صدور کا تعلق بھی ریپبلکن پارٹی سے ہی تھا ،آج کیسے امریکہ مخالف ہو سکتا ہے؟۔ یا تو کھل کر اس بات کا اعلان کیا جائے کہ ہم نے جو نظام قائم کرنے کی کوشش کی تھی وہ بہتر نہیں تھا یا پھر یہ کہ جتنا فائدہ ہم نے اس کا حاصل کرنا تھا وہ کر چکے اس لئے اب اس کی ضرورت نہیں۔

تاہم ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آ رہا اور شائد آئے گا بھی نہیں کیوں کہ امریکہ کے حصے کے اس طرح کے کئی اعترافات ابھی تک باقی ہیں جو اس نے کرنے ہیں لیکن آج تک دنیا انہیں نہیں سن سکی، جیسے عراق میں کیمیائی ہتھیار نہیں تھے اور ہم نے حملہ کرتے ہوئے جو کہا وہ یا تو جھوٹ تھا یا پھر غلد معلومات۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے تو وہ جھوٹ ہی کیا جس کا اعتراف کر لیا جائے۔

اس ضمن میں ایک بات قابل توجہ ہے کہ انٹرنیشنل میڈیا میں کچھ اداروں نے یہ نشاندہی کی ہے کہ 2 اپریل کو امریکی صدر نے ٹیرف کی جو فہرست دنیا کے سامنے اٹھا رکھی تھی اس کی تیکنیکی تحقیق میں کئی فاش غلطیاں ہوئی ہیں اور ان پر اٹھنے والے اعتراضات پر بھی انتظامیہ کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔

اسی طرح ڈبلیو ٹی او کی ڈائریکٹر جنرل نے اپنے حالیہ ایک مضمون میں کہا ہے کہ امریکہ کا تجارتی خسارے اور نقصان کا دعوی غلط ہے۔اپنے مضمون "امریکہ تجارت کا سب سے بڑا فاتح ہے " میں اینگو جیا اوکونجو ویلا نے تفصیلی اعداد و شمار کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ امریکہ نہ صرف عالمی تجارتی نظام کا فائدہ اٹھانے والا ملک ہے ، بلکہ خدمات کے شعبے میں بھی اسے واضح برتری حاصل ہے۔

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی ڈائریکٹر جنرل کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں امریکہ کی خدمات کی برآمدات نے ایک ٹریلین امریکی ڈالر سے تجاوز کیا، جو عالمی خدمات کی تجارت کا 13 فیصد ہیں۔ بڑی معیشتوں کے ساتھ خدمات کے شعبے میں امریکہ کا تجارتی سر پلس زیادہ ہے اور 2024 میں اس کا کل سرپلس تقریباً 300 ارب امریکی ڈالر تھا۔

اس سے بھی زیادہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ امریکہ کو اعلیٰ اضافی قیمت والی خدمات کے شعبے میں اور بھی زیادہ برتری حاصل ہے۔دانشورانہ املاک کے استعمال اور لائسنس کی فیسوں سے امریکہ کی سالانہ آمدنی 144 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ بنتی ہے جو دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ سو تجارتی خسارہ کیسے اور کہاں ہو رہا ہے یہ بھی ایک سوال ہے۔

ڈاکٹر ایوب مہر ایک معروف ماہر معاشیات ہیں جو کئی عالمی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تحفظ پسندی کی جس راہ پر چلنے کا آغاز امریکہ نے کیا ہے اس کا مستقبل کسی صورت تابناک نظر نہیں آتا کیوں کہ ایسی کوئی مثال دنیا کی حالیہ تارٰیخ میں ملتی ہی نہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خود ڈبلیو ٹی او کے قوانین میں یہ شق موجود ہے کہ اگر کوئی ملک یہ دعوی کرتا ہے کہ اسے تحفظ پسندی کی ضرورت ہے تو ڈبلیو ٹی او اپنے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اسے کچھ وقت کی اجازت دے سکتا ہے تا وقت کہ اس ملک کی معیشت خطرات سے باہر آجائے۔

ویسے میرا ماننا ہے کہ ٹیرف کے اس معاملے میں اصولوں اور ضابطوں کی کوئی حیثیت ہے ہی نہیں تو ان کا ذکر کیا کرنا۔ یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی صورتحال ہے اور طاقت کے اس کھیل میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ امریکہ کی پہل کے بعد دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گی۔

یہ تقسیم مفادات کی بھی ہو سکتی ہے اور اصولوں کی بنیاد پر بھی۔وقت بتائے گا کہ دنیا اس صورتحا ل کا مقابلہ کیسے کرتی ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اس سارے معاملے میں اصل کھیل وقت کا ہی ہے۔امریکی ٹیرف سے متاثرہ ممالک نے اگر مشکل وقت ثابت قدمی اور نئے مواقع پیدا کرنے میں گزار ا تو کوئی شک نہیں کہ امریکا میں پیدا ہونے والا اندرونی دباؤ ہی امریکی انتظامیہ کو ان کی غلطی کا احساس دلا ئے گا کیوں کہ بیرونی دنیا ،اصول اور اخلاقی دباؤ طاقت کے نشہ کو زائل نہیں کر پایا ہے۔

از ۔۔ اعتصام الحق ثاقب 
 

متعلقہ مضامین

  • نہریں نہیں بننے دینگے ہمارا کیس مضبوط، کوئی مسترد نہیں کر سکتا: مراد شاہ 
  • ہمارا نظریاتی و سیاسی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ریاست پر کوئی اختلاف نہیں، گورنر سندھ
  • ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟
  • ہمارا موقف اور کیس مضبوط ہے، جو بھی سنے گا وہ کینالز منصوبے کو ترک کردے گا، مراد علی شاہ
  • حاجی کیمپ میں حج تربیت کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگیا
  • حاجی کیمپ میں حج تربیت کے دوسرے مرحلے کا آغاز،21اپریل تک جاری رہیگا
  • امریکہ، 54 پاکستانی طلبا ایکسچینج پروگرام کے تحت تعلیم مکمل کرینگے
  • معافی اور توبہ
  • مطالعہ کیوں اورکیسے کریں؟
  • لاہور میں اے آئی یونیورسٹی کا قیام، مستقبل کا تعلیمی منظرنامہ بدل رہا ہے، مریم نواز