میئرکراچی مرتضیٰ وہاب پریس کانفرنس کررہے ہیں
کراچی( اسٹاف رپورٹر)میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران جو مشکل فیصلے کیے ان کے مثبت اثرات حالیہ دنوں میں آنا شروع ہوگئے ہیں، کراچی والوں کو ان کا فائدہ ہوتا نظر آرہا ہے، نظام کبھی آئیڈیل نہیں ہوتا، بہتری کے لیے اداروں کو ٹھیک کرنا پڑتا ہے، ترقیاتی کام عوام کا حق ہے،بلدیہ عظمیٰ کراچی 751 اسکیموں پر کام کر رہی ہے،30 جون تک 430 اور جون 2026 تک 348 اسکیموں کومکمل کریں گے،1000 سے زائد اسکیمیں اگلے ڈیڑھ سال میں مکمل کی جائیں گی، بلدیہ عظمیٰ کراچی نے 2.
3 ارب روپے آمدنی حاصل کی ہے، 2.14 ارب روپے ہمارے اکاؤنٹ میں آچکے ہیں، کچی آبادیوں کی حالت بدلیں گے، ہم نے 100ملین کا کلائمنٹ انڈومنٹ فنڈ قائم کیا ہے، وفاقی صوبائی حکومتوں اور تمام داروں سے درخواست کرتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ہمارا ساتھ دیں، پولیو ایک چیلنج ہے، ساتوں ڈسٹرکٹ سے ایک ایک یو سی لیں گے، تمام لائن لیکج ختم کریں گے۔یہ بات انہوں نے جمعہ کے روز صدر دفتر بلدیہ عظمیٰ کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی، اس موقع پر ڈپٹی میئر کراچی سلمان عبداللہ مراد، سٹی کونسل میں پارلیمانی لیڈر کرم اللہ وقاصی، ڈپٹی پارلیمانی لیڈر دل محمد، جمن دروان اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت اس شہر کی خدمت کررہی ہے، پیپلزپارٹی کا ایک ایک کارکن اس شہر کی خدمت میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادارے کو چلانے کے لیے مالی وسائل ضرور ہونے چاہئیں، ماضی کے میئر کہتے تھے ہمارے اختیارات اوروسائل نہیں،مالی اعتبار سے کے ایم سی ڈیڑھ سالوں میں بہتری آئی ہے،تین سو فیصد بلدیہ عظمیٰ کراچی کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے، ہم نے ساڑھے 3 ماہ میں ایک ارب روپے جمع کئے ہیں، کے الیکٹرک سے ریکوری شہر کی امانت اکاؤنٹ میں منتقل ہوگئے ہیں، ہمارے وسائل کے اوپر بہت سارے ٹاؤن قابض ہیں،آمدنی میں اضافے کے ثمرات عوام کو ترقیاتی کاموں کے ذریعے ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اکتوبر 2023 سے سیپ سسٹم متعارف کروایا گیا، ہم پاکستان کے پہلے بلدیہ عظمیٰ تھے جس نے یہ سسٹم متعارف کروایا، ڈبل
ملازمین کی نشاندہی ہوئی جو ہم سے بھی تنخواہ لے رہے تھے اور کہیں اور سے بھی،ملازمین کا ریکارڈ بھی ہم نے چیک کیا، 2019 میں ملازمین کو ریگولرائزکیا گیا جس کا سلسلہ 2018 میں شروع ہوا،غیر مستقل ملازمین کو مستقل کرنے کا اقدام کیا گیا،18 جون 2019 میں کونسل میں قراراداد منظور ہوتی ہے،722 ملازمین کو ریگولرائز کیا گیا،فائل جب چیک ہوتی ہے تو 722 نہیں 678 ہیں، جب اکاونٹنگ سوفٹ ویئر چیک کرتے ہیں تو 937 ملازمین نکلتے ہیں،یہ ہیں وہ غلط فیصلے جس کی وجہ سے آج تکلیف کا سامنا ہے،ایسے ایسے ملازمین ملے جو 2018 میں 18 سال کے ہی نہیں تھے،دس سال کا بچہ بھی ملازم بنا دیا گیا، اکاؤنٹ ہی 2018 میں کھلے، 200 ایسے لوگ ہیں جن کا ریکارڈ فالٹی ہے جس سے 36 کروڑ 50 لاکھ کا نقصان پہنچایا جارہا ہے،یہ کارنامے ان لوگوں کے ہیں، اچھے اور برے فیصلے یہ ہوتے ہیں، پیپلز پارٹی انسان دوست جماعت ہے کسی کا روزگار نہیں چھیننا چاہتے،میئر کراچی نے کہا کہ حب ڈیم سے نئی کنال لے کر آرہے ہیں،بیس سال بعد پانی میں اضافہ ہونے جارہا ہے، سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ ہم نے چلا دئیے ہیں، ٹی پی 3 54 کروڑ گیلن سیوریج ٹریٹ کرکے سمندربردکررہے ہیں، جہاں غلط کام ہوں وہاں انکوائری ہونا چاہیے، اینٹی کرپشن وزیر اعلیٰ کے حکم پر کام کررہا ہے، واٹر کارپوریشن کے لئے میں نے درخواست کی کہ انکوائری ہو، گزشتہ روز بھی ذرائع لکھ کر شرارت کی کہ اینٹی کرپشن کا چھاپہ پڑا، میں میونسپل کمشنر کے دفتر گیا لیکن وہاں ایسا کچھ نہیں تھا، میونسپل کمشنر کراچی نے گزشتہ روز کراچی پولیس کو لکھا کہ قانون پر عملدرآمد کرایا جائے جس وقت ہے اس پر ہی ڈمپرز چلیں، قانون پر عملدرآمد پولیس کی ذمہ داری ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ:
بلدیہ عظمی
نے کہا کہ
پڑھیں:
عوامی وسائل کا نقصان کرنیوالے اداروں میں مزید زیاں کی اجازت نہیں دوں گا، وزیراعظم
اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عوامی وسائل کا نقصان کرنیوالے اداروں میں مزید زیاں کی اجازت نہیں دوں گا۔
سرکاری اداروں کی نجکاری کے عمل اور اس کی نگرانی کے حوالے سے بنائے گئے ٹاسک مینجمنٹ سسٹم پر جائزہ اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا، جس کی صدارت وزیراعظم شہباز شریف نے کی۔ ٹاسک مینجمنٹ ڈیش بورڈ کا جائزہ لیتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہے۔ پاکستانی عوام کے قیمتی وسائل کا نقصان کرنے والے اداروں میں مزید زیاں کی اجازت نہیں دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ ملکی اداروں کی نجکاری حکومت کے اُڑان پاکستان اقدام کا حصہ ہے۔ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں، کاروبار و سرمایہ کاری کے لیے پالیسی اقدمات اور سہولت فراہم کرنا ہے۔ بروقت ضروری اصلاحات ہی سے معیشت کی بہتری کی جانب تیزی سے گامزن ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ متعین کردہ اداروں کی نجکاری کے عمل کو شفافیت پر سمجھوتا کیے بغیر تیز کیا جائے۔ نجکاری کے عمل میں قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اچھی شہرت کے وکلا کی خدمات لی جائیں۔ نجکاری کے عمل کی خود نگرانی کر رہا ہوں، کسی قسم کا تعطل قبول نہیں کروں گا۔
اجلاس میں وزیرِ اعظم کو نجکاری کے حوالے بنائے گئے ٹاسک مینجمنٹ سسٹم کا جائزہ پیش کیا گیا اور مختلف اداروں کی نجکاری کی معینہ مدت کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت کے اداروں کی نجکاری کو 3مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں 10 ادارے، دوسرے مرحلے میں 13 جب کہ تیسرے مرحلے میں باقی ماندہ اداروں کی نجکاری یقینی بنائی جائے گی۔
وزیرِ اعظم نے نجکاری کے عمل کو تیز کرکے معینہ مدت میں نجکاری کے عمل کی تکمیل یقینی بنانے کی ہدایت کی۔
اجلاس میں وفاقی وزرا عبدالعلیم خان، محمد اورنگزیب، رانا تنویر حسین، احد خان چیمہ اور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی۔