عمران خان، 8 فروری اور ’دیوار چین‘
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
صدیوں پرانی ایک دیسی حکایت چلی آ رہی ہے کہ گھر والوں سے ناراض ہو کر ایک شخص گاؤں چھوڑ کر چلا گیا، کوئی کام ڈھنگ سے کرنا جانتا نہ تھا اس لیے کچھ ہی دنوں میں بیروزگاری اور فاقوں سے تنگ آ کر واپس گاؤں کی راہ لی، گاؤں کے مضافات میں پہنچ کر روایتی دیہاتی عزت آڑے آ گئی کہ گھر چھوڑتے وقت بڑے بلند بانگ دعوے کیے تھے، اب کس منہ سے بن بلائے واپس جائے، اسی دوران کیا دیکھتا ہے کہ ان کی خاندانی چراگاہ سے گائے، بھینس اور بکریوں کا ریوڑ واپس گھر جا رہا تھا، وہ بھی ساتھ ہو لیا اور گھر کے گیٹ کے قریب پہنچ کر ایک گائے کی دم پکڑ لی اور اس کے پیچھے پیچھے چلتا گھر میں داخل ہوا اور شور مچا دیا، ’میرا تو واپسی کا ارادہ نہیں تھا یہ گائے مجھے اپنی دم میں پھنسا کر گھسیٹتے ہوئے زبردستی واپس گھر لے آئی ہے‘۔
یہ حکایت ہمیں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی طرف سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو لکھے گئے کھلے خط پر بے اختیار یاد آ گئی کہ جس میں موصوف نے لکھا ہے کہ ملک بھی میرا، فوج بھی میری ہے۔ نہ جانے کیوں فوج بھی میری ہے والی حقیقت پچھلے 2، 3 برس ان کی آنکھوں سے اوجھل کیوں رہی کہ جب وہ پوری شدت سے افواج پاکستان اور اس کی قیادت کیخلاف عوام کو اشتعال دلانے والے بیانیے پر مبنی سوشل میڈیا مہم چلاتے رہے اور اپنے قتل کی کوشش کے من گھڑت الزامات کے ذریعے سادہ لوح عوام کو اتنا جذباتی کر دیا کہ وہ پھر 9 مئی کی ان کی سوچی سمجھی سازش کا ایندھن بن کر فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر چڑھ دوڑے، اسی پر بس نہیں کیا گیا، 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات میں اپنی شکست کے بعد دھاندلی کا بیانیہ لانچ کرتے ہوئے بھی انہوں نے اسی فوج پر گھناؤنے الزامات لگائے جس کے بارے میں اب اچانک انہیں یاد آ گیا ہے کہ یہ فوج بھی میری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کام شیطانی بیانیہ اسلامی
عالم اسلام کے سب سے بڑے صوفیا کرام میں شامل حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کے کلام سے ماخوذ شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی ایک نظم ’تقدیر‘ میں ایک خطرناک شیطانی حیلے بہانے کا پردہ چاک کیا گیا ہے، یہ نظم ابلیس اور یزداں میں ایک چھوٹے سے مکالمے کی صورت میں لکھی گئی ہے۔ ابتدا ابلیس کے مکالمے سے ہوتی ہے، اور وہ کہتا ہے۔
اے خدائے کُن فکاں! مجھ کو نہ تھا آدم سے بَیر
آہ! وہ زندانیِ نزدیک و دُور و دیر و زُود
حرفِ “اِستکبار” تیرے سامنے ممکن نہ تھا
ہاں، مگر تیری مشیّت میں نہ تھا میرا سجود
پھر یزداں ( خدائے رحمٰن و رحیم) کی طرف سے اس کا جواب آتا ہے
کب کھُلا تجھ پر یہ راز، انکار سے پہلے کہ بعد؟
اس پر اِبلیس جواب دیتا ہے
بعد، اے تیری تجلّی سے کمالاتِ وجود!
اس پر یزداں فرشتوں کی طرف دیکھ کر فرماتا ہے
پستیِ فطرت نے سِکھلائی ہے یہ حُجتّ اسے
کہتا ہے “تیری مشیّت میں نہ تھا میرا سجود”
دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام
ظالم اپنے شُعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دُود!
شاعر مشرق اپنی اس تاریخی نظم میں یہ نکتہ بیان فرماتے ہیں کہ پستی فطرت کی وجہ سے شیطان نما انسان اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے اس کے مختلف جواز تراشنے لگتے ہیں، بانی پی ٹی آئی بھی اپنے سیاسی سفر کی پست ترین گھاٹیوں میں پھنس کر رہ گیا ہے اور اس گڑھے سے باہر نکلنے کے لیے اب ریاست کو مخاطب کرکے اپنائیت کے اظہار کے لیے خط لکھ رہا ہے، ان سے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ آپ پر یہ راز کب کھلا کہ یہ فوج بھی میری ہے، کس انکار سے پہلے یا بعد، یعنی 9 مئی کے بعد، 8 فروری کے بعد یا 26 نومبر کے بعد، کیونکہ ان کے انکاروں کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔
اپنی منکرانہ سوچ کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی نے ریاست پاکستان کی ہر اس حقیقت کا انکار کیا جو کئی عشروں تک راج نیتی کی کشمکش میں اپنے آپ کو بطور ’ہارڈ کور‘ منوا چکی ہے، یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں ایک ’دیوار چین‘ ہوتی ہے، جسے عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں، سمجھدار لوگ تو کسی عام دیوار سے بار بار سر نہیں ٹکراتے لیکن بانی پی ٹی آئی کی عقل کا ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ان کا پاگل پن اتنا بڑھا ہوا تھا، کہ بار بار ’دیوار چین‘ کو ٹکریں مارے جا رہے ہیں، نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ اب نڈھال ہو کر ’ملک بھی میرا، فوج بھی میری‘ جیسے خط لکھ کر ’رحم کی اپیل‘ کر رہے ہیں، لیکن اس رحم کی اپیل میں ایک ٹیکنیکل فالٹ ہے، اور وہ یہ ہے کہ برطانیہ سے پاکستان تک دنیا کے ہر ملک میں رحم کی اپیل کرنے پر سزا میں رعایت اسی مجرم کو ملتی ہے کہ جو اپنے قصور، اپنے جرم اور اپنی غلطی کو تسلیم کرے، ابلیس کی طرح اپنے حرف انکار کا ملبہ مشیت ایزدی پر نہ ڈالے۔
بانی پی ٹی آئی نے 8 فروری کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کے بعد نہ صرف اپنا اور اپنی پارٹی کا نقصان کیا بلکہ ملک، جمہوریت، آئین، قانون اور 25 کروڑ عوام سب اس حرف انکار سے شروع ہونے والی کشمکشِ کے متاثرین میں شامل ہیں، جب آپ اپنے ہی ملک اپنی ہی ریاست کے خلاف جنگ شروع کر دیتے ہیں تو پھر تمام ریاستیں درپیش صورتحال سے جنگی بنیادوں پر ہی نمٹتی ہیں۔
اپنی پہاڑ جیسی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے بانی پی ٹی آئی نے ایک بار پھر 8 فروری کو احتجاج کی کال دیدی ہے، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے عوام نے تو اب بار بار دی جانے والی ان کالز پر نکلنا چھوڑ دیا ہے، خیبرپختونخوا میں چونکہ پی ٹی آئی کی حکومت ہے اس لیئے وہاں کے ارکان اسمبلی کی مجبوری ہے کہ اپنی صوبائی حکومت کے احکامات کو بجا لائیں اور اپنے حلقہ انتخاب کے عوام، خاص طور پر نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر اس آگ کا ایندھن بنائیں جس میں وہ پہلے بھی کئی بار جل چکے ہیں۔
پرتشدد احتجاج کو روکنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کو متحرک کرنا حکومت کی مجبوری ہے اس لیے ایک بار پھر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی والے ابھی سابقہ احتجاجی مظاہروں میں پکڑے جانے والے اپنے کارکنوں کو رہا کروا نہیں سکے اب ایک نئی کھیپ کو گھروں سے لا کر تھانوں کے حوالات اور جیلوں کے سپرد کریں گے اور چند ماہ مزید اس نئی ’مظلومیت‘ کا ڈھنڈورا پیٹیں گے۔
اب یہ صاف نظر آنے لگ گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے ہر چند ماہ بعد احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنا اپنی شیطانی سیاست کا ایک ہتھیار بنا لیا ہے تاکہ نہ حکومت سکون سے اپنا کام کر سکے اور نہ ہی افواج پاکستان یکسو ہو کر دہشت گردی کی جنگ سے نمٹ سکیں۔
خیبرپختونخوا میں اس بار ایک نیا چورن بیچنے کی کوشش کی بھی جا رہی ہے کہ سابقہ احتجاج وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی وجہ سے ناکام ہوئے، اس بار قیادت جنید اکبر خان کے پاس ہو گی اس لیے اب کی بار ’دیوار چین‘ کی خیر نہیں، گویا جنید اکبر خان نہ ہوا، جیمز بانڈ یا آئرن مین ہو گیا۔
مزید پڑھیے: چین کا عالمی ریل اینڈ روڈ طلسم ہوشربا اور اپنا کفران نعمت
جیمز بانڈ اور آئرن مین بھی صرف ہالی ووڈ کی فلموں میں ناقابل یقین کارنامے انجام دے سکتے ہیں، عملی زندگی میں امریکا، روس، چین سمیت دنیا کے ہر ملک کی اسٹیبلشمنٹ وہاں کی ’دیوار چین‘ ہے اور جس کسی نے اس سے سر ٹکرایا، اس کا انجام ناخوشگوار ہی ہوا۔
عقل مند انسان وہ ہے کہ جو خود تجربے کی بھٹی کا ایندھن بننے کی بجائے خود سے پہلے اس بھٹی میں جلنے والے دوسروں کے انجام سے سبق سیکھے۔ بانی پی ٹی آئی تو پےدرپے ناکامیوں کی وجہ سے ہوشمندی سے کام لینے کے قابل نہیں رہے اس لیے اب ان کی پارٹی کی قیادت کو چاہیے کہ وہ ہی ہوش کے ناخن لے، اپنے آپ پر، اپنے کارکنوں پر، اپنے ملک پر اور 25 کروڑ عوام پر رحم کھائے اور ایک بار پھر ’دیوار چین‘ میں سر مارنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا رمی چیف جنرل سید عاصم منیر عمران خان خط بنام ا رمی چیف بانی پی ٹی آئی نے فوج بھی میری ہے دیوار چین کی وجہ سے میں ایک کے لیے کے بعد گیا ہے نہ تھا اس لیے
پڑھیں:
شیر اپنی کچھار سے باہر نکل آیا؟
محمد حنیف صاحب ہمارے ملک کے عالمی شہرت یافتہ ناول نگار ہیں۔ انھیں ادب میں بین الاقوامی شہرت اس لیے ملی ہے کیونکہ اُن کے ناول انگریزی زبان میں لکھے گئے ہیں۔ ایک ناول تو اُن کا پاکستان میں ممنوع بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ موصوف ایک برطانوی نشریاتی ادارے کے لیے اُردو میں کالم بھی لکھتے ہیں اور اسی ادارے کے لیے پنجابی زبان میں ویلاگ بھی کرتے ہیں۔
اُن کی پنجابی سُن کر ہمیں تو رشک آتا ہے کہ کاش ہم بھی اُن ایسی پنجابی لکھ اور بول سکتے !محمد حنیف صاحب نے گزشتہ روز غیر ملکی صحافتی ادارے کے لیے لکھے گئے اپنے کالم (بعنوان: منیر نیازی پر پیکا لگائیں) میں طنزیہ (Satirical) انداز میں یوں لکھا:’’اور وہ جو منیر نیازی کی ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہُوں‘‘ والی نظم ہے ۔اِس میں ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے بزرگ سیاستدان ، نواز شریف، کا مذاق نہیں اُڑایا گیا؟۔‘‘
مذکورہ صاحبِ کالم نے نواز شریف بارے ملفوف طنز کرتے ہُوئے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ’’ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں۔‘‘دیر سے بولتے ہیں ۔ دیر سے سیاسی بیان دیتے ہیں ۔حالانکہ حقیقی طور پر ایسا نہیں ہے ۔ ویسے زیادہ بول کر اور ہر بات پر بول کر بانی پی ٹی آئی نے کیا کھٹ ، کما لیا ہے ؟نواز شریف کم بولتے ہیں ، مگر تول کر بولتے ہیں ۔
اُن کی زبان سے ادا ہونے والے کم الفاظ بھی قومی میڈیا میں شہ سرخیوں سے شایع اور نشر ہوتے ہیں ۔ اِسی سے ہم اُن کی شخصیت اور ادا کیے گئے الفاظ کی اہمیت اور حیثیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ وہ بانی پی ٹی آئی کے دَور میں، بیماری کی حالت میں، لندن جا براجے اور وہاں چند سال مقیم رہے ۔ تب بھی کم کم بولتے سنائی دیے۔ کبھی کبھار اپنے صاحبزادگان کے دفاتر میں داخل ہوتے اور وہاں سے نکلتے وقت مقامی لندنی پاکستانی صحافیوں سے چند الفاظ کا تبادلہ کر لیا کرتے تھے۔
نواز شریف فروری 2024کے انتخابات سے چند ماہ قبل پاکستان آئے تو بھی کم کم بولے۔ البتہ لاہور کے مینارِ پاکستان کے جلسے میں وہ خوب بولے۔ فروری کے انتخابات کے نتائج اُن کے حسبِ منشا برآمد نہ ہُوئے تو میاں محمد نواز شریف کو چُپ سی لگ گئی۔ وہ، اُن کے برادرِ خورد،اُن کی صاحبزادی اور اُن کا بھتیجا بھی ارکانِ اسمبلی منتخب ہو گئے تھے مگر نون لیگ بحیثیتِ مجموعی فاتح جماعت نہ بن سکی ۔یہ منظر نواز شریف کا دل توڑنے کے لیے کافی تھا ۔
وہ خود چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی آرزُو پوری نہ کر سکے ۔ انتخابات میں اُن کی پارٹی کو جو دھچکے پہنچے، یہ بھی اُن کی دلشکنی کے لیے کافی تھے۔ اُن کے برادرِ خورد وزیر اعظم بن گئے اور اُن کی صاحبزادی نے پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے کا پہلا اعزاز حاصل تو کر لیا مگر نواز شریف خاموشی کی کچھار اور غار میں پناہ گیر ہو گئے ۔اُن کے مخالفین اُن کی خاموشی کا مضحکہ اُڑاتے ہیں ، مگر اُن کے عشاق اُن کی خاموشی اور کم گوئی کو اُن کی بزرگی اور تدبر و تحمل سے موسوم و معنون کرتے ہیں۔ نون لیگ کے وابستگان توقع رکھتے ہیں کہ نواز شریف زیادہ بولیں اور لوگوں سے زیادہ سے زیادہ میل ملاقاتیں کریں تاکہ نون لیگ کو حیاتِ نَو ملے ۔ نواز شریف مگر بادشاہ ہیں ۔ اب بادشاہ کو بولنے اور لب کشائی پر کون مجبور کر سکتا ہے ؟
اپریل2025کے دوسرے ہفتے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ، ڈاکٹر عبدالمالک، نے اپنے بلوچ وفد کے ساتھ نوازشریف سے جاتی عمرہ میں تفصیلی ملاقات کی توگویا بعض حلقوں کے سوکھے دھانوں پر پانی پڑ گیا۔ڈاکٹر مالک نے ملاقات (جس میں کئی سینئر نون لیگی قائدین بھی شامل تھے) کے بعد میڈیا سے جو بات چیت کی ، اِس کے مطابق: نون لیگی صدر، نوازشریف، بلوچستان کے بگڑے حالات کو سنوارنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر تیار ہوگئے ہیں ۔یہ کردار ادا کرنے کے لیے مبینہ طور پر نواز شریف نے بلوچستان کا دَورہ کرنا بھی قبول کرلیا ۔ اِس عندیے سے نون لیگیوں نے یہ جانا کہ شیر بالآخر اپنی کچھار سے باہر نکل آیا ہے۔ بلوچستان کے بگڑے حالات کو سنوارنے کے لیے سبھی لوگ نواز شریف سے مثبت کردار ادا کرنے کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔
مبینہ وعدے کے مطابق نواز شریف بلوچستان جانے کے بجائے وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ بیلا رُوس چلے گئے ۔ نواز شریف جس طرح اپنے ساتھ اپنی وزیر اعلیٰ صاحبزادی ، اپنے بیٹے اور اپنی نواسی کو بھی ساتھ بیلارُوس لے گئے ، اِسے پسند نہیں کیا گیا ۔ سوشل میڈیا پر اِس بارے سخت تنقیدات سامنے آئی ہیں ۔ حتیٰ کہ بی بی سی ایسے ادارے نے شہباز شریف اور نواز شریف کے اِس اقدام کو ’’ بیلارُوس کافیملی وزٹ‘‘ کا عنوان دے ڈالا ہے۔
بیلارُوس سے فارغ ہو کر دونوں شریف برادران تو لندن چلے گئے اور محترمہ مریم نواز شریف اناطولیہ (ترکیہ) پہنچ گئیں ۔ لندن میں نون لیگیوں نے نواز شریف کا شاندار استقبال کیا ، مگر پی ٹی آئی کے جنگجو نواز مخالف نعرے لگانے سے باز نہ آئے۔ لندن میں نواز شریف کے صاحبزادگان کے گھروں کے باہر ایک بار پھر تماشہ لگا ہے۔
اب خبر ہے کہ لندن میں نواز شریف اور شہباز شریف مل بیٹھ کر نئی سیاسی حکمت عملی طے کریں گے۔ یہ حکمتِ عملی کیا ہوگی، اتوار کی صبح جب یہ کالم لکھا جارہا ہے، یہ پُراسرار ’’حکمتِ عملی‘‘ منصہ شہود پر نہیں آ سکی ہے ۔مگر مخالفین سوال اُٹھا رہے ہیں کہ وہ کونسا خاص کام ہے جو انجام دینے کے لیے شریف برادران کو، پاکستان سے دُور، لندن میں اکٹھا ہونا پڑا ہے ؟نون لیگی مگر ایک بار پھر توقع لگا کر بیٹھ گئے ہیں کہ اُن کے بزرگ قائد،نواز شریف، لندن میں بیٹھ کر شاید کوئی اہم اعلان کریں۔ شاید اُن کا شیر لندن ہی میں دھاڑ اُٹھے ۔
محترمہ مریم نواز شریف نے البتہ بیلارُوس سے نکل کر اناطولیہ ( ترکیہ) میں12اور13اپریل کو منعقد ہونیوالے دو روزہ عالمی Diplomacy Forum میں خوب پرفارمنس کا مظاہرہ کیا ہے ۔ انھوں نے مذکورہ عالمی فورم میں پنجاب کے تعلیمی اداروں میں اپنے اصلاحاتی ایجنڈے اور متنوع خدمات کی پرچم کشائی کی ہے ۔ اُن کی پُر وقار شخصیت فورم پر چھائی رہی ۔ ترکیہ کے صدر، جناب طیب ایردوان، اور اُن کی اہلیہ و خاتونِ اوّل، محترمہ امینے ایردوان، کی جانب سے محترمہ مریم نواز شریف کا کھلے دل اور بازوؤں سے استقبال کیا گیا۔ اناطولیہ میں محترمہ مریم نواز شریف کی جن عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں ہُوئی ہیں، مستقبل قریب میں یہ اُن کے اور پاکستان کے لیے ثمر آور ثابت ہو سکتی ہیں ۔