ججز تعیناتی موخر ، آئینی ترمیم پر فل کورٹ بنایا جائے، سپریم کورٹ کے چار ججز کا چیف جسٹس کو خط
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
٭خط جسٹس منصور علی شاہ، منیب اختر، عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے بھیجا گیا ہے
٭نئے ججز آئے تو فل کورٹ کون سا ہو گا یہ تنازع بنے گا،جسٹس یحییٰ کو بھیجے جانے والے خط کامتن
سپریم کورٹ کے چار ججز نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر ججز تعیناتی موخر کرنے کا مطالبہ کردیا۔خط لکھنے والوں میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں جو کہ چیئرمین جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان یحیی آفریدی کو لکھا گیا ہے ۔ججز نے خط میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز تعیناتی کے معاملے میں 26ویں ترمیم کیس میں آئینی بینچ فل کورٹ کا کہہ سکتا ہے ، نئے ججز آئے تو فل کورٹ کون سی ہو گی یہ تنازعہ بنے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین ججز ٹرانسفر ہوئے ، آئین کے مطابق نئے ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں دوبارہ حلف لازم تھا۔ججز نے لکھا کہ آئینی ترمیم کا کیس ترمیم کے نتیجہ میں بننے والا آئینی بنچ سن رہا ہے ، آئینی ترمیم کا مقدمہ فوری طور پر فل کورٹ میں مقرر ہونا چاہیے ، پہلے بھی آئینی ترمیم کا کیس فل کورٹ میں مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا، آئینی بینچ نے بھی کیس کافی تاخیر سے مقرر کیا گیا، آئینی ترمیم کیس کی آئندہ سماعت سے قبل ہی نئے ججز کی تعیناتی کیلئے جلدبازی میں اجلاس بلا لیا گیا، آئینی ترمیم کیس زیر سماعت ہے ، ترمیم سے فائدہ اٹھانے والے ججز کے آنے سے عوامی اعتماد متاثر ہوگا۔خط میں کہا گیا ہے کہ آئینی بنچ اگر فل کورٹ کی درخواستیں منظور کرتا ہے تو فل کورٹ تشکیل کون دے گا؟ اگر فل کورٹ بنتی ہے تو کیا اس میں ترمیم کے تحت آنے والے ججز شامل ہونگے ؟ اگر نئے ججز شامل نہ ہوئے تو پھر سوال اٹھے گا کہ تشکیل کردہ بنچ فل کورٹ نہیں، اگر موجودہ آئینی بنچ نے ہی کیس سنا تو اس پر بھی پہلے ہی عوامی اعتماد متزلزل ہے ، عوام کو موجودہ حالات میں کورٹ پیکنگ” کا تاثر مل رہا ہے ۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
آفیشل سیکریٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم، بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر اعتراضات ختم
سپریم کورٹ کا آئینی بینچ نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں 2023 میں کی گئی ترامیم کے خلاف بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر اعتراضات ختم کر دیے پانچ رکنی آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی جبکہ دیگر ججز میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس جمال خان، جسٹس صائمہ، اور جسٹس علی سلیمان شامل تھے عدالت نے رجسٹرار آفس کو ہدایت دی کہ آئینی درخواست کو باضابطہ نمبر الاٹ کیا جائے تاکہ اس پر مزید کارروائی کی جا سکے سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ ان ترامیم کے خلاف پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا؟ بانی پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں اس لیے براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا جسٹس محمد علی مظہر نے اس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہمیشہ آرٹیکل 184/3 کے تحت قوانین کے خلاف درخواستیں اپنی مرضی سے سنی ہیں اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو آرٹیکل 199 غیر مؤثر ہو جائے گا انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ نے براہ راست درخواستیں سننا شروع کر دیں تو ہائی کورٹ کا دائرہ کار محدود ہو جائے گا وکیل شعیب شاہین نے اس فیصلے پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ اختیار رجسٹرار کا نہیں بلکہ عدالت کا ہے عدالت نے اس پر کہا کہ درخواست کی سماعت کا فیصلہ ابھی کرنا باقی ہے آئینی بینچ نے اس کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست کی قابل سماعت ہونے پر مزید دلائل طلب کر لیے ہیں عدالت نے آئندہ سماعت کے لیے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی