WE News:
2025-02-08@05:59:49 GMT

عمران خان، 8 فروری اور ’دیوار چین‘

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

صدیوں پرانی ایک دیسی حکایت چلی آ رہی ہے کہ گھر والوں سے ناراض ہو کر ایک شخص گاؤں چھوڑ کر چلا گیا، کوئی کام ڈھنگ سے کرنا جانتا نہ تھا اس لیے کچھ ہی دنوں میں بیروزگاری اور فاقوں سے تنگ آ کر واپس گاؤں کی راہ لی، گاؤں کے مضافات میں پہنچ کر روایتی دیہاتی عزت آڑے آ گئی کہ گھر چھوڑتے وقت بڑے بلند بانگ دعوے کیے تھے، اب کس منہ سے بن بلائے واپس جائے، اسی دوران کیا دیکھتا ہے کہ ان کی خاندانی چراگاہ سے گائے، بھینس اور بکریوں کا ریوڑ واپس گھر جا رہا تھا، وہ بھی ساتھ ہو لیا اور گھر کے گیٹ کے قریب پہنچ کر ایک گائے کی دم پکڑ لی اور اس کے پیچھے پیچھے چلتا گھر میں داخل ہوا اور شور مچا دیا، ’میرا تو واپسی کا ارادہ نہیں تھا یہ گائے مجھے اپنی دم میں پھنسا کر گھسیٹتے ہوئے زبردستی واپس گھر لے آئی ہے‘۔

یہ حکایت ہمیں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی طرف سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو لکھے گئے کھلے خط پر بے اختیار یاد آ گئی کہ جس میں موصوف نے لکھا ہے کہ ملک بھی میرا، فوج بھی میری ہے۔ نہ جانے کیوں فوج بھی میری ہے والی حقیقت پچھلے 2، 3 برس ان کی آنکھوں سے اوجھل کیوں رہی کہ جب وہ پوری شدت سے افواج پاکستان اور اس کی قیادت کیخلاف عوام کو اشتعال دلانے والے بیانیے پر مبنی سوشل میڈیا مہم چلاتے رہے اور اپنے قتل کی کوشش کے من گھڑت الزامات کے ذریعے سادہ لوح عوام کو اتنا جذباتی کر دیا کہ وہ پھر 9 مئی کی ان کی سوچی سمجھی سازش کا ایندھن بن کر فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر چڑھ دوڑے، اسی پر بس نہیں کیا گیا، 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات میں اپنی شکست کے بعد دھاندلی کا بیانیہ لانچ کرتے ہوئے بھی انہوں نے اسی فوج پر گھناؤنے الزامات لگائے جس کے بارے میں اب اچانک انہیں یاد آ گیا ہے کہ یہ فوج بھی میری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کام شیطانی بیانیہ اسلامی

عالم اسلام کے سب سے بڑے صوفیا کرام میں شامل حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کے کلام سے ماخوذ شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی ایک نظم ’تقدیر‘ میں ایک خطرناک شیطانی حیلے بہانے کا پردہ چاک کیا گیا ہے، یہ نظم  ابلیس اور یزداں میں ایک چھوٹے سے مکالمے کی صورت میں لکھی گئی ہے۔ ابتدا ابلیس کے مکالمے سے ہوتی ہے، اور وہ کہتا ہے۔

اے خدائے کُن فکاں! مجھ کو نہ تھا آدم سے بَیر

آہ! وہ زندانیِ نزدیک و دُور و دیر و زُود

حرفِ “اِستکبار” تیرے سامنے ممکن نہ تھا

ہاں، مگر تیری مشیّت میں نہ تھا میرا سجود

پھر یزداں ( خدائے رحمٰن و رحیم)  کی طرف سے اس کا جواب آتا ہے

کب کھُلا تجھ پر یہ راز، انکار سے پہلے کہ بعد؟

اس پر اِبلیس جواب دیتا ہے

بعد، اے تیری تجلّی سے کمالاتِ وجود!

اس پر یزداں فرشتوں کی طرف دیکھ کر فرماتا ہے

پستیِ فطرت نے سِکھلائی ہے یہ حُجتّ اسے

کہتا ہے “تیری مشیّت میں نہ تھا میرا سجود”

دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام

ظالم اپنے شُعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دُود!

شاعر مشرق اپنی اس تاریخی نظم میں یہ نکتہ بیان فرماتے ہیں کہ پستی فطرت کی وجہ سے شیطان نما انسان اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے اس کے مختلف جواز تراشنے لگتے ہیں، بانی پی ٹی آئی بھی اپنے سیاسی سفر کی پست ترین گھاٹیوں میں پھنس کر رہ گیا ہے اور اس گڑھے سے باہر نکلنے کے لیے اب ریاست کو مخاطب کرکے اپنائیت کے اظہار کے لیے خط لکھ رہا ہے، ان سے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ آپ پر یہ راز کب کھلا کہ یہ فوج بھی میری ہے، کس انکار سے پہلے یا بعد، یعنی 9 مئی کے بعد، 8 فروری کے بعد یا 26 نومبر کے بعد، کیونکہ ان کے انکاروں کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔

اپنی منکرانہ سوچ کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی نے ریاست پاکستان کی ہر اس حقیقت کا انکار کیا جو کئی عشروں تک راج نیتی کی کشمکش میں اپنے آپ کو بطور ’ہارڈ کور‘ منوا چکی ہے، یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں ایک ’دیوار چین‘ ہوتی ہے، جسے عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں، سمجھدار لوگ تو کسی عام دیوار سے بار بار سر نہیں ٹکراتے لیکن بانی پی ٹی آئی کی عقل کا ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ان کا پاگل پن اتنا بڑھا ہوا تھا، کہ بار بار ’دیوار چین‘  کو ٹکریں مارے جا  رہے ہیں، نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ اب نڈھال ہو کر ’ملک بھی میرا، فوج بھی میری‘ جیسے خط لکھ کر ’رحم کی اپیل‘ کر رہے ہیں، لیکن اس رحم کی اپیل میں ایک ٹیکنیکل فالٹ ہے، اور وہ یہ ہے کہ برطانیہ سے پاکستان تک دنیا کے ہر ملک میں رحم کی اپیل کرنے پر سزا میں رعایت اسی مجرم کو ملتی ہے کہ جو اپنے قصور، اپنے جرم اور اپنی غلطی کو تسلیم کرے، ابلیس کی طرح اپنے حرف انکار کا ملبہ مشیت ایزدی پر نہ ڈالے۔

بانی پی ٹی آئی نے 8 فروری کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کے بعد نہ صرف اپنا اور اپنی پارٹی کا نقصان کیا بلکہ ملک، جمہوریت، آئین، قانون اور 25 کروڑ عوام سب اس حرف انکار سے شروع ہونے والی کشمکشِ کے متاثرین میں شامل ہیں، جب آپ اپنے ہی ملک اپنی ہی ریاست کے خلاف جنگ شروع کر دیتے ہیں تو پھر تمام ریاستیں درپیش صورتحال سے جنگی بنیادوں پر ہی نمٹتی ہیں۔

اپنی پہاڑ جیسی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے بانی پی ٹی آئی نے ایک بار پھر 8 فروری کو احتجاج کی کال دیدی ہے، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے عوام نے تو اب بار بار دی جانے والی ان کالز پر نکلنا چھوڑ دیا ہے، خیبرپختونخوا میں چونکہ پی ٹی آئی کی حکومت ہے اس لیئے وہاں کے ارکان اسمبلی کی مجبوری ہے کہ اپنی صوبائی حکومت کے احکامات کو بجا لائیں اور اپنے حلقہ انتخاب کے عوام، خاص طور پر نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر اس آگ کا ایندھن بنائیں جس میں وہ پہلے بھی کئی بار جل چکے ہیں۔

پرتشدد احتجاج کو روکنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کو متحرک کرنا حکومت کی مجبوری ہے اس لیے ایک بار پھر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی والے ابھی سابقہ احتجاجی مظاہروں میں پکڑے جانے والے اپنے کارکنوں کو رہا کروا نہیں سکے اب ایک نئی کھیپ کو گھروں سے لا کر تھانوں کے حوالات اور جیلوں کے سپرد کریں گے اور چند ماہ مزید اس نئی ’مظلومیت‘ کا ڈھنڈورا پیٹیں گے۔

اب یہ صاف نظر آنے لگ گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے ہر چند ماہ بعد احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنا اپنی شیطانی سیاست کا ایک ہتھیار بنا لیا ہے تاکہ نہ حکومت سکون سے اپنا کام کر سکے اور نہ ہی افواج پاکستان یکسو ہو کر دہشت گردی کی جنگ سے نمٹ سکیں۔

خیبرپختونخوا میں اس بار ایک نیا چورن بیچنے کی کوشش کی بھی جا رہی ہے کہ سابقہ احتجاج وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی وجہ سے ناکام ہوئے، اس بار قیادت جنید اکبر خان کے پاس ہو گی اس لیے اب کی بار ’دیوار چین‘ کی خیر نہیں، گویا جنید اکبر خان نہ ہوا، جیمز بانڈ یا آئرن مین ہو گیا۔

مزید پڑھیے: چین کا عالمی ریل اینڈ روڈ طلسم ہوشربا اور اپنا کفران نعمت

جیمز بانڈ اور آئرن مین بھی صرف ہالی ووڈ کی فلموں میں ناقابل یقین کارنامے انجام دے سکتے ہیں، عملی زندگی میں امریکا، روس، چین سمیت دنیا کے ہر ملک کی اسٹیبلشمنٹ وہاں کی ’دیوار چین‘ ہے اور جس کسی نے اس سے سر ٹکرایا، اس کا انجام ناخوشگوار ہی ہوا۔

عقل مند انسان وہ ہے کہ جو خود تجربے کی بھٹی کا ایندھن بننے کی بجائے خود سے پہلے اس بھٹی میں جلنے والے دوسروں کے انجام سے سبق سیکھے۔ بانی پی ٹی آئی تو پےدرپے ناکامیوں کی وجہ سے ہوشمندی سے کام لینے کے قابل نہیں رہے اس لیے اب ان کی پارٹی کی قیادت کو چاہیے کہ وہ ہی ہوش کے ناخن لے،  اپنے آپ پر، اپنے کارکنوں پر، اپنے ملک پر اور 25 کروڑ عوام پر رحم کھائے اور ایک بار پھر ’دیوار چین‘ میں سر مارنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد منصور

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر عمران خان عمران خان خط بنام آرمی چیف.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا رمی چیف جنرل سید عاصم منیر عمران خان خط بنام ا رمی چیف بانی پی ٹی آئی نے فوج بھی میری ہے دیوار چین کی وجہ سے میں ایک کے لیے کے بعد گیا ہے نہ تھا اس لیے

پڑھیں:

بوسیدہ نظاموں سے جان چھڑائیں

حضرت عمر بن خطاب خلافت سنبھالنے کے بعد بیت المال میں آئے تو لوگوں سے پوچھا کہ حضرت ابوبکرؓ کیا، کیا کیا کرتے تھے، تو لوگوں نے بتایا کہ :’’وہ نماز سے فارغ ہو کر کھانے کا تھوڑا سا سامان لے کر ایک طرف کو نکل جایا کرتے تھے‘‘! آپ نے پوچھا کہ کہاں جاتے تھے ’’لوگوں نے بتایا کہ یہ نہیں پتا بس اس طرف کو نکل جاتے تھے‘‘! آپ نے کھانے کا سامان لیا اور اس طرف کو نکل گے لوگوں سے پوچھتے ہوئے ’’حضرت ابوبکرؓ ‘‘ کس جگہ جاتے تھے پتہ چلتے چلتے ایک جھونپڑی تک پہنچ گئے وہاں جا کر دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی دونوں آنکھوں سے آندھا ہے اور اس کے منہ پر پھالکے بنے ہوئے ہیں اس نے جب کسی کے آنے کی آواز سنی تو بڑے غصے میں بولا کہ پچھلے تین دن سے کہاں چلے گئے تھے تم؟ ’’آپ خاموش رہے اور ان کو کھانا کھلانا شروع کیا تو اس نے غصے سے کہا کہ کیا بات ہے ایک تو تین دن بعد آئے ہو اور کھانا کھلانے کا طریقہ بھی بھول گئے ہو؟‘‘ آپ نے جب یہ سنا تو رونے لگے اور اسے بتایا کہ ’’میں عمرؓ ہوں اور وہ جو آپ کو کھانا کھلاتے تھے، وہ مسلمانوں کے خلیفہ سیدنا ابوبکر ؓتھے اور وہ وفات پا چکے ہیں‘‘ جب اس بوڑھے نے یہ بات سنی تو کھڑا ہو گیا اور کہا کہ ’’اے عمرؓ مجھے کلمہ پڑھا کر مسلمان کر دیں۔ پچھلے دو سال سے وہ آدمی روز میرے پاس آتا اور کھانا کھلاتا رہا ایک دن بھی اس نے مجھے نہیں بتایا کہ میں کون ہوں‘‘ بوڑھے آدمی نے بتایا کے وہ اپنے منہ سے روٹی کا نوالہ نرم کر کے مجھے کھلاتے تھے،(کنزالعمال، کتاب الفضائل) مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا تھا کہ ’’ہمارے نزدیک اسلام کے دامن تقدیس پر اس سے بڑھ کر اور کوئی بدنما دھبہ نہیں ہو سکتا کہ انسانی حریت اور ملکی فلاح کا سبق مسلمان دوسری قوموں سے لیں۔آپ کے ہاں اگر شمع کافو ری جل رہی ہے تو آپ کو کسی فقیر کے جھونپڑے سے اس کا ٹمٹماتا ہوا دیا چرانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
ایک اسلامی فلاحی مملکت کے قیام اور اس میں آزادانہ طور پر اللہ کے دین متین کے عملی غلبے اور نفاذ کے لئے کی گئی نبی کریم ﷺ اور ان کی مقدس جماعت کی ہجرت کو چودہ سو پینتالیس سال بیت گئے اس طویل دورانیے میں اس کائنات نے بارہا مسلمانوں کے عروج و زوال کو دیکھا اور تاریخ نے ان حالات و واقعات اور ان کے اسباب کو اپنے دامن میں محفوظ کیا جب تک من حیث المجموع مسلمانوں میں ملی احساس بیدار رہا قرآن و سنت کی الٰہی تعلیمات مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ العمل رہیں، اسلامی نظام خلافت و حکومت کا سانچہ کسی بھی صورت میں برقرار رہا، اقوام عالم پر مسلمانوں کا رعب و دبدبہ قائم رہا، نصف دنیا پر مسلمانوں کی حکومت و سیادت رہی اور مسلمان ایک زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا کی برادری میں قائدانہ کردار ادا کرتے رہے اور پھر جب سے مسلمانوں نے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں الہی تعلیمات کو پس پشت ڈالا قرآن و سنت اور نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے دیئے ہوئے اسلامی مملکتی نظام کی جگہ اقوام باطل کے نظاموں کو اپنایا اپنے سنہرے ماضی سے خود کو کاٹ دیا تو کرہ ارض پر ذلت و پستی کا نشان بن گئے ہر گزرتا دن ان کی رسوائی کا باعث بنتا گیا جس دنیا کے ذخائر اور خزانوں کے کل تک مالک تھے آج وہی دنیا اپنی تمام تر وسعتوں اور خزانوں سمیت ان کے لئے تنگ کردی گئی کل تک جو قومیں ایک ایک نوالے کے لئے ان کے دست سخاوت کی محتاج تھی وہ سیادت و قیادت کی مالک بن کر مسلمانوں کو اپنا نظریاتی فکری معاشی اور معاشرتی غلام بنانے لگیں اور آج پوری دنیا کا مسلمان قدم قدم پر ان کا محتاج ہے۔ ایک بار پھر مسلم قوم کو اپنے ماضی کے دریچوں میں جھانک کر اپنے مستقبل کی تعمیر کے لئے سوچنا ہوگا، اور اس دنیا کے بوسیدہ نظاموں کو انقلاب اسلامی کی تیز ہواں کے جھونکوں سے خس و خاشاک کی طرح اڑاکر پھر سے دنیا میں اسلامی علم لہرانا ہوگا آئیں عہد کریں کہ اپنے حصے کا دیا جلائیں گے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنی بساط کی حد تک اسلامی روح کو زندہ کریں گے دنیا کے فرسودہ نظاموں اور روایات سے بغاوت کریں گے اور ساڑھے چودہ سو سال پہلے کے اسلامی فلاحی معاشرے کو اپنا رول ماڈل بناکر اپنی دنیا و آخرت کی ترقی و کامیابی کے ہر باب کو وا کریں گے۔ یہی ہماری عزت و عظمت ترقی و کامیابی کا راستہ ہے۔
تاریخ آج چودہ سو سال بعد بھی سیدنا عمر فاروقؓ کی خلافت کے کارناموں کو سلام پیش کرتی ہے، رات کا وقت تھا، مدینہ کی گلیوں میں مکمل خاموشی تھی۔ صرف ہوا کی سرسراہٹ اور کبھی کبھار کسی جانور کی آواز سنائی دیتی تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، خلیفہ دوم، اپنی عادت کے مطابق اپنی رعایا کی حالت جاننے کے لئے شہر کی گلیوں میں نکلے ہوئے تھے۔ ان کا لباس سادہ اور چہرے پر ایک فکر مند تاثرات تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے بارے میں فکر مند رہتے تھے۔ اس رات بھی وہ مختلف گھروں کے قریب جا کر لوگوں کی گفتگو سن رہے تھے تاکہ انہیں حقیقی حالات کا علم ہو سکے۔ اسی دوران، ایک گھر سے ایک عورت کی آواز سنائی دی جو اپنی بچیوں کو دلاسہ دے رہی تھی کہ صبر کریں، صبح کچھ کھانے کو ملے گا۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر فاروق کا دل بھر آیا اور وہ اس گھر کی طرف بڑھے۔ حضرت عمر نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر جا کر معلوم کیا کہ یہ عورت کیوں پریشان ہے۔ عورت نے بتایا کہ ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے اور بچے بھوک سے بے حال ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوراً واپس پلٹے اور بیت المال سے اناج اور دیگر ضروریات کا سامان خود اپنے کندھے پر اٹھا کر اس عورت کے گھر پہنچا دیا۔ حضرت عمرؓ کے خادم نے کہا حضرت آپ یہ بوجھ نہ اٹھائیں یہ اناج کی بوری مجھے دے دیں اسے میں اٹھا لیتا ہوں حضرت عمر ؓنے جواب دیا کیا قیامت کے دن میرا بوجھ بھی تم اٹھائو گے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلامی ریاست کی حدود میں زبردست اضافہ ہوا۔ ان کے دور میں عراق، شام، مصر، اور ایران کے بڑے علاقے اسلامی ریاست کا حصہ بنے۔ انہوں نے اپنی بہترین حکمرانی کی بدولت لوگوں کو انصاف اور امن کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ حضرت عمر فاروق ؓ ریاست کے انتظام و انصرام کے لئے متعدد اصلاحات کیں، جن میں بیت المال کی تشکیل، پولیس کا قیام اور عدالتوں کی بنیاد شامل ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور حکومت ایک مثالی دور تھا، ہمیں بھی اگر خوشحالی اور ترقی چاہیے تو دور فاروقی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، کی عظیم حکمرانی اور اصلاحات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے اپنی زندگی کو اللہ کی راہ میں اور اپنی رعایا کی خدمت میں گزارا اور اپنے عمل سے دنیا کو یہ سبق دیا کہ ایک حقیقی حکمران کیسا ہونا چاہیے۔ مغربی دنیا میں بھی ان کی قیادت اور انصاف پسندی کو سراہا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہارورڈ یونیورسٹی ہے، جہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بطور موضوع پڑھایا جاتا ہے۔ ان کے عدل و انصاف، اصلاحات اور حکمرانی کے اصول آج بھی دنیا بھر کے طالب علموں کے لئے ایک روشن مثال ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • 8 فروری: عوام کے مینڈیٹ کی پامالی کا دن
  • الٹی ہوگئیں سب تدبیریں
  • بوسیدہ نظاموں سے جان چھڑائیں
  • 8 فروری 2025 تحریک انصاف یوم سیاہ بمقابلہ ن لیگ یوم نجات
  • عصبیت سے پاک ہو جائیں
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • دہلی اسمبلی انتخابات کی ووٹنگ ختم، اب نتائج کیلئے 8 فروری کا انتظار
  • یوم کشمیر کے حوالے پنجاب حکومت کے زیراہتمام لبرٹی چوک میں تقریب
  • عمران خان نے اپنے خط میں ادارے کواون کیا ہے، شیخ وقاص اکرم