Express News:
2025-02-07@23:19:39 GMT

فلسطینیوں کی جبری منتقلی، نسلی تطہیر

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ ختم ہونے اور آبادی کی منتقلی کے بعد اسرائیل فلسطینی علاقے کو امریکا کے حوالے کر دے گا۔ اس سے پہلے وائٹ ہاؤس نے تردید کی تھی کہ صدر ٹرمپ فلسطینیوں کی عارضی منتقلی چاہتے ہیں، مستقل نہیں۔ پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کی منتقلی کی تجویز غیر منصفانہ اور تشویشناک ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے متنازع بیان کو عالمی سطح پر ناپسند کیا گیا اور اس پر شدید ناراضی کی لہر دیکھی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازع تجویز کو وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا ہے۔ ان کے بیانات حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدے سے متعلق دوسرے مرحلے کے مذاکرات کو بھی متاثر کر سکتے ہیں، جب کہ اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو میں 15 سال لگیں گے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع کاٹز نے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے لیے فوج کو منصوبہ تیار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

 اسرائیل کے خلاف سات اکتوبر کی حماس کی کارروائی کے جواب میں اسرائیل کے اقدام کے بارے میں یہودی ریاست کے وزیر دفاع نے اعلان کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدل جائے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم فلسطینیوں کے خلاف اعلانِ جنگ پر بے دریغ عمل کر کے مشرقِ وسطیٰ میں جو نیا سیاسی نقشہ قائم کرنا چاہتا ہے۔

 اس میں فلسطین میں فلسطینیوں کی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے، حالانکہ عالمی برادری جس میں عرب اور مسلمان ممالک بھی شامل ہیں ’’ دو ریاستی فارمولے‘‘ پر اصرار کر رہے ہیں، لیکن اس فارمولے پر اسرائیل کے دیرینہ موقف اور سات اکتوبر کے بعد کی اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں حالات اس قدر تبدیل ہو چکے ہیں کہ اس فارمولے کی بنیاد پر فلسطین میں مستقل امن کے قیام کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

دو ریاستی فارمولا، جو دراصل نومبر 1947میں فلسطین کو دو، عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی اقوامِ متحدہ کی قرارداد پر مبنی تھا، انتہا پسند یہودیوں کو قبول نہ تھا اور وہ بحیرہ روم کے ساحل سے لے کر دریائے اُردن تک پورے فلسطینی علاقے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے ایک یہودی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے اور 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد ان کے ہر اقدام کا مقصد اسی منصوبے کی تکمیل تھا۔ مثلاً 1948میں عربوں اور اسرائیل کی پہلی جنگ میں اسرائیل نے عرب افواج کو شکست دے کر نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں تجویز کردہ یہودی ریاست کے رقبے سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر لیا بلکہ اسرائیلی ریاست کے لاکھوں فلسطینی باشندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر انھیں اپنا گھر بار اور جائیدادیں چھوڑ کر ہمسایہ عرب ممالک یعنی لبنان، شام، اُردن اور مصر میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ فلسطینی، جن کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ چکی ہے، اب تک بے وطنی اور کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، لیکن وہ اسرائیل کے قبضے میں آنے والے علاقوں میں اپنے گھروں کی واپسی کے حق سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔

1967کی جنگ میں اسرائیل نے دریائے اُردن کے مغربی کنارے کے علاوہ غزہ اور بیت المقدس کے مشرقی حصے پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ اس سے عرب اسرائیل تنازع میں ایک اور عنصر کا اضافہ ہو گیا تھا، یعنی مغربی کنارے، غزہ اور شام کی سطح مرتفع گولان پر قبضے کا۔ مشہور دانشور نوم چومسکی کے مطابق 1967کی جنگ میں عربوں کے ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد اسرائیل کے ہاتھ اپنے عرب ہمسایہ ممالک اور فلسطینیوں کے ساتھ مستقل امن اور سلامتی کی بنیاد پر سمجھوتہ کرنے کا ایک تاریخی موقع آیا تھا کیونکہ ان علاقوں کو واپس کرکے اسرائیل نہ صرف عرب بلکہ مسلم ممالک کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات اور سیکیورٹی حاصل کر سکتا تھا۔

جنوری 1967 میں اسرائیل کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والے چار عرب ممالک یعنی مصر، اُردن، شام اور لبنان نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل ایک آزاد، خود مختار اور با اختیار فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو، جس کے بدلے میں عرب ممالک اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر لیں گے بلکہ اس کے ساتھ نارمل تعلقات قائم کرکے بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کی سرحدوں کی ضمانت بھی دیں گے، لیکن اسرائیل نے سلامتی کونسل کے اس اجلاس کا بائیکاٹ کردیا اور امریکا نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔ اس طرح اسرائیل نے مسئلہ فلسطین کے حل اور مشرقِ وسطیٰ میں مستقل امن کے قیام کا ایک تاریخی موقع گنوا دیا تھا۔

 مشرقِ وسطیٰ میں امن کے فقدان اور آئے دن کے تصادم کے پیچھے اسرائیل کے ساتھ امریکا کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ 1967کے بعد عرب ممالک کی جانب سے پیش کی جانے والی ہر امن پیشکش کو امریکا کی شہ پر اسرائیل نے مسترد کیا، لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ 1991میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد نہ صرف امریکا بلکہ اسرائیل کو بھی ’’ دو ریاستی‘‘ فارمولے پر راضی ہونا پڑا تھا۔ اس کی وجہ مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے ہوئے حالات اور اسرائیل میں انتہا پسند دائیں بازو کے نظریات کی حامی سیاسی پارٹیوں کے بجائے لبرل اور بائیں بازو کے نظریات کی حامل لیبر پارٹی کا برسر اقتدار آنا تھا‘ تاہم 2009 میں جب نیتن یاہو کی قیادت میں دائیں بازو کی ایک مخلوط حکومت برسرِ اقتدار آئی تو اوسلو معاہدے (1993) کے تحت ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔

ان میں اسرائیل کو ایک یہودی ریاست میں تبدیل کرنا اور دوسرے بیت المقدس کے ان علاقوں میں، جہاں فلسطینی آبادی کی اکثریت ہے‘ یہودی آباد کاروں کی بستیاں تعمیر کرنا ہے۔سات اکتوبر کے بعد بھی امریکا، یورپ اور اقوامِ متحدہ کے علاوہ بین الاقوامی برادری دو ریاستی فارمولے کی بنیاد پر مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کی حمایت کرتی ہے، لیکن بیشتر مبصرین کی رائے میں ’’دو ریاستی فارمولا‘‘ اب قابلِ عمل نہیں رہا۔ اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق چار سے چھ لاکھ کے قریب یہودی آباد کار رہائش پذیر ہیں۔ انھیں ان کی بستیوں سے نکال کر ایک فلسطینی ریاست قائم کرنا ناممکن ہے۔اسرائیل اور فلسطین تنازع کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی، ایک آزاد ریاست کے خواہاں ہیں لیکن ان کی یہ خواہش کئی سال گزرنے کے باوجود پوری نہیں ہوئی۔

 دو ریاستی حل میں 1967کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک مکمل خودمختار آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا۔ یہ حل ’’ زمین کے بدلے امن ‘‘ کے اصول پر مبنی ہے، جس سے مخصوص زمینوں پر رعایتیں دے کر طویل مدتی امن حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 1947 میں قرارداد 181 منظور کی جس میں فلسطین میں ایک آزاد ریاست کے قیام کا اہتمام کیا گیا تھا۔دراصل اسرائیل اور فلسطین تنازع کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس وقت یہاں یہودی بہت چھوٹی اقلیت تھے جب کہ عرب نسل کے فلسطینیوں کی آبادی 90 فیصد سے زیادہ تھی۔ مگر برطانوی تسلط کے دور میں 20ویں صدی میں یورپ میں ظلم و ستم سے بھاگنے والے یہودیوں نے اس فلسطین پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس وقت فلسطین کی عرب آبادی نے اس کوشش کے خلاف احتجاج کیا اور کہا کہ یہ زمین ان کی ہے اور وہ یہاں نسل در نسل آباد ہیں۔

اگرچہ فلسطین اور اسرائیل نے دو ریاستی حل کے اصول کو قبول کر لیا ہے لیکن اس کے عملی نفاذ میں اختلافات کی موجودگی کی وجہ سے امن عمل رک گیا ہے۔ دراصل نیتن یاہو کی قدامت پسند اور مذہبی انتہا پسند حکومت کے قیام کے بعد ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی کیونکہ نیتن یاہو نے نہ صرف ان مذاکرات کے انعقاد سے انکار کردیا بلکہ دریائے اردن کے مغربی کنارے، جسے فلسطینی ریاست کا حصہ قرار دیا گیا تھا، میں نئی یہودی بستیاں آباد کرنا شروع کر دیں تاکہ ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کا قیام عملی طور پر ناممکن ہو جائے۔

اسرائیل کی طرف سے یہ سب اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیے جا رہے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین تنازع کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی، ایک آزاد ریاست کے خواہاں ہیں لیکن ان کی یہ خواہش پون صدی گزرنے کے باوجود پوری نہیں ہوئی۔ چیلنجز کے باوجود، دو ریاستی حل ہی واحد قابل عمل حل ہے۔ زیادہ تر عرب ممالک کے مطابق دو ریاستی حل کے ذریعے ہی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کا حصول ہوسکتا ہے اور اسی سے عرب اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانا اور فلسطینیوں کو ایک آزاد ریاست فراہم کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایک ا زاد ریاست فلسطینی ریاست ریاست کے قیام فلسطینیوں کی دو ریاستی حل اور اسرائیل میں اسرائیل یہودی ریاست کی بنیاد پر اور فلسطین اسرائیل نے اسرائیل کے ریاست قائم میں فلسطین کے قیام کی عرب ممالک کے مطابق متحدہ کی دریائے ا کے ساتھ میں ایک اور اس کے بعد

پڑھیں:

فلسطین میں قبضہ کاکوئی بھی منصوبہ قابل قبول نہیں، اوآئی سی کی امریکی صدر کے بیان کی مذمت

فلسطینی سرزمین پر جغرافیائی یا آبادیاتی تبدیلی کا کوئی بھی منصوبہ قابل قبول نہیں ، او آئی سی

آرگنائزیشن آف اسلامک کاپریشن ( او آئی سی ) نے غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی بارے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر سخت ردعمل جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی سرزمین پر جغرافیائی یا آبادیاتی تبدیلی کا کوئی بھی منصوبہ قابل قبول نہیں ہے۔

او آئی سی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کی شدید مذمت کی گئی اور بیان کو مسترد کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیل کی مبینہ خود مختاری کو ترجیح دینا قبول نہیں، ٹرمپ کے بیانات فلسطینیوں کی زمین پر زبردستی قبضے اور یہودی آبادکاری کے عکاس ہیں اور ایسے بیانات اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ ٹرمپ کے بیانات خطے میں امن و استحکام کے امکانات ختم کرنے کے مترادف ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ فلسطینی سرزمین پر جغرافیائی یا آبادیاتی تبدیلی کا کوئی بھی منصوبہ قابل قبول نہیں، غزہ کی پٹی مقبوضہ فلسطینی ریاست کا لازمی حصہ ہے اور وہاں پائیدار جنگ بندی کروائی جائے۔ غزہ کی پٹی سے اسرئیلی قبضہ مکمل طور پر ختم کروایا جائے۔

بیان میں کہا گیا کہ فلسطینیوں کی گھروں کو محفوظ واپسی یقینی اور اپنی سرزمین پر ان کا قیام مستحکم بنایا جائے، متاثرہ فلسطینیوں کی فوری امداد ، معاشی بحالی اور غزہ کی پٹی کی تعمیر نو یقینی بنائی جائے اور فلسطینیوں کیخلاف جارحیت ، قبضے اور جنگی جرائم پر اسرائیل کا کڑا احستاب کیا جائے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ یو این آر ڈبلیو اے کے امدادی کردار پر کوئی بھی قدغن قبول نہیں کی جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ نسلی بنیادپر فلسطینیوں کی منتقلی سے باز رہیں،اقوام متحدہ کا انتباہ
  • پاکستان کا غزہ سے جبری انخلا کے منصوبے پر تشویش کا اظہار
  • فلسطین میں قبضہ کاکوئی بھی منصوبہ قابل قبول نہیں، اوآئی سی کی امریکی صدر کے بیان کی مذمت
  • الگ فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کریں گے. سعودی عرب
  • فلسطینی عزم و حوصلے کی عمدہ مثال ہیں، اسرائیل کو فلسطین چھوڑنا پڑے گا: مشاہد حسین سید
  • سعودی عرب کا فلسطین سے متعلق مؤقف غیرمتزلزل ہے، کسی سودے بازی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سعودی وزارت خارجہ
  • سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کیلیے فلسطینی ریاست کا مطالبہ
  • فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کریں گے: سعودی عرب
  • فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کرینگے، سعودی وزارت خارجہ