Jasarat News:
2025-04-13@16:25:18 GMT

جو آگ لگی ہے تن من میں اس پر نہ تیل گرا بابا!

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

جو آگ لگی ہے تن من میں اس پر نہ تیل گرا بابا!

لہو لہان، زخموں سے چور ماں باپ، احباب، رشتے داروں اور دوستوں کی جدائی کا دکھ سمیٹے فلسطینیوں نے ٹرمپ کے اعلان کے جواب میں کہا ہے کہ! ’’غزہ ہماری سرزمین، امریکا سمیت پوری دنیا اسے اپنے دماغ میں بٹھا لے کہ غزہ نہیں چھوڑیں گے‘‘، فلسطینیوں نے ٹرمپ کو پاگل قرار دے دیا ہے۔ اس بیان کو سنتے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ چند جملے ایسے بھی ہوتے جن کا استعمال بر وقت کیا جائے تو وہ تاریخ میں لکھے جانے والاسنہرے حروف کا حصہ بن جاتے ہیں ایسے ہی یہ جملے ہیں جنہوں دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے 2.

3 ملین باشندوں کو باہر نکالنے کے لیے اپنے منصوبے میں توسیع کرتے ہوئے یہ پھر اعلان کیا ہے کہ جنگ کے اختتام پر اسرائیل اس پٹی کو امریکا کے حوالے کر دے گا اور امریکا تباہ شدہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے پیشگی شرط کے طور پر زمین امریکا کے حوالے کر دے گا لیکن امریکی فوج کی تعیناتی کو مسترد کر دیا۔ شروع شروع میں تو ٹرمپ کی جانب سے ’’جنگ کے اختتام‘‘ کا استعمال اس بات کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے کہ 42 روز پر مشتمل اس جنگ بندی معاہدے کے بعد جنگ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔ لیکن اس بیان پر فلسطینی اور عرب و عالمی بیانات نے امریکی صدر کے ہرکاروں کو مجبور کر دیا کہ وہ اس بیان کے زیر زبر اور پیش کی تشریح شروع کر دیں اور ایسا ہی ہوا لیکن دنیا ٹرمپ کے ان ہرکاروں کی بات سننے سے انکاری تھی۔ اس کے ساتھ ہی یوٹرن لیتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ: ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ غزہ کی پٹی اسرائیل کی طرف سے جنگ کے اختتام پر امریکا کے حوالے کر دی جائے گی۔ ٹرمپ نے مزید وضاحت پیش کرتے ہوئے لکھا کہ غزہ کے باشندوں کو خطے میں نئے اور جدید مکانات کے ساتھ پہلے سے زیادہ محفوظ اور زیادہ خوبصورت آبادیوں میں آباد کرایا جائے گا۔ قبل ازیں ٹرمپ نے اپنی تجویز کو دہراتے ہوئے کہا کہ اس پٹی میںآبا د فلسطینی مستقل طور پر بے گھر ہو جائیں گے۔ ٹرمپ نے کہا کہ غزہ کے باشندوں کو حقیقت میں خوش، محفوظ اور آزاد رہنے کا موقع ملے گا۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا کہ امریکا، پوری دنیا کی عظیم ترقیاتی ٹیموں کے ساتھ مل کر کام کرے گا، آہستہ آہستہ اور احتیاط سے اس (غزہ) کی تعمیر شروع کرے گا جو زمین پر اپنی نوعیت کی سب سے بڑی اور سب سے شاندار پیش رفت بن جائے گی۔ لیکن ٹرمپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ فلسطینیوں کا آج بھی یہی اعلان ہے کہ! ’’ان چکنی چپڑی سے نہ دل بہلا بابا ؍ جو آگ لگی ہے تن من میں اس پر نہ تیل گرا بابا‘‘۔

ٹرمپ صاحب! دنیا اور عالم اسلام کے عوام کو معلوم ہے کہ 471 دن کی جنگ میں امریکا نے اسرائیل کو اربوں ڈالرز کا اسلحہ، گولہ بارود اور انسانوں کے گوشت کے ٹکڑے کرنے والے بم دیے اور امریکی فضائی فوج کے اہلکاروں نے فلسطین میں معصوم اور بے گناہ شہریوں، بچوں اور خواتین پر برسات کی طرح خطرناک بم برسائے اور آج فلسطینیوں کو روشن مستقبل دکھا کر دھوکا دے رہے ہیں اور اسرائیل کی ہر طرح مدد کے لیے بے قرار ہو رہے ہیں۔ امریکا اسرائیل کا اصل اتحادی ہے جس نے 471 دن لاکھوں فلسطینیوں کو شہید کرنے میں ہر طرح کی سہولت اسرائیل کو فراہم کی ہے۔

جنگ بندی کے باوجود اسرائیل نے غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ انہوں نے فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ جنگ زدہ علاقے کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کے مطابق بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے ہٹانے کے لیے منصوبہ تیار کریں۔ وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے جمعرات کو کہا کہ اس منصوبے میں زمینی راستے کے علاوہ سمندری اور فضائی راستے سے فلسطینیوں کو نکالنے کے خصوصی انتظامات شامل ہوں گے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے اس جرأت مندانہ منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہیں، جو غزہ کی ایک بڑی آبادی کو دنیا کے مختلف مقامات پر جانے کی اجازت دے سکتا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ آیا فلسطینی غزہ سے کہاں جائیں گے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع سے سوال یہ ہے کہ جو کام اسرائیل 471 دن میں نہ کر سکا وہ ٹرمپ کے اعلان سے کیسے ممکن ہے؟ ٹرمپ کے اس منصوبے کو فلسطینیوں اور بین الاقوامی برادری نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق، اتنی بڑی آبادی کو اْن کے علاقوں سے بے دخل کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

مصر نے غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کو ناکام بنانے کے لیے پردے کے پیچھے سفارتی کارروائی شروع کر دی ہے۔ مصر نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کا منصوبہ اسرائیل کے ساتھ اس کے امن معاہدے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے ٹرمپ کی تجویز کا عوامی طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن عالمی میڈیا کے مطابق مصری عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بند کمرے میں ہونے والی بات چیت حوالے سے بتایا کہ قاہرہ نے ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی تجویز کی مزاحمت کرے گا۔ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ خطرے میں ہے۔ لیکن سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ مصر، اردن، سعودی عرب، اومان اور امارات جیسے ملک امریکا سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ یہ تو قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ ٹرمپ کے اس منصوبے کے مخالفین امریکا کے حکومتی ارکان اور کانگریس، نیز اسرائیل کے مغربی یورپی اتحادی، بشمول برطانیہ، فرانس اور جرمنی، اسپین، آئرلینڈ اور ناروے نے اسرائیلی تجویز کو مسترد کر دیا۔ اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے جمعرات کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ اسپین، ناروے اور آئرلینڈ کو غزہ سے فلسطینیوں کو اپنے ملک لے جانا چاہیے۔ ان ممالک نے گزشتہ سال علامتی طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا تھا اور غزہ میں حماس کے خلاف جنگ کے دوران اسرائیل کے طرز عمل پر تنقید کی تھی۔ کاٹز نے کہا کہ اگر وہ انکار کرتے ہیں تو ان کی منافقت بے نقاب ہو جائے گی۔ تینوں مغربی یورپی ممالک نے اسرائیلی خیال کو یکسر مسترد کر دیا۔

اسپین کے وزیر خارجہ جوز مینوئل الباریس نے ہسپانوی ریڈیو اسٹیشن آر این ای کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ غزہ فلسطینیوں کی سرزمین ہے۔ یہ علاقہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ ہونا چاہیے۔ آئرلینڈ کے وزیر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ مقصد یہ ہونا چاہیے کہ فلسطینی عوام بحفاظت اپنے گھروں کو لوٹیں اور اس کے برعکس کوئی بھی تبصرہ غیر مفید اور خلفشار کا باعث ہوگا۔ ناروے کے نائب وزیر خارجہ آندریاس کراوک نے کہا کہ بین الاقوامی قانون شہریوں کو فوج کے زیر قبضہ علاقے سے زبردستی کسی دوسرے ملک میں جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ فلسطینی عوام کو خود ارادیت اور اپنی ریاست کا بنیادی، آزاد حق حاصل ہے۔ سوال یہ مصر اور اردن اس منصوبے سے انحراف کیوں کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصر اور اردن اس منصوبے کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھ ر ہے ہیں۔ مصر نے حماس اسرائیل جنگ کے اوائل میں بائیڈن انتظامیہ اور یورپی ممالک کی طرف سے اسی طرح کی تجاویز کو مسترد کر دیا تھا۔ اس سے قبل ایسی تجاویز نجی طور پر پیش کی گئی تھیں، جب کہ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاؤس کی ایک پریس کانفرنس میں اپنے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو سے فلسطینیوں مسترد کر دیا ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے نے اسرائیل امریکا کے وزیر دفاع نے کہا کہ ٹرمپ کے کے وزیر ٹرمپ کی کے ساتھ ہے ہیں کیا ہے غزہ کی کے لیے کہ غزہ جنگ کے

پڑھیں:

ٹرمپ کا ٹیرف پر خوش آئند اقدام

امریکی صدر ٹرمپ نے چین کے سوا دنیا کے باقی ممالک پر ٹیرف تین ماہ کے لیے معطل کردیا ہے، تاہم اس دوران ان ممالک پر 10فیصد ٹیرف عائد رہے گا جب کہ چین پر ٹیرف میں فوری اضافہ کرتے ہوئے 125 فیصد کردیا ہے۔

امریکی صدر کے ٹیرف معطل کرنے کے فیصلے کے فوری بعد دنیا بھر میں تیل اور اسٹاک مارکیٹوں میں زبردست تیزی دیکھنے میں آئی، جوابی کارروائی کرتے ہوئے یورپی یونین نے بھی امریکا پر25 فیصد محصولات کی منظوری دیدی جن پر 15 اپریل سے عمل درآمد ہوگا۔

 عالمی منڈیوں میں زبردست بحران کے سبب امریکی صدر نے بیشتر ممالک پر نوے دنوں کے لیے اضافی محصولات کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹرمپ کی انتہائی جارحانہ ٹیرف پالیسی اور پھر اس پر یوٹرن لینے کا اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ٹرمپ نے عالمی معیشت پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے بلیک میلنگ کی پالیسی اپنائی ہے لیکن جوابی وار کے طور پر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے دنیا بھر کے تمام ممالک نے شدید رد عمل دیا ہے۔

ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی اور مختلف ممالک کی جانب سے سخت رد عمل نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے؟ کیا ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی امریکی معیشت کو مضبوط کر پائے گی یا کساد بازاری میں مزید اضافے کا باعث بنے گی؟ کیا ٹیرف پالیسی امریکا کے بین الاقوامی تعلقات کو اس حد تک متاثر کرسکتی ہے کہ امریکا اپنے اتحادیوں سے الگ ہوکر تنہا بھی ہوسکتا ہے؟ وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا پہلے ہی دو مخالف کیمپوں میں بٹ رہی ہے۔

مغرب کے مقابلے میں چین، جسے بڑھتی ہوئی تعداد میں آمرانہ ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھلم کھلا اس نازک عالمی نظام کو مسترد کر رہی ہیں جسے ہم نے طویل عرصے سے یقینی سمجھ رکھا تھا، اگر یورپ اور امریکا ایک پیج پر نہ ہوئے، جب چین ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری برتری کے لیے امریکا کو چیلنج کر رہا ہے، تو یہ خارج از امکان نہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر پہنچ جائے۔ ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم ڈالر کو کمزور کرنے کے کسی بھی اقدام کی سختی سے مخالفت کرتی ہے،کیونکہ ڈالر امریکا کے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

برکس کے رکن ممالک کا امریکی ڈالر کو اپنے کاروباری لین دین میں استعمال کرنے سے انکار بالآخر امریکا کے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا کی جانب سے ممالک کو ڈالر کے استعمال پر مجبور کرنے کے لیے طاقت اور پابندیوں کا سہارا لینا مہنگا پڑے گا۔ ڈالر کئی ممالک میں اپنی ویلیو کھو چکا ہے اور اس کی مارکیٹ تیزی سے گر رہی ہے۔

برکس اتحاد کا دائرہ برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے علاوہ 6 نئے اراکین ( سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، مصر، ارجنٹائن، اور ایتھوپیا) تک پھیل چکا ہے جو دنیا کی تقریباً 45 فیصد آبادی کی نمائندگی کر رہے ہیں اور تقریباً دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا ایک تہائی ہے۔ یہ بلاک 36% زمینی رقبہ پر محیط ہے، جو اس کے وسیع جغرافیائی اور آبادیاتی اثر کو ظاہر کرتا ہے، جب کہ گروپ 7 کا حصہ آبادی اور زمین کے اعتبار سے بالترتیب تقریباً 9.7 اور 16.1 فیصد ہے۔

اقتصادی طور پر برکس 2023 میں تقریباً 30.8 ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ تیزی سے مغربی ممالک کے لیے ایک کاؤنٹر بلاک کے طور پر ابھرا ہے۔ اس کے علاوہ، اس بلاک میں دنیا کے تیل کے ذخائر کا تقریباً 44.4% ہے اور دنیا کی گندم کی پیداوار میں نمایاں حصہ (48.7%) ہے۔ یہ اثرات برکس کی معاشی طاقت اور قدرتی وسائل کو ظاہر کرتے ہیں جو موجودہ مغربی ورلڈ آرڈر کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، برکس کو دنیا میں ایک اہم اقتصادی اور سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس بلاک نے نہ صرف رکن ممالک کی اقتصادی ترقی کی سمت بلکہ امریکی بالادستی کے لیے ایک ممکنہ چیلنج کے طور پر کام کیا ہے۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم برکس کو عالمی اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں امریکی بالادستی کے لیے براہ راست خطرہ کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ بلاک امریکی ڈالر پر رکن ممالک کے انحصار کو کم کرنے، مقامی کرنسیوں کو مضبوط بنانے اور کثیر قطبی نظام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ برکس کے اہم ارکان میں سے ایک چین ہے، جسے ٹرمپ امریکا کے سب سے بڑے اقتصادی اور جیو پولیٹکل حریف کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ٹرمپ کی اپنی پہلی انتظامیہ کے دوران چین کے خلاف سخت تجارتی پالیسیاں، جیسے ٹیرف وار اور ٹیکنالوجی کی پابندیاں، چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے بارے میں ان کی تشویش کو ظاہر کرتی ہیں، چونکہ برکس میں چین کا مرکزی کردار ہے، اس لیے یہ تنظیم بھی بالواسطہ طور پر ٹرمپ کی دوسری صدارت میں ان کے حملوں کا نشانہ بنی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے ٹرمپ بخوبی سمجھ چکے ہیں وہ BRICS کے ساتھ زیادہ سنگین تصادم کا شکار ہوں گے، اس امید پرکہ شاید متضاد اتحادوں کو دھمکیاں دے کر منہدم ہوتی امریکی بالادستی کو بحال کیا جائے گا۔ ایک اور معاملہ ہے، خصوصی طور پر چین کی تجارت کا، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے اور اس ریلے کے سامنے امریکا بھی بے بس نظر آتا ہے۔

امریکا چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی طاقت کو روکنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے گا،کیونکہ چین نے جس انداز میں اپنی صنعت کو ترقی دی ہے اور جس طرح وہ کم لاگت کی مصنوعات تیارکرتا ہے اس کا مقابلہ امریکا سمیت دنیا کی کوئی اور طاقت نہیں کرسکتی، لہٰذا یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ چین کی بین الاقوامی تجارت خصوصی طور پر چین کا روس اور ایران کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنا ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مسلسل درد سر بنا رہے گا۔کووڈ 2019 سے لے کر امریکی معیشت مسلسل کساد بازاری کا شکار ہے سال 2023 میں جی ڈی پی گروتھ ریٹ 2.5 فیصد رہا جب کہ 2024 کے آخری کوارٹر میں یہ 2.0 فی صد رہ گیا۔

ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ سال 2025 میں جی ڈی پی کی شرح 2 فیصد سے کم ہوکر 1.5 فیصد رہ جائے گی۔ وال اسٹریٹ بینک نے اپنے کلائنٹس کو خبردار کیا ہے کہ آیندہ آنے والے مہینوں کے اندر امریکی معیشت 20 فیصد سے بڑھ کر 35 فیصد تک کساد بازاری کا شکار رہے گی۔ امریکا کی گرتی ہوئی معیشت اور ٹیرف کے خلاف مختلف ممالک کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ مختلف ممالک کی کمپنیاں ٹیرف ادائیگی کے برعکس امریکا کے اندر تجارتی لین دین سے گریز اختیار کرسکتی ہیں۔

 درحقیقت دوسرے ممالک جو بھی اقدام اٹھاتے ہیں، امریکا کی معیشت پر اس کا منفی اثر ہوگا۔ چین، جاپان اور جنوبی کوریا مزید ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ ان حالات میں چین سمیت مختلف ممالک کے ساتھ امریکا کی تجارت اگر رک جاتی ہے تو امریکی شہریوں کے لیے مختلف مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوجائے گا جس کے باعث امریکی جی ڈی پی میں نمایاں کمی آسکتی ہے، جب کہ دوسری طرف چین کی معیشت مزید بہتر ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ساری دنیا کا مال امریکا میں فروخت ہوتا ہے۔ ان حالات میں ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی امریکی معیشت میں بہتری لانے کی بجائے امریکا کے لیے مزید خطرات کو جنم دے سکتی ہے۔

اضافی ٹیکس عائد کرنے کا مطلب ہے کہ 60 فیصد تجارت ختم بھی ہوسکتی ہے۔ جس سے امریکا کے اندر مہنگائی کی ایک نئی لہر آسکتی ہے جو ساری دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، کیونکہ جوابا ٹیرف عائد کرنے پر امریکا نے پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ صورتحال دنیا کو ایک نئی معاشی جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ جس میں برکس ممالک کا رول مزید بہتر ہوکر سامنے آسکتا ہے، جہاں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی یورپ بھی برکس کی طرف جھکاؤ کرسکتا ہے۔

ڈبلیو ٹی او معاہدات کی ایک اہم شق یہ بھی ہے ٹیرف کو کم سے کم کیا جائے۔ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی ان معاہدات کی بھی نفی ہے۔کیا ’’ لبریشن ڈے‘‘ امریکی معیشت کی تباہی و بربادی کی بنیاد بھی بن سکتا ہے؟ ایسی رائے دینا قبل از وقت ہے تاہم حالات کا رخ تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی اور اگر رد عمل شدید آتا ہے جیسا کہ نظر آرہا ہے تو امریکی معیشت کا متاثر ہونا لازمی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ امریکا کے عالمی برادری کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں کیونکہ چین کا مقابلہ کرنے کی بجائے امریکا نے ساری دنیا کے خلاف محاذ بنا لیا ہے جس کا ممکنہ نتیجہ یہ سامنے آسکتا ہے کہ آیندہ چل کر امریکا اپنے اتحادیوں سے علیحدہ بھی ہوسکتا ہے، جس کے باعث دنیا نیو ورلڈ کے برعکس ایک نئے معاشی آرڈرکی طرف بڑھ سکتی ہے، دنیا کا معاشی نظام جس طرح سے چل رہا تھا۔ آگے بڑھتا دکھائی نہیں دے رہاہے، اگر دنیا نئے معاشی آرڈر کی طرف بڑھتی ہے تو یہ امریکی چودھراہٹ کے ورلڈ آرڈر کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔ کیا امریکا اور اس کے تھنک ٹینکس اتنی بڑی اسٹرٹیجک غلطی کرسکتے ہیں۔ اس بات کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔

متعلقہ مضامین

  • حافظ نعیم کا فلسطینیوں سے اظہاریکجہتی کیلئے ملک بھر میں 22 اپریل کو شٹرڈاون ہڑتال کا اعلان
  • ایران امریکہ مذاکرات
  • دنیا پر ٹرمپ کا قہر
  • مقبوضہ غزہ پٹی کے حوالے سے اسرائیل کے خفیہ مقاصد بے نقاب
  • جنگ، بھوک اور بیماریوں سے لڑتے اہل غزہ کو اسرائیل کہاں دھکیلنا چاہتا ہے؟
  • ملتان، جے یو آئی کے زیراہتمام مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاجی مظاہرہ 
  • مجلس وحدت مسلمین کے تحت فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے کراچی میں یوم احتجاج
  • فلسطینیوں کیساتھ کھڑے، فضل الرحمن: اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا، مفتی تقی عثمانی
  • فلسطینیوں کی غزہ سے جبری ہجرت کی تیاریاں شروع
  • ٹرمپ کا ٹیرف پر خوش آئند اقدام