ماہرین نے تھر میں سیاحت کو فروغ دینے کیلئے سفارشات پیش کردیں
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
ٹنڈوجام(نمائندہ جسارت) سندھ زرعی یونیورسٹی میں منعقدہ دوسرے تھر روایتی اور ثقافتی میلے کے دوران ماہرین نے تھر میں سیاحت کو فروغ دینے، مقامی شمولیت کے ساتھ مخصوص ثقافتی مراکز قائم کرکے تھر کے ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے بارش کے پانی کے ذخیرے کے انتظامات جنگلی حیات کے تحفظ جامعات کے ذریعے زرعی اور ماحولیاتی تحقیق اور دستکاری و چھوٹے کاروباروں کے ذریعے تھری خواتین کی حوصلہ افزائی سے متعلق سفارشات پیش کیں تفصیلات کے مطابق سندھ زرعی یونیورسٹی کی میزبانی میں اور تھر اسٹوڈنٹس کونسل کے تعاون سے تھر روایتی اور ثقافتی میلے کا انعقاد کیا گیاجس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا کہ تھر تاریخی روایات، ورثے، ثقافت اور فنون لطیفہ کا حسین امتزاج ہے تھر کی نامیاتی اجناس، زرعی و طبی پودوں اور دستکاری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جبکہ تھر میں پیدا ہونے والی غذائیت سے بھرپور زرعی اور ویٹرنری مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لیے میٹروپولیٹن شہروں تک رسائی ضروری ہے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سندھ اسمبلی کے رکن امداد علی پتافی نے کہا کہ سندھ زرعی یونیورسٹی سندھ کی زراعت اور زرعی تعلیم میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تھر میں بارانی زراعت میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے سندھ حکومت نے تھر کی ترقی کے لیے کوششیں کی ہیں سابق وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا کہ تھر معدنی، ثقافتی اور زرعی وسائل سے مالامال ہے تھر کی عورت مضبوط اور محنتی ہے تھر کے دستکاریوں کو فروغ دینے اور بغیر کیمیکل کے نامیاتی غذائی اشیاء کو کاروباری سطح تک پہنچانے کے لیے اداروں کو کردار ادا کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ تھر کی تری کیلئے تھر یونیورسٹی قائم کی جائے اورتھر ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی جائے ناموسماجی رہنما ناصر پنہور نے کہا کہ تھر کا موسمی ماحول تبدیل ہو رہا ہے ماحول دوست جھونپڑیوں کی جگہ سیمنٹ کے مکانات تعمیر ہو رہے ہیں جبکہ موروں کی ہلاکت اس بات کا ثبوت ہے کہ تھر کے ماحولیاتی نظام میں کوئی گڑبڑ ہے سماجی رہنما زاہدہ ڈیتھو نے کہا کہ تھر کو ایک خاس علاقہ قرار دے کر اس کی ترقی کے لیے اقدامات کیے جائیںیہاں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کوششیں تیز کی جائیں تاکہ تھر کی ترقی ممکن ہو سکے جبکہ خواتین کی ترقی کے لیے تعلیمی ادارے اور اسکل ڈیولپمنٹ سینٹر قائم کیے جائیں ڈائریکٹر یونیورسٹی ایڈوانسمنٹ اینڈ فنانشل اسسٹنس ڈاکٹر محمد اسماعیل کمبھر نے کہا کہ صوبے کا نصف سے زیادہ رقبہ تھر، اچڑو تھر، ناری، کوہستان اور کاچھو پر مشتمل ہے، ان علاقوں کے زرعی و معدنی وسائل پر تحقیق شروع کی جانی چاہیے تھر سے تعلق رکھنے والی سماجی رھنما اور سندھ زرعی یونیورسٹی کی سابق طالبہ پشپا کماری نے کہا کہ تھر کے عوام کے لیے تعلیم ہی واحد ذریعہ ہے، گزشتہ دس برسوں کے دوران ہزاروں تھری طلبہ جامعات میں اور بے شمار بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جا چکے ہیں اس موقع پر تھر اسٹوڈنٹس کونسل کے رہنما شنکر سنگھ سوڈھو نے مہمانوں کو خوش آمدید جبکہ امتیاز نور کمبھر نے تقریب کی نظامت کی اس تقریب میں مختلف فیکلٹیز کے ڈین ڈاکٹر عنایت اللہ راجپر، ڈاکٹر غیاث الدین شاہ راشدی، ڈاکٹر منظور ابڑو، جام غلام مرتضیٰ ہتو، سابق ایم پی اے فرحین مغل، اللہ بخش کمبھر، بھوانی شنکر سمیت ملک کے مختلف اسکالرز، محققین، ادیب، طلبہ، طالبات اور سماجی شخصیات نے شرکت کی اس دوران تھر میں زرعی، معدنی اور نامیاتی مصنوعات سے متعلق تکنیکی نشستیں بھی ہوئیں، جن میں ڈاکٹر اسحاق سمیجو، نور احمد جنجھی،ادریس جتوئی، ڈاکٹر فیاض لطیف چانڈیو، سکینہ ویسر، مقصود انور اور دیگر نے مباحثے میں حصہ لیا اس موقع پر تھری مصنوعات ورثے، تھری لباس، کتابوں اور زرعی اشیاء کی نمائش کے ساتھ ثقافتی و موسیقی کے پروگرام بھی منعقد کیے گئے تقریب کے اختتام پر ماہرین نے اپنی سفارشات پیش کیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سندھ زرعی یونیورسٹی کو فروغ دینے تھر میں کی ترقی کے لیے تھر کی تھر کے
پڑھیں:
ریڈ لائن منصوبہ سندھ حکومت کی نااہلی کی نذر، 79ارب کا منصوبہ 139ارب تک پہنچ گیا
کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) ایشیائی ترقیاتی بینک اور محکمہ ٹرانسپورٹ سندھ کے تحت2021ء میںشروع کیے جانے والا بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) ریڈ لائن منصوبہ ساڑھے 3 سال گزرنے کے باوجود تا حال نامکمل ہے، ملیر ہالٹ، ماڈل کالونی سے براستہ ائرپورٹ، صفورہ چورنگی، موسمیات، یونیورسٹی روڈ سے نمائش چورنگی تک بننے والے اس منصوبے کا ابتدائی تخمینہ79 ارب روپے تھا جو موجودہ ایکسچینج ریٹ کے مطابق 139 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس منصوبے پرریڈ لائن میٹرو چلنی ہے، 26 کلو میٹر طویل بی آر ٹی میں24 بس اسٹیشنز بنانے اور213 بسیں چلانے کا دعوی کیا گیا ہے تاہم ریڈ لائن منصوبے کا اب تک40 فیصد کا م بھی مکمل نہیں ہوسکا ہے، اس منصوبے کا کام کی سست روی کے باعث شہری منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے کرنے پر مجبور ہیں‘ یونیورسٹی روڈ پر کراچی کی3 سرکاری جامعات ہے، جس میں کراچی بھر سے بڑی تعداد میں طلبہ علم حاصل کرنے آتے ہیں، جبکہ گلشن اقبال، گلستان جوہر اور اسکیم33 میں کے مکینوں کا گزر بھی اسی سڑک سے ہوتا ہے جو لاکھوں کی تعداد میں روزانہ سفر کرتے ہیں۔ کراچی کے انفر ا اسٹرکچر کو بہتر طور پر جاننے والے ڈیموگرافر اور اربن پلانر عارف حسن کا بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) ریڈ لائن منصوبے کے حوالے سے کہنا ہے کے بی آر ٹی ریڈ لائن پروجیکٹ میں پلاننگ کا شدید فقدان نظر آتا ہے ان کا کہنا ہے کہ بی آر ٹی بڑی تعداد میں لوگوں کو فائدہ نہیں دے سکیں گی اس کی جگہ ہر روٹ پر بڑی بسوں کو لا کر شہریوں کو سفر کی بہتر سہولیات فراہم کی جا سکتی تھی، ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں بسیں ہونی چاہییں‘ بسوں کے بہت فوائد ہیں جو بی آر ٹی کے نہیں ہیں‘ بسیں ہر جگہ جا سکتی ہے بی آر ٹی کہ مخصوص لین ہے اور وہ وہیں چل سکتی ہے یہ منصوبہ ایک جا پانی ماسٹر پلان کا حصہ ہے جس کے تحت یہ بنائی گئی ہے اور یہ بہت مہنگا ماسٹر پلان ہے ہم کس طرح سے اس کے قرضے واپس کریں گے ہمیں نہیں پتا‘ بسیں سستی بھی ہوتی ہے بڑے اور لمبے روٹس پر بھی چل سکتی ہیں اور آسانی سے ان میں اضافہ بھی ہوتا جاتا ہے اس میں نئے روٹس کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے، عارف حسن نے مزید کہاکہ سندھ حکومت کی ترجیح عوام نہیں ہے تبھی اس پروجیکٹ کو اب تک مکمل نہیں کیا گیا ہے۔ یہ جو ریڈ لائن ہے یہ ساری کی ساری اپ گریڈ ہونی تھی مگر کچھ حصے اس کے اپ گریڈ نہیں ہیں یہ بھی غلط ہے جو کہا گیا تھا کہ اپ گریڈ ہوگی اس کا ایک پروپوزل بھی بنایا گیا تھا کہ اس میں27 اور لائنیں شامل کریں گے لیکن تاحال اب تک اس میں ایک لائن بھی شامل نہیں کی جاسکی ہے اور جو وعدہ کیا گیا تھا ان کو پورا بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔2001 سے 2005 تک شہری حکومت میں ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ رہنے والے قاضی صدر الدین نے کہا ہے کہ ریڈ لائن منصوبہ اس وقت شہریوں کے لیے وبال جان بن چکا ہے ریڈ لائن منصوبے سے ارد گرد کے رہنے والوں کو نہ صرف شدید پریشانی ہے بلکہ یہ کراچی کی ایک مین سڑک جس پر تین سے چار یونیورسٹیاں واقعہ ہے جس میں بڑی تعداد میں طلبہ و طالباتسفر کرتے ہیں اور ان کی کیا حالت ہوتی ہے جب وہ اپنے تعلیمی ادارے میں جاتے ہیں یا جب وہاں سے وہ واپس گھر اتے ہیں تو اصل میں ویژن کی کمی ہے اور کوئی ایسی سوچ نہیں ہے کوئی ایسی پلاننگ نہیں ہے جس کے نتیجے میں شہریوں کو سہولت دی جائے اس پروجیکٹ کی تعمیر کا بڑا حصہ گلشن اقبال میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک بی آر ٹی گرین لائن کا منصوبہ بھی نامکمل ہے اس ٹریک پر اب بھی ٹریفک کے مسائل موجود ہیں جبکہ اسی دوران خطیر رقم سے بی آر ٹی ریڈ لائن کی تعمیر شروع کر دی گئی اور لوگوں کو متبادل راستہ فراہم نہیں کیا گیا ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ سوچے سمجھے بغیر یہ پروجیکٹ بنایا جا رہا ہے جو کہ کسی صورت کراچی کے شہریوں کو سفری سہولت فراہم نہیں کرسکے گا ہے۔ گلشن ٹاؤن کے چیئرمین ڈاکٹر فواد احمد کا کہنا ہے کہ ریڈ لائن منصوبے سے گلشن اقبال کی رہائشی بالخصوص اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ مین یونیورسٹی روڈ اس وقت ایک پتلی گلی میں تبدیل ہوگئی ہے تعمیرات کے دوران کئی دفعہ پانی کی لائنیں بھی خراب ہوئی جس کے سبب رہائشی کئی دنوں تک پانی کی فراہمی سے محروم رہے جو بی آر ٹی ا ریڈ لائن جس کو ہم کہتے ہیں یونیورسٹی روڈ سے گزر رہی ہے یہ عوام کے لیے عملاً اذیت کا باعث بن چکی ہے اور خاص طور سے گلشن ٹاؤن کے رہنے والے تو مستقل ایک اذیت کا شکار ہیں کہ اس کی تعمیر کے دوران اب تو شاید گنتی بھی یاد نہیں ہوگی کہ کتنی بار سیوریج کی لائنیں ٹوٹی ہیں کتنی دفعہ پینے کے پانی کی لائنیں ٹوٹی ہیں یونیورسٹی روڈ پر کراچی یونیورسٹی این ای ڈی اردو یونیورسٹی سر سید یونیورسٹی ایک لائن ہے جامعات کی ہے اس سے گلشن ٹاؤن کے بچے متاثر ہورہے ہیں، اپنی یونیورسٹی میںان کلاسیں تاخیر ہو جاتی ہیں بچے امتحان میں لیٹ ہو جاتے ہیں گھر پہنچنے میں لوگوں کو تاخیر ہو رہی ہے پھر روڈ پر ٹریفک جام کی وجہ سے جو اذیت ہے وہ ایک الگ ہے اور اس کے علاوہ پھر جب یہ یوٹیلٹیز تباہ ہو رہی ہیں تو اس کے نتیجے میں جو پریشانی اور تکلیف سے عوام گزر رہی ہے۔