حماس اور اسرائیل آج قیدیوں کا تبادلہ کرینگے
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
اسرائیل 18 ایسے فلسطینی قیدیوں کو رہا کریگا، جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ 54 ایسے قیدی جنہیں طویل مدتی سزائیں دی گئی ہیں جبکہ 111 قیدی جو غزہ کی پٹی سے 7 اکتوبر کے بعد گرفتار کیے گئے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیل کی جانب سے ہفتے کو مزید 183 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کی توقع ہے۔ حماس میڈیا آفس کے مطابق امکان ہے کہ اسرائیل آج کو مزید 183 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا جبکہ 3 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ اسرائیل نے حماس کی جانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کے نام ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ رہا کیے جانے والے 3 شہریوں کے نام مل گئے ہیں۔
اسرائیل 18 ایسے فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ 54 ایسے قیدی جنہیں طویل مدتی سزائیں دی گئی ہیں جبکہ 111 قیدی جو غزہ کی پٹی سے 7 اکتوبر کے بعد گرفتار کیے گئے تھے۔ "طوفان الاقصی” قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت، القسام بریگیڈز نے اعلان کیا ہے کہ وہ بروز ہفتہ، 08 فروری 2025ء کو درج ذیل صیہونی قیدیوں کو رہا کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی قیدیوں کو رہا
پڑھیں:
سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کیلیے فلسطینی ریاست کا مطالبہ
ریاض: سعودی عرب نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات اس وقت تک قائم نہیں کرے گا جب تک کہ ایک خودمختار فلسطینی ریاست قائم نہیں کی جاتی۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق سعودی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ “سعودی عرب فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتا ہے،فلسطین کے حوالے سے اس کا مؤقف غیر متزلزل ہے، ہم امریکی صدر کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں کہ سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ نہیں کر رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ریاست کے مؤقف کو “واضح اور غیر مبہم انداز میں” بیان کیا ہے، جس میں کسی بھی قسم کی غلط تشریح کی گنجائش نہیں ہے، فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کا کوئی بھی منصوبہ نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پورے عرب خطے کے لیے حساس مسئلہ ہے۔
خیال رہےکہ جب سے اکتوبر 2023 میں غزہ جنگ کا آغاز ہوا، فلسطینی ایک اور “نکبہ” یعنی تباہی کے خوف میں مبتلا ہیں، جیسا کہ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت ہزاروں فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔
واضح رہےکہ امریکا کئی ماہ سے سفارتی کوششوں میں مصروف تھا کہ سعودی عرب جو مشرق وسطیٰ کے سب سے طاقتور عرب ممالک میں سے ایک ہے، اسرائیل کو تسلیم کرے اور اس کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے تاہم غزہ جنگ کے بعد، ریاض نے اس عمل کو روک دیا کیونکہ اسرائیلی حملوں کے خلاف عرب ممالک میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔
ٹرمپ چاہتے ہیں کہ سعودی عرب بھی متحدہ عرب امارات اور بحرین کے نقش قدم پر چلے، جنہوں نے 2020 میں “ابراہیم معاہدوں” کے تحت اسرائیل کو تسلیم کیا اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کیے
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاکہناہے کہ امریکا غزہ کا کنٹرول سنبھالے گا اور فلسطینیوں کو کہیں اور بسانے کے بعد اس علاقے کو ترقی دے کر ایک جدید خطہ بنائے گا۔