Nai Baat:
2025-04-15@15:10:43 GMT

گدھے کی پڑھائی لکھائی

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

گدھے کی پڑھائی لکھائی

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ملا نصیرالدین نے بادشاہ کے دربار میں یہ چیلنج کیا کہ وہ گدھے کو پڑھنا سکھا دے گا بادشاہ کو یقین نہ آیا لیکن اس نے اس شرط پر م±لا نصیرالدین دین کو اجازت دے دی اور کہا اگر وہ گدھے کو پڑھنا اور لکھنا سکھا دے گا تو م±لا کو انعام سے نوازا جائے گااور اگر وہ ایسا نہ کر سکا تو کڑی سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔ چنانچہ م±لا نصیر الدین گدھے کو لے کر گیا ابتدا میں اسے تھوڑی سی پریشانی ہوئی لیکن پھر اسے گدھے کو پڑھانے کی ایک ترکیب سوجھی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور اس نے بادشاہ کو خبر دی کہ گدھا پڑھنا سیکھ چکا ہے۔ بادشاہ نے تمام درباریوں کی موجودگی میں اسے کہا کہ وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرے۔ م±لا نصیرالدین نے ایک میز کے اوپر کتاب رکھی اور گدھے کو اس کے سامنے کھڑا کر دیا جب دیکھا تو گدھے نے کتاب کا ایک ورق پلٹا اور ڈھیچوں ڈھیچوں کرنا شروع کر دیا اس کے بعد گدھے نے دوسرا ورق پلٹا اور پھر ڈھیچوں ڈھیچوں کیا پھر تیسرا پلٹا اور اس کے بعد چوتھا ورق پلٹا اس طرح وہ ساری کتاب پلٹتا چلا گیا اور ہر ورق پلٹنے کے بعد منہ سے شور دار آوازیں نکالتا رہا جیسے وہ متواتر کچھ بول رہا ہو یا کتاب پڑھ رہا ہو۔ بادشاہ یہ مظاہرہ دیکھ کر بہت حیران ہوا تمام درباریوں نے تالیاں بجائیں اور اس کے بعد بادشاہ نے م±لا نصیرالدین سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا۔
کسی نے استفسار کیا کہ م±لا نے گدھے کو پڑھنا کیسے سکھایا تب م±لّا نے اسے بتایا کہ میں ہر روز گدھے کو کتاب کے اوراق میں خوراک رکھ کر دیا کرتا تھا گدھا ایک ورق پلٹتا تھا اور اس کے بعد وہاں سے خوراک کھاتا تھا پھر دوسرا ورک پلٹتا تھا پھر وہاں سے خوراک کھاتا تھا میں نے یہ ریاضت چھ مہینے کی آج جب میں بادشاہ کے دربار میں گدھے کو لے کر آیا اور اس کے سامنے کتاب رکھی جو خالی تھی۔ جب اس نے ایک ورق پلٹا اور کھانے کو کچھ نہ ملا تو اس نے آوازیں نکالنا شروع کر دیں دوسرا ورق پلٹا، اس پہ بھی کچھ نہ ملا تو اس نے پھر آوازیں نکالیں یوں وہ بولتا چلا گیا اور دیکھنے والے سمجھنے لگے کہ شاید گدھا کتاب کھول کر پڑھ رہا ہے۔
ملا نصیر الدین انعام لے کر بہت خوش ہوا اور اس نے بادشاہ سے اجازت مانگی کہ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اب گدھے کو لکھنا بھی سکھا سکتا ہوں لیکن اس کے لیے مجھے پانچ سال تک کا وقت درکار ہوگا بادشاہ نے وہی شرط رکھی کہ اگر تم نے گدھے کو لکھنا نہ سکھایا اور تم اپنے چیلنج میں کامیاب نہ ہو سکے تو میں تمہیں سزائے موت دے دوں گا ملا نصیر الدین نے اسے بخوشی قبول کیا اور اجازت لینے کے بعد وہ دربار سے باہر نکل آیا
دربار سے باہر آتے ہی ایک شخص نے کہا ملا یہ تم نے کیا کیا۔ تم نے جیسے تیسے اس گدھے سے پڑھنے کی اداکاری تو کروا دی لیکن اب تم اسے لکھنا کیسے سکھاو¿ گے۔ ملا نے کہا پریشان نہ ہوں میں نے اس کام کے لیے پانچ سال کا وقت مانگا ہے۔ اور اتنے عرصے میں کوئی ایک تو مر ہی جائے گا، بادشاہ یا گدھا۔ کسی بھی عمل کی صرف میکانیکی حالت کو دیکھ کر یہ طے نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی روح کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ جب کوئی نظام کھوکھلا ہونے لگے اور اس کے اغراض و مقاصد بے معنی ہو کر رہ جائیں تو کسی عمل کی میکانیکی حالت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ یعنی mechanically تو اس کا سلسلہ قائم ہو گا لیکن روح غائب ہو چکی ہو گی۔ ایسی صورت میں ہر گز وہ اغراض و مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے جن کی خاطر اس سلسلے کا آغاز کیا گیا تھا۔ فرض کیجیے کہ کسی کرتب کے توسط سے م±لا نصیرالدین اس گدھے کو لکھنا بھی سکھا دیتا تو کیا وہ گدھا پڑھنے لکھنے کے اہداف کو حاصل کر پاتا؟ اس کی تعلیم سے نہ تو معاشرے میں کوئی بہتری تصور کی جاسکتی اور نہ علم کے میدان میں کوئی جوہر پیدا کیا جا سکتا۔ معاشرے کی ضروریات اور اس کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ تعلیم کسی تلاش و ایجاد کا وسیلہ نہیں بن سکے گی اور معاشرہ جمود کا شکار ہی رہے گا۔ ایسی صورت حال میں نہ حالات بدلتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کے دکھ پرانے ہوتے ہیں۔ مسائل کی یکسانیت ان کے اوجھل ہونے کا باعث بنتی ہے لیکن حقیقت میں مسائل کبھی ختم نہیں ہوتے۔ جبکہ گدھے نے پھر بھی وہی ملازمت اختیار کرنا ہے جو وہ بغیر پڑھنے لکھنے کی زحمت اٹھائے بھی کر سکتا تھا۔ کتاب کو اگر خوراک کے حصول کا وسیلہ ہی مان لیا جائے تو م±لا نصیرالدین کا گدھا اس کا بہترین استعمال کرتا تھا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دور حاضر کے ملا نصیرالدین بھی دونوں میں سے کسی ایک کے غائب ہونے کے منتظر ہیں۔ یہ مستقبل کے روشن ہو جانے سے زیادہ گدھے کے ٹھکانے لگ جانے پر یقین رکھتے ہیں۔ مسلسل عمل جاری ہے۔ م±لا نصیرالدین ایک ہجوم کو پڑھنے کی ریاضت کرا رہے ہیں۔ چاہے کتاب کے اوراق میں کھانا چھپا کر یا ڈگری کا راشن کارڈ بنا کر، عمل جاری ہے۔بعض بازی گروں نے تو ایسے کرتب بھی ایجاد کر لیے ہیں جن سے صرف ایک بادشاہ کو ہی نہیں بلکہ پوری قوم کو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ دربار لگتا ہے، تماشائی کچھ نیا ہونے کی توقع کرتے ہیں بادشاہ لطف اندوز ہوتا ہے اور مداری اپنا کام کرتا جاتا ہے۔ اس سب میں کم از کم گدھے کا وقت اچھا گزر جاتا ہے۔ اب باقی گدھے اسے چاہے اچھی زندگی شمار کر لیں۔
یہ بادشاہ نے طے کرنا ہے کہ پڑھائی کے نام پر م±لا نصیرالدین سے گدھے تیار کرانے ہیں اور کسی نئے کرتب کی امید پر پانچ سال برباد کر دینا ہیں یا پھر اسے اور اس کی مملکت کو فہم و فراست رکھنے والے افراد کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: م لا نصیرالدین بادشاہ نے اس کے بعد اور اس کے گدھے کو

پڑھیں:

پی آئی اے طیارہ حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانیوالے ظفر مسعود نے حادثے کے بعد کے تجربات پر کتاب لکھ دی


کراچی میں 2020 کے پی آئی اے طیارہ حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانیوالے ممتاز بینکار ظفر مسعود نے کتاب "سیٹ ون سی" تحریر کردی، جس میں انہوں نے کراچی میں فضائی حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانے کے بعد کے تجربات بیان کیے ہیں۔

ممتاز بینکار ظفر مسعود کی کتاب "سیٹ ون سی" کی کراچی میں تقریب رونمائی ہوئی، ظفر مسعود نے کتاب میں انسانی زندگیوں میں حادثات کے تجربات و اثرات، عزم و ہمت پر آب بیتی لکھی۔

کراچی: پی آئی اے طیارہ حادثہ، سال مکمل، حتمی رپورٹ تکمیل کے مرحلے میں داخل

کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن ( پی آئی اے ) کے طیارے پی کے 8303 کے حادثے کو ایک سال مکمل ہوگیا۔

ظفر مسعود نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ذہنی صحت کو ایک زاویے سے نہ دیکھیں اس کے کئی پہلو ہیں، کسی حادثے سے گزرنے کے بعد اسے نظر انداز نہ کریں، آپ مضبوط بھی ہوں مدد ضرور لیں۔

انہوں نے کہا کہ قسمت اور امید اہم ہیں لیکن ٹراما سے نکلنے کیلئے مثبت اقدامات اختیار کریں، اپنی ذمہ داریوں کو اقدار اور روایات کی وجہ سے نظر انداز نہ کریں۔

حادثے میں محفوظ رہنے والے ایک اور مسافر زبیر نے بتایا کہ یقین نہیں آتا کہ حادثے کے بعد اسپتال بھی پیدل چل کر پہنچا، آج بھی جہاز کے ٹیک آف اور لینڈ کرنے پر دل دہل جاتا ہے۔

واضح رہے کہ 22 مئی 2020 کو پی آئی اے کا لاہور سے کراچی آنے والا طیارہ رن وے سے چند سیکنڈ کے فاصلے پر آبادی پر گر کر تباہ ہوگیا تھا، جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت 97 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ 2 افراد معجزانہ طور پر بچ گئے تھے، جن میں ایک ظفر مسعود اور دوسرا مسافر زبیر شامل تھا۔

متعلقہ مضامین

  • کتاب ہدایت
  • عمر رواں، ایک عہد کی داستان
  • پی آئی اے طیارہ حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانیوالے ظفر مسعود نے حادثے کے بعد کے تجربات پر کتاب لکھ دی