Express News:
2025-02-08@00:07:30 GMT

ہجرت

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

دنیا کے کسی بھی ملک کے معاملات کو اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ ترقی کرنے اور ترقی نہ کرنے والے ملکوں کی منصوبہ بندی ‘ حکومتی معاملات‘ اخراجات میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ گزشتہ تیس برس میں جس بھی ریاست نے برق رفتاری سے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔ عوام کو سہولتیں مہیا کی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ‘ ملکی قیادت کا باصلاحیت ہونا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ جن لوگوں کے ہاتھوں میں مملکت کی باگ ڈور تھمائی گئی ہے وہ کتنے کم بے ایمان ہیں۔ سو فیصد ایمانداری کی بابت عرض نہیں کر رہا۔ یہ نعمت تو معدودے چند مغربی ممالک کے سوا کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ سویڈن‘ ڈنمارک ‘ یو کے اور اس طرح صرف گنتی کی چند ریاستیں ہیں۔ جہاں کی ملکی قیادت حد درجہ ایمان دار معلوم پڑتی ہے۔ وہاں عام لوگوں سے جھوٹے دعوے وعید کرنے کا رجحان بھی نظر نہیں آتا۔ سرکاری رقم خرچ کر کے ‘ ملکی یا صوبائی ترقی کے اشتہارات شایع کرنے کو گناہ کبیرہ گردانا جاتا ہے۔ عوامی خوشحالی کا واقعی انسان خود مشاہدہ کر سکتا ہے۔

کس جذباتیت اور کھوکھلے نعروں کے بغیر لوگ بڑے سکون سے زندگی گزارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مگر جب ہم دنیا کی نوے فیصد غیر ترقی یافتہ ریاستوں کو ترقی کی کسوٹی پر جانچتے ہیں تو حیرت انگیز طور پر ہمیں یکساں منفی وجوہات سامنے نظر آتی ہیں۔ یعنی عام فہم رکھنے والا انسان‘ کسی لمبی چوڑی تحقیق کے بغیر‘ ترقی پذیر ممالک کی بربادی کا سبب معلوم کر لیتا ہے۔ پاکستان اور اس جیسے ممالک ایک ہی جیسے عذاب میں چکر کاٹ رہے ہیں۔

ان کی بین الاقوامی سطح پر کسی قسم کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہے۔ اگر آپ نے ناکام ریاستوں کے ثقہ بند کیس کو دیکھنا ہے تو پاکستان صف اول میں نظر آئے گا۔ ہمارے ادارے‘ ان کو کنٹرول کرنے والے آہنی ہاتھ‘ عوامی فلاح کے نعرے‘ حد درجہ ادنیٰ معلوم پڑتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں کسی بھی تفصیل میں جاؤں ایک عنصر کی بابت عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ ہم تمام لوگ تاریخ میں سانس لے رہے ہیں۔ کسی بھی ان پڑھ یا پڑھے لکھے مدبر سے گفتگو فرمائیے آپ کو تابناک ماضی کی کہانیاں اور حکایتیں ضرور سنائے گا۔

دراصل ہم‘ حال میں زندہ رہنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ اپنے احساس کمتری کو چھپانے کے لیے ہم مسلمانوں کے تابناک ماضی کی گردان شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم حال (Present) سے مکمل طور پر علیحدہ ہو چکے ہیں۔ کیونکہ گزشتہ سات صدیوں میں ہم نے تقلید‘ بے جا عقیدت اور کہانیوں کو اپنے ذہن میں اس طرح منجمد کر لیا ہے کہ ہم ان عناصر کے بغیر بات کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ بدقسمتی سے اب یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔

پورے ملک میں بے ایمانی اور جھوٹ کا دور دورہ ہے۔ مگر دنیا میں سب سے زیادہ نفلی عمرے کرنے والوں کی تعداد‘ پاکستانیوں کی ہے۔مذہبی معاملات کی بابت دلیل اور زمینی حقائق کے مطابق لکھنا خطرے سے خالی نہیں۔ کیونکہ فرقہ پرستی اب اتنی شدت سے جڑ پکڑ چکی ہے ‘ کہ کسی بھی منطقی گفتگو کی گنجائش ہی نہیں رہی۔

مختلف وجوہات کی وجہ سے ہماری پوری قوم ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ ہماری جدید طریقے سے سوچنے اور پھر عمل کرنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔ نوجوان نسل تو سب سے زیادہ زبوں حالی اور پریشانی کا شکار ہے۔ جب وہ ملکی نظام کو دیکھتے ہیں تو انھیں کہیں بھی شفافیت نظر نہیں آتی۔ جعلی قومی مفکرین اور اہل مسند کی لچھے دار تقاریر سنتے ہیں تو انھیں وقتی طور پر یہ لگتا ہے کہ پورا ملک صرف اور صرف میرٹ پر چل رہا ہے۔

دودھ اور شہد کی نہریں بہتی چلی جا رہی ہیں۔ مگر اصل معاملات بالکل الٹ ہیں۔ ہماری ریاست حد درجہ کمزور ڈھانچہ پر کھڑی ہے جو کئی جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مکمل ڈھانچہ کتنی دیر مزید کھڑا رہے گا۔ اس سوال کا کسی کے پاس کوئی صائب جواب نہیں ہے۔ آپ عدلیہ میں ذاتی کھینچا تانی اور خلفشار کی طرف نظر دوڑایئے ۔ لکھتے ہوئے سر جھک جاتا ہے ۔ لوگوں کو انصاف کیا خاک ملنا ہے؟۔ جو بویا گیا تھا‘ وہی کاٹا جا رہا ہے۔ شنید ہے کہ عدالتوں میں جج لگنے کا معیار ذرا مختلف ہے۔

آپ کس کے رشتہ دار ہیں! آپ کس قانونی چیمبر سے وابستہ ہیں! آپ کس طرح مستقل حکمرانوں سے ذاتی روابط رکھتے ہیں ! سسر‘ داماد‘ سمدھی‘ بیگم‘ اور بیٹوں کے علاوہ کوئی وکیل اس قابل ہی نہیں گردانا جاتا کہ اسے جج تعینات کیا جائے۔ کچھ بے اصولی اور سیاسی پسندیدگی کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بڑے آرام سے بیرون ملک پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔ آج بھی کچھ منصف بیرون ملک کسی قسم کے ڈر‘ کوئی خوف‘ کسی تشنگی کے بغیر‘ آرام سے شاہانہ طور پر سانس لے رہے ہیں۔ خود فرمائیں کہ ہماری عدالتوں میں جب  کسی میرٹ کے بغیر تعیناتیاں ہوں گی‘ تو پھر کیا عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے کو کسی قسم کی اہمیت دی جائے گی۔

ہرگز نہیں بالکل نہیں۔ وہ تو صرف ان اہم ترین لوگوں کو خوش رکھنے میں مصروف رہیں گے جنھوں نے انھیں بے جواز طریقے سے منصف کی کرسی پر بٹھایا ہے۔ دراصل یہ بگاڑ صرف عدلیہ ہی میں نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام ادارے اس دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ پورے کا پورا State Structure ختم ہو چکا ہے۔ ہر دیدہ ور کو تمام معاملات نظر آ رہے ہیں مگر ذاتی مفادات کے وہ کھوپے آنکھوں پر باندھ دیے گئے ہیں کہ ہر جانب ہرا ہی ہرا نظر آ رہا ہے۔

مگر عام آدمی بالکل بے وقوف نہیں ہے۔ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اس کا فطری ردعمل یہ ہے کہ نوجوان نسل‘ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے ملک کو چھوڑ کر جا رہی ہے۔2024 میں ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ چونکا دینے والی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک سے ہجرت کرنے والوں میں پاکستانی سب سے زیادہ ہیں۔

گزشتہ ڈھائی تین برس میں‘ لوگ اتنے مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے ملک کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ کیا یہ بات ہمیں معلوم نہیں کہ انسانی اسمگلر‘ ہمارے ہم وطنوں کو ناکارہ کشتیوں میں سوار کروا کر‘ موت کے سفر پر روانہ کر رہے ہیں۔مراکش کے نزدیک جو سانحہ ہوا ہے کیا وہ ہمارے لیے نشان عبرت نہیں ہے۔ مگر آپ حکومت کی کارکردگی کا اندازہ فرمائیے۔ اداروں نے بڑی عیاری سے سارا مدعا‘ انسانی اسمگلروں پر ڈال دیا۔ مگر یہ تو سکہ کا صرف ایک رخ ہے۔

کیا یہ ضروری نہیں کہ ہمارا حکمران طبقہ اپنے شہریوں کے لیے روزگار کے بہترین ذرایع پیدا کرے‘ جس سے کوئی بھی ملک چھوڑنے کے متعلق سوچ بھی نہ پائے۔ مگر جب غربت‘ جہالت‘ مفلسی اور جھوٹ‘ سر چڑھ کر دھمال ڈال رہے ہوں تو پاکستان میں رہنا کون پسند کرے گا۔ لازم ہے ہر ذی شعور‘ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش کرے گا۔ یہ بالکل منطقی رویہ ہے۔ مگر حکومت اپنے جوہری کام میں ناکامی پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جناب! لوگ گھبرا گئے ہیں۔ انھیں ہر طرف تاریکی در تاریکی نظر آ رہی ہے۔ مگر آپ‘ سرکاری میڈیا کو دیکھیے ‘ تو معلوم ہوتا ہے کہ ملکی ترقی کا ایک سیلاب رواں ہے۔ جس کی بدولت لوگ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ مگر صاحبان! اب اس ملک میں جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ درباری اور طبلچی حکمرانوں کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں کہ ہم تو آپ کے جانثار ہیں۔ خود فرمائیے کہ ہمارے مسائل کتنے گھمبیر ہیں۔

اور ہمارے حکمران کتنے عیار ہیں۔ ہندوستان کے وزیراعظم کو تو وائٹ ہاؤس کا بلاوا آ چکا ہے۔ مگر ہمارے لیے‘ کسی بھی دربار سے خیر کی خبر نہیں ہے۔ ہم تمام ایک زلزلہ کی زد میں آ چکے ہیں۔ جس سے ہونے والے نقصان کی بابت تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بہتر ہے کہ قانونی طریقے سے ہجرت کر لیں۔ ورنہ شاید اس کا بھی وقت ختم ہو جائے!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہی نہیں رہے ہیں نہیں ہے کی بابت چکے ہیں کسی بھی کے بغیر رہا ہے کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

افغانستان کے لیے امریکی امداد کی معطلی کا کیا مطلب ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 فروری 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یو ایس ایڈ کے آپریشنز کو کم کرتے ہوئے امریکی غیر ملکی ترقیاتی امداد کو معطل کرنے کے اقدام سے افغانستان پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ملک ضروری خدمات کے لیے بیرونی امداد پر منحصر ہے۔

ٹرمپ کی جیت افغانستان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟

اگست 2021 میں افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کے باوجود امریکہ ملک کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے۔

انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (ایس آئی جی اے آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق، طالبان کے ملک پر مکمل کنٹرول کے بعد سے واشنگٹن نے افغانستان اور افغان مہاجرین کے لیے 21 بلین ڈالر سے زیادہ کی امداد مختص کی ہے یا دوسری صورت میں فراہم کی ہے۔

(جاری ہے)

ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی افغان شہریوں کے لیے بڑا دھچکہ

امریکہ کا موقف ہے کہ امدادی رقوم کا رخ افغان عوام کی طرف ہوتا ہے، اور طالبان کو ان تک رسائی سے روکنے کے لیے ضروری انتظامات کیے گئے ہیں۔

طالبان کو 'افراتفری' کا سامنا

تاہم، افغانستان میں امریکی ڈالر کی ترسیل سے طالبان کو بالواسطہ فائدہ ہوا ہے۔ اس سے افغان کرنسی کو مستحکم کرنے اور تیزی سے افراط زر کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ امریکی امداد کی معطلی سے اس نازک توازن کے بگڑنے کا خطرہ ہے۔

ایک سابق افغان سفارت کار غوث جان باز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "امریکی غیر ملکی امداد، بشمول یو ایس ایڈ کی فنڈنگ روکنا، طالبان میں افراتفری کا باعث بنا ہے۔

"

بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کو غیر ملکی امداد، بشمول امریکہ کی طرف سے سالانہ فراہم کی جانے والی کروڑوں ڈالر کی امداد نے نادانستہ طور پر طالبان کو ملک پر کنٹرول برقرار رکھنے میں مدد کی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ فنڈز کے بہاؤ میں کمی کے ساتھ، طالبان یا تو بین الاقوامی مطالبات کے سامنے جھک سکتے ہیں یا انہیں افغانستان کے اندر سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جاں باز نے مزید کہا، "گزشتہ تین سالوں میں، طالبان ایک خود کفیل معیشت قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اس طرح کی امداد پر بہت زیادہ منحصر ہیں۔"

'افغان عوام کو قیمت ادا کرنا پڑے گی'

افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے، طالبان نے منظم طریقے سے خواتین کے بنیادی حقوق بشمول تعلیم اور گھر سے باہر کام کرنے پر روک لگادی ہے۔

طالبان کے دور حکومت میں افغان خواتین کو نقاب کے بغیر گھر سے باہر نکلنے پر پابندی ہے۔ خواتین کے حقوق کا مسئلہ، کسی بھی ملک کے طالبان کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔

اس کے نتیجے میں، دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان کو افغانستان کی جائز حکومت کے طور پر باضابطہ طور پر اب تک تسلیم نہیں کیا۔

طالبان ایک شمولیتی حکومت کے قیام یا افغان شہریوں کے لیے عوامی زندگی میں حصہ لینے کا عمل متعارف کرانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔

اگرچہ طالبان پر دباؤ بڑھانے کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے، تاہم کچھ لوگ اس لیے احتیاط برت رہے ہیں کہ اہم امداد میں کٹوتی افغان عوام کے لیے مزید مصائب کا باعث بنے گی۔

ملک سے باہر مقیم افغان خواتین کے حقوق کی ایک کارکن عظمی فروغ نے کہا،"اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق، افغانستان میں 26 ملین لوگ اپنی بقا کے لیے غیر ملکی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔

" فروغ افغانستان میں اب بھی کام کرنے والی امدادی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اگر انسانی ہمدردی کی تنظیمیں فنڈز تک رسائی کھو دیتی ہیں، تو وہ سب سے بنیادی امداد بھی فراہم کرنے سے قاصر ہوں گی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے پاس افغان عوام کی حمایت یا ترقی کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔

صرف اقوام متحدہ، بین الاقوامی ایجنسیوں اور افغان امدادی تنظیموں سے مدد ملتی ہے،" انہوں نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کے امداد میں کٹوتی کے فیصلے سے عام افغانوں کے حالات کافی خراب ہوں گے۔" افغانستان کے لیے ٹرمپ کا کوئی منصوبہ نہیں؟

افغانستان کے لیے امداد میں کمی صدر ٹرمپ کے بڑے انتظامی احکامات کا نتیجہ ہے، جن کا ہدف خاص طور پر افغانستان پر نہیں تھا، بلکہ مجموعی طور پر ترقیاتی امداد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ افغانستان اس وقت ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے اس ایجنڈے کے حاشیے پر ہے، جس میں مشرق وسطیٰ اور یوکرین کے تنازعات پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔

چار فروری کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ایک افغان صحافی نے ٹرمپ سے افغانستان کے بارے میں ان کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا۔ جس پر ٹرمپ نے کہا، "آپ کے خوبصورت لہجے" کو میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔

اس سے یہ واضح نہیں کہ آیا ٹرمپ واقعی اس سوال کو سمجھنے میں ناکام رہے یا اس سے مکمل طور پر گریز کر رہے تھے۔

فروغ نے ​​کہا، "مجھے نہیں لگتا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاس افغانستان کے لیے ابھی کوئی منصوبہ ہے۔"

تاہم، ٹرمپ طالبان سے اپنے مطالبات کے بارے میں آواز اٹھا رہے ہیں - یعنی امریکہ کے پیچھے چھوڑے گئے فوجی سازوسامان کی واپسی اور بگرام ایئربیس پر کنٹرول، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اب چین کے زیر اثر ہے، اس دعوے کی طالبان نے تردید کی ہے۔

جاں باز کے مطابق، یہ ریمارکس افغانستان کے حوالے سے امریکی ٹھوس حکمت عملی کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ ٹرمپ کی مہم کے بیانات کا حصہ ہیں۔

جاں باز کا خیال ہے، "آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ٹرمپ افغانستان کو کس طرح سنبھالتے ہیں، لیکن جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ ان کا نقطہ نظر پچھلی انتظامیہ کی طرح نہیں ہو گا۔"

ج ا ⁄ ص ز (مسعود سیف اللہ)

متعلقہ مضامین

  • غزہ پر قبضہ کرنے کیلئے ٹرمپ کی چال 
  • انڈونیشیا میں الحاد کے خلاف کریک ڈاؤن؟
  • یو لیاواسیل یونا اور پیکا ترمیمی قانون
  • ’’احتجاج سب کا حق ہے، جلسہ احتجاج کا حصہ نہیں ہوتا‘‘
  • اسرائیل کا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں شرکت نہ کرنے کا اعلان
  • ٹرمپ کے غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے تجویز میں کچھ بھی غلط نہیں ہے. نیتن یاہو
  • افغانستان کے لیے امریکی امداد کی معطلی کا کیا مطلب ہے؟
  • اب دہشت گردوں کو روکنے کے لئے عوام کو آگے آناہوگا
  • کتے تاریخ نہیں پڑھتے (آخری قسط)