جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت کا اس حد تک ڈھول پیٹا گیا ہے کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی ان کی مقبولیت کے گن گاتے نظر آتے ہیں اور اس میں وہ بھی شامل ہیں کہ جو تحریک انصاف کے سخت مخالف ہیں جبکہ ہم شروع دن سے کبھی ان کی مقبولیت کے قائل نہیں رہے اور اس کی کچھ وجوہات تھیں اور اب آہستہ آہستہ یہ حقیقت دنیا کے سامنے آتی جا رہی ہے اور جھوٹ کا یہ ڈرامہ کہ جس میں پوری دنیا کو ماموں بنایا جا رہا تھا اب اس کی حقیقت کافی حد تک کھل کر سامنے آ چکی ہے اور اگر کچھ پردہ رہ گیا ہے تو وہ بھی جلد فاش کر اصل منظر نامہ سب کے سامنے آ جائے گا اور مقبولیت کے بھرم کی حقیقت کا دنیا کے سامنے آنے کے جو اسباب ہیں اس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ خود تحریک انصاف اور بانی پی ٹی آئی ہیں ۔ یہ بات ہم کوئی ہوا میں نہیں کہہ رہے بلکہ جس طرح تحریک انصاف کی احتجاج کی تمام کالز پے در پے ناکام ہوئیں ہیں تو اصل کام انھوں نے کیا ہے اور اس میں تحریک انصاف کی قیادت کا اتنا قصور نہیں ہے جتنا کہ بانی پی ٹی آئی کا ہے اس لئے کہ تحریک انصاف میں بانی پی ٹی آئی کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا لہٰذا تحریک انصاف کے اندر کے ذرائع تو یہی بتاتے ہیں کہ سمجھانے کے باوجود بھی عمران خان کسی کی نہیں سنتے اور وہ اپنی ضد پر قائم رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک بار دو بار نہیں بلکہ بار بار احتجاجی کالز کی ناکامی کے باوجودبھی انھوں نے سبق نہیں سیکھا اور حکومت کو سبق سکھانے کے چکر میں خود انھوں نے اپنی مقبولیت کے بھرم کو چکنا چور کر دیا ۔ 2014میں عوامی تحریک کا ساتھ تھا لیکن پھر بھی چند دنوں کے بعد دھرنے کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ دن میں ویرانیاں اور شام کو کوئی دو ڈھائی سو بندہ ہوتا جسے ہزاروں کی تعداد میں دکھانے کے لئے میڈیا کو حکم جاری کیا گیا تھا ۔ 2022میں جب لبرٹی چوک لاہور سے لانگ مارچ شروع ہوا تو اس میں عوام کی اتنی تعداد بھی نہیں تھی کہ اسے جاری رکھا جا سکتا یہی وجہ ہے کہ وہ لانگ مارچ بڑی مشکل سے راوی کا پل کراس کر سکا اور اس کے بعد شاہدرے میں ایک چھوٹا سا جلسہ کر کے لانگ مارچ والے اپنے گھر اور خان صاحب اپنے گھر لوٹ گئے اور اس کے بعد دوسرے دن اگلے شہر میں ایک جلسی ہوتی اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تاوقتیکہ وزیر آباد میں فائرنگ کا واقعہ پیش نہیں آیا اور لانگ مارچ کو منسوخ کرنا پڑا لیکن پھر جس طرح بڑے دھڑلے سے نئے آرمی چیف کی تقرری کو رکوانے کے لئے راولپنڈی میں دھرنے کی کال دی تو اس میںبھی جب قابل ذکر تعداد میں لوگ نہیں آئے تو پھر وہ بھی منسوخ کرنا پڑا۔
ایک بار اسلام آباد پر چڑھائی میں ناکامی دوسری بار ناکامی اور پھر تیسری بار بھی ناکامی ۔ لاہور میں جلسہ ہوا تو چونکہ جگہ بدل گئی تھی اور وقت بھی دن کا تھا لہٰذا جعلی وڈیوز لگا کر کام چلانے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں بھی جب اسلام آباد کی پہاڑیوں کو لاہور میں دکھایا گیا تو پول کھل گیا ۔ میڈیا نے ڈی چوک پر فاتحانہ انداز میں داخل کرا کر سنسنی تو پیدا کر دی لیکن پھر جب صفائی کا فیصلہ ہوا تو گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں ڈی چوک تو کیا پورا اسلام آباد بھی خالی ہو گیا اور اس اعلان کے ساتھ خالی ہوا کہ سب کچھ اب معمول کی حالت میں ہے اور دوبارہ کچھ نہیں ہو گا ۔حد تو یہ ہوئی کہ ایک طرف سزا ہو رہی تھی اور دوسری جانب وہی اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کی کہانیاں کرائی جا رہی تھیں کہ سب سیٹ ہو گیا ہے اور وہ جو الیکشن سے پہلے نواز لیگ کہتی تھی اب وہی بات ہمارے تحریک انصاف کے دوست کہنے لگے تھے کہ ” پائین ساڈی گل ہو گئی اے “ ۔ آپ کو یاد ہے کہ تحریک انصاف کے ہمارے دوست سوشل میڈیا پر کہا کرتے تھے کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے جبکہ عمران خان کہتے تھے کہ بشریٰ بیگم ان کی ریڈ لائن ہیں ۔ ریڈ لائن کا مطلب ہے کہ پائین اسے اگر کراس کیا تو پھر پھڈا ہے لہٰذا اسے چھیڑنے کی کوشش بھی نہ کریں لیکن ہوا کیا کہ تحریک انصاف کی ریڈ لائن اور خود عمران خان کی ریڈ لائن دونوںکو احتساب عدالت سے سزا ہو گئی اور سزا بھی کم نہیں بلکہ چودہ اور سات سال کی سزائیں سنائی گئیں تو اس پر تو پورے پاکستان میں کہرام مچ جانا چاہئے تھا اور عوام کو سڑکوں پر آ جانا چاہئے تھا لیکن ہوا کیا کہ کراچی سے خیبر تک کہیں پر ایک بندہ بھی احتجاج کے لئے باہر نہیں نکلا ۔ ” او پئی ہوئی جے مقبولیت “ ۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے اس قدر سختی کی ہوئی ہے تو اس میں کون باہر نکلے تو عرض ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے جنرل ضیاءکے دور آمریت میںساٹھ ہزار کوڑے جیلیں پھانسیاں یہ سب ایسے ہی گھر بیٹھے تو نہیں کر لیا تھا آخر وہ بھی تو تمام تر تشدد کے باوجود احتجاج کے لئے نکلتے تھے لیکن یہ دلیل اس وقت ڈھیر ہو جاتی ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ چلیں باقی جگہ تو سختیاں تھیں لیکن خیبر پختون خوا میں تو تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے وہاں پر تو پشاور ، دیر ، مالا کنڈ ، مردان ، سوات ہر جگہ عوام کا جمِ غفیر سڑکوں پر ہونا چاہئے تھا پورا صوبہ جام ہو جانا چاہئے تھا اس لئے کہ اسے تو تحریک انصاف کا گڑھ کہا جاتا ہے لیکن وہاں سے بھی کسی احتجاج کی خبر نہیں آئی ۔ اس دوران وہی اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کی کہانیاں لیکن جب ان رابطوں کو لے کر حکومت نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر ایسا ہے توپھر ہم سے مذاکرات کی کیا ضرورت ہے تو انتہائی بے بس لہجہ میں بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ سر راہ ملاقات کو رابطوں کا نام دے کر مذاکرات ختم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیںاور اب آرمی چیف کو لکھے خط سے جگ ہنسائی تو جب تک تحریک انصاف دو فٹ پیچھے ہٹ کر پالیسی نہیں بدلتی تب تک مشکلات کا شکار رہے گی۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: تحریک انصاف کی تحریک انصاف کے بانی پی ٹی آئی مقبولیت کے کی مقبولیت لانگ مارچ چاہئے تھا ریڈ لائن وہ بھی ہیں کہ ہے اور کے لئے اور اس
پڑھیں:
صوابی میں صرف جلسہ ہوگا، انتشار اور ٹکراؤ کا ارادہ نہیں،تحریک انصاف
٭قوی گمان ہے کہ فضل الرحمن عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے ، ہماری ضمانتیں چلتی رہتی ہیں، یہ ایک تلوار انہوں نے لٹکائی ہوئی ہے ، ہم مقابلہ کرتے رہیں گے ، ہم صوابی جائیں گے ہر یوسی میں احتجاج کرینگے ،سلمان اکرم
٭مولانا فضل الرحمن نے 26ویں ترمیم میں ووٹ دیا یہ ان کی سیاست ہے ، ہم نے ترمیم کی مخالفت کی آج بھی کرتے ہیں،ہمارا موقف واضح ہے ہم ہر صورت جمہوریت اور انسانی حقوق کا ساتھ دیں گے ،میڈیاسے گفتگو
(جرأت نیوز )پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری سلمان اکرم راجا نے کہا ہے کہ آج جلسہ صرف صوابی میں ہوگا، ہمارا انتشار اور ٹکرا ؤکا کوئی ارادہ نہیں۔انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد میں کیس کی سماعت کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہماری ضمانتیں چلتی رہتی ہیں یہ ایک تلوار انہوں نے لٹکائی ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم مقابلہ کرتے رہیں گے ، یہ جھوٹے کیسز ہیں، ہم صوابی جائیں گے ہر یونین کونسل میں لوگ احتجاج کریں گے ، ہمیں امید ہے ، قوی گمان ہے کہ مولانا فضل الرحمن عوام کیساتھ کھڑے ہوں گے ۔پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ مولانا عوام کیساتھ کھڑے ہوں گے ، عوام اس فسطائیت کیخلاف ہیں۔ مولانا فضل الرحمن زیرک سیاست دان ہیں عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔ مولانا فضل الرحمن نے 26ویں ترمیم میں ووٹ دیا یہ انکی سیاست ہے ، ہم نے ترمیم کی مخالفت کی آج بھی کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جہاں ہمارا تعاون ہو سکتا ہے وہاں مولانا کا تعاون لیں گے ۔ ہمارا موقف واضح ہے ہم ہر صورت جمہوریت اور انسانی حقوق کا ساتھ دیں گے ، ہر حملہ جو عدلیہ پر ہوگا اس کی مخالفت کریں گے جو جہاں تک ساتھ دے سکتا ہے وہ دے ۔جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ کل کا جلسہ صرف صوابی میں ہوگا، اس سلسلے میں یونین کونسل اور تحصیل کی سطح پر احتجاج ہوگا، کل انتشار اور ٹکرا کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے کل 8 فروری کو مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت کے لیے درخواست دی گئی تھی تاہم ڈی سی کی جانب سے جلسے کی اجازت نہیں دی گئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ کل 8 فروری کو ایک بین الاقوامی کانفرنس اور کرکٹ میچ ہے ۔ اس کے علاوہ بھی اہم پروگرام ہیں، جن کے لیے ہزاروں کی تعداد میں سکیورٹی اہل کار تعینات کیے جا رہے ہیں۔