پاکستان کے دیوالیہ نہ ہونے میں آئی ایم ایف سے کہیں زیادہ چین کا کردار ہے، شہباز رانا
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
اسوقت تک چین نے پاکستان کو ساڑھے 6 ارب ڈالر کے کمرشل قرضے دیئے ہوئے ہیں، 4 ارب ڈالر انکا کیش ڈیپازٹ ہے، ساڑھے 4 ارب ڈالر قرضہ انکی طرف سے فنانس فیسیلٹی کی مد میں ہے، اس طرح تقریباً 15 ارب ڈالر چین پہلے ہی رول اوور کر رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ تجزیہ کار شہباز رانا نے کہا کہ اس سال پاکستان کی غیر ملکی قرضوں کی ضروریات 22 ارب ڈالر سے ساڑھے 23 ارب ڈالر ہیں، فچ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 13 ارب ڈالر کے جو کیش ڈیپازٹس ہیں، وہ پاکستان کو اس سال میں رول اوور کرانے پڑیں گے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مجموعی طور پر اگر دیکھیں تو اس وقت چین نے پاکستان کو جو سپورٹ کی ہوئی ہے اور جسے وہ ودڈرا نہیں کر رہا، اس کی وجہ سے پاکستان دیوالیہ نہیں ہو رہا، اس میں آئی ایم ایف کا بھی بڑا رول ہے، لیکن پاکستان کے دیوالیہ نہ ہونے میں آئی ایم ایف سے کہیں زیادہ چین کا کردار ہے۔ اس وقت تک چین نے پاکستان کو ساڑھے 6 ارب ڈالر کے کمرشل قرضے دیئے ہوئے ہیں، 4 ارب ڈالر ان کا کیش ڈیپازٹ ہے، ساڑھے 4 ارب ڈالر قرضہ ان کی طرف سے فنانس فیسیلٹی کی مد میں ہے، اس طرح تقریباً 15 ارب ڈالر چین پہلے ہی رول اوور کر رہا ہے۔
تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری ان دنوں چین کے دورے پر ہیں اور ان کی چین کے صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ملاقات بھی ہوچکی ہے، جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے، وہ 24 نکات پر مشتمل ہے، جس میں دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات، سی پیک، خطے کی مجموعی صورتحال، عالمی سطح پر جو ڈویلپمنٹز ہو رہی ہیں، ان سب کے متعلق کافی کچھ کہا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دورہ اس موقع پر ہو رہا ہے، جب دوسری طرف امریکی صدر ٹرمپ ایسے اقدامات کر رہے ہیں، جس سے دنیا کا گلوبل آرڈر جس کو امریکا لیڈ کر رہا تھا، تبدیل ہونے کا اندیشہ ہے، اس سار ی صورتحال میں چین کا کردار بڑا اہم ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پاکستان کو ارب ڈالر کر رہا
پڑھیں:
شعبہ پیٹرولیم میں دیوالیہ پن کا خطرہ ،وفاقی وزیر پیٹرولیم نے پریشان کن خبر سنا دی
وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے خبردار کیا ہے کہ ’اگر درآمدی، پائپڈ اور ویل ہیڈ گیس کی اوسط قیمت کے ساتھ نقل و حمل، کھانا پکانے اور حرارتی مقاصد کے لیے منتقلی کی طرف ترغیب دینے کے لیے بجلی کے نرخوں کو معقول نہیں بنایا گیا تو پیٹرولیم کے شعبے میں دیوالیہ پن کا خطرہ ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے اجلاس میں ڈاکٹر مصدق ملک نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے دو فیصلوں کی وجہ سے، جن میں ایل این جی کارگو کا معاہدہ اور صنعتی پاور پلانٹس (سی پی پیز) کو گیس کی فراہمی سے قومی پاور گرڈ میں منتقل کرنے کا وعدہ شامل ہے، اب حکومت آئی ایم ایف کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔وفاقی وزیر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بائیو فیول ایتھنول پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی ہے جس کا اعلان کابینہ کی منظوری کے بعد ایک ماہ میں کردیا جائے گا تاکہ تمام پیٹرولیم مصنوعات کے معیارات کو یورو 5 تک بڑھانے کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) نے سسٹم میں گیس کے نقصانات کو 5 فیصد سے بھی کم کر دیا ہے، تاہم یہ ریگولیٹر کی جانب سے خاطر خواہ سرمایہ کاری کے ذریعے مقرر کردہ اہداف سے اب بھی کم ہے۔تاہم ایس ایس جی سی ایل کے سسٹم کے نقصانات 13 سے 15 فیصد زائد تھے، کیونکہ اس کے 50 فیصد نقصانات بلوچستان سے ہوئے جس کا اس کی مجموعی گیس سپلائی میں صرف 17 سے 20 فیصد حصہ ہے، اور گیس میٹرز کی سالمیت کو یقینی بنانا مشکل تھا۔
سید مصطفیٰ محمود کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے بلوچستان ہائی کورٹ کے اس حکم پر تشویش کا اظہار کیا جس میں سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) کو صوبوں کے صارفین سے ماہانہ 5 ہزار 700 روپے سے زائد وصول کرنے سے روک دیا گیا تھا۔اس حوالے سے مصدق ملک کا کہنا تھا کہ یہ انتظامی معاملات میں عدالتی مداخلت ہے، جب کہ کمیٹی ارکان نے کہا کہ اسے چیلنج کیا جانا چاہیے۔وزیر پیٹرولیم اور ان کی ٹیم نے بتایا کہ اس حکم کو پہلے دن ہی چیلنج کیا گیا تھا، تاہم یہ برقرار ہے اور حکومت اور اس کے اداروں کو اس پر عمل کرنا ہوگا۔
آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت سندھ کے صنعتی یونٹوں سے گیس کی بلوچستان منتقلی پر سید نوید قمر کے اعتراضات کے حوالے سے وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ بلوچستان میں سردیوں میں گیس کی فراہمی کم لیکن گرمیوں میں اضافی ہوتی ہے، لہٰذا یہ سندھ اور بلوچستان دونوں صوبوں میں ہوتا ہے، اس سے مذکورہ آئینی تقاضے کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ صنعتوں کے لیے مقامی گیس کی قیمت 2150 روپے فی یونٹ، جب کہ ایل این جی کی قیمت 3500 روپے فی یونٹ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں کی مجموعی قیمت اوسطاً 2400 سے 2600 روپے ہوگی، جہاں یہ توانائی کے شعبے کے لیے قابل عمل ہو جائے گی، جن کے ایل این جی پر مبنی چار پلانٹس زیادہ تر میرٹ آرڈر پر قابل عمل نہیں ہیں۔
مصدق ملک نے مزید کہا کہ ویل ہیڈ پر گیس کی قیمت کو شامل کرنے سے گیس کی اوسط قیمت مزید کم ہو کر 1700 روپے فی یونٹ ہو سکتی ہے اور درآمدی ایل این جی استعمال کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے، مقامی گیس کی پیداوار میں کمی سے پروڈیوسرز، صارفین اور پورے ملک کو نقصان پہنچے گا۔انہوں نے کہا کہ گیس کی فراہمی صرف 30 فیصد جبکہ 99 فیصد آبادی کو بجلی کی سہولت میسر ہے۔ لہٰذا بجلی کے شعبے کے ذریعے پالیسی ترغیب سے زیادہ تر آبادی کو کم قیمتوں اور بجلی کی موثر فراہمی کی صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے اور گیس نیٹ ورک کی محدودیت کے باعث آب و ہوا اور اقتصادی لحاظ سے فائدہ مند ہے اور گیس کا استعمال ماحول کے لیے بھی اچھا نہیں ہے۔