ملک بھر میں 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد 16 ویں قومی اسمبلی کی تشکیل ہوئی، جس کے بعد مارچ 2024 میں سینیٹ کے انتخابات کا بھی انعقاد ہو گیا تھا، عام انتخابات میں کسی بھی جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہوسکی تھی، پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل نے سب سے زیادہ 82، مسلم لیگ ن نے 75، پیپلز پارٹی نے 54 جبکہ ایم کیو ایم نے 17 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن 2024: فافن کی تہلکہ خیز رپورٹ منظر عام پر آگئی

کسی بڑی جماعت کو اکثریت میں نشستیں نہ ملنے کی وجہ سے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور بلوچستان کی کچھ پارٹیوں نے مل کر حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا، قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس 29 فروری 2024 کو منعقد ہوا، پہلے اسپیکر، پھر ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کا عمل ہوا اور پھر قومی اسمبلی نے اپنا قائد ایوان یعنی وزیراعظم پاکستان کا انتخاب کیا اور 3 مارچ 2024 کو شہباز شریف پاکستان کے 24ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے۔

عام انتخابات کے بعد پہلے سال میں قومی اسمبلی کے مجموعی طور پر 12 اجلاس طلب کیے گئے، قومی اسمبلی نے سب سے اہم 26 ویں آئینی ترمیم منظور کی جبکہ اس کے علاوہ 60 سے زائد بل اور 38 ایکٹ بھی منظور کیے گئے، اس سال سینیٹ کے 10 اجلاس طلب کیے گئے جن میں 26ویں آئینی ترمیم کے علاوہ 55 بل منظور کیے گئے۔

مخصوص نشستوں کی تقسیم نہ ہوسکی

عام انتخابات کے بعد سب سے اہم مرحلہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کا تھا، سنی اتحاد کونسل یعنی کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ بھی گئی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا، معاملہ سپریم کورٹ گیا،فیصلہ بھی آیا لیکن ایک سال گزرنے کے بعد اب تک بھی قومی اسمبلی کی 23 مخصوص نشستیں کسی بھی جماعت کو دینے کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔

پی ٹی آئی کے احتجاج اور فائنل کال

بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیں، جن کی رہائی کے لیے پی ٹی ائی نے گزشتہ سال میں مختلف اوقات میں اسلام اباد کا رخ کیا اور  احتجاج اور دھرنوں کا اعلان کیا تاہم یہ عمل عمران خان کو رہائی نہ دلا سکا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، فیصل واوڈا کا دعویٰ

 24 نومبر کو عمران خان کی رہائی کے لیے ایک فائنل کال دی گئی، پہلی مرتبہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ہمراہ اسلام آباد آنے والے قافلے میں شریک تھیں، قافلہ 2 دن تک مختلف مقامات پر رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے اسلام آباد داخل ہوا اور 26 نومبر کو پی ٹی آئی کارکنان نے ڈی چوک کا قبضہ بھی حاصل کر لیا۔ تاہم بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور ڈی چوک سے صرف چند میٹرز کے فاصلے پر کھڑے رہے بعد ازاں پولیس اور رینجرز کی جانب سے شیلنگ اور اپریشن کے بعد ڈی چوک کو خالی کرا دیا گیا اور علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی دھرنے کے مقام سے خیبرپختونخوا فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اس سے پہلے بھی علی امین گنڈاپور اسلام آباد پہنچ کر خیبرپختونخوا ہائوس میں چھپ گئے تھے اور بعد ازاں وہاں سے فرار ہو گئے تھے۔

حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات

پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات کے فوری بعد سے اس حکومت کو تسلیم نہ کرنے اور کسی بھی قسم کے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کر رکھا تھا، حکومت بھی ملاقات میں سنجیدہ نہ تھی، وزیراعظم شہباز شریف نے 22 دسمبر کو پی ٹی ائی سے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے خود اپنی سربراہی میں کمیٹی کے اجلاس طلب کیے اور مذاکرات کے دور کو اگے بڑھایا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے ایک بار پھر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دے دی

 پی ٹی آئی نے مذاکراتی کمیٹی کے طلب کرنے کے باوجود اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش نہ کیے، کمیٹی کے تیسرے اجلاس میں پی ٹی آئی نے 9 مئی اور 8 فروری کے معاملات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا جس پر حکومتی کمیٹی نے 7 روز کا وقت مانگا، تاہم چند دن گزرنے کے بعد ہی پی ٹی آئی نے مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیا اور کہا کہ جب تک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہیں ہوجاتی ہم مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے۔

 اس طرح مذاکراتی کمیٹی کا بھی اجلاس ہوا اور پی ٹی آئی کی عدم شرکت کے بعد اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ اب مذاکرات کو بڑھانے کے کوئی مقصد نہیں ہے، البتہ یہ کمیٹی اور میرا آفس اپوزیشن کے لیے ہر وقت دستیاب ہے۔

قومی اسمبلی کے پہلے سال میں بہت سی اہم قانون سازی کی گئی۔

ٹیکس قوانین ترمیمی بل

قومی اسمبلی نے 29 اپریل کو ٹیکس قوانین ترمیمی بل منظور کیا تھا جس کا ہدف ملک بھر میں ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا ہے، اس بل میں نان فائلرز پر بہت سی پابندیاں لگی تھیں جبکہ سیلز ٹیکس جمع نہ کروانے والے دکانداروں، صنعتکاروں اور تاجروں کے لیے بھی سختیاں بڑھائی گئیں۔

الیکشن ایکٹ ترمیمی بل

قومی اسمبلی اور سینیٹ نے 6 اگست کو اپوزیشن کے شدید احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے دوران کثرت رائے سے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور کیا تھا، یہ بل انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس کے ذریعے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کا فیصلہ ہونا تھا۔ اس بل میں قرار دیا گیا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہوگا اور کسی بھی امیدوار کی جانب سے مقررہ مدت میں ایک مرتبہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اظہار ناقابل تنسیخ ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت آصف زرداری نے الیکشن ترمیمی بل 2024 کی منظوری دیدی

بل میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی فہرست مقررہ وقت یعنی 3 روز میں جمع نہیں کراتی تو وہ پارٹی بعد میں مخصوص نشستوں کے کوٹے کی اہل نہیں ہوگی، اس کے علاوہ اگر ایک آزاد رکن ایک مرتبہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو وہ کسی اور جماعت میں شامل نہیں ہوسکتا۔

26ویں آئینی ترمیم

حکومت اور اتحادیوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے کئی ماہ کوششیں کیں تاہم وہ منظور نہیں ہو پا رہی تھی جس کے بعد 20 اکتوبر کو اتحادیوں اور مولانا فضل الرحمان سمیت اپوزیشن کے کچھ اراکین کی حمایت سے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کر لی گئی اور آئینی بینچ کا قیام بھی عمل میں آیا۔

 اس ترمیم میں جے یو آئی کی جانب سے تجویز کردہ ترمیم میں کہا گیا تھا کہ سود کو جنوری 2028 تک ملک سے مکمل طور پر ختم کردیا جائے گا۔

آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی سے متعلق آرٹیکل 175 اے میں تبدیلی کی گئی اور قرار دیا گیا کہ سپریم جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے 4 سینیئر ججز اور اتنے ہی اراکین پارلیمنٹ بھی ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی سے بھی 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور

اس کے علاوہ چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی کی گئی کہ سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی بجائے 3 نام اس پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے اور کمیٹی ایک کو چیف جسٹس لگانے کی سفارش کرے گی۔

آئینی ترمیم میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی مدت کو 3 سال کر دیا گیا، ترمیم میں از خود نوٹس کے اختیار سے متعلق قانون میں ترمیم کی گئی ہے اور قرار دیا گیا کہ سپریم کورٹ کسی بھی معاملے میں نہ کوئی ازخود نوٹس لے سکتی ہے اور نہ کسی ادارے کو کوئی ہدایت دے سکتی ہے۔

فوجی سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال

قومی اسمبلی نے 5 نومبر کو فوجی سربراہان کی مدت ملازمت بڑھانے کا بل منظور کیا جس کے بعد اب آرمی چیف سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت کو 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کردیا گیا ہے۔ اسی روز سپریم کورٹ کے ججوں کے تعداد کو 17 سے بڑھا کر 34 اور ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد کو 9 سے بڑھا کر 12 کرنے کا بل بھی منظور کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

26 نومبر 8 فروری we news آئینی ترمیم انتخابات پاکستان پی ٹی آئی پیپلز پارٹی سینیٹ انتخابات عمران خان قومی اسمبلی مخصوص نشستیں مذاکرات مسلم لیگ ن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انتخابات پاکستان پی ٹی ا ئی پیپلز پارٹی سینیٹ انتخابات قومی اسمبلی مخصوص نشستیں مذاکرات مسلم لیگ ن پاکستان تحریک انصاف عام انتخابات کے ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی نے مخصوص نشستیں مخصوص نشستوں سیاسی جماعت سپریم کورٹ پی ٹی ا ئی منظور کیا جس کے بعد علی امین منظور کی کے علاوہ چیف جسٹس مسلم لیگ کیے گئے دیا گیا کورٹ کے کسی بھی نہیں ہو نے والے کی مدت کی گئی گیا کہ کے لیے

پڑھیں:

’’احتجاج سب کا حق ہے، جلسہ احتجاج کا حصہ نہیں ہوتا‘‘

لاہور:

گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ 8 فروری ایک سال پہلے ہواتھا باقی چیزیں اب ہو رہی ہیں جیسے نیوزی لینڈ کا میچ ہے، یہ ایک سال پہلے فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ 8 فروری کو ہونے والا ہے۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ترکیہ کے صدر اردوان کا دورہ بھی سال پہلے فائنل نہیں ہوا تھا یہ بھی اس کے بہت بعد میں ہوا ہے 8 فروری تو ہو چکا، اگر وہ اس دن احتجاج کر رہے ہیں تو اس میں ہرج کیا ہے؟

تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا یہ بات صحیح ہے کہ احتجاج سب کا حق ہے ، جلسہ احتجاج کا حصہ نہیں ہوتا، جلسہ تو ایک عوامی اجتماع ہوتا ہے، اگر حکومت تحریک انصاف کو جلسہ کرنے دے اور کسی قسم کی پابندیاں نہیں لگائے تو کسی قسم کا بھی احتجاج نہیں ہو گا۔

تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ میں نے کل بھی خواجہ آصف کے ٹویٹ کا حوالہ دیکر یہی بات کہی تھی کہ جب کچھ ایسا ہونے لگتا ہے پی ٹی آئی سڑکوں پر ہوتی ہے،8 فروری محض اتفاق والی بات ہے کہ احتجاج کا بھی دن ہے اور نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کا بھی دن ہے، احتجاج آگے پیچھے ہو سکتا تھا۔

تجزیہ کار خالد قیوم نے کہا کہ چیمپیئنز ٹرافی کے انعقاد کے حوالے سے انڈیا کی طرف سے پاکستان کے خلاف جو زہریلا پراپیگنڈا کیا جا رہا تھا اور ان کی طرف سے بین الاقوامی سطح پرآواز اٹھائی جا رہی تھی کہ وہاں پر تو کنکریٹ کے ڈھیر ہیں میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑا پیغام ہے کہ کل وزیر اعظم اسٹیڈیم کا افتتاح کرنے جا رہے ہیں۔

تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ ان کو احتجاج نہ کرنے دیا جائے ان کو منع بھی کیا ہے ان سے درخواست بھی کی ہے اسی لیے پی ٹی آئی عدالت گئی،لاہور میں2 ایونٹ ہونے جا رہے ہیں۔

پولیوایکسپرٹ ڈاکٹر کلیم اختر نے کہا کہ گورنمنٹ اور ہماری پولیو ختم کرنے کی پوری کوشش ہے، میڈیا کمپینز بھی ہوتی ہے، پولیو نہ ختم ہونے کی کئی وجوہات ہیں سب سے بڑی چیز والدین کے مفروضے اور غلط فہمیاں ہیں جن کی وجہ سے انکاری ہوتے ہیں اور بچوں کو حفاظتی خوراک نہیں پلاتے اس لیے ہمیشہ ویکسنیشن میں تھوڑا خلا رہ جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • قومی اسمبلی کا اجلاس 10 فروری کو شام 5 بجے طلب
  • قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی کا اجلاس 10 فروری کو طلب کرلیا
  • عام انتخابات کے انعقاد کو ایک سال مکمل
  • قومی اسمبلی کا اجلاس 10 فروری کو طلب
  • ’’احتجاج سب کا حق ہے، جلسہ احتجاج کا حصہ نہیں ہوتا‘‘
  • الیکشن 2024 میں دھاندلی سے متعلق غیر سرکاری تنظیم ’پتن‘ کے اہم انکشافات
  • گزشتہ انتخابات میں ہیرا پھیری، جبر و دھاندلی کے 64 نئے ذرائع کا استعمال کیا گیا، پتن رپورٹ میں انکشاف
  • دہلی اسمبلی انتخابات کی ووٹنگ ختم، اب نتائج کیلئے 8 فروری کا انتظار
  • پیشوں کو ذات یا قومیت سے منسلک کرنے پر پابندی کا بل قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع